انسانی اعضا برائے فروخت

امریکا نے 1984میں ’’دی نیشنل آرگن ٹرانسپلانٹ ایکٹ‘‘ کے تحت اعضا کی فروخت کو قابلِ سزا جرم قرار دیا


Shaikh Jabir March 20, 2014
[email protected]

روزنامہ ایکسپریس 11مارچ کو برطانوی اخبار ''دی سنڈے ٹائمز '' کے حوالے سے خبر دیتا ہے کہ برطانوی شہری''فَیس بُک'' پر اپنے اعضا فروخت کے لیے پیش کر رہے ہیں۔انسانی اعضا کی فروخت دنیا بھر میں ایک گھنائونے کاروبار کی حیثیت اختیارکرچکا ہے۔عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اعضا کی خرید وفروخت میں تیسری دنیا کے ممالک کے شہری ملوث ہیں۔لیکن متذکرہ بالاخبر اور دیگر کئی خبریں بتاتی ہیں کہ کم یا زیادہ مغرب کے افراد بھی اپنے اعضا کی فروخت میں کسی طرح پیچھے نہیں۔اخبارکا کہنا ہے کہ تحقیق کے لیے ''فَیس بُک'' پر ضرورتِ گردہ کے اشتہار کا تعاقب کیا گیا۔اس طرح کے اشتہار کے جواب میں حیرت انگیز طور پر محض ایک ہفتے میں 11افراد کی جانب سے اپنا گردہ فروخت کرنے کی پیش کش کی گئی۔

اگرچہ ان میں سے کچھ افراد دور دراز علاقوں مثلاً بھارت اور میکسیکو سے تعلق رکھتے تھے،لیکن اُس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ فروخت کے لیے گردے پیش کرنے والے افراد میں سے 3کا تعلق برطانیہ سے ہے۔برطانیہ میں اعضا کی فروخت ایک سنگین جرم ہے۔وہاں کے قانون ''ہیومن ٹشو ایکٹ'' کے تحت انسانی اعضا کی فروخت تو درکنار اس حوالے سے کسی قسم کی تشہیر بھی قابلِ سزا جرم قرار پاتی ہے۔یہاں تک کہ بیرون ملک بھی آپریشن کروانے کی صورت میں برطانوی شہریوں کو جیل کی سزا ہو سکتی ہے۔اور برطانیہ جو قانون کے نفاذ کے معاملے میں مشہور ہے۔ وہاں یہ حال ہے کہ ایک ہفتے میں تین برطانوی شہری اپنا گردہ فروخت کرنے جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔یہاں تک کہ ''نوٹنگھم'' کا ایک 22سالہ نوجوان صرف 20ہزار پائونڈز کے عوض اپناصحت مند گردہ فروخت کرنے کے لیے تیار ہے۔ایک اور برطانوی 30ہزارپائونڈ میں گردہ فروخت کر رہا ہے۔

جدید طب نے اس امر کو ممکن بنایا ہے کہ صحت مند فرد کے اعضا مثلاً گردہ،جگر،دل وغیرہ کسی دوسرے بیمار فرد کے معطل یا ناکارہ عضو سے بدلے جاسکیں۔یہ یقیناًایک بڑی اور انقلابی پیش رفت ہے۔ہر گزرتے برس کے ساتھ اس طرح کی جراحتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔اعضا کی پیوند کاری میں ایک مشکل یہ آن پڑی ہے کہ بیمار انسانوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔صحت مند عضو دینے والے کم پڑتے جا رہے ہیں۔اس صورت حال نے آج ایک نئے کاروبار کو جنم دیا ہے اور وہ کاروبار ہے اپنے صحت مند جسمانی اعضا کی فروخت۔دنیا بھر میں افراد چند پیسوں کی خاطر ہمیشہ کے لیے اپنا کوئی عضو فروخت کر رہے ہیں۔یہاں طبی اخلاقیات عود کر آتی ہے اور ممالک یہ پابندیاں عائد کرنا شروع کرتے ہیں کہ کوئی بھی فرد عضو فروخت نہیں کر سکتا۔

