جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی میں طالبہ کو ’جنسی ہراساں‘ کرنے پر لیکچرار معطل
متاثرہ طالبہ کے ساتھیوں نے پروفیسر کو برطرف کرنے سمیت تین مطالبات کردیے، احتجاج جاری رکھنے کا اعلان
شہر قائد میں قائم جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کی انتظامیہ نے طالبہ کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے والے لیکچرار کو معطل کردیا جبکہ احتجاجی طالب علموں نے مذکورہ ٹیچر کی برطرفی کا مطالبہ کیا ہے۔
جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی (جے ایس ایم یو) کے طالب علموں نے لیکچرار کی جانب سے ساتھی طلبہ کو مبینہ ہراساں کرنے کے خلاف کلاسسز کا بائیکاٹ کیا گیا اور جامعہ کے مرکزی دروازے کے سامنے احتجاج کیا گیا، جس کی وجہ سے سڑک پر ٹریفک کی روانہ معطل ہوئی۔
اطلاع کے مطابق جناح یونیورسٹی کے طلبہ کی جانب سے منظوراحمد نامی اکنامکس کے لیکچرار پر طلبہ کو مبینہ جنسی ہراساں کرنے کا الزام لگایا گیا اور اس کے خلاف جامعہ میں آج بروز ہفتے کو احتجاج کی کال دی گئی تھی۔
طلبہ نے مبینہ ہراسگی کے خلاف دھرنا دے دیا، کلاسز کا بائیکاٹ کرکے جناح یونیورسٹی کے باالمقابل سڑک کے ایک ٹریک پر طلبہ کی بڑی تعداد سراپا احتجاج رہی، مظاہرین نے دعویٰ کیا کہ مرد اساتذہ نے کئی طالبات سے غیراخلاقی گفتگو کرچکے ہیں، بی بی اے ہیلتھ کئیر کی طلبہ نےآواز اٹھائی تو اُسے دھمکایا گیا ہے ،گزشتہ کئی سالوں سے اس حوالے سے شکایت بھی درج کروائیں گئیں لیکن یونیورسٹی حکام نے ہمیشہ اس معاملے کو نظر انداز کیا، جس کے بعد اب نوبت بہت آگے تک پہنچ چکی ہے۔
مزید پڑھیں: جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کی طالبات نے ہراساں کرنے پر ٹیچر کی پٹائی کردی
متاثرہ طلبہ نے ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 'مجھ سے کہا گیا کہ میرے ساتھ تعاون کرو،ورنہ فیل کردوں گا،سر منظور نےبار بار میرا اسائمنٹ مسترد کیا، اور مجھے کمرے میں بلا کر جنسی ہراساں کرنے کے لیے غلط نیت سے لائٹ بند کی اور کہا کہ یہ ہر لڑکی کے ساتھ ہوتا ہے، جس پر میں ڈر گئی تھی، لیکن حوصلہ کرکے اپنے ساتھی طلبا کو بتایا، جس پر کلاس کے تمام ساتھیوں منظور احمد نامی ٹیچر کےخلاف شور شرابا کیا جبکہ ایک گروپ نے جب منظور احمد سے جاکر بات کی تو اس دوران تلخ کلامی اور جھگڑا بھی ہوا۔
اُدھر جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر اعظم خان کے مطابق فوری ایکشن لیتے ہوئے مذکورہ استاد کو معطل کر دیا گیا اور شکایت کو اسی وقت ہراسمینٹ کمیٹی اور ڈسپلنری کمیٹی میں درج کر کے تحقیقات شروع کردی گئیں ہیں۔
