بدعنوان کون
حقیقت ہے کہ تمام پولیس یا کسٹم کے افسران بے ایمان اور بد عنوان نہیں ہوتے
چند دن قبل ایک سینئر صحافی کا ایک کالم مختلف سوشل میڈیا گروپس میں میری نظر سے بھی گذرا، جس میں انھوں نے شکاگو میں پاکستان کے کرپٹ پولیس افسران ، کسٹمز افسران اور دیگر بیوروکریٹس کی جائیدادوں سے متعلق کچھ ذکر کیا ہے۔
ان کی تحقیق بہت حد تک بالکل درست ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تمام پولیس یا کسٹم کے افسران بے ایمان اور بد عنوان نہیں ہوتے لیکن ان کی تعداد صرف انگلیوں پر ہی گنی جاسکتی ہے۔ ہم نے کچھ سینئر افسران کو ریٹائرمنٹ کے بعد پرائیویٹ جاب کرتے بھی دیکھا ہے۔
سینئر صحافی نے تو صرف پنجاب کے ایک ڈی آئی جی کا ذکر کیا جس کی شکاگو میں جائیدادیں ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم غیر جانبداری اور ایمانداری سے تحقیق کرتے تو ان کرپٹ بیورو کریٹس، پولیس اور کسٹم کے افسران کی اکثریت اس دو لاکھ روپے کے موبائل( جو اب شاید ڈھائی سے تین لاکھ کا ہو چکا ہے) کا بھی حساب نہیں دی سکتی جو ان کے استعمال میں ہوتا ہے۔
چونکہ لکھنے کی دنیا میں ابھی طفل مکتب ہوں اس لیے میں یہاں ایک بہت سینئر لکھاری کی تقلید کرتے ہوئے، کسی کانام لیے بغیر، سردست سندھ میں متعین رہنے والے صرف دو اعلیٰ پولیس افسران کی کرپشن کے چند کارنامے لکھنا چاہ رہا ہوں۔
لیکن صرف پولیس ہی نہیں دیگر تمام سرکاری محکموں کا یہی حال ہے،کسٹم، انکم ٹیکس ،محکمہ مال،محکمہ خوراک،ہائی وے سمیت کوئی بھی محکمہ کرپشن سے پاک نہیں۔ سندھ میں متعین ایک سابقہ اعلیٰ ترین پولیس افسر جو شاید نوے کی دہائی میں براہ راست پولیس میں بھرتی ہوئے تھے، گزشتہ دنوں امریکا کی ریاست ٹیکساس کے شہر فورٹ ورتھ میں اپنے نئے بنائے ہوئے عالیشان گھر میں شفٹ ہوئے ہیں۔ان کی ایک صاحبزادی امریکا کی ریاست ـ''الی نوائز'' کے مہنگے ترین کالج کی اسٹوڈنٹ ہیں۔اس کالج کی سالانہ فیس ایک محتاط اندازے کیمطابق ایک کروڑ چوبیس لاکھ پاکستانی روپے میں بنتی ہے۔
انھوں نے ٹیکساس کے ہی ایک ''کسینو'' میں بھی بڑی انویسٹمنٹ بھی کر رکھی ہے۔ اس کے علاوہ سندھ کے شہر بدین میں وہ ایک بڑے فارم ہاؤس کے مالک ہیں۔ کراچی میں کورنگی انڈسٹریل ایریا میں ان کی ایک چمڑے کی فیکٹری بھی تھی جو شاید امریکا شفٹ ہونے سے قبل انھوں نے بیچ دی ہے۔
اس کے علاوہ بھی ان کی کراچی اور اندرون سندھ میں بہت سے جائیدادیں ہیں، کیونکہ جس اعلیٰ عہدے پر وہ تقریباً دو سال براجمان رہے اس کی خواہش ہر پولیس افسر کے دل میں موجود رہتی ہے۔ ڈھنگ سے تحقیق کر لی جائے تو بہت آسانی سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ یہ سب پیسہ اور جائیدادیں انھوں نے اپنی پولیس سروس کے دوران ہی حاصل کی ہے۔
ایک اورایماندار اور با اصول اعلیٰ پولیس افسر ، جو کراچی میں اہم عہدوں پر براجمان رہے اورجنھیں اصول پسندی اور ایمانداری کی وجہ سے اپنے ماتحت افسران کو سزائیں دے کر ذہنی سکون ملتا ہے، لیکن در اصل یہ سزائیں دینے کا مقصد عوام میں اپنی نیک نامی اور ایمانداری کا ڈھونڈرا پیٹنا بھی مقصود ہے۔
