ہم تو شرمندہ ہیں…
کسی نے وزیراعلیٰ کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیا تو کسی نے وزیر با تدبیر کو ہٹانے کے لیے زور دیا
گزشتہ دو ہفتوں سے بیشتر اخبارات کے ادارتی صفحات پر جو کالم شایع ہوئے ہیں ان میں زیادہ تر تھر کے ناگفتہ بہ حالات پر لکھے گئے ہیں اور لکھے بھی جانا چاہیے تھے۔ آخر ہم ایک زندہ قوم ہیں، اپنے ہم وطنوں کے دکھ اور پریشانی کو نہ صرف محسوس کرتے ہیں بلکہ اس کا اظہار کرنے پر بھی قادر ہیں۔ اس لیے تھر کے حالات پر کوئی گوشہ اور کوئی زاویہ ایسا نہیں بچا کہ جس کو منظر عام پر نہ لایا گیا ہو۔ وفاقی، صوبائی حکومتوں، وزراء، متعلقہ افسران، ذمے داران اس علاقے کی روحانی شخصیات ان کے ووٹوں سے اسمبلیوں میں نشستیں حاصل کرنے والے سیاست دانوں کا کردار اور غیر ذمے دارانہ رویے سب ہی پر کھل کر تنقید ہوچکی ہے۔
کسی نے وزیراعلیٰ کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیا تو کسی نے وزیر با تدبیر کو ہٹانے کے لیے زور دیا۔ زیادہ شور تھر میں مرنے والوں خاص کر بچوں کی لاشوں پر پر تکلف دعوت اڑانے پر مچایا گیا جو بڑی حد تک بلکہ حقیقت میں درست بھی ہے ایک با اختیار بی بی نے فرمایا کہ بھوک سے تو صرف ایک بچہ مرا ہے باقی تو بیماری سے ہلاک ہوئے۔ گویا بیماریوں سے بچوں کو بچانا یا علاج کا بروقت مناسب بندوبست کرنا حکومتی ذمے داریوں میں شامل نہیں؟ ہمارے ایک وزیر صاحب نے ہیلی کاپٹر سے متاثرہ علاقے کا جائزہ لے کر کہا کہ اب تھر کے حالات اتنے بھی خراب نہیں جتنا شور مچایا جارہاہے۔ ان تمام تحریروں سے جو حقائق پر مبنی اور لکھنے والوں کی دل کی آواز ہیں جو نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں ان میں سب سے اہم ایک ہی نتیجے کا ذکر کروںگی ۔وہ یہ ہے کہ ہم اخلاقی و تہذیبی طورپر (بڑی منظم کوششوں سے) ضمیر مردہ قوم میں ڈھل چکے ہیں اور اب تباہی کے اس موڑ پر پہنچ گئے ہیں جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نکلتا ہی نہیں۔
ہم سب نے خوب ایک دوسرے کو اس المیے کے ذمے دار قرار دیا، ہر ایک پر انگلی اٹھائی، ہر اک کی بے ضمیری کا شور مچایا، ہر کسی کی پگڑی اچھالی مگر اپنے گریبان میں جھانکنے کی کسی نے بھی زحمت گوارا نہ کی۔ کیا کسی بھی قومی سانحے یا المیے میں قوم کا ہر فرد اپنا اپنا کردار درست انداز میں ادا کرکے اس کو ختم نہیں تو اس کی شدت کو کم نہیں کرسکتا؟ اور کیا ہم اپنی انفرادی ذمے داری سے دوسروں کو مطعون قرار دے کر سبکدوش ہوسکتے ہیں؟ آپ سوچ رہے ہوںگے کہ یہ میں کیا کہہ رہی ہوں؟ جی ہاں اس سانحے میں ہم سب برابر کے شریک اور ذمے دار ہیں۔ آئیے میں آپ کو بتاتی ہوں کہ وہ کیسے؟
