عالمی امن کیلئے مساوات اور رواداری کو فروغ دینا ہوگا

طاقتور ممالک کی اجارہ داری سے دنیا کا توازن خراب ہورہا ہے


طاقتور ممالک کی اجارہ داری سے دنیا کا توازن خراب ہورہا ہے، اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی ادارے سنجیدگی سے اپنا کردار ادا کریں: ’’عالمی یوم امن‘‘ کے موقع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں شرکاء کا اظہار خیال ۔ فوٹو ؒ فائل

کسی بھی ملک، قوم یا معاشرے کی تعمیر و ترقی میں سب سے اہم کردار امن و امان کی صورتحال کا ہوتا ہے۔ جو بھی قومیں ترقی کرنا چاہتی ہیں وہ سب سے پہلے اپنے ہاں امن قائم کرتی ہیں اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جاتا ہے جس میں رواداری، برداشت، مساوات، ایک دوسرے کا احترام جیسی اقدار ہوتی ہیں تاکہ انتشار کے امکانات کو ختم کیا جاسکے۔

عالمی امن کو یقینی بنانے کیلئے اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے موجود ہیں جو اس حوالے سے اقدامات اٹھانے کے پابند ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے 2001 ء میں جنرل اسمبلی کی قرارداد کے تحت 21 ستمبر کو امن کا عالمی دن منانے کی منظوری ہوئی جس کے بعد 21 ستمبر 2002ء کو پہلی مرتبہ امن کا عالمی دن منا یا گیا اور اس کے بعد سے ہر سال یہ دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد دنیا کو ہتھیاروں سے پاک کرنا اور امن کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔

رواں برس امن کے عالمی دن کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میں خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے اپنے خیالات کاا ظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

مولانا طاہر محمود اشرفی
(وزیر اعظم کے نمائندہ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی )

اسلام امن سلامتی اور رواداری کا دین ہے۔ دنیا کا امن، مکالمہ اور باہمی رواداری پر مبنی ہے۔ عالمی یوم امن کے موقع پر یہ بات لازم ہے کہ تمام مذاہب اور مکاتب فکر کے ماننے والے ایک دوسرے کے مقدسات کا احترام کریں اور بحیثیت انسان ایک دوسرے کی تعظیم کریں۔ مسلمان تمام مذاہب اور مکاتب فکر کا احترام کرتے ہیں اور ہماری اساس اوربنیاد دین اسلام ہے۔ رسول اکرمﷺ صرف مسلمانوںکے نہیں پوری انسانیت کے لیے رحمت بن کر آئے ہیں۔

رسول اکرمﷺ کا پیغام بھی رحمت، امن، محبت اور رواداری ہے۔ دنیا کے امن کیلئے ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر اور فلسطین ترجیحی بنیادوں پر حل ہو اور دنیا میں جو مصائب اور مسائل ہیں ان کے حل کیلئے اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی ادارے سنجیدہ اقدامات کریں۔ افغانستان کے جہاد کے خاتمے کے بعد سے پاکستان پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کو مسلط کرنے کی کوشش کی گئی مگر پوری قوم، افواج پاکستان اور سلامتی کے اداروں نے مل کر اس کا مقابلہ کیا۔

سنہ 2000ء کے بعد ہمارے دشمنوں نے پاکستان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کو پھیلانے کا منصوبہ بنایا جس کے بعد ہمارے پارک، مساجد، امام بارگاہیں، چرچ کوئی مقام ایسا نہیں تھا جو محفوظ رہا ہو۔ دہشت گردوں نے ہمارے بچوں کو بھی نہیں چھوڑا اور آرمی پبلک سکول پشاور پر حملہ کرکے بدترین کام کیاجس کے بعد قوم نے فیصلہ کیا کہ اب ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ کرنا ہے۔

