دنیا ہم کو کیسے دیکھتی ہے
متاثرہ افراد سیلاب زدہ علاقوں سے دور چلے گئے ہیں ، لیکن امدادی کوششوں کا مسئلہ ہے
پاکستان آج کل معاشی بحرانوں، سیاسی بدامنی اور اب تباہ کن اور مہلک سیلاب سے دوچار ہے۔ اس ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عالمی رہنما جمع ہوئے، اقوام متحدہ نے تخمینہ پیش کیا کہ پاکستان کے تباہ کن سیلاب نے اب تک تقریباً 80 لاکھ افراد کو بے گھر کر دیا ہے ، جس کے نتیجے میں صحت کے مسائل پیدا ہوگئے ہیں، سیلابی پانی نے ہیضہ، ملیریا اور ڈنگی بخار کی وباء کو جنم دیا ہے۔
ہزاروں حاملہ خواتین اور 30 لاکھ سے زائد بچوں کو فوری دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔ حکام کا اندازہ ہے کہ سیلابی پانی کو مکمل طور پر ختم ہونے میں چھ ماہ تک کا وقت لگ سکتا ہے۔ یہ رپورٹ امریکی تھنک ٹینک ولسن سینٹر کے محقق مائیکل کوگل مین نے اپنے ادارے کو پیش کی ہے جو ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور جنوبی ایشیا کے لیے سینئر ایسوسی ایٹ اور افغان امور کے سرکردہ ماہر ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ میں نے گزشتہ ہفتے پاکستان کا دورہ کیا۔ صورت حال کو دیکھ کر میں دل شکستہ تھا ، حالات بہت خراب تھے میں نے یہ اندازہ لگایا کہ پاکستان کو اس مشکل سے نکلنے میں بہت سی مشکلات ہیں پاکستان کی نظریں اس وقت عالمی برادری پر ہیں اور اس نے مزید بین الاقوامی امداد کے لیے اپنی امیدیں لگا لی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ اس کے کریڈٹ پر، پاکستان کی حکومت اس بحران سے نمٹنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔
میں نے نیشنل فلڈ رسپانس اینڈ کوآرڈینیشن سینٹر کا دورہ کیا، جو اسلام آباد کے سیلاب کے ردعمل کا انتظام کر رہا ہے اور پرعزم عملے سے ملاقات کی جو امدادی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ مرکز بین الاقوامی امداد کے بارے میں تفصیلی اعداد و شمار کے ساتھ فراہم کردہ امداد اور یہ کہاں جا رہی ہے کے بارے میں معلومات کو اکثر اپ ڈیٹ کرتا ہے ، لیکن بنیادی پیغام یہ تھا '' ہمیں مدد کی ضرورت ہے۔'' نیشنل فلڈ رسپانس اینڈ کوآرڈینیشن سینٹر میں، میں نے سیلاب سے متاثرہ درجنوں علاقوں کی فضائی تصویریں بنائیں، جہاں زرعی زمین جھیلوں میں تبدیل ہو چکی ہے۔
مجھے بتایا گیا کہ اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان نے بڑے پیمانے پر امدادی سرگرمیاں مکمل کر لی ہیں، متاثرہ افراد سیلاب زدہ علاقوں سے دور چلے گئے ہیں ، لیکن امدادی کوششوں کا مسئلہ ہے ، اگرچہ لوگ اب اونچی جگہ پر ہیں، لیکن انھیں کافی خوراک، رہائش، یا صحت کی دیکھ بھال نہیں مل رہی ہے۔ صحافیوں نے مجھے بتایا کہ انھوں نے بہت سے بے گھر پاکستانیوں سے بات کی ہے۔
جنھوں نے کہا کہ انھیں کوئی امداد نہیں ملی ہے ، جن لوگوں سے میں نے بات کی ان میں سے کچھ نے اس بات پر اصرار کیا کہ پاکستان کو صرف امداد کی بھیک نہیں مانگنی چاہیے، بلکہ اسے سیلاب کے بحران کو بھی ایک ویک اپ کال کے طور پر لینا چاہیے تاکہ ماحولیاتی نظم و نسق کو مضبوط کیا جا سکے تاکہ مستقبل کے ہنگامی حالات میں نقصان کو کم کیا جا سکے۔ امریکی محقق کا یہ تجزیہ بہت خطرناک ہے۔
پاکستان کے اندر اب جو کچھ ہوتا ہے اس سے دنیا بے خبر نہیں رہتی اس وقت بھی دنیا یہ دیکھ رہی ہے کہ پاکستان نے ہاتھ پھیلائے ہیں تو رقم کہاں خرچ کی ہے۔ اس نے پاکستان آکر اس بات کا اندازہ لگایا ہے کہ تباہی سیلاب سے ہوئی ہے یا بد انتظامی سے کیونکہ مائیکل کا کہنا ہے کہ یہ تجویز پاکستانی سیاست دانوں کو پسند نہیں آئی ہے ، کیونکہ نہ تو پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور نہ ہی موسمیاتی تبدیلی کی وزیر شیری رحمان نے اندرون ملک پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے۔ دونوں کا تعلق صوبہ سندھ پر حکومت کرنے والی جماعت سے ہے، جو سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔
'' اب ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہماری حکومتوں کی کارکردگی دنیا کے سامنے ہے کوئی بھی مشکل ہو ہماری حکومتیں اور سیاست دان ہاتھ پھیلا دیتے ہیں۔'' مائیکل کہتا ہے کہ پاکستان نے مسلسل بین الاقوامی امداد کی اپیلیں کی ہیں۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان نے پاکستانی تارکین وطن سے سیلاب زدگان سے امداد کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے تین ٹیلی تھون منعقد کیے ہیں۔
امداد پہنچ تو رہی ہے لیکن شاید اتنی تیزی سے نہیں جتنی کہ اس کی ضرورت ہے۔ اشیاء کی فراہمی میں تعطل اور اجناس کی اونچی قیمتوں کے ساتھ ساتھ افغانستان اور یو کرین میں انسانی بحرانوں نے عالمی معیشت کو متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے عالمی سطح پر عطیہ دہندگان کی دلچسپی میں کمی آئی ہے ، یہ ایک حقیقی مسئلہ ہے۔ اس ہفتے، یونیسیف نے کہا کہ اس نے 39 ملین ڈالر کی اپیل کی تھی جس میں سے صرف ایک تہائی تک امداد پاکستان پہنچی ہے۔
مائیکل نے ہماری دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے اس نے پاکستان آکر دیکھا ہے کہ پاکستان میں اس شدید انسانی بحران میں بھی سیاسی کشیدگی اپنے عروج پر ہے ، سیاست دانوں کے نزدیک شاید سیاسی مفادات کی زیادہ اہمیت ہے ، لیکن ملک کی اقتصادی حالت اور قدرتی آفات کی کوئی اہمیت نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا بھی اس جانب کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے۔
ولسن سینٹر کے اس ریسرچر کی رپورٹ کو اگر حکومت پاکستان نے نظر انداز کیا تو یہ سوچ لیں کہ پاکستان کا جو امیج وہ بنائے گا وہی دنیا کے سامنے پختہ ہوجائے گا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس بحران سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ بین الاقوامی حمایت کی کمی نہیں ہے بلکہ ملک میں موجود سیاسی کشیدگی ہے، پاکستان کے سیاسی رہنما قومی مسائل کے حل پر متحد نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک مسائل ترجیح نہیں ہیں۔
مائیکل کا مشاہدہ ہے کہ سیلاب کے دوران، ملکی سیاست معمول کے مطابق آگے بڑھتی رہی ہے، حکومت اور عمران خان کے درمیان تلخ لڑائیاں جاری ہیں ، یہاں تک کہ ملک کا ایک تہائی رقبہ زیر آب ہے۔ وفاقی حکومت نے 29 ستمبر کو ہونے والے اہم ضمنی انتخابات کو معطل کرنے سے انکار کر دیا ہے اور خان نے سیاسی جلسوں کا انعقاد جاری رکھا ہوا ہے۔ خان اور ان کے حامیوں نے اصرار کیا ہے کہ سیلاب کی امداد کے لیے حکومت پر بھروسہ نہیں کیا جانا چاہیے، اور انھوں نے حکمراں اتحاد پر الزام لگایا ہے کہ وہ ان کے ٹیلی تھونز کی ترسیل پر پابندی لگانا چاہتے ہیں۔
مائیکل کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے انتہائی مصروف سربراہی اجلاس میں پاکستان کا سیلاب سرفہرست ایجنڈا رہا ہے۔ فرانس نے پاکستان کی مدد کے لیے ایک کانفرنس کی میزبانی کی پیشکش کی ہے، اور عالمی رہنما اور مشہور شخصیات شعور اجاگر کر رہے ہیں اور یکجہتی کا عہد کر رہے ہیں۔ پاکستان کو اکٹھے ہونے کی ضرورت ہے تاکہ وہ سیلاب کا موثر جواب دے سکے اور عالمی برادری سے یک آواز ہو کر بات کر سکے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ سیلاب کے بحران نے اس کی گہری تقسیم کو بڑھا دیا ہے۔
ہماری اپنے سیاسی رہنماؤں سے اپیل ہے وہ کسی ایک نکتے پر اکھٹے ہوں اور تمام سیاسی جماعتیں چاہے ان کی پارلیمنٹ میں نمایندگی ہے یا نہیں کم ہے یا زیادہ، انھیں چاہیے کہ وہ پاکستان کے مفادات کے لیے میثاق معیشت طے کرلیں۔