سندھ ہائیکورٹ نے کے ایم سی کو بجلی بلوں کے ذریعے ٹیکس وصولی سے روک دیا
بنیادی سہولیات دینا آپ کا کام ہے، کیا لوگ شہری سہولیات اپنے پیسوں سے حاصل کریں گے؟ عدالت
سندھ ہائی کورٹ نے کے ایم سی کو کے الیکٹرک کے ذریعے میونسپل ٹیکس وصولی سے روک دیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں بجلی کے بلوں میں میونسپل ٹیکس کی وصولی کے خلاف درخواست کی سماعت میں ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب پیش ہوئے۔ اس موقع پر عدالت نے استفسار کیا کہ یہ وہی ٹیکس ہے جو کے الیکٹرک لے رہی ہے ؟۔ صفائی تو ہو نہیں رہی شہر میں۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ کے الیکٹرک کے بلوں میں ٹیکس کیوں وصول کررہے ہیں، شہری نہ دیں تو ان کی بجلی کٹ جائے ۔ کے ایم سی کے پاس طریقہ کار موجود ہے ۔ کے الیکٹرک کے ذریعے پر لوگ نالاں ہیں، اب ان کی گاڑیوں پر کچرا پھینکا جارہا ہے ۔ کے ایم سی کا اپنا ریکوری سیل ہو، جو وصولی کرے ۔
ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب نے عدالت کو بتایا کہ کے ایم سی کا کام شہر میں کام کرنا ہے، پارک بنانا ہے ، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ وصولی کے لیے صرف کے الیکٹرک بچا ہے ۔ مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ ہم نے کوشش کی تھی ریکوری کرنے کی، مگر کامیاب نہیں ہوسکے ۔ عدالت نے کہا کہ کے الیکٹرک کا تو حکومت سے تنازع چل رہا ہے ۔ کیا یہ پیسے آپ کو کے الیکٹرک والے دیں گے ؟۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ پراپرٹی، موٹر وہیکل ٹیکس لیا جارہا ہے، کتنا مل رہا ہے کراچی کو ؟۔ مرتضیٰ وہاب نےجواب دیا کہ موٹر وہیکل سے متعلق حکومت سے بات کررہا ہوں ۔ عدالت نے استفسار کیا کہ دکانوں اور بینکوں پر لگے ہوئے اشتہارات کی فیس کون لے رہا ہے ؟۔ آپ کے الیکٹرک کے ذریعے یہ ٹیکس وصول نہیں کرسکتے ۔ آپ چارجز لے رہے ہیں، سروس تو دیں۔
مرتضیٰ وہاب نے عدالت کو بتایا کہ کام شروع ہوگیا ہے ہم آپ کو بتائیں گے۔ عدالت نے کہا کہ کہاں کام شروع ہوا ہے، کام شروع ہوتا تو نظر بھی آتا ۔صرف ٹیکس لیں گے آپ، کام کوئی نہیں کریں گے ؟۔ بتائیں اس ٹیکس کی کیا قانونی حیثیت ہے ؟ ۔ ایڈمنسٹریٹر کراچی نے کہا کہ سارا نظام ڈسٹرب ہوجائے گا، شہر کو پیسے کی ضرورت ہے۔ عدالت نے کہا کہ کے ایم سے کو کسی نے ریونیو جمع کرنے سے روکا ہے ؟۔ جائز طریقے سے پیسے وصول کریں ۔
عدالت نے کہا کہ کے الیکٹرک کو کسی کی بجلی کاٹنے کی اجازت کیسے دے دیں ؟ آپ کی سندھ حکومت کیوں مدد نہیں کرتی ؟ ۔ مرتضیٰ وہاب نے جواب دیا کہ میں آپ کو مطمئن کروں گا، تھوڑی سی مہلت دے دیں، جس پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ اگر آپ کو مہلت دے بھی دیں تو کم از کم بجلی کاٹنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
مرتضیٰ وہاب نے عدالت نے درخواست کی کہ میری مودبانہ گزارش ہے پلیز حکم امتناع مت دیں ۔ پلیز اسٹے مت دیں ایک دن کا وقت دیں میں آپ کو مطمئن کروں گا ۔ عدالت نے سوال کیا کہ اس ٹیکس کے نتیجے میں کیا سروسز دیں گے ؟ ، جس پر مرتضیٰ وہاب نے بتایا کہ سڑکیں ، پارکس ، فٹ پاتھ۔
عدالت نے کہا کہ کیا شہری یہ سہولیات اپنے پیسوں سے حاصل کریں گے ؟ ۔ یہ تو آپ کا کام ہے بنیادی سہولیات دیں ۔ بتائیں ایک لاکھ روپے جمع ہوتا ہے تو کراچی کو اس کے بدلے میں کیا ملتا ہے ؟ ۔ کیا صوبائی حکومت احسان کررہی ہے ؟ سارا ٹیکس لے رہی ہے کراچی سے۔ جب یہاں سہولیات دینے کی بات آتی ہے تو ایسا لگتا ہے خیرات دے رہے ہیں ۔
مرتضیٰ وہاب نے عدالت سے کہا کہ میں بتاؤں گا صوبائی حکومت کے تعاون سے ہم کیا کچھ کررہے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ کیا ہورہا ہے؟ سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، پارکس تباہ ہیں، اسٹریٹ لائٹس ہیں نہیں، ڈکیتیاں ہورہی ہیں۔
بعد ازاں عدالت نے کے ایم سی کو کے الیکٹرک کے ذریعے میونسپل ٹیکس وصولی سے روکتے ہوئے سماعت 10 دن کے لیے ملتوی کردی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں بجلی کے بلوں میں میونسپل ٹیکس کی وصولی کے خلاف درخواست کی سماعت میں ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب پیش ہوئے۔ اس موقع پر عدالت نے استفسار کیا کہ یہ وہی ٹیکس ہے جو کے الیکٹرک لے رہی ہے ؟۔ صفائی تو ہو نہیں رہی شہر میں۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ کے الیکٹرک کے بلوں میں ٹیکس کیوں وصول کررہے ہیں، شہری نہ دیں تو ان کی بجلی کٹ جائے ۔ کے ایم سی کے پاس طریقہ کار موجود ہے ۔ کے الیکٹرک کے ذریعے پر لوگ نالاں ہیں، اب ان کی گاڑیوں پر کچرا پھینکا جارہا ہے ۔ کے ایم سی کا اپنا ریکوری سیل ہو، جو وصولی کرے ۔
ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب نے عدالت کو بتایا کہ کے ایم سی کا کام شہر میں کام کرنا ہے، پارک بنانا ہے ، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ وصولی کے لیے صرف کے الیکٹرک بچا ہے ۔ مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ ہم نے کوشش کی تھی ریکوری کرنے کی، مگر کامیاب نہیں ہوسکے ۔ عدالت نے کہا کہ کے الیکٹرک کا تو حکومت سے تنازع چل رہا ہے ۔ کیا یہ پیسے آپ کو کے الیکٹرک والے دیں گے ؟۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ پراپرٹی، موٹر وہیکل ٹیکس لیا جارہا ہے، کتنا مل رہا ہے کراچی کو ؟۔ مرتضیٰ وہاب نےجواب دیا کہ موٹر وہیکل سے متعلق حکومت سے بات کررہا ہوں ۔ عدالت نے استفسار کیا کہ دکانوں اور بینکوں پر لگے ہوئے اشتہارات کی فیس کون لے رہا ہے ؟۔ آپ کے الیکٹرک کے ذریعے یہ ٹیکس وصول نہیں کرسکتے ۔ آپ چارجز لے رہے ہیں، سروس تو دیں۔
مرتضیٰ وہاب نے عدالت کو بتایا کہ کام شروع ہوگیا ہے ہم آپ کو بتائیں گے۔ عدالت نے کہا کہ کہاں کام شروع ہوا ہے، کام شروع ہوتا تو نظر بھی آتا ۔صرف ٹیکس لیں گے آپ، کام کوئی نہیں کریں گے ؟۔ بتائیں اس ٹیکس کی کیا قانونی حیثیت ہے ؟ ۔ ایڈمنسٹریٹر کراچی نے کہا کہ سارا نظام ڈسٹرب ہوجائے گا، شہر کو پیسے کی ضرورت ہے۔ عدالت نے کہا کہ کے ایم سے کو کسی نے ریونیو جمع کرنے سے روکا ہے ؟۔ جائز طریقے سے پیسے وصول کریں ۔
عدالت نے کہا کہ کے الیکٹرک کو کسی کی بجلی کاٹنے کی اجازت کیسے دے دیں ؟ آپ کی سندھ حکومت کیوں مدد نہیں کرتی ؟ ۔ مرتضیٰ وہاب نے جواب دیا کہ میں آپ کو مطمئن کروں گا، تھوڑی سی مہلت دے دیں، جس پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ اگر آپ کو مہلت دے بھی دیں تو کم از کم بجلی کاٹنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
مرتضیٰ وہاب نے عدالت نے درخواست کی کہ میری مودبانہ گزارش ہے پلیز حکم امتناع مت دیں ۔ پلیز اسٹے مت دیں ایک دن کا وقت دیں میں آپ کو مطمئن کروں گا ۔ عدالت نے سوال کیا کہ اس ٹیکس کے نتیجے میں کیا سروسز دیں گے ؟ ، جس پر مرتضیٰ وہاب نے بتایا کہ سڑکیں ، پارکس ، فٹ پاتھ۔
عدالت نے کہا کہ کیا شہری یہ سہولیات اپنے پیسوں سے حاصل کریں گے ؟ ۔ یہ تو آپ کا کام ہے بنیادی سہولیات دیں ۔ بتائیں ایک لاکھ روپے جمع ہوتا ہے تو کراچی کو اس کے بدلے میں کیا ملتا ہے ؟ ۔ کیا صوبائی حکومت احسان کررہی ہے ؟ سارا ٹیکس لے رہی ہے کراچی سے۔ جب یہاں سہولیات دینے کی بات آتی ہے تو ایسا لگتا ہے خیرات دے رہے ہیں ۔
مرتضیٰ وہاب نے عدالت سے کہا کہ میں بتاؤں گا صوبائی حکومت کے تعاون سے ہم کیا کچھ کررہے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ کیا ہورہا ہے؟ سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، پارکس تباہ ہیں، اسٹریٹ لائٹس ہیں نہیں، ڈکیتیاں ہورہی ہیں۔
بعد ازاں عدالت نے کے ایم سی کو کے الیکٹرک کے ذریعے میونسپل ٹیکس وصولی سے روکتے ہوئے سماعت 10 دن کے لیے ملتوی کردی۔