امریکا نے 1984میں ''دی نیشنل آرگن ٹرانسپلانٹ ایکٹ'' کے تحت اعضا کی فروخت کو قابلِ سزا جرم قرار دیا ۔جس کی سزا 50ہزار ڈالر جرمانہ یا 5برس قید یا دونوں بھی ہو سکتی ہیں۔امریکی ٹرانس پلانٹ سوسائٹی کی اخلاقی کمیٹی نے بھی اس کی حمایت کی تھی۔نیز تمام سرجنز اور ان کے ٹیم ممبران کو اس امر کا پابند کیا تھا کہ اعضا کی فروخت نہ کی جاسکے اور وہ اس طرح کی تمام جراحتوں سے دور رہیں گے۔(فرائیڈ مین اینڈ فرائیڈ مین کڈنی انٹرنیشنل۔960) برطانیہ ،فرانس،آسٹریلیا وغیرہ سمیت بیش ترممالک میں اسی طرز کے قوانین رائج ہیں۔ان قوانین کے باوجود حال یہ ہے کہ 27مئی 2012کو برطانوی اخبار ''دی گارجین'' خبر دیتا ہے کہ عالمی ادارہِ صحت کے مطابق ہر برس غیر قانونی طور پر اعضا کی پیوند کاری کے 10ہزار آپریشن ہوتے ہیں۔بلیک مارکیٹ میں ہر ایک گھنٹے میں ایک گردہ فروخت ہوتا ہے۔''گلوبل فائنینشل انٹ گریٹی''کا اندازہ ہے کہ انسانی اعضا کی غیر قانونی خرید و فروخت میں 600ملین ڈالر سے 1.2بلین ڈالر تک سالانہ کمائی ہوتی ہے۔

عالمی ادارہِ صحت نے اس حوالے سے جو اعداد و شمار شایع کیے ہیں اُس ''بلیٹن'' کے مطابق عالمی سطح پر فروخت ہونے والے اعضا میں 66ہزار گردے،21ہزار جگر اور 6ہزار دل ایک برس میں تبدیل کیے جاتے ہیں۔واضح رہے کہ یہ اعداد و شمار ''ڈبلیو ایچ او'' نے 2005کے جاری کیے ہیں ،آج کے اعداد و شمار یقیناً اس سے کہیں زیادہ ہوں گے۔انسانی اعضا کی خرید و فروخت کے حوالے سے سب سے پہلی اور بالکل ظاہر و باہر بات یہ ہے کہ اگر یہ کوئی قبیح اور غیر انسانی اور غیر قانونی فعل ہے اورقابلِ سزا جرم ہے تو یہ جرم بغیر ماہر ڈاکٹرز، سرجنز اور دیگر میڈیکل اسٹاف اور سہولیات کے ممکن ہی نہیں۔کسی بھی بیمار اور صحت مند کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ جدید طبی ماہرین اور سہولیات کے بغیر از خود کسی عضو کو تبدیل کر لیں،خواہ وہ خود بھی ماہر سرجن ہی کیوںنہ ہوں۔سوال یہ ہے کہ آج کی درس گاہیں اور طبی تعلیم کے ادارے آخر یہ کس قسم کے ماہرین بنا رہے ہیں جو اپنی ہی طبی اخلاقیات کی دھجیاں اُڑاتے پھرتے ہیں۔