رجسٹرار کے مطابق اس انکوائری ایک ہفتے کے اندر مکمل کر کے رپورٹ سب کے سامنے لائی جائے گی، یونیورسٹی میں ہراسگی کے خلاف مکمل پالیسی ویب سائٹ کے صفحہ اول پر موجود ہے۔ یونیورسٹی میں ہراسگی کے معاملات کو سنجیدگی اور سختی کے ساتھ لیا جاتا ہے تاکہ طلبہ و طالبات خود کو محفوظ سمجھیں اور اچھے ماحول میں تعلیم حاصل کریں۔
دوسری جانب سندھ اسمبلی کے پارلیمانی لیڈر خرم شیر زمان نے کہا کہ حکومت کے لیے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے،صوبائی اسمبلی کے ایم این اے کی ذمہ داری ہے کہ اس کی روک تھام کے لیئے کام کریں، سندھ کی بچیوں کو کب تک ہراساں کیا جائےگا؟،بچیوں کو پھندالگا کر قتل کردیا جاتا ہے،وزیر اعلٰی سندھ مراد علی شاہ کو آج ہی خط لکھوں گا اور پوچھوں گا کہ بچیوں کے تحفظ کے لیئے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیر صحت سندھ ڈاکٹر عزرا فضل پچوہو سے درخواست کرتا ہوں کہ آکر صورتحال کا جائزہ لیں،علاقے کے ڈی آئی جی کون ہیں؟ اور پوچھیں کہ اب تک کیوں ایف آئی آر درج نہیں ہوئی ہے، اساتذہ کو سوچنا چاہیے کہ یہ بچیاں آپ کے بچے اور بچیوں کے عمر کی ہیں، جو متاثرہ بچی کا ساتھ دے رہے ہیں ان طلبہ کو بھی ہراساں کیا جارہا ہے، ان بچوں کے فونز بھی چھین لیے گئے ہیں اگر یہ مسئلہ حل نہ ہوا اور ذمہ دار کو سزا نہ ملی تو پی ٹی آئی اس ہی سڑک پر ان بچوں کے ساتھ دھرنا دی گی۔
جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی (جے ایس ایم یو) کے طالب علموں نے لیکچرار کی جانب سے ساتھی طلبہ کو مبینہ ہراساں کرنے کے خلاف کلاسسز کا بائیکاٹ کیا گیا اور جامعہ کے مرکزی دروازے کے سامنے احتجاج کیا گیا، جس کی وجہ سے سڑک پر ٹریفک کی روانہ معطل ہوئی۔
اطلاع کے مطابق جناح یونیورسٹی کے طلبہ کی جانب سے منظوراحمد نامی اکنامکس کے لیکچرار پر طلبہ کو مبینہ جنسی ہراساں کرنے کا الزام لگایا گیا اور اس کے خلاف جامعہ میں آج بروز ہفتے کو احتجاج کی کال دی گئی تھی۔
طلبہ نے مبینہ ہراسگی کے خلاف دھرنا دے دیا، کلاسز کا بائیکاٹ کرکے جناح یونیورسٹی کے باالمقابل سڑک کے ایک ٹریک پر طلبہ کی بڑی تعداد سراپا احتجاج رہی، مظاہرین نے دعویٰ کیا کہ مرد اساتذہ نے کئی طالبات سے غیراخلاقی گفتگو کرچکے ہیں، بی بی اے ہیلتھ کئیر کی طلبہ نےآواز اٹھائی تو اُسے دھمکایا گیا ہے ،گزشتہ کئی سالوں سے اس حوالے سے شکایت بھی درج کروائیں گئیں لیکن یونیورسٹی حکام نے ہمیشہ اس معاملے کو نظر انداز کیا، جس کے بعد اب نوبت بہت آگے تک پہنچ چکی ہے۔
مزید پڑھیں: جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کی طالبات نے ہراساں کرنے پر ٹیچر کی پٹائی کردی
