یونی پولر یا بائی پولر

شمالی کوریا کے مرد آہن کم ال سنگ، ماؤزے تنگ اور جوزف اسٹالن کے دوستوں میں تھے۔

anisbaqar@hotmail.com

جماعت اسلامی کے سابق امیر مرحوم قاضی حسین احمد اکثر اپنی تقاریر میں یہ کہا کرتے تھے کہ ہم سے ایک غلطی ہو گئی ہے کہ افغان جنگ کے انجام پر سوویت یونین ختم ہوا اور دنیا یونی پولر ہو گئی ہے۔ جس سے طاقت کا توازن ایک قوت کے پاس مرکوز ہو گیا ہے اور دنیا میں تمام ممالک اپنی خارجہ پالیسی اسی اعتبار سے ترتیب دے رہے ہیں۔ بعد ازاں اسلامی دنیا فکری نظری اعتبار سے دو دھڑوں میں بٹ گئی۔ ایک تو امریکا کے اتحادی ممالک جو پہلے سے تھے مزید امریکا نواز ہو گئے کیونکہ جب دنیا یک قطبی ہو گی تو پھر کشش کا عمل خود کمزور ممالک کو اسی طرف لے جائے گا۔

شمالی کوریا کے مرد آہن کم ال سنگ، ماؤزے تنگ اور جوزف اسٹالن کے دوستوں میں تھے۔ لہٰذا اس کی معیشت کا پہیہ تیز نہ سہی پھر بھی گھومتا رہا مگر ایران کی عالمی افق پر حماس کی حمایت، محمود عباس کی مخالفت اسرائیل کو نابود کرنے پر اصرار نے اس کو معاشی انحطاط کے قریب تر پہنچا دیا۔ ایران کے سابق صدر احمدی نژاد نے امریکا کے خلاف شدت اختیار کی۔ چین اور روس کی طرف سے کچھ نرمی تھی لہٰذا حکومت چلتی رہی اور معیشت تھکتی گئی، مگر چین اور روس سیاسی محاذ پر ایران کو کمک پہنچاتے رہے اور امریکا کو ایران کی تنصیبات پر حملے سے باز رکھا۔ حسن روحانی نے ایرانی کا نیا رخ پیش کیا یہاں بھی روس اور چین کی ہمنوائی ایران کو حاصل رہی جو گزشتہ 5 یا 6 برس سے زیادہ عرصے سے جاری تھی اور رفتہ رفتہ یہ دونوں ممالک ایک ہی سیاسی حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں۔ روس گرم روی اور چین نرم روی کیونکہ چین مغربی دنیا اور امریکا کے برانڈ تیار کر کے اپنی 7 فیصد ترقی کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ لہٰذا روس نے سیاسی محاذ پر ہی چین کو استعمال کیا۔ وینزویلا کے مسئلے پر اور شام کے مسئلے پر دونوں ممالک کا ایک ہی موقف رہا اس سے اندازہ ہوا کہ روس ایک نئے قطب کے طور پر سامنے آ رہا ہے مگر لوگ چونکہ جو قطب نما دیکھ رہے ہیں اس میں صرف ایک پول نظر آ رہا ہے لہٰذا پسماندہ ممالک کو یہ ادراک نہیں کہ طاقت کا توازن کیا ہے؟ طاقت کا توازن کس کے حق میں ہے؟ کیا ہونے کو ہے؟ اور خارجہ پالیسی کس طریقہ سے ترتیب دی جائے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ چین اور پاکستان خدانخواستہ کسی موڑ پر ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہو جائیں کیونکہ روس اور چین میں نظریاتی خلیج ختم ہو چکی ہے۔


اس کی دوسری اور اہم مثال ابھی حال ہی میں جو یوکرین کا بحران شروع ہوا مغربی ممالک نے اس خطے پر گہری نظر گاڑھ رکھی تھی۔ یوکرین کے صدر مقام (Kiev) کیف میں مقامی لوگوں سے پارلیمنٹ پر قبضہ کروا کے اس کے صدر کو فرار ہونے پر مجبور کیا جو غیر آئینی تھا کیونکہ وہ ماسکو کا ہمنوا تھا۔ جب روس نے کریمیا میں عوام کی تائید پر فوج بھجوائی تو امریکا نے سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کی جس کو روس نے ویٹو کر دیا اس رائے شماری میں بھی چین نے مغربی ممالک کا ساتھ نہ دیا بلکہ غیر حاضر ہوا کیونکہ روس نے تو کام کر دیا تھا چین فی الحال اپنے کو نمایاں کیوں کرے؟ مگر اس کی پالیسی روس کی ہمنوائی ہے۔ اس طرح صورت حال یونی پولر سے بائی پولر کی طرف رواں ہے۔ یعنی قطب اب قطبین بننے کو ہے۔ گویا طاقت کا توازن اب بتدریج منقسم ہو رہا ہے۔ آخر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مغربی ممالک کا یوکرین پر اس قدر اصرار کیوں؟ یہ ہنگامہ آرائی کیوں ؟ آئیے! کچھ دیر کے لیے یوکرین چلیں یہ مشرقی یورپ کا ایک بڑا ملک ہے اس کی آبادی تقریباً 4.5 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے مجموعی طور پر 20 فیصد مسلمان ہیں بقیہ دوسری قومیں، کرسچن اکثریت میں ہیں۔ اس ملک نے زندگی کے بڑے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ تاتاریوں نے اس ملک پر حکومت کی۔ بازنطینوں کے پاس بھی یہ ملک رہا۔ سلطنت عثمانیہ نے بھی یہاں حکمرانی کی۔ زار روس بھی یہاں حکمراں رہے۔ اس ملک میں 18 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ روسی زبان بولنے والوں کی تعداد کافی ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے اس کا محل وقوع بحیرہ اسود (Black Sea) اس کا کل رقبہ تقریباً 28 ہزار کلومیٹر ہے خصوصاً کریمیا جہاں روسی فوجیں آئی ہیں اور ریفرنڈم ہوا ہے وہاں 60 فیصد افراد روسی زبان بولتے ہیں اور اس جگہ کو جزیرہ نما کریمیا کہا جاتا ہے۔

انقلاب روس کے بعد 1921ء میں اس علاقے نے سوویت یونین سے الحاق کر لیا تھا گورباچوف کی گلاس نوٹ تحریک اور سوویت یونین کے خاتمے کے بعد 1991ء میں یوکرین نے روس سے الحاق ختم کر دیا اور آزاد ریاست بن گئی۔ اس علاقے پر ماضی میں یعنی 1854ء میں فرانس اور برطانیہ نے اپنی نوآبادی بنا رکھی تھی۔ اس لیے یہاں انگریزی زبان بھی بولی جاتی ہے۔ غرض اس اہم گزرگاہ پر مختلف قوموں کی نظر رہی ہے۔ یہاں پر معاشی آسودگی ہے، کیونکہ یہ ریاست دنیا میں غلہ پیدا کرنے والی تیسری بڑی ریاست ہے۔ صنعتی ترقی کی دوڑ میں جب یہ ریاست سوویت یونین کے زیر اثر رہی تو یہاں زبردست ترقی ہوئی اور تعلیم کا اوسط تقریباً صد فیصد ہو گیا۔ کریمیا میں جو تاتاری آباد ہیں یہ وہی نسل ہے جو کوئٹہ میں مری آباد علمدار روڈ پر آباد ہے اور ہر بار سال میں کئی بار ان لوگوں کو جو زیارات پر ایران جاتے ہیں، نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مقامی طور پر کوئٹہ کے لوگ ان کو ہزارہ کہتے ہیں جب کہ یہ چنگیزی ہیں۔ ان کی نسل وسط ایشیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ یوکرین کی منتخب حکومت کو جب مغرب نے اپنے حامیوں سے گھیراؤ جلاؤ کے ذریعے ختم کیا تو روس نے جزیرہ نما کریمیا کو نیٹو سے بچانے کے لیے اپنی افواج کو کریمیا بھیجا اور عوامی ریفرنڈم کروا کے روسی فیڈریشن سے اس کا الحاق کر دیا۔ یہاں یہ پہلو زیر غور ہے جب گوربا چوف روسی فیڈریشن کو گلاس نوٹ تحریک سے منہدم کر رہے تھے، پوتن سوویت یونین میں اس کی خفیہ ایجنسی کے جی بی (KGB) کے سربراہ تھے انھوں نے رفتہ رفتہ روس کو مضبوط کیا اور ان کا ہدف روس کو پھر عالمی طاقت بنانا تھا۔ آخر کار ریفرنڈم کا انعقاد اتوار 16 مارچ کو ہوا۔ زبردست بارش کے باوجود 90 فیصد لوگوں نے اس میں حصہ لیا اور 96 فیصد نے الحاق کا ووٹ دیا۔

اس طرح عالمی پیمانے پر امریکا کو پوتن نے یہ دوسری شکست سے دوچار کیا۔ اب امریکا اور اس کے اتحادیوں کے پاس کوئی اور تدبیر نہ آئی انھوں نے ریفرنڈم کو غیر قانونی قرار دیدیا اور روس پر پابندی لگانے کا اعلان جس وقت ہو رہا تھا عین اسی وقت پوتن کریمیا کے آزاد خودمختار ریاست کی دستاویز پر دستخط کر رہے تھے۔ روس پر پابندی بے معنی ہے کیونکہ یورپ کو گیس روس سپلائی کرتا ہے اور وہ امریکا کا دست نگر نہیں۔ اس طرح روس نے عالمی افق پر قطب کی جگہ قطبین کا جھنڈا لہرا دیا۔ یہ عالمی افق پر نیٹو کی شکست تھی اس کے اثرات اب ترقی پذیر ملکوں پر پڑیں گے۔ وسط ایشیا میں جو ریاستیں روس سے آزاد ہوئی ہیں ان میں ایک حصہ روس سے الحاق کی تحریک کا بھی زور پکڑ رہا ہے جو امریکا کے لیے خطرے کا باعث اور چین روس کا حلیف بن کے سامنے آ رہا ہے۔ چین کا رویہ مغرب کے خلاف مذاکرات کی میز پر اور ووٹنگ میں روس کے ساتھ ہے جب کہ روس کھل کر سخت لہجہ اور عمل اختیار کر رہا ہے۔ جب کہ چین نرم رویہ رکھتا ہے کیونکہ چین میں بڑے پیمانے پر مغرب کی سرمایہ کاری ہے۔ لہٰذا مستقبل میں جو بھی سیاسی قدم تیسری دنیا کی ترقی پذیر اقوام کو اٹھانا ہو گا اس میں روس کو نظر انداز نہ کرنا ضروری ہو جائے گا۔ اب آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟ مگر ایسی صورت میں اب پاکستان کو خصوصاً خارجہ پالیسی ترتیب دیتے وقت اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ ہم کسی مقام پر عالمی منظر نامے میں چین کے خلاف نہ کھڑے ہو جائیں۔
Load Next Story