ایک بڑے صحافی ادیب‘ مورخ اور دانشور کا انتقال
برصغیر کے نامور صحافی، مورخ اور ناول نگار سردار خشونت سنگھ ننانوے سال کی عمر میں انتقال کر گئے
برصغیر کے نامور صحافی، مورخ اور ناول نگار سردار خشونت سنگھ ننانوے سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔وہ فروری 1915ء میں سرگودھا کے گائوں ہدالی میں پیدا ہوئے۔ سردار خشونت سنگھ نے منہ میں سونے کا چمچہ لے کر آنکھ کھولی کیونکہ ان کے والد سردار سوبھا سنگھ ایک بڑے بلڈر تھے۔ بھارت کے نئے دارالحکومت نئی دہلی کی اولین تعمیر کے موقع پر وہ سرکاری ٹھیکے دار تھے لہذا ان کی رہائش گاہ شہر کی سب سے قیمتی جگہ پر تعمیرکی گئی تھی جس میں خشونت سنگھ نے اپنی زندگی گزاری۔ خشونت سنگھ نے بھارت کے دو بڑے انگریزی اخبارات میں بطور ایڈیٹر خدمات انجام دیں۔ دہلی کی تاریخ کے حوالے سے ان کی ایک سے زیادہ جلدوں پر مشتمل کتاب کی دنیا میں بہت دھوم مچی جس میں مختلف تاریخی ادوار کے ساتھ اہم تاریخی شخصیات کا بھی مفصل بیان کیا گیا ہے۔ خدائے سخن کہلوانے والے میر تقی میرؔ کے عنفوان شباب اور نوجوانی کی جو رنگین تصویر کشی خشونت نے کتاب دہلی کی تاریخ میں کی ہے وہ اس تصور سے قطعاً مختلف ہے جس کا نقشہ مولانا محمد حسین آزادؔ نے اپنی معرکۃالآراء کتاب ''آبِ حیات'' میں کھینچا ہے۔
خشونت سنگھ کی تحریروں میں نہایت بیباکی سے سچ بات کہنے کی وجہ سے ان پر تنقید بھی بے پناہ ہوئی۔ اپنی خود نوشت سوانح میں اپنی بشری کمزوریوں کا ذکر بھی کھل کر کیا ہے۔ اگر چہ خشونت مذہباً سکھ تھے تاہم عملاً وسیع المشرب تھے۔ بھارت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کے سرکاری ٹویٹ میں کہا گیا، 'وہ ایک باصلاحیت مصنف اور پیارے دوست تھے۔ انھوں نے واقعی ایک تخلیقی زندگی گزاری۔'خشونت کو سب سے پہلے پہچان بھارت پاکستان کی تقسیم پر مبنی ناول 'ٹرین ٹو پاکستان' سے ملی۔ انھوں نے 'ہسٹری آف سکھ' کے نام سے سکھ مذہب کی تاریخ بھی لکھی '1980ء سے 1986ء تک بھارت کے ایوان بالا راجیہ سبھا کے رکن تھے۔ بھارتی حکومت نے انھیں 1974ء میں پدم بھوشن ایوارڈ دیا گیا تھا۔ لیکن 1984ء میں گولڈن ٹیمپل میں ہونے والے فوج کے آپریشن بلو اسٹار کے خلاف انھوں نے یہ پر وقار ایوارڈ واپس کر دیا تھا۔ خشونت سنگھ ایسی شخصیت تھے جن کے مداح پاکستان میں بھی موجود تھے' ان کی موت سے بھارت ہی نہیں بلکہ برصغیر ایک ایسی شخصیت سے محروم ہوا جو بھارت اور پاکستان میں احترام انسانیت اور محبت کا پیغام دیتی تھی۔
خشونت سنگھ کی تحریروں میں نہایت بیباکی سے سچ بات کہنے کی وجہ سے ان پر تنقید بھی بے پناہ ہوئی۔ اپنی خود نوشت سوانح میں اپنی بشری کمزوریوں کا ذکر بھی کھل کر کیا ہے۔ اگر چہ خشونت مذہباً سکھ تھے تاہم عملاً وسیع المشرب تھے۔ بھارت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کے سرکاری ٹویٹ میں کہا گیا، 'وہ ایک باصلاحیت مصنف اور پیارے دوست تھے۔ انھوں نے واقعی ایک تخلیقی زندگی گزاری۔'خشونت کو سب سے پہلے پہچان بھارت پاکستان کی تقسیم پر مبنی ناول 'ٹرین ٹو پاکستان' سے ملی۔ انھوں نے 'ہسٹری آف سکھ' کے نام سے سکھ مذہب کی تاریخ بھی لکھی '1980ء سے 1986ء تک بھارت کے ایوان بالا راجیہ سبھا کے رکن تھے۔ بھارتی حکومت نے انھیں 1974ء میں پدم بھوشن ایوارڈ دیا گیا تھا۔ لیکن 1984ء میں گولڈن ٹیمپل میں ہونے والے فوج کے آپریشن بلو اسٹار کے خلاف انھوں نے یہ پر وقار ایوارڈ واپس کر دیا تھا۔ خشونت سنگھ ایسی شخصیت تھے جن کے مداح پاکستان میں بھی موجود تھے' ان کی موت سے بھارت ہی نہیں بلکہ برصغیر ایک ایسی شخصیت سے محروم ہوا جو بھارت اور پاکستان میں احترام انسانیت اور محبت کا پیغام دیتی تھی۔