میرے مشاہدے کیمطابق یہ افسر '' Personality clash'' کا شکار ہیں۔ ان کی ایمانداری کا یہ عالم ہے کہ ان کے بھی کراچی میں ایک سے زیادہ ''ڈیپارٹمنٹل اسٹورز'' ہیں جو سنا ہے انھوں نے اپنے بھائی کے نام پر رکھ چھوڑے ہیں۔
اس کے علاوہ ضلع غربی میں اپنے عہدے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے کچھ بلڈرز کے ساتھ ان کے پروجیکٹس میں خود کو پارٹنر بھی بنا لیا ۔ ماضی میں سرجانی ٹاؤن اور منگھوپیر کے علاقے میں اس ایماندار افسر کے ایک قریبی ڈی ایس پی کی سربراہی میں سرکاری زمینوں پر دھڑلے سے قبضے کروائے گئے۔ بعد ازاں وہی ڈی ایس پی خود بھی مکافات عمل کا شکار ہوا اور آج تک عتاب میں ہے۔ اسی ایماندار اعلیٰ افسر کا سپر ہائی وے پر ، ٹول پلازہ کے نزدیک ایک بڑا '' فارم ہاؤس'' بھی ہے۔ ان کا چھوٹا بھائی ان کے عہدے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گلستان جوہر میں فٹ پاتھ پر قبضے کروا کر ان سے ماہانہ وصول کرتا ہے۔
عزیز آباد میں ایک شادی ہال بھی ان کی ملکیت ہے۔ کراچی میں ان کا جو عالیشان بنگلہ بن رہا تھا اس کی دھوم تو کئی دنوں تک مختلف سوشل میڈیا گروپس پر رہی لیکن اداروں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔
اس کے علاوہ ان افسران کی ایک لمبی لسٹ ہے جن کے سی این جی پمپس اور پٹرول پمپس ہیں جو انھوں نے بڑی محنت سے اپنی ''تنخواہ'' کے پیسے جمع کر کے بنائے ہیں کیونکہ پمپس کا مالک ہونا اس محکمے میں ایک فیشن بن چکا ہے اس لیے کرپشن کے زمرے میں نہیں آتا۔ میری ان باتوں کو جانچنے کا ایک بہت آسان طریقہ ہے، کسی بھی بیوروکریٹ ، کسٹم افسر یا پولیس کے افسر کے اس کی اپائنٹمنٹ کے وقت جمع کروائے گئے ''اثاثہ جات کے گوشواروں'' کو اس کے موجودہ اثاثوں سے موازنہ کروا لیا جائے، لیکن سب سے دلچسپ بات یہ کہ یہ موازنہ کون کروائے ۔
ایس ایچ اوز کے امتحان کے دوران ، خواہش مند امیدواروں، سب انسپکٹرز اور انسپکٹرز سے زیادہ تر ایک ہی سوال کیا جاتا تھا کہ '' ایس ایچ او پیسے کیوں لیتا ہے'' گویا ایس ایچ ا و کے علاوہ پولیس میں اور کسی عہدے کے لوگ پیسے نہیں لیتے،تو پھر شاید اللہ تعالی جنات کو ہی ان '' ایماندار'' سرکاری افسران، خصوصا پولیس افسران کی مدد کے لیے بھیجتا ہو گا کہ جن کی مدد سے یہ اپنے پٹرول پمپس، سی این جی پمپس، فارم ہاوسز اور پاکستان میں اور بیرونی ممالک میں اپنی جائیدادیں بنا لیتے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ وہ پولیس افسران ہیں جو صرف اپنی ایمانداری اور اصول پسندی کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لیے اور یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ کرپشن کے کس قدر سخت خلاف ہے اپنے ماتحت افسران کو سخت سزائیں دینے کے عادی ہیں جس میں بیشتر افسران و ملازمان کی نوکری سے برطرفی بھی شامل ہے، جب کہ اگر دیانتداری سے تحقیق کی جائے تو یہ ثابت ہوجائے گاکہ ان کی اپنی جائیدادوںمیں اضافہ پولیس سروس میں آکر ہی ہوا ، لیکن جب سے نیب قوانین میں ترامیم کی گئی ہے تو ان تمام کرپٹ سرکاری افسران نے سکھ کا سانس لیا ہے۔
