پل بھر…
میں اسے دیکھتا رہا۔ وہ نمازختم ہونے کے بعد اپنی جگہ پرکھڑا ہوا۔ اور بسم اللہ پڑھنے کے بعد کچھ اس طرح سے مخاطب ہوا۔
میں اسے دیکھتا رہا۔ وہ نمازختم ہونے کے بعد اپنی جگہ پرکھڑا ہوا۔ اور بسم اللہ پڑھنے کے بعد کچھ اس طرح سے مخاطب ہوا۔ مسلمان بھائیو! میں ایک غریب اور نادار شخص ہوں۔ کل سے میرے بیوی بچے بھوکے ہیں۔ میرے پاس انھیں کھلانے کے لیے سوکھی روٹی کے کچھ ٹکڑے تھے جو میں نے ایک ہوٹل کے باہر سے اٹھائے تھے۔ میں انھیں پانی میں بھگو کر بچوں کو کھلا رہا تھا۔ لیکن اب وہ بچوں سے کھائے نہیں جا رہے۔ وہ کہتے ہیں بابا! کھانا لاکر دو۔ میں کئی ماہ سے بے روزگار ہوں اگر کوئی بھائی میری مدد کرنا چاہے تو اللہ اس کی مدد فرمائے گا۔ (آمین!) کہہ کر وہ نمازیوں کے درمیان میں سے راستہ بناتا ہوا مسجد کے دروازے پر بیٹھ گیا۔
وہ منتظر تھا کہ کوئی اس کی مدد کرے گا۔ اللہ کا گھر ہے کسی نے دردمندی سے اس کی بات سنی ہوگی۔ لیکن دعا کے بعد سب نمازی ایک ایک کرکے مسجد کے دروازے سے اسے دیکھتے ہوئے باہر نکلتے رہے۔ کسی نے اس کی کوئی مدد نہ کی۔ غالباً اس کی وجہ اس کا جوان اور صحت مند ہونا تھا یا شاید وہ معذور نہیں تھا۔ یا پھر یہ روزمرہ کا معمول بھی تھا کہ اکثر نماز کے بعد کسی مدرسے کا مہتمم یا ایسا ہی کوئی ضرورت مند موجود رہا کرتا تھا۔ لہٰذا وہ سر جھکائے بیٹھا رہا اور اس کی وہ چادر خالی رہی جسے وہ امداد کے لیے اپنے سامنے بچھائے ہوئے تھا۔
میں بھی دیگر لوگوں کی طرح ایسے مانگنے والوںکے لیے کچھ مختلف خیالات نہیں رکھتا تھا۔ چنانچہ جب میں اس کے سامنے سے گزرا تو اس احساس سے قطعی بے نیاز تھا کہ مجھے اس کی مدد کرنی ہے۔ میں نے ایک پل اس کی جانب دیکھا اور آگے بڑھ گیا۔ لیکن دو ہی قدم آگے جاکر یکدم مجھے محسوس ہوا کہ اس میں اور دیگر مانگنے والوں میں ایک فرق ضرور ہے۔ اور وہ فرق تھا اس کا سر جھکائے خاموشی سے بیٹھے رہنا۔ اسے دیکھ کر صاف لگتا تھا کہ وہ کبھی خوشحال بھی رہا ہوگا۔ لیکن خاص بات اس کا چہرہ تھا جس پر بیک وقت شرمندگی بھی تھی، خجالت بھی تھی، حزن و ملال اور مایوسی بھی۔میں اب حیران ہونے لگا تھا۔ اور متجسس تھا کہ اس سے کچھ اس کے بارے میں معلوم کروں۔ لہٰذا میں نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے اس کا نام پوچھا۔ اس نے اسی حالت کو برقرار رکھتے ہوئے جواب دیا ''جاوید احمد۔''
میں نے دوسرا سوال اس کا نام لے کر کیا۔ جاوید! تم جوان ہو، صحت مند ہو۔ تم کوئی کام کیوں نہیں کرتے؟ آج کل تو مزدوری آسانی سے مل جاتی ہے اور مزدوری بھی مناسب ہے۔ کم ازکم اپنے بچوں کو دو وقت روٹی تو کھلا ہی سکتے ہو۔ میرا سوال سن کر اس نے پہلی بار میری طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں چمکتے ہوئے آنسو صاف دکھائی دے رہے تھے۔ لیکن اس نے بلا تاخیر میری بات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ کوئی کام کرنے سے قاصر ہے۔ کیونکہ اسے بلڈ کینسر ہے۔لیکن میں اس سے یہ سن کر بھی بے یقینی کی اس گرفت سے آزاد نہیں ہوسکا جو پیشہ ور گداگروں کی مرہون منت تھی۔ لہٰذا میں نے استفسار کرنے کے انداز میں اس کی بیماری کا کوئی کاغذی ثبوت دیکھنے کی فرمائش کر ڈالی۔ جسے اس نے فوراً ہی پورا کردیا اور اپنی جیب سے ایسی متعدد Reports اور ڈاکٹرز کے Prescription نکال کر دکھائے جنھیں دیکھنے کے بعد مجھے صد فیصد اس کے بیان پر یقین ہوگیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ پہلے کیا کرتا تھا؟ اس نے بتایا کہ وہ قریب کے ایک گاؤں میں اپنی زمین پر کاشت کاری کیا کرتا تھا۔ سال بھر پہلے ایک دن جب وہ اپنی زمین پر ٹریکٹر چلا رہا تھا تو اس کا سر اچانک چکرانے لگا۔ اس نے اس کیفیت کو زیادہ کام کرنے کا سبب جان کر آرام کرنے کو ترجیح دی اور ٹریکٹر بند کرکے گھر آگیا۔ اور سر درد کی ایک گولی لے کر سونے کی کوشش کی۔ لیکن چکر تھے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔
اس رات وہ مسلسل جاگتا رہا۔ صبح گاؤں کے ڈاکٹر کے پاس گیا۔ ڈاکٹر نے اس سے تفصیل جان کر اسے شہر میں ایک اور ڈاکٹر کو Refer کردیا جو F.C.P.S تھا۔ جب وہ شہر میں بڑے ڈاکٹر سے ملا تو اس نے جاوید کو کچھ Test لکھ کر دیے۔دو دن بعد جب وہ اپنی Reports کے ساتھ ڈاکٹر سے ملا تو ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ اسے بلڈ کینسر ہے۔ یہ سن کر اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ کیونکہ وہ ایک معمولی سا زمیندار تھا۔ اور ڈاکٹر بیماری کو اس Stage پر روکنے کے لیے جو اخراجات بتا رہا تھا وہ اس کی بساط سے کہیں زیادہ تھے۔ وہ اسی دن گاؤں لوٹ گیا اور بیوی کو تمام صورتحال سے آگاہ کیا۔
وفادار بیوی نے اسے زمین فروخت کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے بلاتاخیر علاج کروانے پر اس حد تک اصرار کیا کہ بچوں کی قسم تک لے لی۔ جسے مان کر جاوید نے اپنی 20 ایکڑ زمین فروخت کردی۔ اور زمین کی رقم سے اپنا علاج کروانا شروع کردیا۔آخر کار رقم ختم ہوگئی لیکن علاج باقی رہا۔ مرض مہلک اور لاعلاج تھا۔ پرسکون دن ختم ہوئے۔ گاؤں کا گھر بھی اونے پونے بک گیا۔ اور وہ اپنے بچوں کو لے کر شہر آگیا۔ اور ریلوے لائن کے نزدیک ایک جھگی ڈال کر رہنے لگا۔ شروع شروع میں بیوی کے پاس جو معمولی سا زیور تھا اسے بیچ کر گزارا کیا۔ مزید علاج کی رقم ہی نہیں بچی تھی۔ لہٰذا وہ بند ہوگیا۔ آخر کار حالت یہ ہوگئی کہ اسے آج مسجد میں مدد کی درخواست کرنی پڑی۔ کیونکہ بچے بھوک سے نڈھال تھے۔ اس نے بتایا کہ زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ علاج رک جانے کی صورت میں ڈاکٹر نے اسے مایوس کن نتائج سے آگاہ کردیا تھا۔ جاوید کو ہر تین دن بعد خون کی ایک بوتل لگا کرتی تھی جو پچھلے 15 دن سے نہیں لگی تھی۔ وہ اپنی بات ختم کرکے اپنی پھیلی ہوئی چادر سمیٹ رہا تھا۔ جو خالی تھی۔