اس کے نتیجے میں آپریشن ردالفساد کیا گیا جس کی ذمہ داری صرف فوج نہیں بلکہ پوری قوم نے لی۔ آپریشن ردالفساد سے ملک میں امن ، سکون اور اطمینان آیا اور اس آپریشن کی کامیابی کی بڑی وجہ قومی اتحاد تھا۔ اس جنگ میں ہمارے 80 ہزار سے زائد افراد شہید ہوئے جن میں فوج، پولیس و سکیورٹی اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد، بچے، بڑے ، بوڑھے اور8 ہزار علماء شامل ہیں۔ ہمارے دشمن نے ملک کو کمزور کرنے کیلئے یہاں دینی اداروں، افواج پاکستان اور سلامتی کے اداروں میں ٹکراؤ پیدا کرنے کی کوشش کی۔

یہاں فرقہ واریت اور نفرت کو فروغ دینے پر کام کیا جس کا اعتراف خود بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو نے اپنی گرفتاری کے بعد کیا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ ایک دن شیعہ لیڈر اور دوسرے دن سنی لیڈر کو قتل کیا جاتا تھا تاکہ فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دی جائے مگر پاکستانی عوام اور محراب و ممبر نے ان سازشوں کو سمجھا اور ٹکراؤ پیدا کرنے کے اس منصوبے کو باہمی اتحاد سے ناکام بنایا۔ ہمیں ملک سے انتہا پسندی کا مکمل خاتمہ کرنا ہے۔ہماری منزل اخوت، محبت، رواداری، امن، سلامتی، استحکام اور اعتدال ہے۔ ہمیں نفرتوں کو ختم کرنا ہے جس کے لیے ابھی بہت محنت کی ضرورت ہے۔

اس کیلئے نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر صحیح معنوں میں عملدرآمد کی ضرورت ہے اور اس پر موثر کام ہورہا ہے۔ ماضی میں مدارس و مساجد کو بدنام کرنے کیلئے بعض عناصر نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کو ملک میں پھیلانے کی کوشش کی ، علماء و مشائخ نے اس سازش کو ناکام بنایا۔ ملک دشمن پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔

شرپسندی پھیلانے والوں کے خلاف نرمی نہیں برتی جائے گی، بھارت کو افغانستان میں بھی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پاکستان میں نفرت اور تشدد پھیلانے والے اسرائیل اور بھارت کے ایجنٹ ہیں۔ تمام مکاتب فکر کے علماء دوسروں کے مقدسات کی توہین نہ کریں،ملک میں انتشار پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ تمام مکاتب فکر کے علماء اپنے درمیان افہام و تفہیم برقرار رکھنے کی کوشش کریں،مسلکی تنازعات کو باہمی مشاورت اور مکالمے کی روشنی میں طے کریں۔

پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے لئے اندرونی امن انتہائی ضروری ہے،دشمن طاقتیں ہمیشہ اس انتظار میں رہتی ہیں کہ اندرونی خلفشار پیدا ہو تاکہ ان کا ناپاک ایجنڈہ آگے بڑھ سکے 'ہم ''پیغام پاکستان'' کے تقاضوں کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں۔

اس کے ذریعے اخوت، محبت، رواداری، برداشت اور اتحاد کو مضبوط بنانے میں بہت مدد ملے گی،ہم ملک دشمن قوتوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ تمہارا ملک میں انتشارکا ناپاک ایجنڈہ ناکام ہوگا، پاکستان میں فرقہ واریت کی آگ بھڑ کانے کی جو سازشیں ہو رہی ہے وہ ساری کی ساری ناکام ہوں گی،آج تمام مسالک کے علماء متحد اور ایک پلیٹ فارم پر جمع ہیں ،ہم نے ماضی میں بھی دشمن قوتوں کے ایجنڈہ کو ناکام بنا یا ہے، اور آئندہ بھی ناکام بناتے رہیں گے۔

