بُک شیلف
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال
صرف تمھارا، انور مسعود
مصنف : انور مسعود، قیمت : 1495 روپے، ناشر : بک کارنر ، جہلم ، رابطہ : 03215440882
جناب انور مسعود کی کہانی نہایت دلچسپ ہے ۔ میٹرک کے بعد والد کی خواہش پر ڈاکٹر بننے کی غرض سے ایف ایس سی ( میڈیکل ) میں داخلہ لے لیا لیکن طبع کا میلان نہ پا کر ایف اے میں داخلہ لے لیا ۔
بی اے میں فرسٹ کلاس، رول آف آنر اور سلور میڈل کے ساتھ امتیازی حیثیت سے کامیابی حاصل کی ۔ مالی حالات نامساعد تھے نتیجتاً ایم اے میں داخلہ نہ لے سکے اور ایک ہائی سکول میں استاد ہو گئے ۔ دو سال وہاں رہے ، پھر بوجوہ استعفیٰ دیا اور لاہور جا پہنچے۔
اسلامیہ کالج لاہور میں ایم اے انگریزی میں داخلہ لینے کی کوشش کی لیکن فیس جمع کرانے میں دیر ہوگئی ، یوں داخلہ نہ ہو سکا۔ سخت مایوس ہوئے ، اضطراب کے عالم میں اورنٹئیل کالج پنجاب یونیورسٹی پہنچ گئے، اور سیدھے صدر شعبہ فارسی ڈاکٹر محمد باقر کے سامنے جا بیٹھے ۔ وہاں ایک دلچسپ مکالمہ اور واقعہ ہوا ۔ جس نے جناب انور مسعود کی زندگی بدل کر رکھ دی۔
کہتے ہیں : '' میں نے ( ڈاکٹر محمد باقر کو ) اپنا ( داخلہ ) فارم پیش کیا تو انھوں نے فارم کو بڑے غور سے دیکھا اور مجھ پر ایک گہری نظر ڈالی اور پوچھنے لگے کہ کیا تم فارسی پڑھ کر تیل بیچو گے ؟ میں نے جواباً فوراً عرض کیا کہ
'' ڈاکٹر صاحب! کیا آپ تیل بیچ رہے ہیں؟''
یہ غیرمتوقع جواب سن کر وہ مسکرائے اور فوراً میرے فارم پر دستخط کر دئیے اور یہ کہا کہ آپ ذرا بیٹھیں آپ سے مزید کچھ پوچھنا ہے۔
اب قدرت کا یہ نظام دیکھیے کہ میرے داخلہ فارم پر دستخط کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے نائب قاصد محمد حسین سے یہ کہا کہ اگلی امیدوار قدرت الٰہی صدیقہ کو بلایا جائے ۔ یہ انوکھا سا نام سن کر میں بہت متعجب ہوا ۔ چند لمحوں کے بعد ایک لڑکی داخل ہوئی جو بڑی پروقار شخصیت کی حامل، متانت اور مشرقیت کا پیکر اور مجسم شائستگی دکھائی دیتی تھی۔ آنکھیں ایسی حیادار اور پرکشش کہ دیکھنے والا ان میں ڈوبتا ہی چلا جائے۔''
عجب حسین اتفاق کہ یہ دونوں ہم جماعت ہوئے اور پھر زندگی میں ہم سفر بھی بنے ۔ انور مسعود کہتے ہیں : '' صدیقہ کے ساتھ میری شادی بہت ہی مبارک بندھن ثابت ہوئی۔ کیسے؟ زیر نظر کتاب کے پیش لفظ میں جواب کسی قدر تفصیل سے موجود ہے۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ ڈاکٹر محمد باقر کے کمرہ میں ہونے والے حسین اتفاق کے بعد شادی تک ، مزید کیا اتفاقات ہوئے۔