گزشتہ ہفتے جب تھر کا المیہ اپنے عروج پر تھا ،ان ہی دنوں ہمارے ایک جاننے والے کی بیٹی کی شادی تھی جس میں ہم بھی مدعو تھے۔ میں نے اپنی بیٹی اور شوہر کو بھیج دیا اور خود اپنے کئی ملتوی شدہ کاموں کو نمٹانے کے لیے گھر پر ہی رہی۔ بہر حال اس تقریب کا جو احوال اپنی بیٹی کی زبانی سنا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ جگہ جہاں شادی کی تقریب منعقد ہوئی کئی لاکھ میں بک کرائی گئی تھی۔ لباس (دلہا دلہن اور تمام گھر والوں کے) اور زیورات کے علاوہ کھانے پینے پر جو اخراجات ہوئے ہوںگے وہ لاکھوں میں نہیں بلکہ کروڑوں تک پہنچے ہوںگے (کارڈ ہی کئی سو کا تھا) ہر مہمان کی پہلے رنگ برنگے مشروبات سے تواضع ہوئی، موسیقی، وڈیوز اور فوٹو گرافی وغیرہ کے اخراجات کے علاوہ اسٹیج کی سجاوٹ ہزاروں کی تھی اب آتے ہیں کھانے کی طرف، ڈشز کی تعداد شمار کرنے کا کسی کے پاس وقت نہ تھا، کئی اقسام کے چاول، درجن بھر ذائقوں کے سالن، کئی انداز کے کباب، مرغی، مچھلی، بکرا، دنبہ غرض ہر قسم کے گوشت کی کئی ڈشز کم از کم ایک درجن اقسام کے میٹھے موجود تھے ۔
ہر مہمان اپنی حیثیت کے مطابق نہیں بلکہ میزبان کی حیثیت کو مد نظر رکھ کر قیمتی سے قیمتی تحائف لے کر آیا تھا۔ اسٹیج کے علاوہ پورے ہال کی سجاوٹ بھی قابل دید تھی جس پر بے دریغ خرچ کیا گیا تھا۔ غرض یہ کہ لگ رہا تھا کہ ہم کسی مغل شہنشاہ کے یہاں تقریب میں شریک ہیں بلکہ ان بے چاروں کے پاس تو یہ قیمتی جدید سہولیات تھیں ہی نہیں۔ یہ سب اپنی جگہ مگر جو افسوس ناک صورت حال ہے وہ یہ کہ ایک جانب ہمارے ہی صوبے کے ایک علاقے کے لوگ بھوک اور قحط سے مررہے ہیں اور دوسری جانب جو کھانا لوگ پلیٹوں میں بچا ہوا چھوڑ رہے تھے وہ ہی اتنا تھا کہ تھر کے قحط زدہ لوگوں کا دو وقت پیٹ بھرسکتا تھا۔ ان تمام اخراجات کے علاوہ جو جہیز دیا گیا وہ بھلا کتنا اور کتنے روپوں کا ہوگا؟
اب آپ بتائے کہ ملک میں غربت و افلاس بلا غذا اور دوا مرنے والوں کی ذمے داری براہ راست ہم سب پر عائد نہیں ہوتی؟ پیسے والوں سے لے کر کم حیثیت والے تک سب اپنی حیثیت سے بڑھ کر ایک ایک شادی پر جو لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں، جہیز کے نام پر لڑکی ہی کو نہیں بلکہ لڑکے والوں کو بھی جو قیمتی چیزیں بطور تحفہ دی جاتی ہیں ،جب کہ کئی افراد کو کئی کئی بچوں کی شادی کرنی ہوتی ہے، تو کیا یہ سب اگر کفایت شعاری اختیار کی جائے تو ہماری قومی ترقی، تعلیم، طبی سہولتوں اور غربت کم کرنے میں معاون نہیں ہوسکتی؟ کیا ہمارے مذہبی، سیاسی اور سماجی و فلاحی کرتا دھرتائوں نے کبھی اس بے جا نمود و نمائش فضول خرچی کے خلاف کوئی ایسی موثر تحریک چلائی جیسی وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے چلاتے ہیں ۔کیا آج کے کم از کم پڑھے لکھے با شعور لڑکوں نے خود کبھی کوشش کی کہ وہ شادی کی پہلی شرط سادگی اور جہیز نہ لینے کو قرار دیںگے۔
