بس اب بہت ہو چکا
ہمارے حکمران ہمیشہ ہی امریکی حکومتوں کی گڈ بک میں رہے ہیں حکمران امریکا کی فراخ دلی سے خدمت کرتے رہے ہیں
ایک وہ مسلمان حکمران تھے جو سندھ کے ساحل کے قریب سے گزر کر حجاز مقدس جانے والے جہاز کے زائرین کی راجہ داہر کے گماشتوں کے ذریعے ناحق گرفتاری پر بے چین و بے قرار ہو گئے تھے۔ پہلے راجہ داہر کو زائرین کو رہا کرنے کی اپیل کی مگر جب اس نے بڑی حقارت سے اس اپیل کو ٹھکرا دیا اور مداخلت پر برہمی کا اظہار کیا تو ناچار راجہ داہر کے غرور کو خاک میں ملانے کے لیے سندھ پر حملہ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا اور گرفتار خواتین مرد اور بچوں پر مشتمل قافلے کو رہا کرا لیا گیا۔ آج ویسا ہی ایک معرکہ پھر درپیش ہے۔
ایک مظلوم پاکستانی بیٹی کو امریکیوں کی قید سے رہا کرانا ہے۔ اسے صرف ایک غلط فہمی کی بنیاد پر 86 سال یعنی عمر قید بامشقت کی سزا دی گئی ہے۔ اب قید میں بیس برس سے اس پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں مگر ہمارے حکمران اس مظلوم پاکستانی بیٹی کے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے سے بھی خوفزدہ ہیں۔ حکومت بھی اس پاکستانی بیٹی کو امریکیوں کے چنگل سے آزاد کرانے سے گریزاں نظر آتی ہے حالانکہ ہر حکومت نے اس مظلوم بیٹی کو آزاد کرانے کے لیے اس کی ماں اور بہن سے بھرپور وعدے کیے تھے مگر افسوس کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے کے مصداق تمام ہی وعدے مصلحتوں کا شکار ہوگئے۔
اب جب کہ افغان جنگ اختتام پذیر ہو چکی ہے اور افغانستان پر طالبان کی دوبارہ حکومت قائم ہو چکی ہے پھر امریکی اور طالبان حکمرانوں کے درمیان مخاصمت کا بھی خاتمہ ہو چکا ہے تو پھر جب اصل مسئلہ ہی نہیں رہا اور سب سے بڑھ کر افغانستان اور امریکا کے درمیان قیدیوں کے تبادلے بھی شروع ہو چکے ہیں تو پھر عافیہ مظلوم کی رہائی سے کیوں پہلو تہی کی جا رہی ہے۔
ہمارے حکمران ہمیشہ ہی امریکی حکومتوں کی گڈ بک میں رہے ہیں حکمران امریکا کی فراخ دلی سے خدمت کرتے رہے ہیں۔ وہ پاکستانی سرزمین تک کو امریکی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی اجازت مرحمت کرتے رہے ہیں ، وہ افغان جنگ کے وقت امریکی اسلحے کو بھی پاکستان سے گزر کر افغانستان لے جانے کی اجازت دیتے رہے ہیں۔
جب سابق وزیر اعظم عمران خان امریکی دورے پرگئے تو وہ وعدہ کرکے گئے تھے کہ وہ عافیہ کو امریکا کی قید سے رہائی دلا کر ہی لوٹیں گے ، وہ وہاں صدر ٹرمپ سے ملے جلے اور ان سے کھل کر گفتگو بھی کی مگر نہ جانے کیوں عافیہ کی رہائی کا معاملہ یکسر بھول گئے جب کہ عافیہ کی بوڑھی ماں ، بہن اور بچے ہی نہیں بلکہ پوری قوم ان کے ساتھ عافیہ کی وطن واپسی کا انتظار کر رہے تھے۔ اس کے باوجود کہ وہ اپنے دورے کے اہم مشن سے غافل رہے تھے مگر ایک فاتح کے طور پر واپس وطن لوٹے اور اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا '' وہ امریکا سے ورلڈ کپ جیت کر آئے ہیں''
سابق صدر زرداری اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی عافیہ کی بوڑھی ماں اور بہن سے عافیہ کو رہائی دلانے کے وعدے کیے تھے مگر وہ بھی اپنے وعدوں کو پورا نہ کر سکے ، اگرچہ ہمارے یہ حکمران اپنے ادوار میں برسر اقتدار امریکی صدور سے ملاقات کرنے واشنگٹن جاتے رہے مگر انھوں نے عافیہ کی رہائی کی بات کرنے سے نہ جانے کیوں ہچکچاہٹ محسوس کی۔
اس کے علاوہ بھی عافیہ کی رہائی کے لیے کئی سنہری مواقع ہمارے حکمرانوں کو میسر آئے مگر وہ اس وقت بھی خاموش ہی رہے۔ امریکا میں یہ قاعدہ ہے کہ جب کوئی صدر اپنی صدارتی مدت پوری کر لیتا ہے تو وہائٹ ہاؤس چھوڑنے سے قبل امریکی جیلوں میں پڑے لمبی سزا والے قیدیوں کی ان کے لواحقین یا حکومتوں کی جانب سے رہا کرانے کی درخواست کو قبول کرکے قیدیوں کی رہائی کے احکامات صادر کر دیتے ہیں۔ افسوس کہ زرداری سے لے کر عمران خان تک بھی بش سے لے کر ٹرمپ تک کی رخصتی کے وقت عافیہ کی رہائی کے لیے سرکاری طور پر کوئی رحم کی اپیل نہ کر سکے۔
امریکی حکومتیں بھی اتنی ڈھیٹ رہیں کہ اپنے بچوں، بوڑھی ماں اور بہن کی محبت میں تڑپتی عافیہ کو ایک معمولی سی غلطی پر 86 سالہ سزا مکمل کرانے پر بضد رہیں۔ اب بائیڈن حکومت بھی اسی راستے پر گامزن ہے۔ امریکی فوجیوں نے ویت نام ، عراق اور شام میں وہاں کے عوام پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں اس کی دنیا کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ امریکی آشیر باد سے ہی اسرائیلی فوجی فلسطینیوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔
جہاں تک امریکی عدلیہ کا تعلق ہے وہ بھی انصاف پسندی پر پوری نہیں اترتی۔ اس نے مسلمانوں کے خلاف کئی فیصلے دیے ہیں جو واضح طور پر ان کے متعصب ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔
عافیہ جیسی کمزور اور تین بچوں کی ماں کو چھیاسی سال کی سزا دینا کہاں کا انصاف ہے۔ یہ سراسر مسلم دشمنی پر مبنی فیصلہ تھا جو بش جیسے متعصب صدر کے دور میں روا رکھا گیا۔ صدر بش نے تو نائن الیون کے وقت باقاعدہ مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ شروع کرنے کی دھمکی دے ڈالی تھی۔ نائن الیون کا سانحہ پرویز مشرف کے دور میں برپا ہوا تھا۔
اس سانحے کا اگرچہ پاکستان سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا مگر پرویز مشرف نے بش کی دھمکی میں آ کر اس کے افغانستان پر حملہ آور ہونے میں بھرپور مدد کی تھی۔ اس پرائی جنگ میں شمولیت کی وجہ سے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ امریکی پاکستان میں اپنی من مانی کرتے رہے اور ان کی جارحیت کے خلاف بولنے والوں کو دہشت گرد قرار دے کر گرفتار کیا جاتا اور انھیں گوانتاناموبے کے عقوبت خانے پہنچا دیا جاتا۔ اسی وقت عافیہ کو بھی گرفتار کرکے امریکا پہنچایا گیا تھا اور وہاں اس پر دہشت گردی کا مقدمہ چلا کر چھیاسی سال کی جابرانہ سزا سنائی گئی تھی۔