یہ ایک بہت ہی خطرناک مظہر ہے کیوں کہ اس عیاں پہلو کے علاوہ یہ مسیحا نامعلوم کتنے مزید طبی جرائم میں ملوث ہوتے ہوں گے جن کی عام فرد کو ہوا بھی نہ لگتی ہو؟اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ کیا دنیا بھر کے کسی ''طبی کُلّیے'' (میڈیکل کالج)نے اس امر پر غور کرنے کی ضرورت بھی محسوس کی کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ان کے نظام درس و تدریس میں کہاں کہاں سُقم ہے۔ وہ کیا کمی کوتاہیاں ہیں ،وہ کیا وجوہات ہیں کہ ڈاکٹرز دن بہ دن طبی اخلاقیات سے تہی ہوتے جارہے ہیں۔دن بہ دن یہ غیر قانونی جراحتیںکیوں بڑھتی جا رہی ہیں۔یہ عمل اتنا بڑھ چکا ہے کہ اس نے اب سیاحت برائے پیوند کاری(ٹرانسپلانٹ ٹورزم) کا خوش نُما نام اوڑھ لیا ہے۔اس ناجائز اور بلیک مارکیٹ کو فروغ دینے والا جدید معاشی نظام اور اس کا اصول برائے طلب و رسد(سپلائی اینڈ ڈیمانڈ)ہے۔جدید معیشت سے قبل فطری اور روایتی معاشروں میں جو چیز جتنی اہم ہوتی تھی وہ اتنی ہی عام کر دی جاتی تھی۔آج ضرورت کی چیز مہنگی ہو جاتی ہے۔کیا ان رجحانات پر از سرِ نو غور کرنے کی ضرورت نہیں؟ ایسا کیوں ہے کہ فروخت ہونے والے انسانی اعضا کا رُخ جنوب سے شمال کی جانب ہے،تیسری دنیا سے پہلی دنیا کی جانب ہے،غریب سے امیر کی جانب ہے؟جب طلب اور رسد ہی اصول قرار پائے گا تو آپ اس رجحان کو کیسے ختم کر سکتے ہیں؟

دوسرا اہم معاملہ وہ ہے جو اعضا کی فروخت کے حامی پیش کرتے ہیں۔اُن کا کہنا یہ ہے کہ اعضا کی فروخت پر پابندی عائد کرنا حقوقِ انسانی کی صریح خلاف ورزی ہے۔انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور وہ اپنے جسم کا مالک ہے۔وہ چاہے تو اسے گُودوائے،اس پر نقش و نگار بنوائے،اسے کاٹ کاٹ کر فروخت کرے یا خود کو ختم کر لے کسی بھی فرد ادارے یا حکومت کو اس کا حق نہیںپہنچتا کہ اُس کی آزادی میں دخل دے۔فرسودہ معاشروں میں اس طرح کی ذہنیت کو فروغ دیا جاتا تھا کہ جسم اُلوہی عطیہ اور امانت ہے ،اور یہ کہ اسے الوہی احکام ہی کی روشنی میں برتا جا سکتا ہے۔آج کا انسان آزاد ہو گیا ہے اور جمہوری حکومتوں کی تو اولین ذمے داری ہی یہ ہے کہ وہ فرد کی آزادی کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ان کا کہنا ہے کہ مغرب ابھی اتنا ''لبرل'' نہیں ہو سکا جتنا اسے ہونا چاہیے۔اس حوالے سے سوئزر لینڈکی مثال بھی دی جاتی ہے کہ دیگر مغربی ممالک کی طرح پہلے وہاں بھی کم آزادی تھی اور خودکشی کی اجازت نہیں تھی آج وہاں فرد کے اس حق کو مانتے ہوئے یہ اجازت دے دی گئی ہے۔اسی بنا پر وہاں ''سوسائڈ ٹورزم'' کا فروغ ہو رہا ہے۔آج وہاں ایسی دکانیں کھل گئی ہیں جہاں مناسب پیسوں کے عوض خود کشی میں مدد فراہم کی جاتی ہے۔لوگ دور دور سے اس مقصد کے لیے وہاں آتے ہیں اور اس سے سوئزر لینڈ کی معیشت کو بھی فائدہ ہو رہا ہے۔ ان افراد کو امید ہے کہ مغرب ابھی مزید آزاد ہو گا اور جلد ہی وہاں شخصی آزادی حاصل ہو گی اور جو چاہے گا اپنے اعضا فروخت کر سکے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں