سائنس دانوں نے پانی میں گلنے والے جوتا بنالیا
ایک اندازے کے مطابق پانی میں چمڑا گلنے میں 40 سال اور ربر کا تلا گلنے میں 80 سال تک کا عرصہ لگ سکتا ہے
دنیا بھر میں پلاسٹک کے کچرے میں اضافہ ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ جہاں زمین پر موجود اس پلاسٹک کے باریک ذرّات جانداروں کے جسم میں جگہ بنا رہے ہیں وہیں یہ سمندروں میں آبی حیات کی زندگی کو بھی یکسر متاثر کر ہے ہیں۔
اب امریکا کے سائنس دانوں نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک ایسا ہلکے ربر کا جوتے کا تلا بنایا ہے جو پانی میں جاکر محض چار ہفتوں میں گلنا شروع ہوجاتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پانی میں چمڑا گلنے میں 40 سال اور ربر کا تلا گلنے میں 80 سال تک کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ جبکہ پہننے کے لیے اب تک جو بھی پلاسٹک کی چیز استعمال کی گئی کسی نہ کسی شکل میں وہ دنیا میں موجود ہے۔
اس حساب سے برطانیہ میں ہر سال 60 کروڑ جوتے پھینک دیے جاتے ہیں جو مستقبل میں ہزاروں سالوں تک کرہ ارض پر موجود رہیں گے۔
البتہ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان ڈیاگو کے سائنس دانوں کی جانب سے بنائے گئے اس جوتے کا مواد اس طرح تشکیل دیا گیا ہے کہ سمندری حیات اس کو اس کے بنیادی کیمائی عناصر میں توڑ سکیں گے اور بطور غذا استعمال کرسکیں گے۔
محققین کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کا یہ متبادل دنیا کے سمندروں کو اپنی لپیٹ میں لیتی آلودگی سے نمٹ سکتا ہے۔
پروفیسر اسٹیفن مے فیلڈ کا کہنا تھا کہ سمندروں میں پلاسٹک کا نامناسب تصرف ان کو مائیکرو پلاسٹک میں توڑ دیتا ہے جو انتہائی سنگین ماحولیاتی مسئلہ بن چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے تحقیق میں دِکھایا ہے کہ ایسی اعلیٰ معیاری پلاسٹک اشیاء کا بنایا جانا بالکل ممکن ہے جو سمندر میں گل سکتی ہیں۔
2010 میں لگائے گئے محققین کے تخمینے کے مطابق ہر سال 8 ارب کلوگرام پلاسٹک سمندروں میں پھینکی جاتی ہے اور 2025 تک اس میں خطرناک حد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔
اب امریکا کے سائنس دانوں نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک ایسا ہلکے ربر کا جوتے کا تلا بنایا ہے جو پانی میں جاکر محض چار ہفتوں میں گلنا شروع ہوجاتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پانی میں چمڑا گلنے میں 40 سال اور ربر کا تلا گلنے میں 80 سال تک کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ جبکہ پہننے کے لیے اب تک جو بھی پلاسٹک کی چیز استعمال کی گئی کسی نہ کسی شکل میں وہ دنیا میں موجود ہے۔
اس حساب سے برطانیہ میں ہر سال 60 کروڑ جوتے پھینک دیے جاتے ہیں جو مستقبل میں ہزاروں سالوں تک کرہ ارض پر موجود رہیں گے۔
البتہ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان ڈیاگو کے سائنس دانوں کی جانب سے بنائے گئے اس جوتے کا مواد اس طرح تشکیل دیا گیا ہے کہ سمندری حیات اس کو اس کے بنیادی کیمائی عناصر میں توڑ سکیں گے اور بطور غذا استعمال کرسکیں گے۔
محققین کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کا یہ متبادل دنیا کے سمندروں کو اپنی لپیٹ میں لیتی آلودگی سے نمٹ سکتا ہے۔
پروفیسر اسٹیفن مے فیلڈ کا کہنا تھا کہ سمندروں میں پلاسٹک کا نامناسب تصرف ان کو مائیکرو پلاسٹک میں توڑ دیتا ہے جو انتہائی سنگین ماحولیاتی مسئلہ بن چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے تحقیق میں دِکھایا ہے کہ ایسی اعلیٰ معیاری پلاسٹک اشیاء کا بنایا جانا بالکل ممکن ہے جو سمندر میں گل سکتی ہیں۔
2010 میں لگائے گئے محققین کے تخمینے کے مطابق ہر سال 8 ارب کلوگرام پلاسٹک سمندروں میں پھینکی جاتی ہے اور 2025 تک اس میں خطرناک حد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