اس کا چہرہ ایک انجانے خوف کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ میں خوف کی وہ تحریر اب بالکل صاف پڑھ رہا تھا کہ ''میرے بعد میرے بچوں کا کیا ہوگا؟'' چادر سمیٹتے ہوئے اس کے ہاتھوں سے لمحے، گھنٹے اور دن پھسل رہے تھے۔ وہ مجھ سے اجازت لیتے ہوئے اٹھنے لگا تو ایک نظر اس نے مسجد کی طرف دیکھا۔ مجھے اس کی آنکھوں میں گلہ بہت صاف دکھائی دیا کہ وہ حاکموں کے حاکم کے گھر کا دروازہ بھی کھٹکھٹا چکا تھا۔ اور اس کی چادر پر کچھ نہیں تھا۔ سوائے ان چند آنسوؤں کے جو اس نے اپنی خودداری اور عزت نفس کو گروی رکھ کر بہائے تھے۔لیکن میں سوچ رہا تھا۔ میرا ذہن بڑی تیزی سے کام کرتے ہوئے مجھے وہ سارے (Cases) کیسز یاد دلا رہا تھا۔ جو میڈیا پر مشتہر "Advertise" ہونے کے بعد حل ہوئے تھے۔ جن میں کسی صاحب حیثیت شخص یا ادارے نے الیکٹرانک میڈیا کے توجہ دلانے پر جاوید جیسے کسی مستحق شخص کی مدد کرتے ہوئے اس کے علاج کی تمام تر ذمے داری لے لی تھی۔ میں نے جاوید کو ساتھ لیا اور حسب توفیق اس کی کچھ مدد کرتے ہوئے اسے اس کی جھگی تک چھوڑ آیا۔
اس نے واقعی سچ کہا تھا۔ اس کے بچے بھوک سے بلک رہے تھے۔ کھانا دیکھ کر وہ کھانے پر جھپٹ پڑے۔ اگلے دن میں نے اپنے ایک دوست جو الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ تھے انھیں جاوید کی ساری بپتا بلاکم و کاست سنا دی۔ اور ہفتے بھر میں میڈیا پر جاوید کا معاملہ پیش ہوچکا تھا۔ جس کے صرف ایک دن بعد ایک معروف Industrialist نے جاوید کے علاج کا تمام خرچ اٹھانے کا اعلان اس شرط کے ساتھ کیا کہ کہیں پر بھی ان کا نام ظاہر نہیں کیا جائے گا۔ جاوید دن بہ دن رو بہ صحت ہو رہا تھا۔ اسی نیک اور خدا ترس شخص نے جاوید کو اپنی کمپنی میں ایک ایسی ملازمت بھی دے دی جس میں اسے سارا کام بیٹھ کر ہی کرنا تھا اور رہنے کے لیے اسی فیکٹری میں دو کمروں کا ایک کوارٹر بھی دے دیا۔ میں جب ایک برس بعد جاوید سے ملا تو وہ مجھے دیکھ کر خوشی کے مارے رونے لگا۔ مجھ سے لپٹ گیا۔ اس کا شکریہ وہی آنسو تھے جو اس روز بھی بہہ رہے تھے لیکن اس دن ان میں خوف اور سناٹے کی جگہ امنگ بھری زندگی کا شور اور ہنگامہ تھا۔
گھر آکر میں نے سوچا کہ جو لوگ صحافیوں پر حملے کر رہے ہیں۔ میڈیا کے دفاتر کو خودکش حملوں سے اڑا دینا چاہتے ہیں۔ جو لوگ صحافیوں کو برا بھلا کہتے ہیں۔ میڈیا چینلز کو محض کمائی کا ذریعہ گردانتے ہیں۔ انھیں شاید کبھی کوئی جاوید نہیں ملا۔ انھیں پتا ہی نہیں کہ شریعت تو ایک مجبور اور بے بس کے آنسوؤں میں چمکتی ہے۔ انھیں خبر ہی نہیں کہ حاکموں کا حاکم تو سچی گواہی کے ساتھ ہے جو میڈیا دے رہا ہے گویا:
دل اجلے پاک پھولوں سے بھر گیا تھا اس دن
اس روز میری آنکھوں سے اشک بہہ رہے تھے
[email protected]