نمود و نمائش کے حامی افراد کے پاس بے شمار دلائل ہیں کہ اس طرح نئے جوڑے کو نئی زندگی کی شروعات کرنے میں مدد ملتی ہے وہ تو چلیے ضروری اشیا بطور جہیز دینے سے مدد ہوتی ہوگی مگر شادی کی تقریبات اور دیگر غیر ضروری رسومات پر اتنا خرچ کرنے سے کس کا بھلا ہوتا ہے؟ مگر میرے خیال میں غیرت مند لڑکے خود اپنی قوت بازو پر بھروسہ کرتے ہیں سسرال کے دیے ہوئے پر نہیں۔ ایسی کئی مثالیں خود میرے مشاہدے میں آچکی ہیں یہ تو صرف ایک شادی کا ذکر ہے ایسی اور اس سے بھی بڑھ کر اعلیٰ پیمانے پر یا اس سے کچھ کم درجے پر ہونے والی شادیوں کی تعداد صرف شہر کراچی میں ہر ہر روز سیکڑوں سے تجاوز کرجاتی ہے، ذرا سب کا تخمینہ لگائے کہ ہم کتنا روپیہ برباد کرتے ہیں اور ہاں شادی ہی کیا عقیقہ ، بسم اﷲ، ختم شریف، سوئم، چہلم غرض اور کئی طرح کے بلا جواز اخراجات ہم خود بھی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کرنے پر اکساتے ہیں۔ تو کیا ہم سب ہی اس جرم میں برابر کے شریک نہیں ہیں۔
تھر کے حالات پر شاید کسی نے اس زاویے سے غور نہیں کیا۔ خود احتسابی کو اگر شعار بنایا جائے بجائے دوسروں کو مورد الزام قرار دینے کے تو کافی مثبت نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ مگر کیا کریں کہ ہم خدا کے علاوہ ہر شخص سے اور معاشرے سے ڈرتے ہیں، ہمارے ذہن میں یہی رہتا ہے کہ لوگ کیا کہیںگے؟ خوف خدا دل میں ہو اور نیت میں خلوص تو ہم تباہی کے موڑ پر پہنچ کر بھی واپسی کا راستہ ڈھونڈ سکتے ہیں۔
کسی نے وزیراعلیٰ کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیا تو کسی نے وزیر با تدبیر کو ہٹانے کے لیے زور دیا۔ زیادہ شور تھر میں مرنے والوں خاص کر بچوں کی لاشوں پر پر تکلف دعوت اڑانے پر مچایا گیا جو بڑی حد تک بلکہ حقیقت میں درست بھی ہے ایک با اختیار بی بی نے فرمایا کہ بھوک سے تو صرف ایک بچہ مرا ہے باقی تو بیماری سے ہلاک ہوئے۔ گویا بیماریوں سے بچوں کو بچانا یا علاج کا بروقت مناسب بندوبست کرنا حکومتی ذمے داریوں میں شامل نہیں؟ ہمارے ایک وزیر صاحب نے ہیلی کاپٹر سے متاثرہ علاقے کا جائزہ لے کر کہا کہ اب تھر کے حالات اتنے بھی خراب نہیں جتنا شور مچایا جارہاہے۔ ان تمام تحریروں سے جو حقائق پر مبنی اور لکھنے والوں کی دل کی آواز ہیں جو نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں ان میں سب سے اہم ایک ہی نتیجے کا ذکر کروںگی ۔وہ یہ ہے کہ ہم اخلاقی و تہذیبی طورپر (بڑی منظم کوششوں سے) ضمیر مردہ قوم میں ڈھل چکے ہیں اور اب تباہی کے اس موڑ پر پہنچ گئے ہیں جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نکلتا ہی نہیں۔