اس کے بعد باقی کتاب میں جناب انورمسعودکے وہ خطوط ہیں جو انھوں نے شادی سے پہلے اور شادی کے بعد قدرت الٰہی صدیقہ کے نام لکھے۔ زیادہ تر خطوط شادی سے پہلے کے ہیں۔ یہ خطوط کیا ہیں ؟ محبت کی ایک داستان ہیں اور آپ بیتی بھی۔ چونکہ اس کتاب میں صرف جناب انور مسعود کے خطوط ہیں ، اس لئے اسے یکطرفہ محبت کی داستان ہی کہا جا سکتا ہے۔ وہ خط کے آخر میں لکھا کرتے تھے :' تمھارا شیدا ' ، ' انتظار بخت ' اور ' صرف تمھارا ' ، اسی تناظر میںکتاب کا نام ہوا :' صرف تمھارا انور مسعود '۔ یقیناً یہ خطوط محبت کرنے والوں کے لئے ایک گراں قدر تحفہ اور اردو ادب میں ایک اہم اضافہ ہیں ۔
نظریات کی مختصر تاریخ
مصنف : یاسر جواد، قیمت : 900 روپے، ناشر : بک کارنر، جہلم، رابطہ : 03215440882
زیر نظر کتاب کا عنوان ہی اس کا مختصر تعارف ہے، اس میں انسانی فکری تاریخ کا کافی حد تک احاطہ کیا گیا ہے لیکن مختصر انداز میں۔ قریباً دو سو نظریات کے بارے میں بتایا گیا ہے جن میں آریائیت ، آشوبیت ، ابہام پسندی، اجتماعیت، اخلاقیات یعنی اخلاق پسندی، اخلاقیت، ادویت، ارسطوئیت، ارواح پرستی، استدلالیت، اسلامی نظریہ، اسمیت، اشتراکیت، اضافیت، اضافیت پسندی، اظہاریت، افادیت پسندی، امپریشنزم، امن خواہی، انانیت، انسانیت پسندی، انکاریت، اورفزم، ایپی قوریت، ایثاریت، ایجابیت ( ثبوتیت )، ایراستینی نظریہ، ایکمی ازم، ایوانجلیکل ازم، باطنیت، بدھ مت، برہمن مت، بشرپیکری ( تجسیمیت ) بنیاد پرستی، بولشوزم، پاک سرزمین کا بدھ مت، پاگان ازم، پس ساختیات، پوائنٹلزم، پوسٹ امپریشن ازم، پوسٹ سٹرکچرل ازم، پوسٹ ماڈرن ازم، پیوریتان ازم، تاؤمت، تبتی بدھ مت، تجربیت، تجریدی اظہاریت، تجسیمیت، تخفیف پسندی، تخلیقیت، تخیل پسندی، تشکیکیت یعنی تشکیک پسندی، تصوف، تقدیرپرستی، تقویٰ پرستی، تکثیریت، تمثال پسندی، تنقید، ادبی تنقید، تاریخی تنقید، تجربی تنقید، تحلیلی نفسیاتی تنقید،
عملی تنقید، فرائیڈئین تنقید، مارکسی تنقید، متنی تنقید، مظہریاتی تنقید، نسوانیت پسند تنقید، نئی تنقید، توحید پرستی، توکل پسندی، ٹراٹسکی ازم، ٹوٹم مت، ثبوتیت، ثنائیت، ثنویت، جاگیرداریت، جانسین ازم، جبریت، جدلیات، جدلیاتی مادیت، جدیدیت، جنس پرستی، جین مت، چارٹزم،چارواک، حقوق نسواں، حقیقت پسندی، حیویت، خانقاہیت، خداپرستی، منطقی، خودتسکینی، دویت، ڈاڈا، ڈارونیت، ڈروئڈ ازم، رجائیت پسندی، رواقیت، روحانیت، روحیت، رومانویت، زرتشت مت، زین بدھ مت، ساحرانہ حقیقت پسندی، ساختیات، سادیت، سامراجیت، سامیت دشمنی، سانکھیہ، سپریمیٹزم، سر ریئلزم، سرمایہ داریت، سکھ مت، سماجی ڈارون ازم، سوشلزم، سوشلسٹ حقیقت پسندی، شنتو، شیطان پرستی، صارفیت، صیہونیت، ظہورثانی کا عقیدہ، علم الکلام،علیحدگی پسندی، عیسائیت ( مسیحیت ) عینیت، غائتیت، غناسطیت، غیب کا علم، غیرثنائیت، فارمل ازم، فاشزم،فسطائیت ( فاشزم)، فطرت پسندی، فعلیت، فووزم، فیٹش ازم، فیثا غورثیت، فیوچر ازم، قوم پرستی،
