تھر کی صورت حال اصل حقائق

صوبہ سندھ میں واقع صحرائے تھر دراصل عظیم صحرائے ہند کا حصہ ہے۔

صحرائے تھر میں خشک سالی و قحط کی صورت حال اور وہاں جاری امدادی سرگرمیوں کے بارے میں بعض حلقوں کی جانب سے ایک منصوبہ بندی کے تحت غلط تصورات پیدا کیے گئے ہیں اور یہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ سندھ حکومت نہ صرف اس صورت حال کی ذمے دار ہے بلکہ امدادی سرگرمیوں میں بھی اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کر رہی ہے۔ ایسے تصورات کی ترویج اور پروپیگنڈہ کے پس پردہ خطرناک عزائم پوشیدہ ہیں، جن کا تعلق تھر کے مستقبل اور پاکستان کی موجودہ سیاست سے ہے۔ ان عزائم کا فی الحال تذکرہ مناسب نہیں ہے لیکن تھر کے حوالے سے کچھ حقائق کا پیش کرنا ضروری ہے۔

صوبہ سندھ میں واقع صحرائے تھر دراصل عظیم صحرائے ہند کا حصہ ہے۔ یہ عظیم صحرا 77 ہزار مربع میل ( تقریباً دو لاکھ مربع کلو میٹر ) پر پھیلا ہوا ہے۔ بھارت کا راجستھان اور پنجاب کا چولستان بھی اسی عظیم صحرا کا حصہ ہیں۔ جب بارشیں نہیں ہوتی ہیں تو صحراؤں میں خشک سالی اور کبھی کبھی قحط کی صورت حال بھی پیدا ہو تی ہے۔ ریگستانی علاقوں کو ہر دو تین سال بعد ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان علاقوں میں آبادیاں بکھری ہوئی اور طویل فاصلوں پر ہیں۔ یہاں پانی کا سب سے بڑا وسیلہ کنویں اور ٹوبھے ( چھوٹے تالاب) ہیں۔ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے کنووں کا پانی بہت نیچے چلا جاتا ہے اور زہریلا ہوجاتا ہے اور ٹوبھے خشک ہو جاتے ہیں۔ اس صورت حال میں وہاں کے باشندے نہری علاقوں کی طرف نقل مکانی کرتے ہیں۔ موسم، نقل مکانی اور ماحول میں تبدیلی کے اثرات کی وجہ سے لوگوں کو متعدد قسم کی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس مرتبہ زیادہ سردی کی وجہ سے بچوں کو نمونیا ہوگیا۔

دور دراز علاقوں میں رہنے والے یہاں کے لوگ اسپتالوں میں اس وقت پہنچتے ہیں، جب کسی مریض کی حالت بہت زیادہ خراب ہو جاتی ہے۔ جہاں تک غذائی قلت کا مسئلہ ہے، اس سے صرف تھر کے لوگ ہی نہیں بلکہ حال ہی میں جاری ہونے والی نیشنل نیوٹریشن سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 40 فیصد سے زیادہ آبادی غذائی قلت کے باعث مختلف بیماریوں کا شکار ہیں اور 5 سال سے کم عمر 35 فیصد بچے سالانہ غذائی قلت کے باعث مر جاتے ہیں، جو کہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ اس صورت حال کی ذمے دار سندھ حکومت نہیں ہے بلکہ پاکستان کے وہ اصل حکمران ہیں، جنھوں نے گزشتہ 67 سال سے پاکستان کے اکثر علاقوں خصوصاً صحرائی علاقوں کو پسماندہ اور بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا۔ ماضی میں تھر کو بہت نظر انداز کیا گیا۔ اس زیادتی اور ناانصافی کے خلاف پیپلز پارٹی طویل عرصے سے جدوجہد کر رہی ہے اور قربانیاں دے رہی ہے۔


پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھر میں تھوڑے تھوڑے وقفے سے پیدا ہونے والی اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہمیشہ پہلے سے تیار ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے گذشتہ پانچ سال کے دوران 2009 میں ایسی صورت حال پیدا ہوئی تھی اور لوگوں کو پتہ بھی نہیں چلا تھا۔ تھر کے لوگوں کی ہنگامی بنیاد پر ساری ضرورتیں پوری کی گئی تھیں۔ 2010 کے سیلاب اور 2011 کی بارشوں میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت نے مجموعی طور پر 2 کروڑ متاثرین کو نہ صرف ہنگامی امداد مہیا کی بلکہ ان کی بحالی اور آبادکاری کا بھی ایک عظیم کارنامہ انجام دیا۔ جس طرح پیپلز پارٹی کی حکومت نے قدرتی آفات میں سندھ کے لوگوں کا ساتھ دیا اس طرح لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ تھر کی موجودہ صورت حال کے بارے میں بھی سندھ حکومت پہلے سے تیار تھی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ کو لوگوں میں گندم مفت تقسیم کرنے کے لیے وہاں پہنچا دی گئی تھی۔ انسانوں اور لائیو اسٹاک کو ممکنہ بیماریوں کے تدارک کے لیے بھی پہلے سے انتظامات موجود تھے لیکن ضلعی انتظامیہ کی کوتاہی کی وجہ سے کچھ افسوس ناک واقعات رونما ہوئے کیونکہ ضلعی انتظامیہ نے صوبائی حکومت کو صورت حال سے بروقت آگاہ نہیں کیا تھا ۔