پاکستانیوں پر اس وقت امریکیوں نے جو بھی قہر توڑا اس میں پرویز مشرف حکومت کا تعاون شامل بتایا جاتا ہے۔ ا عافیہ کو بھی امریکیوں کے حوالے کرنے میں پرویز مشرف حکومت کا نام لیا جاتا ہے مگر وہ اس کی تردید کرتے ہیں۔ بہرحال جو پہلے ہونا تھا وہ ہو چکا اب جب کہ عافیہ کی بوڑھی ماں اپنی بیٹی کا انتظار کرتے کرتے اس دنیا سے ہی رخصت ہو چکی ہے اور عافیہ کے بچے اپنی ماں کی واپسی کا انتظار کرتے کرتے تھک چکے ہیں۔ اب ہماری موجودہ حکومت کو عافیہ کو وطن واپس لانے کے لیے ہر ممکن اقدام کرنا چاہیے ورنہ اب عافیہ کے بچے ہی نہیں، پوری قوم مایوسی کا شکار ہو سکتی ہے۔
ایک مظلوم پاکستانی بیٹی کو امریکیوں کی قید سے رہا کرانا ہے۔ اسے صرف ایک غلط فہمی کی بنیاد پر 86 سال یعنی عمر قید بامشقت کی سزا دی گئی ہے۔ اب قید میں بیس برس سے اس پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں مگر ہمارے حکمران اس مظلوم پاکستانی بیٹی کے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے سے بھی خوفزدہ ہیں۔ حکومت بھی اس پاکستانی بیٹی کو امریکیوں کے چنگل سے آزاد کرانے سے گریزاں نظر آتی ہے حالانکہ ہر حکومت نے اس مظلوم بیٹی کو آزاد کرانے کے لیے اس کی ماں اور بہن سے بھرپور وعدے کیے تھے مگر افسوس کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے کے مصداق تمام ہی وعدے مصلحتوں کا شکار ہوگئے۔
اب جب کہ افغان جنگ اختتام پذیر ہو چکی ہے اور افغانستان پر طالبان کی دوبارہ حکومت قائم ہو چکی ہے پھر امریکی اور طالبان حکمرانوں کے درمیان مخاصمت کا بھی خاتمہ ہو چکا ہے تو پھر جب اصل مسئلہ ہی نہیں رہا اور سب سے بڑھ کر افغانستان اور امریکا کے درمیان قیدیوں کے تبادلے بھی شروع ہو چکے ہیں تو پھر عافیہ مظلوم کی رہائی سے کیوں پہلو تہی کی جا رہی ہے۔
ہمارے حکمران ہمیشہ ہی امریکی حکومتوں کی گڈ بک میں رہے ہیں حکمران امریکا کی فراخ دلی سے خدمت کرتے رہے ہیں۔ وہ پاکستانی سرزمین تک کو امریکی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی اجازت مرحمت کرتے رہے ہیں ، وہ افغان جنگ کے وقت امریکی اسلحے کو بھی پاکستان سے گزر کر افغانستان لے جانے کی اجازت دیتے رہے ہیں۔
جب سابق وزیر اعظم عمران خان امریکی دورے پرگئے تو وہ وعدہ کرکے گئے تھے کہ وہ عافیہ کو امریکا کی قید سے رہائی دلا کر ہی لوٹیں گے ، وہ وہاں صدر ٹرمپ سے ملے جلے اور ان سے کھل کر گفتگو بھی کی مگر نہ جانے کیوں عافیہ کی رہائی کا معاملہ یکسر بھول گئے جب کہ عافیہ کی بوڑھی ماں ، بہن اور بچے ہی نہیں بلکہ پوری قوم ان کے ساتھ عافیہ کی وطن واپسی کا انتظار کر رہے تھے۔ اس کے باوجود کہ وہ اپنے دورے کے اہم مشن سے غافل رہے تھے مگر ایک فاتح کے طور پر واپس وطن لوٹے اور اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا '' وہ امریکا سے ورلڈ کپ جیت کر آئے ہیں''
سابق صدر زرداری اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی عافیہ کی بوڑھی ماں اور بہن سے عافیہ کو رہائی دلانے کے وعدے کیے تھے مگر وہ بھی اپنے وعدوں کو پورا نہ کر سکے ، اگرچہ ہمارے یہ حکمران اپنے ادوار میں برسر اقتدار امریکی صدور سے ملاقات کرنے واشنگٹن جاتے رہے مگر انھوں نے عافیہ کی رہائی کی بات کرنے سے نہ جانے کیوں ہچکچاہٹ محسوس کی۔