کارل ازم، کثرت پرستی، کرداریت، کعبیت (کیوب ازم)، کلاسیکیت، کلبیت، کلیسائی مجلس کا نظریہ، کمیونزم (اشراکیت) کنفیوشس مت، کیلون ازم، کیوب ازم، گالیکن ازم، گلڈسوشلزم، لاادریت، لاما ازم، لباسی خلط، لبرل ازم، لذتیت، لنگ پرستی، لوتھرازم، لوکایت، لینن ازم، مابعد تاثیریت، مابعد جدیدیت، مابعد الطبیعیات، ماتھرنیزمو، مادیت، مارکس ازم، ماسوکزم، مانویت، ماؤ ازم، ماورائیت، متھرامت، مثالیت ( عینیت)، مرتاضیت، مرکنٹائل ازم، مساکیت، مساوات پسندی، مستقبلیت، مسیحیت، مطلق العنانی، معروضیت، ملحدیت، منطقی ایجابیت، مونتان ازم، میتھوڈ ازم،مینڈیائی پرستی، مینرازم، نازی ازم، نتائجیت، نراجیت، نسطوریت، نسل پرستی، نسوانیت پسندی نوکانٹ ازم، نواظہاریت، نوانسانیت پسندی، نوتاثریت، نوتاریخیت، نوحقیقت پسندی، نوڈارونیت ( ڈارونیت)، نوفلاطونیت، نوکلاسیکیت، نوکنفیوشیت، نیچیرن بدھ مت، نیشنل سوشلزم ( نازی ازم) واحدیت، وارٹیسزم، وجودیت، وحدانیت، وحدت الوجود، وطن پرستی، وظیفہ گیریت، وفاقیت، ویشنومت، ہاسدیت، ہرمیٹسزم، ہندومت ، ہیگلیت، ہیلینیائیت، یہودیت اور یوگ شامل ہیں۔
اس کتاب میں صرف ایسے تصورات اور بنیادی نظریات کو جگہ دی گئی ہے جو ادب، لسانیات، آرٹ ، فلسفہ اور سیاست میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ مصنف نے اس قدر زیادہ نظریات کو کتاب میں شامل کیا ہے کہ ان کا یہاں تفصیل سے تعارف کرنا ممکن نہیں ۔ انھوں نے ان نظریات کا تذکرہ کچھ اس انداز میں کیا ہے کہ فکر و نظر کی نئی دنیائیں کھلتی ہیں۔
غدار ( ناول )
مصنف: کرشن چندر، قیمت: 500 روپے
ناشر: بک کارنر، جہلم، واٹس ایپ: 03215440882
برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے وقت جو کچھ ہوا ، وہ اب تک دونوں مملکتوں کے باسیوں کو بخوبی یاد ہے۔ ایسے تذکرے پڑھ کر ، سب کر ان باسیوں کے آنسو بہنے لگتے ہیں۔ اردو کے نامور ناول نگارکرشن چندر بھی اس ناول کی صورت میں زاروں قطار روئے ہیں لیکن ان کے آنسوؤں کا تعلق ماضی میں رونما ہونے والے واقعات سے نہیں بلکہ مستقبل سے ہے۔
کرشن چندر سمجھتے تھے کہ بہت سے لوگ ان تلخ واقعات کو بھولتے جا رہے ہیں لیکن اس نفرت کو نہیں بھولتے جس نے ان تلخ واقعات کو جنم دیا تھا ... اب بھی دونوںملکوں کے درمیان نفرت کی ایک دیوار کھڑی ہے۔ ان کے بقول : '' ہندوستان میں ایک یا دو نہیں لاکھوں انسان ایسے ہوں گے جو پشاور تک اکھنڈ بھارت کو پھیلانے کے خواب دیکھتے ہوں گے۔ پاکستان میں ایسے انسانوں کی کمی نہیں جو دلی پر ہلالی پرچم لہرا دینے کے متمنی ہیں اور اس کے لئے لاکھوںکی تعدادمیں جان دینے کے لئے تیار ہیں۔''
کرشن چندر کا یہ ناول اسی نفرت کو سمجھانے اور اسے قلب و ذہن سے مٹانے کی ایک کوشش ہے۔ ناول بیج ناتھ ( برہمن ) اور شاداں ( مسلمان لڑکی) کے معاشقے سے شروع ہوتا ہے۔ چھٹے باب میں ایک ہندو لڑکی ایک سکھ کی نظروں کا مرکز و محور بنتی ہے۔
آٹھویں باب میں ایک ہندو لڑکی پاروتی ایک مسلمان نوجوان امتیاز سے والہانہ محبت کرتی تھی۔ محبتوں سے اٹھان لیتی یہ کہانیاں بیان کرتی ہیں کہ کیسے امن اور پیار کے لئے کوشش کرنے والے اپنی اپنی اقوام کے ہاں '' غدار '' قرار دیے جاتے ہیں۔ بیج ناتھ جیسے کردار ہمارے معاشروں میں کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن ایسے کرداروں کی سخت ضرورت ہے کہ معاشرے خوشحال بن سکیں ۔کرشن چندر کی تمنا ہے کہ بیج ناتھ جیسے کرداروں سے نہ صرف ہندوستان اور پاکستان، بلکہ ساری دنیا بھر جائے۔
جیسا کہ سابقہ سطور میں بتایا گیا ہے کہ ناول کی کہانی 1947ء کے روح فرسا واقعات کے پس منظر میں لکھی گئی ہے ، بلکہ یہ زیادہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ یہ پون صدی قبل رونما ہونے والے شرمناک واقعات میں سے چند واقعات ہیں۔کرشن چندر نے اس کہانی کے ذریعے ہمیں انسانیت ، نیک کرداری ، امن اور اخوت کا فلسفہ سکھانے کی کوشش کی ہے۔ان کا انداز تحریر ایسا مسحور کن ہوتا ہے کہ قاری ہر جملے سے پوری طرح لطف پاتا ہے ۔ منظرنگاری ایسی خوبصورت ہوتی ہے کہ پڑھنے والا منظر میں کھوئے رہنا چاہتا ہے۔ اس ناول کو بڑے پیمانے پر پڑھنے اور پڑھانے کی ضرورت ہے۔ ( تبصرہ نگار : عبیداللہ عابد)
نقطہ ، خط ، دائرہ
مصنفہ : ڈاکٹر شائستہ جبیں، قیمت : درج نہیں
ناشر : دارالنوادر ، الحمد مارکیٹ ، سیکنڈ فلور ، اردو بازار ، لاہور ۔ رابطہ : 03008898639
زیر نظر کتاب کی مصنفہ گورنمنٹ گریجویٹ کالج ، جھنگ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ ان کی یہ تحاریر وقتاً فوقتاً روزنامہ ایکسپریس کے سنڈے میگزین اور ایک ویب سائٹ میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ یہ تحاریر زندگی کے مختلف مراحل پر پیش آنے والے مسائل کا حل سمجھاتی ہیں ، مختلف مشکل کیفیات سے نکلنے کا راستہ سجھاتی ہیں، آگے بڑھنے پر اکساتی ہیں، ہمارے مختلف معاشرتی مسائل پر ضرب لگاتی ہیں جو ہماری اچھی اقدار و روایات کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔
کتاب کی پہلی تحریر ہی کیا خوب ہے کہ ' آزمائش میں ہمارا طرزعمل کیسا ہونا چاہیے؟' پھر ' Overthinking ' ہی کو پڑھ لیجئے ، یقینی طور پر آپ بہت زیادہ سوچنے سے پرہیز کرنے لگیں گے۔ پھر ایک تحریر میں ایسے 50 کام بتائے گئے ہیں جو آپ کو 50 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے کرلینے چاہئیں۔
ایک تحریر تنہا رہنے والوں اور احساس تنہائی کے شکار لوگوں کے لئے ہے کہ وہ ان کیفیات سے کیسے باہر نکلیں؟ مزید چند تحاریر کے عنوانات بھی ملاحظہ ہوں : '' توقعات ... زندگی بوجھل کرتی ہیں '' ، '' خود اعتمادی'' ، '' خود پسندی '' ، '' خوشی کہاں ہے ؟ '' ، '' ذہنی آلودگی ، لمحہ فکریہ '' ، '' ذہن کو صحت مند رکھیں '' ، '' زندگی برانڈ نہیں '' ،' زہریلے لوگوں اور رشتوں سے خود کو بچانا ہے '' ، قدر دان بنیں '' ، '' مثبت سوچ ... مثبت زندگی '' ، '' وقت کیسے بچائیں ''، '' وقت نکالیں ، سب کے لئے ''۔ یہ تو ہیں تعمیر شخصیت سے جڑی تحاریر ۔
ڈاکٹر شائستہ جبیں نے اجتماعی مسائل پر بھی بات کی ہے۔ مثلاً ' معذرت ' ، ' مولوی ' ، ' میں فقط خاک ہوں ' ، ' کچھ تو خدا کا خوف کریں ' ، ' روح کے رشتے ' ، ' ذرا سا جھوٹ ' ۔ ' پنجابی اکھان ' ، ' آدمی کو صرف چمچہ گیر ہونا چاہیے '، ' بای ذنب قتلت ، وہ کس جرم میں ماری گئی؟' اور ' یہ کسی ایک کی کہانی نہیں ہے ۔'ڈاکٹر صاحبہ کی یہ تمام تحاریر ایسی پرتاثیر ہیں کہ اذہان و قلوب کو مسخر کرتی ہیں۔
یہ ہماری توجہ ایسے مسائل کی طرف مبذول کراتی ہیں جو المیے بن چکے ہیں لیکن بحیثیت مجموعی ان کا احساس نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ ان مسائل کی سنگینی کا احساس دلاتی ہیں اور ان کے خلاف جدوجہد پر ابھارتی ہیں۔ ' نقطہ ، خط ، دائرہ ' ان کتابوں میں سے ایک ہے جو ہر گھر کی لائبریری کا حصہ ہونی چاہیے، اس کا خود بھی مطالعہ کرتے رہنا چاہیے اور دوسروں کو بھی اس مطالعے میں شامل کرنا چاہیے۔
اقبالیاتی ادب
مصنف: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، قیمت: 400 روپے، صفحات: 188
ناشر: بزم اقبال 2 کلب چوک ، لاہور ( 04299200851)
علامہ اقبال کی شخصیت ایسی ہے کہ ہر لکھاری نے جب بھی ان کی شخصیت یا تصانیف پر قلم اٹھایا ہے تو بالکل الگ ہی جہت دریافت ہوئی ہے ، سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اصل میں علامہ صاحب کی شخصیت اور علم وفن کی متعدد جہتیں ہیں ، اور پھر ان سمتوں میں بھی مزید زاویے ہیں جس کی وجہ سے سالہا سال سے اس پر کام ہو رہا ہے اور دنیا بھر میں علامہ اقبال کے حوالے سے ادب تخلیق ہو رہا ہے ، ایسے میں ضرورت تھی کہ علامہ پر ہونے والے ادب کا جائزہ لیا جائے ۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کو اقبال شناسی میں تخصص حاصل ہے ، ان کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنھوں نے علامہ صاحب کی ہر جہت کے بارے میں آگہی حاصل کی ۔ ڈاکٹر وحید قریشی کہتے ہیں '' ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے ایک مدت سے اقبالیات کو اپنا میدان بنایا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبالیات ایک بحر ذخار ہے جس سے پوری توجہ کے بغیر انصاف نہیں کیا جا سکتا ۔ ہاشمی صاحب نے اپنے شب و روز کا بنیادی محور مطالعہ اقبال کو بنا کر اختصاصی مطالعے کو اہمیت دی ہے ۔
اسی لئے نتائج کے استخراج میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ اگرچہ معاصروں کے علمی کارناموں کا جائزہ لینے میں اندیشہ تو رہتا ہے کہ کہیں کہیں آدمی جذباتی ہو جائے۔'' ڈاکٹر تحسین فراقی کہتے ہیں '' پیش نظر اوراق میں ڈاکٹر رفیع نے علامہ اقبال پر وجود میں آنے والے سوانحی سرمائے، عالم عرب اور سرزمین بھارت میں ہونے والی اقبالیاتی کاوشوں اور بعض اہم کتابوں کو بھی موضوع تحقیق و محاکمہ بنایا ہے اور سلاست و صراحت فکر کے ساتھ اپنے نتائج پیش کیے ہیں ۔'' بہت تحقیقی کام کیا گیا ہے ۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
گواہی
مصنف:ممتاز احمد، قیمت:700 روپے، صفحات:256
ناشر: ٹی اینڈ ٹی پبلشرز، بنک کالونی، سمن آباد، لاہور(03004191687)
ہر انسان کی زندگی کی ایک کہانی ہے جو کچھ تو وہ خود لکھتا ہے اور کچھ حالات لکھتے ہیں کیونکہ بعض اوقات وہ حالات کے جبر سے مجبور ہر کر اپنی مرضی ترک کر کے خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے ۔ اب کہانی تو ہر فرد کی ہے مگر صرف ادیب ہی اپنی قوت مشاہدہ اور حساس طبیعت سے محسوس کرتا ہے اور قلم کی مدد سے صفحات پر اتارتا ہے ۔ ممتاز احمد اس سے قبل بھی متعدد کتابیں تصنیف کر چکے ہیں جن میں پلیٹ فارم ، لاری اڈہ، خواہش اور زندگی ، پہلی اینٹ، تڑپ ایک خواب کی اور کرن کرن روشنی شامل ہیں ۔ ان کی ادبی کاوشوں پر انھیں متعدد ادبی ایوارڈز سے نوازا گیا ۔
پروفیسر عبدالقیوم چوہدری کہتے ہیں '' ممتاز احمد کی بیس کہانیاں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں ۔ خوشگوار حیرت ہوئی ۔ یہ کہانیاں اپنے ہی شب و روز کی بازگشت محسوس ہوئیں ۔ کردار زندگی سے بھر پور اور جیتے جاگتے ، قاری کے لئے سوچوں کے در وا کرتے ہوئے ۔ میری دیانت دارانہ رائے میں تو یہ مجموعہ ''گواہی'' اس قابل ہے کہ اس کی کامیابی کی گواہی دی جائے اور مجھے اس کا گواہ ہونے پر فخر ہے ۔'' معروف ادیب کاشی چوہان کہتے ہیں '' ممتاز احمد بہت محنتی اور اچھے لکھاری ہیں ، اپنے پیشہ ورانہ فرائض کے ساتھ ساتھ لکھنا ان کا پرانا شوق ہے اور انتھک محنت سے لکھ رہے ہیں جس کا ثبوت ان کی چھٹی کتاب آ رہی ہے ۔
میں نے گواہی کی کہانیاں پڑھی ہیں تو اس میں چند کہانیاں جن میں گرفت، لوٹ کے بنجارہ گھر آیا، طوائف ، تقدیر کے کھیل ، انعام ، گواہی اور دو ٹکڑے دل کو چھو لیتی ہیں ۔ امید ہے کہ یہ تمام کہانیاں پڑھنے والوں کے دل کے تاروں کو چھیڑیں گی ۔'' کہانیوں کا بہت خوبصورت مجموعہ ہے ، ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیئے ۔
مصنف : انور مسعود، قیمت : 1495 روپے، ناشر : بک کارنر ، جہلم ، رابطہ : 03215440882
جناب انور مسعود کی کہانی نہایت دلچسپ ہے ۔ میٹرک کے بعد والد کی خواہش پر ڈاکٹر بننے کی غرض سے ایف ایس سی ( میڈیکل ) میں داخلہ لے لیا لیکن طبع کا میلان نہ پا کر ایف اے میں داخلہ لے لیا ۔
بی اے میں فرسٹ کلاس، رول آف آنر اور سلور میڈل کے ساتھ امتیازی حیثیت سے کامیابی حاصل کی ۔ مالی حالات نامساعد تھے نتیجتاً ایم اے میں داخلہ نہ لے سکے اور ایک ہائی سکول میں استاد ہو گئے ۔ دو سال وہاں رہے ، پھر بوجوہ استعفیٰ دیا اور لاہور جا پہنچے۔
اسلامیہ کالج لاہور میں ایم اے انگریزی میں داخلہ لینے کی کوشش کی لیکن فیس جمع کرانے میں دیر ہوگئی ، یوں داخلہ نہ ہو سکا۔ سخت مایوس ہوئے ، اضطراب کے عالم میں اورنٹئیل کالج پنجاب یونیورسٹی پہنچ گئے، اور سیدھے صدر شعبہ فارسی ڈاکٹر محمد باقر کے سامنے جا بیٹھے ۔ وہاں ایک دلچسپ مکالمہ اور واقعہ ہوا ۔ جس نے جناب انور مسعود کی زندگی بدل کر رکھ دی۔
کہتے ہیں : '' میں نے ( ڈاکٹر محمد باقر کو ) اپنا ( داخلہ ) فارم پیش کیا تو انھوں نے فارم کو بڑے غور سے دیکھا اور مجھ پر ایک گہری نظر ڈالی اور پوچھنے لگے کہ کیا تم فارسی پڑھ کر تیل بیچو گے ؟ میں نے جواباً فوراً عرض کیا کہ
'' ڈاکٹر صاحب! کیا آپ تیل بیچ رہے ہیں؟''
یہ غیرمتوقع جواب سن کر وہ مسکرائے اور فوراً میرے فارم پر دستخط کر دئیے اور یہ کہا کہ آپ ذرا بیٹھیں آپ سے مزید کچھ پوچھنا ہے۔
اب قدرت کا یہ نظام دیکھیے کہ میرے داخلہ فارم پر دستخط کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے نائب قاصد محمد حسین سے یہ کہا کہ اگلی امیدوار قدرت الٰہی صدیقہ کو بلایا جائے ۔ یہ انوکھا سا نام سن کر میں بہت متعجب ہوا ۔ چند لمحوں کے بعد ایک لڑکی داخل ہوئی جو بڑی پروقار شخصیت کی حامل، متانت اور مشرقیت کا پیکر اور مجسم شائستگی دکھائی دیتی تھی۔ آنکھیں ایسی حیادار اور پرکشش کہ دیکھنے والا ان میں ڈوبتا ہی چلا جائے۔''
عجب حسین اتفاق کہ یہ دونوں ہم جماعت ہوئے اور پھر زندگی میں ہم سفر بھی بنے ۔ انور مسعود کہتے ہیں : '' صدیقہ کے ساتھ میری شادی بہت ہی مبارک بندھن ثابت ہوئی۔ کیسے؟ زیر نظر کتاب کے پیش لفظ میں جواب کسی قدر تفصیل سے موجود ہے۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ ڈاکٹر محمد باقر کے کمرہ میں ہونے والے حسین اتفاق کے بعد شادی تک ، مزید کیا اتفاقات ہوئے۔
اس کے بعد باقی کتاب میں جناب انورمسعودکے وہ خطوط ہیں جو انھوں نے شادی سے پہلے اور شادی کے بعد قدرت الٰہی صدیقہ کے نام لکھے۔ زیادہ تر خطوط شادی سے پہلے کے ہیں۔ یہ خطوط کیا ہیں ؟ محبت کی ایک داستان ہیں اور آپ بیتی بھی۔ چونکہ اس کتاب میں صرف جناب انور مسعود کے خطوط ہیں ، اس لئے اسے یکطرفہ محبت کی داستان ہی کہا جا سکتا ہے۔ وہ خط کے آخر میں لکھا کرتے تھے :' تمھارا شیدا ' ، ' انتظار بخت ' اور ' صرف تمھارا ' ، اسی تناظر میںکتاب کا نام ہوا :' صرف تمھارا انور مسعود '۔ یقیناً یہ خطوط محبت کرنے والوں کے لئے ایک گراں قدر تحفہ اور اردو ادب میں ایک اہم اضافہ ہیں ۔
نظریات کی مختصر تاریخ
مصنف : یاسر جواد، قیمت : 900 روپے، ناشر : بک کارنر، جہلم، رابطہ : 03215440882