حکومت سندھ نے اس حوالے سے دو تحقیقاتی کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں، جو ذمے داری کا تعین کریں گی اور غفلت کے مرتکب افرادکے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ افسران کی کوتاہی کے واقعات دیگر صوبوں میں بھی ہوتے رہتے ہیں۔ ان واقعات پر سخت ایکشن ہونا چاہیے۔ حکومت سندھ کی طرف سے42 کروڑ روپے کی لاگت سے ایک لاکھ 20 ہزار گندم کی بوریاں مفت تقسیم کرنے کا کام تیزی سے جاری ہے اور تادم تحریر نصف سے زائد گندم کی بوریاں تقسیم کردی گئی ہیں۔ حکومت سندھ نے قحط سالی سے متاثرہ 2 لاکھ 59 ہزار خاندانوں کو گندم کی فراہمی ہر صورت میں یقینی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ کراچی اور حیدر آباد سے دو درجن سے زائد ماہر ڈاکٹروں کی ٹیمیں بھی مٹھی، ڈیپلو، چھاچھرو اور دیگر دور دراز علاقوں میں بھیجی گئی ہیں۔ دیگر اضلاع سے بھی موبائل ڈسپینسریز ان علاقوں تک پہنچائی گئی ہیں، جہاں پہنچنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ تھر پارکر میں اس وقت تمام اسپتالوں میں ڈاکٹروں، پیرا میڈیکل اسٹاف اوردواؤں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ بنیادی مراکز صحت اور موبائل ڈسپینسریز بھی مکمل کام کر رہی ہیں۔

وفاق، دیگر صوبوں اور بین الاقوامی و ملکی اداروں کو امدادی سرگرمیوں میں مکمل تعاون اور سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ حکومت سندھ نے فوری طور پر تھر کے متاثرین کی امداد کے لیے بجٹ سے ہٹ کر ایک ارب روپے سے زائد کی رقم جاری کردی ہے۔ 42 کروڑ روپے کی گندم کے علاوہ صوبائی محکمہ ریلیف کو 40 کروڑ روپے، پروونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو 20 کروڑ روپے، دواؤں کے لیے محکمہ صحت کو 5 کروڑ روپے اور محکمہ لائیو اسٹاک کو 4 کروڑ روپے سے زائد کی رقم جاری کی گئی ہے۔ محکمہ لائیواسٹاک کی 15 ٹیمیں یومیہ 50 ہزار جانوروں کا علاج معالجہ اور ویکسی نیشن کر رہی ہیں جبکہ مزید 5 لاکھ ویکسین وائلز بھی مہیا کر دیے گئے ہیں۔ جانوروں کو چارہ فراہم کرنے کے لیے خصوصی ٹرکوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ حکومت سندھ نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ تھر کے لوگوں کی مدد کے لیے اگر ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کرنا پڑی تو کرلی جائے گی، تھر کے لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے تھر پارکر کو آفت زدہ علاقہ قرار دینے کے بعد اس کے لیے خصوصی فنڈز کا بھی اعلان کیا ہے ۔

جہاں تک تھر کی طویل المیعاد ترقی کے لیے منصوبہ بندی کا تعلق ہے حکومت سندھ اس ضمن میں بہت پہلے سے اقدامات کر رہی ہے اور کئی منصوبوں پر کام بھی ہو رہا ہے ۔ تھر میں سڑکیں اور دیگر انفرا اسٹرکچر کی تعمیر پیپلز پارٹی کے دور میں ہی شروع ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی نے ہی بھارت کے ساتھ سرحدی علاقے میں اسلام کوٹ سے گھوٹکی تک شاہراہ تعمیر کرنے کا ایک منصوبہ بنایا ہے ، جس سے اس علاقے کی قسمت بدل جائے گی۔ موجودہ صورت حال میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھر کے عوام کی جو خدمت کر رہی ہے اس سے پیپلز پارٹی اور تھر کے لوگوں میں رشتہ اور زیادہ مضبوط ہوگا۔
Load Next Story