دشمن کی کوئی سازش اور حربہ کامیاب نہیں ہونے دیں گے، جو عناصر ملک دشمن قوتوں کے اشارے پرملک میں انتشار اور فرقہ واریت کو ہوا دینا چاہتے ہیں، انہیں ناکامی اور رسوائی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔پاکستان کے استحکام اورسلامتی کو مضبوط بنانے میں ہماری قابل فخر افواج اور سیکورٹی اداروں نے لازوال اور مثالی قربانیاں دی ہیں۔علماء کا مکمل تعاون افواج پاکستان کے ساتھ ہے۔پیغام پاکستان کو کامیاب بنانا علماء سمیت تمام طبقوں کی ذمہ داری ہے' انڈیا کشمیر میں جو مظالم ڈھا رہا ہے، نہتے اور مجبور کشمیری مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رہا ہے' مودی کو اس کا حساب دینا ہوگا۔

پادری شاہد معراج
(ڈین آف لاہور کیتھڈرل )

دنیا میں پائیدار امن کے لیے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم دوسروں یعنی اپنے سے مختلف لوگوں کا احترام کرتے ہوئے انہیں قبول کر یں۔ دوسرے لوگ ہم سے مذہب ، رنگ ، نسل، ثقافت اور کئی طرح سے مختلف ہوسکتے ہیں لیکن ہمیں اس بات کو مدِ نظر رکھنا ہے کہ تمام انسان خدا تعالیٰ کی یکساں مخلوق کا درجہ رکھتے ہیں۔ یسوع مسیحؑ جو امن اور سلامتی کے شہزادے ہیں ، نے شریعت کا خلاصہ اس بات میں بیان فرمایا کہ اپنے سارے دل ،اپنی ساری جان ، اپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے اپنے خدا سے محبت رکھ اور اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھ یعنی خدا سے محبت اور انسان سے محبت ہی شر یعت کا نچوڑ ہے۔

بائبل مقدس میں یہ بھی مرقوم ہے کہ اگر تو اپنے بھائی سے جس کو تو نے دیکھا ہے محبت نہیں رکھتا تو خدا سے بھی جس کو تو نے نہیں دیکھا کیسے محبت رکھ سکتا ہے۔آج ہماری دنیا کو اس بات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے کہ خدا جس کی بارش سب پر برستی ہے ، جس کا سورج سب پر چمکتا ہے وہ انسانوں میں کوئی تفریق اور امتیاز نہیں کرتا۔ ہمیں بھی بلا امتیاز مذہب ، ذات ، عقیدہ ، رنگ ، نسل سب سے پیار اور احترام کرنے کی ضرورت ہے۔ آج افغانستان ، مقبوضہ کشمیر ، فلسطین اور دنیا کہ دیگر علاقوں کے لوگوں کی رائے کا احترام کرنا ہے۔ ہم اس بات سے بھی واقف ہیں کہ امن قائم کرنے میں اقوام متحدہ جیسا ادارہ بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔ جہاں اجارہ داری قائم کی جائے یعنی طاقتور کمزور کو دبانے کی کوشش کرے وہاں امن اور سلامتی قائم نہیں ہو سکتی۔

دنیا میں دو ہرا معیار پائیدار امن کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ کتنی دہائیاں گزر گئی ،کشمیر کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے حق خورادیت کی بنیاد پر قراردادیں پاس کیں لیکن آج تک اْن پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ وہ ترقی یافتہ ممالک جو تہذیب یافتہ ہونے کے دعویددار ہیں انہوں نے مظلوموں کے لیے عملی اقدامات کرنے میں ہمیشہ کوتاہی کی ، اپنے مفادات کو سامنے رکھا ہے اور دوسروں کو حق، سچ پر ہونے کے باوجود انصاف سے محروم رکھا ہے۔ ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ خدا کو خدا ہی رہنے دیں اور اس کی ساری مخلوق سے بلا امتیاز محبت اور پیار کریں۔