ہم سب نے خوب ایک دوسرے کو اس المیے کے ذمے دار قرار دیا، ہر ایک پر انگلی اٹھائی، ہر اک کی بے ضمیری کا شور مچایا، ہر کسی کی پگڑی اچھالی مگر اپنے گریبان میں جھانکنے کی کسی نے بھی زحمت گوارا نہ کی۔ کیا کسی بھی قومی سانحے یا المیے میں قوم کا ہر فرد اپنا اپنا کردار درست انداز میں ادا کرکے اس کو ختم نہیں تو اس کی شدت کو کم نہیں کرسکتا؟ اور کیا ہم اپنی انفرادی ذمے داری سے دوسروں کو مطعون قرار دے کر سبکدوش ہوسکتے ہیں؟ آپ سوچ رہے ہوںگے کہ یہ میں کیا کہہ رہی ہوں؟ جی ہاں اس سانحے میں ہم سب برابر کے شریک اور ذمے دار ہیں۔ آئیے میں آپ کو بتاتی ہوں کہ وہ کیسے؟
گزشتہ ہفتے جب تھر کا المیہ اپنے عروج پر تھا ،ان ہی دنوں ہمارے ایک جاننے والے کی بیٹی کی شادی تھی جس میں ہم بھی مدعو تھے۔ میں نے اپنی بیٹی اور شوہر کو بھیج دیا اور خود اپنے کئی ملتوی شدہ کاموں کو نمٹانے کے لیے گھر پر ہی رہی۔ بہر حال اس تقریب کا جو احوال اپنی بیٹی کی زبانی سنا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ جگہ جہاں شادی کی تقریب منعقد ہوئی کئی لاکھ میں بک کرائی گئی تھی۔ لباس (دلہا دلہن اور تمام گھر والوں کے) اور زیورات کے علاوہ کھانے پینے پر جو اخراجات ہوئے ہوںگے وہ لاکھوں میں نہیں بلکہ کروڑوں تک پہنچے ہوںگے (کارڈ ہی کئی سو کا تھا) ہر مہمان کی پہلے رنگ برنگے مشروبات سے تواضع ہوئی، موسیقی، وڈیوز اور فوٹو گرافی وغیرہ کے اخراجات کے علاوہ اسٹیج کی سجاوٹ ہزاروں کی تھی اب آتے ہیں کھانے کی طرف، ڈشز کی تعداد شمار کرنے کا کسی کے پاس وقت نہ تھا، کئی اقسام کے چاول، درجن بھر ذائقوں کے سالن، کئی انداز کے کباب، مرغی، مچھلی، بکرا، دنبہ غرض ہر قسم کے گوشت کی کئی ڈشز کم از کم ایک درجن اقسام کے میٹھے موجود تھے ۔
ہر مہمان اپنی حیثیت کے مطابق نہیں بلکہ میزبان کی حیثیت کو مد نظر رکھ کر قیمتی سے قیمتی تحائف لے کر آیا تھا۔ اسٹیج کے علاوہ پورے ہال کی سجاوٹ بھی قابل دید تھی جس پر بے دریغ خرچ کیا گیا تھا۔ غرض یہ کہ لگ رہا تھا کہ ہم کسی مغل شہنشاہ کے یہاں تقریب میں شریک ہیں بلکہ ان بے چاروں کے پاس تو یہ قیمتی جدید سہولیات تھیں ہی نہیں۔ یہ سب اپنی جگہ مگر جو افسوس ناک صورت حال ہے وہ یہ کہ ایک جانب ہمارے ہی صوبے کے ایک علاقے کے لوگ بھوک اور قحط سے مررہے ہیں اور دوسری جانب جو کھانا لوگ پلیٹوں میں بچا ہوا چھوڑ رہے تھے وہ ہی اتنا تھا کہ تھر کے قحط زدہ لوگوں کا دو وقت پیٹ بھرسکتا تھا۔ ان تمام اخراجات کے علاوہ جو جہیز دیا گیا وہ بھلا کتنا اور کتنے روپوں کا ہوگا؟
اب آپ بتائے کہ ملک میں غربت و افلاس بلا غذا اور دوا مرنے والوں کی ذمے داری براہ راست ہم سب پر عائد نہیں ہوتی؟ پیسے والوں سے لے کر کم حیثیت والے تک سب اپنی حیثیت سے بڑھ کر ایک ایک شادی پر جو لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں، جہیز کے نام پر لڑکی ہی کو نہیں بلکہ لڑکے والوں کو بھی جو قیمتی چیزیں بطور تحفہ دی جاتی ہیں ،جب کہ کئی افراد کو کئی کئی بچوں کی شادی کرنی ہوتی ہے، تو کیا یہ سب اگر کفایت شعاری اختیار کی جائے تو ہماری قومی ترقی، تعلیم، طبی سہولتوں اور غربت کم کرنے میں معاون نہیں ہوسکتی؟ کیا ہمارے مذہبی، سیاسی اور سماجی و فلاحی کرتا دھرتائوں نے کبھی اس بے جا نمود و نمائش فضول خرچی کے خلاف کوئی ایسی موثر تحریک چلائی جیسی وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے چلاتے ہیں ۔کیا آج کے کم از کم پڑھے لکھے با شعور لڑکوں نے خود کبھی کوشش کی کہ وہ شادی کی پہلی شرط سادگی اور جہیز نہ لینے کو قرار دیںگے۔
نمود و نمائش کے حامی افراد کے پاس بے شمار دلائل ہیں کہ اس طرح نئے جوڑے کو نئی زندگی کی شروعات کرنے میں مدد ملتی ہے وہ تو چلیے ضروری اشیا بطور جہیز دینے سے مدد ہوتی ہوگی مگر شادی کی تقریبات اور دیگر غیر ضروری رسومات پر اتنا خرچ کرنے سے کس کا بھلا ہوتا ہے؟ مگر میرے خیال میں غیرت مند لڑکے خود اپنی قوت بازو پر بھروسہ کرتے ہیں سسرال کے دیے ہوئے پر نہیں۔ ایسی کئی مثالیں خود میرے مشاہدے میں آچکی ہیں یہ تو صرف ایک شادی کا ذکر ہے ایسی اور اس سے بھی بڑھ کر اعلیٰ پیمانے پر یا اس سے کچھ کم درجے پر ہونے والی شادیوں کی تعداد صرف شہر کراچی میں ہر ہر روز سیکڑوں سے تجاوز کرجاتی ہے، ذرا سب کا تخمینہ لگائے کہ ہم کتنا روپیہ برباد کرتے ہیں اور ہاں شادی ہی کیا عقیقہ ، بسم اﷲ، ختم شریف، سوئم، چہلم غرض اور کئی طرح کے بلا جواز اخراجات ہم خود بھی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کرنے پر اکساتے ہیں۔ تو کیا ہم سب ہی اس جرم میں برابر کے شریک نہیں ہیں۔
تھر کے حالات پر شاید کسی نے اس زاویے سے غور نہیں کیا۔ خود احتسابی کو اگر شعار بنایا جائے بجائے دوسروں کو مورد الزام قرار دینے کے تو کافی مثبت نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ مگر کیا کریں کہ ہم خدا کے علاوہ ہر شخص سے اور معاشرے سے ڈرتے ہیں، ہمارے ذہن میں یہی رہتا ہے کہ لوگ کیا کہیںگے؟ خوف خدا دل میں ہو اور نیت میں خلوص تو ہم تباہی کے موڑ پر پہنچ کر بھی واپسی کا راستہ ڈھونڈ سکتے ہیں۔