اب یو ں سمجھئے کہ یہ سب ''Safe Zone'' میں آ گئے ہیں۔ حقیقت بڑی تلخ ہے اور وہ یہ کہ جن '' اداروںــ'' نے ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنی ہے وہاں کون سے فرشتے بیٹھتے ہیں وہ سب کچھ جانتے بوجھتے بھی اپنی آنکھیں اور کان بند کر لیتے ہیں اور اس کے صلے میں وہ ان افسران سے ''اپنے مفادات'' کے کام لے لیتے ہیں۔
اور پھر وہ سیاستدان،جن کے سامنے ایسے کرپٹ بیوروکریٹس ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں اور ان کا ہر جائز اور ناجائز حکم مانتے ہیں، ان افسران کے خلاف کی جانیوالی کسی بھی کارروائی میں اپنے سیاسی اثر و رسوخ سے رکاوٹ ڈال دیتے ہیں اور اگر صرف پولیس ڈیپارٹمنٹ کا ہی جائزہ لیا جائے تو یہاں شاید ہی کسی ڈی ایس پی رینک یا اس سے اوپر کے افسران کے خلاف کرپشن کی مد میں کوئی کارروائی عمل میں لائی گئی ہو، لیکن اگر لکھنے کو کہا جائے تو اس موضوع پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے، اگر یہاں کوئی کرپٹ ہے تو وہ صرف سپاہی سے لے کر اور انسپکٹر رینک تک کے افسران و ملازمان، جنھیں سخت سزائیں دے کر یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ یہاں برائی صرف نچلی سطح تک ہی ہے، جب تک یہ دہر ا نظام انصاف چلتا رہے گا کچھ ٹھیک نہیں ہونے والا...
ان کی تحقیق بہت حد تک بالکل درست ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تمام پولیس یا کسٹم کے افسران بے ایمان اور بد عنوان نہیں ہوتے لیکن ان کی تعداد صرف انگلیوں پر ہی گنی جاسکتی ہے۔ ہم نے کچھ سینئر افسران کو ریٹائرمنٹ کے بعد پرائیویٹ جاب کرتے بھی دیکھا ہے۔
سینئر صحافی نے تو صرف پنجاب کے ایک ڈی آئی جی کا ذکر کیا جس کی شکاگو میں جائیدادیں ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم غیر جانبداری اور ایمانداری سے تحقیق کرتے تو ان کرپٹ بیورو کریٹس، پولیس اور کسٹم کے افسران کی اکثریت اس دو لاکھ روپے کے موبائل( جو اب شاید ڈھائی سے تین لاکھ کا ہو چکا ہے) کا بھی حساب نہیں دی سکتی جو ان کے استعمال میں ہوتا ہے۔
چونکہ لکھنے کی دنیا میں ابھی طفل مکتب ہوں اس لیے میں یہاں ایک بہت سینئر لکھاری کی تقلید کرتے ہوئے، کسی کانام لیے بغیر، سردست سندھ میں متعین رہنے والے صرف دو اعلیٰ پولیس افسران کی کرپشن کے چند کارنامے لکھنا چاہ رہا ہوں۔
لیکن صرف پولیس ہی نہیں دیگر تمام سرکاری محکموں کا یہی حال ہے،کسٹم، انکم ٹیکس ،محکمہ مال،محکمہ خوراک،ہائی وے سمیت کوئی بھی محکمہ کرپشن سے پاک نہیں۔ سندھ میں متعین ایک سابقہ اعلیٰ ترین پولیس افسر جو شاید نوے کی دہائی میں براہ راست پولیس میں بھرتی ہوئے تھے، گزشتہ دنوں امریکا کی ریاست ٹیکساس کے شہر فورٹ ورتھ میں اپنے نئے بنائے ہوئے عالیشان گھر میں شفٹ ہوئے ہیں۔ان کی ایک صاحبزادی امریکا کی ریاست ـ''الی نوائز'' کے مہنگے ترین کالج کی اسٹوڈنٹ ہیں۔اس کالج کی سالانہ فیس ایک محتاط اندازے کیمطابق ایک کروڑ چوبیس لاکھ پاکستانی روپے میں بنتی ہے۔
انھوں نے ٹیکساس کے ہی ایک ''کسینو'' میں بھی بڑی انویسٹمنٹ بھی کر رکھی ہے۔ اس کے علاوہ سندھ کے شہر بدین میں وہ ایک بڑے فارم ہاؤس کے مالک ہیں۔ کراچی میں کورنگی انڈسٹریل ایریا میں ان کی ایک چمڑے کی فیکٹری بھی تھی جو شاید امریکا شفٹ ہونے سے قبل انھوں نے بیچ دی ہے۔
اس کے علاوہ بھی ان کی کراچی اور اندرون سندھ میں بہت سے جائیدادیں ہیں، کیونکہ جس اعلیٰ عہدے پر وہ تقریباً دو سال براجمان رہے اس کی خواہش ہر پولیس افسر کے دل میں موجود رہتی ہے۔ ڈھنگ سے تحقیق کر لی جائے تو بہت آسانی سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ یہ سب پیسہ اور جائیدادیں انھوں نے اپنی پولیس سروس کے دوران ہی حاصل کی ہے۔
ایک اورایماندار اور با اصول اعلیٰ پولیس افسر ، جو کراچی میں اہم عہدوں پر براجمان رہے اورجنھیں اصول پسندی اور ایمانداری کی وجہ سے اپنے ماتحت افسران کو سزائیں دے کر ذہنی سکون ملتا ہے، لیکن در اصل یہ سزائیں دینے کا مقصد عوام میں اپنی نیک نامی اور ایمانداری کا ڈھونڈرا پیٹنا بھی مقصود ہے۔
میرے مشاہدے کیمطابق یہ افسر '' Personality clash'' کا شکار ہیں۔ ان کی ایمانداری کا یہ عالم ہے کہ ان کے بھی کراچی میں ایک سے زیادہ ''ڈیپارٹمنٹل اسٹورز'' ہیں جو سنا ہے انھوں نے اپنے بھائی کے نام پر رکھ چھوڑے ہیں۔
اس کے علاوہ ضلع غربی میں اپنے عہدے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے کچھ بلڈرز کے ساتھ ان کے پروجیکٹس میں خود کو پارٹنر بھی بنا لیا ۔ ماضی میں سرجانی ٹاؤن اور منگھوپیر کے علاقے میں اس ایماندار افسر کے ایک قریبی ڈی ایس پی کی سربراہی میں سرکاری زمینوں پر دھڑلے سے قبضے کروائے گئے۔ بعد ازاں وہی ڈی ایس پی خود بھی مکافات عمل کا شکار ہوا اور آج تک عتاب میں ہے۔ اسی ایماندار اعلیٰ افسر کا سپر ہائی وے پر ، ٹول پلازہ کے نزدیک ایک بڑا '' فارم ہاؤس'' بھی ہے۔ ان کا چھوٹا بھائی ان کے عہدے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گلستان جوہر میں فٹ پاتھ پر قبضے کروا کر ان سے ماہانہ وصول کرتا ہے۔
عزیز آباد میں ایک شادی ہال بھی ان کی ملکیت ہے۔ کراچی میں ان کا جو عالیشان بنگلہ بن رہا تھا اس کی دھوم تو کئی دنوں تک مختلف سوشل میڈیا گروپس پر رہی لیکن اداروں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔
اس کے علاوہ ان افسران کی ایک لمبی لسٹ ہے جن کے سی این جی پمپس اور پٹرول پمپس ہیں جو انھوں نے بڑی محنت سے اپنی ''تنخواہ'' کے پیسے جمع کر کے بنائے ہیں کیونکہ پمپس کا مالک ہونا اس محکمے میں ایک فیشن بن چکا ہے اس لیے کرپشن کے زمرے میں نہیں آتا۔ میری ان باتوں کو جانچنے کا ایک بہت آسان طریقہ ہے، کسی بھی بیوروکریٹ ، کسٹم افسر یا پولیس کے افسر کے اس کی اپائنٹمنٹ کے وقت جمع کروائے گئے ''اثاثہ جات کے گوشواروں'' کو اس کے موجودہ اثاثوں سے موازنہ کروا لیا جائے، لیکن سب سے دلچسپ بات یہ کہ یہ موازنہ کون کروائے ۔
ایس ایچ اوز کے امتحان کے دوران ، خواہش مند امیدواروں، سب انسپکٹرز اور انسپکٹرز سے زیادہ تر ایک ہی سوال کیا جاتا تھا کہ '' ایس ایچ او پیسے کیوں لیتا ہے'' گویا ایس ایچ ا و کے علاوہ پولیس میں اور کسی عہدے کے لوگ پیسے نہیں لیتے،تو پھر شاید اللہ تعالی جنات کو ہی ان '' ایماندار'' سرکاری افسران، خصوصا پولیس افسران کی مدد کے لیے بھیجتا ہو گا کہ جن کی مدد سے یہ اپنے پٹرول پمپس، سی این جی پمپس، فارم ہاوسز اور پاکستان میں اور بیرونی ممالک میں اپنی جائیدادیں بنا لیتے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ وہ پولیس افسران ہیں جو صرف اپنی ایمانداری اور اصول پسندی کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لیے اور یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ کرپشن کے کس قدر سخت خلاف ہے اپنے ماتحت افسران کو سخت سزائیں دینے کے عادی ہیں جس میں بیشتر افسران و ملازمان کی نوکری سے برطرفی بھی شامل ہے، جب کہ اگر دیانتداری سے تحقیق کی جائے تو یہ ثابت ہوجائے گاکہ ان کی اپنی جائیدادوںمیں اضافہ پولیس سروس میں آکر ہی ہوا ، لیکن جب سے نیب قوانین میں ترامیم کی گئی ہے تو ان تمام کرپٹ سرکاری افسران نے سکھ کا سانس لیا ہے۔
اب یو ں سمجھئے کہ یہ سب ''Safe Zone'' میں آ گئے ہیں۔ حقیقت بڑی تلخ ہے اور وہ یہ کہ جن '' اداروںــ'' نے ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنی ہے وہاں کون سے فرشتے بیٹھتے ہیں وہ سب کچھ جانتے بوجھتے بھی اپنی آنکھیں اور کان بند کر لیتے ہیں اور اس کے صلے میں وہ ان افسران سے ''اپنے مفادات'' کے کام لے لیتے ہیں۔
اور پھر وہ سیاستدان،جن کے سامنے ایسے کرپٹ بیوروکریٹس ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں اور ان کا ہر جائز اور ناجائز حکم مانتے ہیں، ان افسران کے خلاف کی جانیوالی کسی بھی کارروائی میں اپنے سیاسی اثر و رسوخ سے رکاوٹ ڈال دیتے ہیں اور اگر صرف پولیس ڈیپارٹمنٹ کا ہی جائزہ لیا جائے تو یہاں شاید ہی کسی ڈی ایس پی رینک یا اس سے اوپر کے افسران کے خلاف کرپشن کی مد میں کوئی کارروائی عمل میں لائی گئی ہو، لیکن اگر لکھنے کو کہا جائے تو اس موضوع پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے، اگر یہاں کوئی کرپٹ ہے تو وہ صرف سپاہی سے لے کر اور انسپکٹر رینک تک کے افسران و ملازمان، جنھیں سخت سزائیں دے کر یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ یہاں برائی صرف نچلی سطح تک ہی ہے، جب تک یہ دہر ا نظام انصاف چلتا رہے گا کچھ ٹھیک نہیں ہونے والا...