اس کے علاوہ بھی عافیہ کی رہائی کے لیے کئی سنہری مواقع ہمارے حکمرانوں کو میسر آئے مگر وہ اس وقت بھی خاموش ہی رہے۔ امریکا میں یہ قاعدہ ہے کہ جب کوئی صدر اپنی صدارتی مدت پوری کر لیتا ہے تو وہائٹ ہاؤس چھوڑنے سے قبل امریکی جیلوں میں پڑے لمبی سزا والے قیدیوں کی ان کے لواحقین یا حکومتوں کی جانب سے رہا کرانے کی درخواست کو قبول کرکے قیدیوں کی رہائی کے احکامات صادر کر دیتے ہیں۔ افسوس کہ زرداری سے لے کر عمران خان تک بھی بش سے لے کر ٹرمپ تک کی رخصتی کے وقت عافیہ کی رہائی کے لیے سرکاری طور پر کوئی رحم کی اپیل نہ کر سکے۔
امریکی حکومتیں بھی اتنی ڈھیٹ رہیں کہ اپنے بچوں، بوڑھی ماں اور بہن کی محبت میں تڑپتی عافیہ کو ایک معمولی سی غلطی پر 86 سالہ سزا مکمل کرانے پر بضد رہیں۔ اب بائیڈن حکومت بھی اسی راستے پر گامزن ہے۔ امریکی فوجیوں نے ویت نام ، عراق اور شام میں وہاں کے عوام پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں اس کی دنیا کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ امریکی آشیر باد سے ہی اسرائیلی فوجی فلسطینیوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔
جہاں تک امریکی عدلیہ کا تعلق ہے وہ بھی انصاف پسندی پر پوری نہیں اترتی۔ اس نے مسلمانوں کے خلاف کئی فیصلے دیے ہیں جو واضح طور پر ان کے متعصب ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔
عافیہ جیسی کمزور اور تین بچوں کی ماں کو چھیاسی سال کی سزا دینا کہاں کا انصاف ہے۔ یہ سراسر مسلم دشمنی پر مبنی فیصلہ تھا جو بش جیسے متعصب صدر کے دور میں روا رکھا گیا۔ صدر بش نے تو نائن الیون کے وقت باقاعدہ مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ شروع کرنے کی دھمکی دے ڈالی تھی۔ نائن الیون کا سانحہ پرویز مشرف کے دور میں برپا ہوا تھا۔
اس سانحے کا اگرچہ پاکستان سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا مگر پرویز مشرف نے بش کی دھمکی میں آ کر اس کے افغانستان پر حملہ آور ہونے میں بھرپور مدد کی تھی۔ اس پرائی جنگ میں شمولیت کی وجہ سے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ امریکی پاکستان میں اپنی من مانی کرتے رہے اور ان کی جارحیت کے خلاف بولنے والوں کو دہشت گرد قرار دے کر گرفتار کیا جاتا اور انھیں گوانتاناموبے کے عقوبت خانے پہنچا دیا جاتا۔ اسی وقت عافیہ کو بھی گرفتار کرکے امریکا پہنچایا گیا تھا اور وہاں اس پر دہشت گردی کا مقدمہ چلا کر چھیاسی سال کی جابرانہ سزا سنائی گئی تھی۔
پاکستانیوں پر اس وقت امریکیوں نے جو بھی قہر توڑا اس میں پرویز مشرف حکومت کا تعاون شامل بتایا جاتا ہے۔ ا عافیہ کو بھی امریکیوں کے حوالے کرنے میں پرویز مشرف حکومت کا نام لیا جاتا ہے مگر وہ اس کی تردید کرتے ہیں۔ بہرحال جو پہلے ہونا تھا وہ ہو چکا اب جب کہ عافیہ کی بوڑھی ماں اپنی بیٹی کا انتظار کرتے کرتے اس دنیا سے ہی رخصت ہو چکی ہے اور عافیہ کے بچے اپنی ماں کی واپسی کا انتظار کرتے کرتے تھک چکے ہیں۔ اب ہماری موجودہ حکومت کو عافیہ کو وطن واپس لانے کے لیے ہر ممکن اقدام کرنا چاہیے ورنہ اب عافیہ کے بچے ہی نہیں، پوری قوم مایوسی کا شکار ہو سکتی ہے۔