متاثرہ طلبہ نے ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 'مجھ سے کہا گیا کہ میرے ساتھ تعاون کرو،ورنہ فیل کردوں گا،سر منظور نےبار بار میرا اسائمنٹ مسترد کیا، اور مجھے کمرے میں بلا کر جنسی ہراساں کرنے کے لیے غلط نیت سے لائٹ بند کی اور کہا کہ یہ ہر لڑکی کے ساتھ ہوتا ہے، جس پر میں ڈر گئی تھی، لیکن حوصلہ کرکے اپنے ساتھی طلبا کو بتایا، جس پر کلاس کے تمام ساتھیوں منظور احمد نامی ٹیچر کےخلاف شور شرابا کیا جبکہ ایک گروپ نے جب منظور احمد سے جاکر بات کی تو اس دوران تلخ کلامی اور جھگڑا بھی ہوا۔
اُدھر جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر اعظم خان کے مطابق فوری ایکشن لیتے ہوئے مذکورہ استاد کو معطل کر دیا گیا اور شکایت کو اسی وقت ہراسمینٹ کمیٹی اور ڈسپلنری کمیٹی میں درج کر کے تحقیقات شروع کردی گئیں ہیں۔
رجسٹرار کے مطابق اس انکوائری ایک ہفتے کے اندر مکمل کر کے رپورٹ سب کے سامنے لائی جائے گی، یونیورسٹی میں ہراسگی کے خلاف مکمل پالیسی ویب سائٹ کے صفحہ اول پر موجود ہے۔ یونیورسٹی میں ہراسگی کے معاملات کو سنجیدگی اور سختی کے ساتھ لیا جاتا ہے تاکہ طلبہ و طالبات خود کو محفوظ سمجھیں اور اچھے ماحول میں تعلیم حاصل کریں۔
دوسری جانب سندھ اسمبلی کے پارلیمانی لیڈر خرم شیر زمان نے کہا کہ حکومت کے لیے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے،صوبائی اسمبلی کے ایم این اے کی ذمہ داری ہے کہ اس کی روک تھام کے لیئے کام کریں، سندھ کی بچیوں کو کب تک ہراساں کیا جائےگا؟،بچیوں کو پھندالگا کر قتل کردیا جاتا ہے،وزیر اعلٰی سندھ مراد علی شاہ کو آج ہی خط لکھوں گا اور پوچھوں گا کہ بچیوں کے تحفظ کے لیئے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیر صحت سندھ ڈاکٹر عزرا فضل پچوہو سے درخواست کرتا ہوں کہ آکر صورتحال کا جائزہ لیں،علاقے کے ڈی آئی جی کون ہیں؟ اور پوچھیں کہ اب تک کیوں ایف آئی آر درج نہیں ہوئی ہے، اساتذہ کو سوچنا چاہیے کہ یہ بچیاں آپ کے بچے اور بچیوں کے عمر کی ہیں، جو متاثرہ بچی کا ساتھ دے رہے ہیں ان طلبہ کو بھی ہراساں کیا جارہا ہے، ان بچوں کے فونز بھی چھین لیے گئے ہیں اگر یہ مسئلہ حل نہ ہوا اور ذمہ دار کو سزا نہ ملی تو پی ٹی آئی اس ہی سڑک پر ان بچوں کے ساتھ دھرنا دی گی۔
احتجاجی مظاہرین نے انتظامیہ کے سامنے مطالبہ پیش کیا کہ منظور احمد کو معطل نہیں برطرف کیا جائے اور یونیورسٹی نوٹی فکیشن بھی جاری کرے، انسداد ہراسگی کے لیے بنائی جانے والی کمیٹی میں طلبہ کی نمائندگی کو شامل کیا جائے اور ہر طالب علموں کو کمیٹی اراکین کے حوالے سے بتایا جائے۔
ساتھی طلبہ نے کہا کہ کچھ افراد اس ٹیچر کی حمایت کر رہے ہیں اور 6 ماہ سے کوئی ایکشن نہیں لے رہے، ہم چاہتے ہیں کہ ان لوگوں کو بھی معطل کیا جائے، ہمارے کسی بھی طالب علم کو یونیورسٹی سے معطل نہ کیا جائے اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے۔