اپنے آپ کو دوسروں پر مسلط نہ کریں بلکہ دوسروں کا احترام کرتے ہوئے اْن کو قبول کریں کیونکہ اس سے ہی ہم دنیا میں پائیدار امن بحال کر سکتے ہیں اور یہ امن اپنی ذات سے شروع کرنا ہو گا۔

خدا تعالیٰ دنیا میں پائیدار امن کے قیام کے لیے ہمیں اپنا ذریعہ بنائے اور ہم اپنے مفاد کی نہیں بلکہ دوسروں کی فلاح کے لیے جدوجہد کریں۔ نفرتوں کو ختم کریں اور محبتوں کو وسعت دیں کیونکہ کرونا کی اس وبا میں ہم نے پھر ایک بار تجربہ کیا ہے کہ آفات نہ تو کبھی کسی کا مذہب پوچھتی ہیں ، نہ ذات برادری اور نہ ر نگ و نسل ، ذات ،عقیدہ۔ ہمیں نہ صرف اپنے آپ کو محفوظ کرنا ہیں بلکہ دوسروں کو بھی تحفظ دینا ہے اور امن کے عالمی دن پر یہ اعادہ بھی کرنا ہیں کہ خود بھی اور دوسروں کو بھی محفوظ رکھیں۔ خدا تعالیٰ دنیا اور ہمار ے خطے پر رحم فرمائے تاکہ امن کے فروغ کیلئے ہم سب انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنا کردار ادا کر سکیں۔

سردار بشن سنگھ

(سابق صدر گوردوارہ سکھ پربندھک کمیٹی )

ہم سب سے پہلے پاکستانی ہیں جبکہ ہمارا مذہب اور عقیدہ بعد میں ہے۔ تمام مذاہب انسانیت اور انسانوں کی خدمت کا درس دیتے ہیں۔ سکھوں کیلئے پاکستان کی سرزمین مقدس ہے۔ دھرتی ماتا ہے اور ماں کے ساتھ سب کا پیار بہت زیادہ ہوتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔ بابا گورونانک کے طفیل اس دھرتی سے ہماری مضبوط نسبت ہے، ان کا مشن دکھی انسانیت کی خدمت تھا اور ساری زندگی انہوں نے لوگوں کی خدمت کی ہے۔ ہم بھی ان کے مشن کے مطابق انسانیت کی خدمت کو اولین درجہ دیتے ہیں اور ہر صورت میں لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اسی سوچ کے تحت ہم دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی خوشیوں میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ پاکستان میں تمام اقلیتیں اپنے تہوار کھلے ماحول میں منا رہی ہیں جبکہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ بدترین سلوک کیا جا رہا ہے جو افسوسناک ہے۔پاکستان میں سکھ اپنے 42 تہوار مناتے ہیں اور ہمیں کبھی رکاوٹ محسوس نہیں ہوئی بلکہ یہاں سب ہماری خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔ بابا گورونانک کی 550 ویں سالگرہ پر پاکستان نے پوری دنیا کے سکھوں کو کرتارپور امن راہداری کا تحفہ دیا، حکومت پاکستان نے کرتارپور راہداری جو خواب لگتی ہے، کو ایک سال میں مکمل کرایا جیسے دنیا بھر کے سکھوں کی جانب سے سراہا گیا۔

پاکستان امن کیلئے دو قدم بڑھاتا ہے مگر بھارت ہٹ دھرمی سے کام لیتا ہے اور انتہا پسندانہ سوچ پر عمل پیرا ہے۔ بابا گورونانک کے طفیل اس دھرتی سے ہماری مضبوط نسبت ہے، ان کا مشن دکھی انسانیت کی خدمت تھا اور ساری زندگی انہوں نے لوگوں کی خدمت کی ہے،ہم بھی ان کے مشن کے مطابق انسانیت کی خدمت کو اولین درجہ دیتے ہیں اور ہر صورت میں لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں