ڈیڑھ ارب ڈالر کا ’’تحفہ‘‘
ربّ کریم نے عمران خان کی صورت فراہم کر دیا اور 2013ء میں ان کے متحرک کیے نوجوانوں کی مدد سے وہ قومی اسمبلی میں آ گئے
سعودی عرب سے ڈیڑھ ارب ڈالر ہمارے خزانے میں جمع ہو گئے۔ ڈالر کی قیمت ایک دم سے کم ہو کر 98 روپے کے قریب پہنچ گئی۔ بجائے اس بات پر غور کرنے کہ سعودی عرب نے ''اچانک'' اتنی بڑی رقم ہمیں ''تحفے'' میں کیوں دے دی ہمارا چسکہ فروش میڈیا شیخ رشید کے پیچھے لگ گیا۔ لال حویلی کے یہ مفکر جو دفاعی، معاشی اور نہ جانے کن کن امور کے ماہر جانے جاتے ہیں بہت دنوں سے یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ اگر اسحاق ڈار صاحب ڈالر کی قیمت سو پاکستانی روپوں سے کم لے آئیں تو وہ قومی اسمبلی سے مستعفی ہو جائیں گے۔
شیخ صاحب ہمارے سیاسی اُفق پر حال ہی میں نمودار نہیں ہوئے۔ 1970ء کی دہائی سے انھیں گلی محلوں کی زبان میں خود کو انقلابی ثابت کرنے کی لگن ہے۔ گفتار کا یہ غازی مگر پنجابی محاورے والے سیانے کی طرح ''اپنے گھر کا پکا'' ہے۔ جب ضرورت پڑے اس حکمران سے تعاون کرنے پر تیار رہتے ہیں جو ان کی زبان درازی سے خوفزدہ نہیں ہوتا۔ موصوف نے بنگلہ دیش نامنظور اور اینٹی احمدی ایجی ٹیشن میں بھرپور حصہ لے کر ذوالفقارعلی بھٹو سے بھی متھا لگانا چاہا تھا۔ جب کچھ نہ بن پایا تو مولانا کوثر نیازی مرحوم کی شیریں بیانی سے متاثر ہو کر ایک سرکاری حج وفد میں ''رضا کار'' بن کر شامل ہو گئے۔ وہاں سے لوٹنے کے بعد خود کو بڑی خاموشی سے معاشی طور پر مستحکم کرتے رہے۔ بھٹو صاحب اس دُنیا میں نہ رہے تو ضیاء الحق کے متعارف کردہ بلدیاتی نظام میں شامل ہو کر اپنا سیاسی مستقبل بنانے پر توجہ مرکوز کر دی۔ راولپنڈی کے میئر شیخ غلام حسین کے خلاف دھواں دھار تقاریر کرتے رہے۔ اُردو اخبارات میں عموماََ صفحہ نمبر 2 اس شہر کے لیے مختص ہوتا ہے جہاں سے یہ شایع ہوتے ہیں۔ شیخ صاحب ان صفحات کے لیے مزے کی خبریں بنانے والا مواد فراہم کرنے کے بعد انھیں چھپوانے اخباروں کے دفتروں میں بیٹھے رہتے۔ ان کی یہ محنت 1985ء میں رنگ لائی۔ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔ صوبائی اسمبلی کے لیے انتخاب ان کے منتخب ہو جانے کے تین دن بعد منعقد ہونا تھا۔ موصوف اس کی ایک نشست کے امیدوار بھی تھے۔ ترنگ میں آ کر بڑھک لگا دی کہ ان کی اگلی منزل پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ ہے۔ خدا اور ووٹروں کو ان کا غرور پسند نہ آیا۔ صوبائی اسمبلی کی نشست ہار گئے۔
1985ء کی قومی اسمبلی میں پہنچے تو حاجی سیف اللہ، فخر امام، جاوید ہاشمی اور سیدہ عابدہ حسین کے ساتھ مل کر جونیجو صاحب کے خلاف ''اپوزیشن'' چلائی۔ اس حیثیت میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی کے پنج ستاری ہوٹل میں کھانے کی ایک دعوت پر مدعو بھی کیا۔ مگر پھر سمجھ گئے کہ بے نظیر کے مقابلے میں ''اصل قوتیں'' تیار نواز شریف کو کر رہی ہیں۔ چوہدری شجاعت کی مدد سے ان کے قریب ہوئے اور پھر چوہدری برادران کو نواز شریف کی محبت میں کہیں پیچھے چھوڑ دیا۔ اس ''محبت'' میں لیکن پہلی دراڑ اس وقت آئی جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت میں چوہدری الطاف حسین نے بذریعہ ڈاکٹر شعیب سڈل لال حویلی سے ایک کلاشنکوف برآمد کر لی۔ موصوف کو قیدیوں والے کپڑے پہن کر کچھ عرصہ جیل میں رہنا پڑا۔ شیخ صاحب کا خیال تھا کہ نواز شریف ان کی رہائی کے لیے کوئی عظیم تحریک وغیرہ چلادیں گے۔ ایسا کچھ نہ ہوا۔ بالآخر انگریزی اخبار کی ایک سابقہ مدیر سے جو ان دنوں واشنگٹن میں ہماری سفیر ہوا کرتی تھیں' رجوع کرنا پڑا۔ باقی معاونت یوسف رضا گیلانی نے بطور اسپیکر قومی اسمبلی فراہم کر دی۔ میاں صاحب نے اسی وجہ سے دوسری بار وزیر اعظم بن جانے کے بعد انھیں کوئی وزارت نہ دی۔ شیخ صاحب نواز شریف کے قریبی صحافیوں کو اپنی ''قربانیاں''یاد دلاتے رہے اور بالآخر وزارت لے کر ہی چھوڑی۔
یہ وزارت حاصل کرنے کے بعد 12 اکتوبر 1999ء کے بعد چپ سے ہو گئے۔ بھلے وقتوں کا انتظار کرتے رہے اور پھر 2002ء ہو گیا اور شیخ صاحب جیسا اصول پرست اور ضدی آدمی مشرف صاحب کا ہو گیا۔ مشرف صاحب کے زوال کے بعد شیخ صاحب کو ایک نئے سرپرست کی بے انتہاء ضرورت تھی۔ ربّ کریم نے عمران خان کی صورت فراہم کر دیا اور 2013ء میں ان کے متحرک کیے نوجوانوں کی مدد سے وہ قومی اسمبلی میں آ گئے۔ قومی اسمبلی میں آنے کے بعد شیخ صاحب بڑے خلوص سے عمران خان کو اپنی سرپرستی میں لے کر متحدہ اپوزیشن کا قائد بنوانا چاہ رہے تھے۔ ایسا کرتے ہوئے مگر یہ بھول گئے کہ کپتان خود عقلِ کُل ہے۔ ''اتالیقوں'' کو برداشت نہیں کیا کرتا۔ اب تو ویسے بھی نواز شریف صاحب چوہدری نثار علی خان کی چلائی ہوئی جیپ میں بیٹھ کر بنی گالہ تشریف لے جا چکے ہیں۔ عمران خان کے گھر کے قریب جو مجوزہ نیشنل پارک والی جگہ ہے اس پر ''قبضہ گروپ'' چھایا ہوا ہے۔ وزیر اعظم کو اس گروپ کی سرگرمیوں کے بارے میں تحریک انصاف کے رہ نما نے آگاہ کیا۔ عین دوسرے روز سی ڈی اے کے چیئرمین بنی گالہ حاضر ہو گئے۔ ''سستا اور فوری انصاف'' عمران خان کو اب تک ملا یا نہیں' مجھے خبر نہیں۔ بس اتنا ضرور جانتا ہوں کہ مبینہ طور پر ''قبضہ'' کرنے والی پارٹی بھی بڑی ''ڈاھڈی'' ہے۔ تحریک انصاف کو ''فرینڈلی'' بنانے کی خاطر مسلم لیگ نواز والے انھیںUnfriendly بھی نہیں بنا سکتے۔ شیخ صاحب ان دنوں مگر ''عمران نواز بھائی بھائی'' والی صورت حال میں ''تیسری قوت کہاں سے آئی'' بنے ہوئے دِکھ رہے ہیں۔ اینکر حضرات کو مگر اب بھی Ratings فراہم کرنے کے لیے ہمہ وقت میسّر ہیں۔ ریٹنگ کو یقینی بنانے والے سے ''پنگے'' نہیں لیے جاتے۔ شیخ صاحب سے ڈالر کی قیمت کے حوالے سے استعفیٰ کا ذکر کرو تو وہ فوراََ پٹرول کی قیمت یاد دلا کر غریب آدمی کی ٹپکتی چھت کے بارے میں سیاپا فرمانا شروع ہو جاتے ہیں۔ اسکرینوں پر رونق لگی رہتی ہے اور یہ سارا تماشہ تقریباََ مفت ہے۔ ہاتھ میں ریموٹ کا بٹن ہی تو دبانا ہے اور ہر مہینے کیبل والے کا نسبتاََ قابلِ برداشت بل ادا کرنا۔
شیخ صاحب کی بدولت بہرحال ہمارے عوام نے یہ تو دریافت کر لیا کہ ڈیڑھ ارب ڈالر سعودی عرب سے آئے تھے۔ یہ طے ہو گیا تو اب اینکر حضرات کو ڈھونڈنا یہ ہے کہ ایسا خطیر تحفہ اچانک کیوں مل گیا۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہوئے نگاہیں پہلے شام کی طرف گئیں اب کچھ تذکرہ ایران کا بھی ہو رہا ہے۔ بحرین کے حاکم 40 برس میں پہلی بار پاکستان تشریف لائے ہیں۔ ''یہ کیا ہو رہا ہے بھائی۔ یہ کیا ہو رہا ہے'' والا سوال ہماری ٹی وی اسکرینوں پر گونج رہا ہے۔ جواب کہیں سے نہیں مل پایا۔سقراط زمانہ قدیم کے اولین فلاسفروں میں سے ایک ہوا کرتا تھا۔ ہمارے لال حویلی جیسے مفکر کی طرح لیکن اسے ہر موضوع کی غزل منہ زبانی یاد نہ ہوا کرتی تھی۔ اپنے شاگردوں سے بس سوال پر سوال کیے جاتا تھا۔ اس کے ایک شاگرد نے بالآخر زچ ہو کر پوچھ ہی لیا کہ سوال کرنے کی یہ عادت کہاں سے آئی اور اس عادت کا عقل سے کیا تعلق تو سقراط نے جواباََ کہا کہ صحیح سوال میں آدھی حقیقت چھپی ہوتی ہے۔ اس کا صحیح جواب پا لو تو پوری حقیقت سے آگہی ہو جائے گی۔ سعودی عرب کے ڈالروں کے حوالے سے ہمارے تمام سوال مگر شام اور ایران کے گرد گھوم رہے ہیں۔ بھائی خلیج کا ایک ملک قطر بھی تو ہوا کرتا ہے۔
اس کے دارالحکومت دوحہ کی سب سے بڑی، جدید ترین اور عالیشان مسجد کا نام شیخ عبدالوہاب سے منسوب کیا گیا ہے۔ سعودی عرب سرکاری طور پر ان ہی شیخ صاحب کی دی ہوئی تعلیمات کو دل و جان سے اپناتا ہے۔ قطر کے حکمرانوں کے مرشدِ کامل بھی وہی ہیں۔ اب معلوم تو یہ کرنا چاہیے کہ شیخ عبدالوہاب کے ایسے جید پیروکار دو ممالک کے درمیان اصل جھگڑا کیا ہے۔ اس جھگڑے میں پاکستان کہاں فِٹ ہوتا ہے۔ فِٹ ہونے سے یاد یہ بھی آ گیا کہ نواز شریف صاحب کے جو لاڈلے ''احتساب الرحمن'' ہوا کرتے تھے ان دِنوں قطر میں ہی مقیم ہیں اور وہاں کے حکمران خاندان کے بڑے چہیتے بھی۔ قطر اتفاق سے ایران اور روس کی طرح قدرتی گیس کے ذخائر سے مالامال بھی ہے۔ پاکستان کو LNG کی ان دنوں شدید ضرورت ہے۔ ایران سے جو پائپ لائن آنا تھی وہ تو خیر اب بن نہ پائے گی۔ باقی رہ گیا قطر۔ اس سے بھی دور رہیں گے تو گزارہ تیل پر ہی کرنا ہو گا۔ سعودی عرب اسے خریدنے کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر کا ''تحفہ'' نہ دے تو اور کیا کرے؟
شیخ صاحب ہمارے سیاسی اُفق پر حال ہی میں نمودار نہیں ہوئے۔ 1970ء کی دہائی سے انھیں گلی محلوں کی زبان میں خود کو انقلابی ثابت کرنے کی لگن ہے۔ گفتار کا یہ غازی مگر پنجابی محاورے والے سیانے کی طرح ''اپنے گھر کا پکا'' ہے۔ جب ضرورت پڑے اس حکمران سے تعاون کرنے پر تیار رہتے ہیں جو ان کی زبان درازی سے خوفزدہ نہیں ہوتا۔ موصوف نے بنگلہ دیش نامنظور اور اینٹی احمدی ایجی ٹیشن میں بھرپور حصہ لے کر ذوالفقارعلی بھٹو سے بھی متھا لگانا چاہا تھا۔ جب کچھ نہ بن پایا تو مولانا کوثر نیازی مرحوم کی شیریں بیانی سے متاثر ہو کر ایک سرکاری حج وفد میں ''رضا کار'' بن کر شامل ہو گئے۔ وہاں سے لوٹنے کے بعد خود کو بڑی خاموشی سے معاشی طور پر مستحکم کرتے رہے۔ بھٹو صاحب اس دُنیا میں نہ رہے تو ضیاء الحق کے متعارف کردہ بلدیاتی نظام میں شامل ہو کر اپنا سیاسی مستقبل بنانے پر توجہ مرکوز کر دی۔ راولپنڈی کے میئر شیخ غلام حسین کے خلاف دھواں دھار تقاریر کرتے رہے۔ اُردو اخبارات میں عموماََ صفحہ نمبر 2 اس شہر کے لیے مختص ہوتا ہے جہاں سے یہ شایع ہوتے ہیں۔ شیخ صاحب ان صفحات کے لیے مزے کی خبریں بنانے والا مواد فراہم کرنے کے بعد انھیں چھپوانے اخباروں کے دفتروں میں بیٹھے رہتے۔ ان کی یہ محنت 1985ء میں رنگ لائی۔ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔ صوبائی اسمبلی کے لیے انتخاب ان کے منتخب ہو جانے کے تین دن بعد منعقد ہونا تھا۔ موصوف اس کی ایک نشست کے امیدوار بھی تھے۔ ترنگ میں آ کر بڑھک لگا دی کہ ان کی اگلی منزل پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ ہے۔ خدا اور ووٹروں کو ان کا غرور پسند نہ آیا۔ صوبائی اسمبلی کی نشست ہار گئے۔
1985ء کی قومی اسمبلی میں پہنچے تو حاجی سیف اللہ، فخر امام، جاوید ہاشمی اور سیدہ عابدہ حسین کے ساتھ مل کر جونیجو صاحب کے خلاف ''اپوزیشن'' چلائی۔ اس حیثیت میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی کے پنج ستاری ہوٹل میں کھانے کی ایک دعوت پر مدعو بھی کیا۔ مگر پھر سمجھ گئے کہ بے نظیر کے مقابلے میں ''اصل قوتیں'' تیار نواز شریف کو کر رہی ہیں۔ چوہدری شجاعت کی مدد سے ان کے قریب ہوئے اور پھر چوہدری برادران کو نواز شریف کی محبت میں کہیں پیچھے چھوڑ دیا۔ اس ''محبت'' میں لیکن پہلی دراڑ اس وقت آئی جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت میں چوہدری الطاف حسین نے بذریعہ ڈاکٹر شعیب سڈل لال حویلی سے ایک کلاشنکوف برآمد کر لی۔ موصوف کو قیدیوں والے کپڑے پہن کر کچھ عرصہ جیل میں رہنا پڑا۔ شیخ صاحب کا خیال تھا کہ نواز شریف ان کی رہائی کے لیے کوئی عظیم تحریک وغیرہ چلادیں گے۔ ایسا کچھ نہ ہوا۔ بالآخر انگریزی اخبار کی ایک سابقہ مدیر سے جو ان دنوں واشنگٹن میں ہماری سفیر ہوا کرتی تھیں' رجوع کرنا پڑا۔ باقی معاونت یوسف رضا گیلانی نے بطور اسپیکر قومی اسمبلی فراہم کر دی۔ میاں صاحب نے اسی وجہ سے دوسری بار وزیر اعظم بن جانے کے بعد انھیں کوئی وزارت نہ دی۔ شیخ صاحب نواز شریف کے قریبی صحافیوں کو اپنی ''قربانیاں''یاد دلاتے رہے اور بالآخر وزارت لے کر ہی چھوڑی۔
یہ وزارت حاصل کرنے کے بعد 12 اکتوبر 1999ء کے بعد چپ سے ہو گئے۔ بھلے وقتوں کا انتظار کرتے رہے اور پھر 2002ء ہو گیا اور شیخ صاحب جیسا اصول پرست اور ضدی آدمی مشرف صاحب کا ہو گیا۔ مشرف صاحب کے زوال کے بعد شیخ صاحب کو ایک نئے سرپرست کی بے انتہاء ضرورت تھی۔ ربّ کریم نے عمران خان کی صورت فراہم کر دیا اور 2013ء میں ان کے متحرک کیے نوجوانوں کی مدد سے وہ قومی اسمبلی میں آ گئے۔ قومی اسمبلی میں آنے کے بعد شیخ صاحب بڑے خلوص سے عمران خان کو اپنی سرپرستی میں لے کر متحدہ اپوزیشن کا قائد بنوانا چاہ رہے تھے۔ ایسا کرتے ہوئے مگر یہ بھول گئے کہ کپتان خود عقلِ کُل ہے۔ ''اتالیقوں'' کو برداشت نہیں کیا کرتا۔ اب تو ویسے بھی نواز شریف صاحب چوہدری نثار علی خان کی چلائی ہوئی جیپ میں بیٹھ کر بنی گالہ تشریف لے جا چکے ہیں۔ عمران خان کے گھر کے قریب جو مجوزہ نیشنل پارک والی جگہ ہے اس پر ''قبضہ گروپ'' چھایا ہوا ہے۔ وزیر اعظم کو اس گروپ کی سرگرمیوں کے بارے میں تحریک انصاف کے رہ نما نے آگاہ کیا۔ عین دوسرے روز سی ڈی اے کے چیئرمین بنی گالہ حاضر ہو گئے۔ ''سستا اور فوری انصاف'' عمران خان کو اب تک ملا یا نہیں' مجھے خبر نہیں۔ بس اتنا ضرور جانتا ہوں کہ مبینہ طور پر ''قبضہ'' کرنے والی پارٹی بھی بڑی ''ڈاھڈی'' ہے۔ تحریک انصاف کو ''فرینڈلی'' بنانے کی خاطر مسلم لیگ نواز والے انھیںUnfriendly بھی نہیں بنا سکتے۔ شیخ صاحب ان دنوں مگر ''عمران نواز بھائی بھائی'' والی صورت حال میں ''تیسری قوت کہاں سے آئی'' بنے ہوئے دِکھ رہے ہیں۔ اینکر حضرات کو مگر اب بھی Ratings فراہم کرنے کے لیے ہمہ وقت میسّر ہیں۔ ریٹنگ کو یقینی بنانے والے سے ''پنگے'' نہیں لیے جاتے۔ شیخ صاحب سے ڈالر کی قیمت کے حوالے سے استعفیٰ کا ذکر کرو تو وہ فوراََ پٹرول کی قیمت یاد دلا کر غریب آدمی کی ٹپکتی چھت کے بارے میں سیاپا فرمانا شروع ہو جاتے ہیں۔ اسکرینوں پر رونق لگی رہتی ہے اور یہ سارا تماشہ تقریباََ مفت ہے۔ ہاتھ میں ریموٹ کا بٹن ہی تو دبانا ہے اور ہر مہینے کیبل والے کا نسبتاََ قابلِ برداشت بل ادا کرنا۔
شیخ صاحب کی بدولت بہرحال ہمارے عوام نے یہ تو دریافت کر لیا کہ ڈیڑھ ارب ڈالر سعودی عرب سے آئے تھے۔ یہ طے ہو گیا تو اب اینکر حضرات کو ڈھونڈنا یہ ہے کہ ایسا خطیر تحفہ اچانک کیوں مل گیا۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہوئے نگاہیں پہلے شام کی طرف گئیں اب کچھ تذکرہ ایران کا بھی ہو رہا ہے۔ بحرین کے حاکم 40 برس میں پہلی بار پاکستان تشریف لائے ہیں۔ ''یہ کیا ہو رہا ہے بھائی۔ یہ کیا ہو رہا ہے'' والا سوال ہماری ٹی وی اسکرینوں پر گونج رہا ہے۔ جواب کہیں سے نہیں مل پایا۔سقراط زمانہ قدیم کے اولین فلاسفروں میں سے ایک ہوا کرتا تھا۔ ہمارے لال حویلی جیسے مفکر کی طرح لیکن اسے ہر موضوع کی غزل منہ زبانی یاد نہ ہوا کرتی تھی۔ اپنے شاگردوں سے بس سوال پر سوال کیے جاتا تھا۔ اس کے ایک شاگرد نے بالآخر زچ ہو کر پوچھ ہی لیا کہ سوال کرنے کی یہ عادت کہاں سے آئی اور اس عادت کا عقل سے کیا تعلق تو سقراط نے جواباََ کہا کہ صحیح سوال میں آدھی حقیقت چھپی ہوتی ہے۔ اس کا صحیح جواب پا لو تو پوری حقیقت سے آگہی ہو جائے گی۔ سعودی عرب کے ڈالروں کے حوالے سے ہمارے تمام سوال مگر شام اور ایران کے گرد گھوم رہے ہیں۔ بھائی خلیج کا ایک ملک قطر بھی تو ہوا کرتا ہے۔
اس کے دارالحکومت دوحہ کی سب سے بڑی، جدید ترین اور عالیشان مسجد کا نام شیخ عبدالوہاب سے منسوب کیا گیا ہے۔ سعودی عرب سرکاری طور پر ان ہی شیخ صاحب کی دی ہوئی تعلیمات کو دل و جان سے اپناتا ہے۔ قطر کے حکمرانوں کے مرشدِ کامل بھی وہی ہیں۔ اب معلوم تو یہ کرنا چاہیے کہ شیخ عبدالوہاب کے ایسے جید پیروکار دو ممالک کے درمیان اصل جھگڑا کیا ہے۔ اس جھگڑے میں پاکستان کہاں فِٹ ہوتا ہے۔ فِٹ ہونے سے یاد یہ بھی آ گیا کہ نواز شریف صاحب کے جو لاڈلے ''احتساب الرحمن'' ہوا کرتے تھے ان دِنوں قطر میں ہی مقیم ہیں اور وہاں کے حکمران خاندان کے بڑے چہیتے بھی۔ قطر اتفاق سے ایران اور روس کی طرح قدرتی گیس کے ذخائر سے مالامال بھی ہے۔ پاکستان کو LNG کی ان دنوں شدید ضرورت ہے۔ ایران سے جو پائپ لائن آنا تھی وہ تو خیر اب بن نہ پائے گی۔ باقی رہ گیا قطر۔ اس سے بھی دور رہیں گے تو گزارہ تیل پر ہی کرنا ہو گا۔ سعودی عرب اسے خریدنے کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر کا ''تحفہ'' نہ دے تو اور کیا کرے؟