زیر نظر کتاب کا عنوان ہی اس کا مختصر تعارف ہے، اس میں انسانی فکری تاریخ کا کافی حد تک احاطہ کیا گیا ہے لیکن مختصر انداز میں۔ قریباً دو سو نظریات کے بارے میں بتایا گیا ہے جن میں آریائیت ، آشوبیت ، ابہام پسندی، اجتماعیت، اخلاقیات یعنی اخلاق پسندی، اخلاقیت، ادویت، ارسطوئیت، ارواح پرستی، استدلالیت، اسلامی نظریہ، اسمیت، اشتراکیت، اضافیت، اضافیت پسندی، اظہاریت، افادیت پسندی، امپریشنزم، امن خواہی، انانیت، انسانیت پسندی، انکاریت، اورفزم، ایپی قوریت، ایثاریت، ایجابیت ( ثبوتیت )، ایراستینی نظریہ، ایکمی ازم، ایوانجلیکل ازم، باطنیت، بدھ مت، برہمن مت، بشرپیکری ( تجسیمیت ) بنیاد پرستی، بولشوزم، پاک سرزمین کا بدھ مت، پاگان ازم، پس ساختیات، پوائنٹلزم، پوسٹ امپریشن ازم، پوسٹ سٹرکچرل ازم، پوسٹ ماڈرن ازم، پیوریتان ازم، تاؤمت، تبتی بدھ مت، تجربیت، تجریدی اظہاریت، تجسیمیت، تخفیف پسندی، تخلیقیت، تخیل پسندی، تشکیکیت یعنی تشکیک پسندی، تصوف، تقدیرپرستی، تقویٰ پرستی، تکثیریت، تمثال پسندی، تنقید، ادبی تنقید، تاریخی تنقید، تجربی تنقید، تحلیلی نفسیاتی تنقید،
عملی تنقید، فرائیڈئین تنقید، مارکسی تنقید، متنی تنقید، مظہریاتی تنقید، نسوانیت پسند تنقید، نئی تنقید، توحید پرستی، توکل پسندی، ٹراٹسکی ازم، ٹوٹم مت، ثبوتیت، ثنائیت، ثنویت، جاگیرداریت، جانسین ازم، جبریت، جدلیات، جدلیاتی مادیت، جدیدیت، جنس پرستی، جین مت، چارٹزم،چارواک، حقوق نسواں، حقیقت پسندی، حیویت، خانقاہیت، خداپرستی، منطقی، خودتسکینی، دویت، ڈاڈا، ڈارونیت، ڈروئڈ ازم، رجائیت پسندی، رواقیت، روحانیت، روحیت، رومانویت، زرتشت مت، زین بدھ مت، ساحرانہ حقیقت پسندی، ساختیات، سادیت، سامراجیت، سامیت دشمنی، سانکھیہ، سپریمیٹزم، سر ریئلزم، سرمایہ داریت، سکھ مت، سماجی ڈارون ازم، سوشلزم، سوشلسٹ حقیقت پسندی، شنتو، شیطان پرستی، صارفیت، صیہونیت، ظہورثانی کا عقیدہ، علم الکلام،علیحدگی پسندی، عیسائیت ( مسیحیت ) عینیت، غائتیت، غناسطیت، غیب کا علم، غیرثنائیت، فارمل ازم، فاشزم،فسطائیت ( فاشزم)، فطرت پسندی، فعلیت، فووزم، فیٹش ازم، فیثا غورثیت، فیوچر ازم، قوم پرستی،
کارل ازم، کثرت پرستی، کرداریت، کعبیت (کیوب ازم)، کلاسیکیت، کلبیت، کلیسائی مجلس کا نظریہ، کمیونزم (اشراکیت) کنفیوشس مت، کیلون ازم، کیوب ازم، گالیکن ازم، گلڈسوشلزم، لاادریت، لاما ازم، لباسی خلط، لبرل ازم، لذتیت، لنگ پرستی، لوتھرازم، لوکایت، لینن ازم، مابعد تاثیریت، مابعد جدیدیت، مابعد الطبیعیات، ماتھرنیزمو، مادیت، مارکس ازم، ماسوکزم، مانویت، ماؤ ازم، ماورائیت، متھرامت، مثالیت ( عینیت)، مرتاضیت، مرکنٹائل ازم، مساکیت، مساوات پسندی، مستقبلیت، مسیحیت، مطلق العنانی، معروضیت، ملحدیت، منطقی ایجابیت، مونتان ازم، میتھوڈ ازم،مینڈیائی پرستی، مینرازم، نازی ازم، نتائجیت، نراجیت، نسطوریت، نسل پرستی، نسوانیت پسندی نوکانٹ ازم، نواظہاریت، نوانسانیت پسندی، نوتاثریت، نوتاریخیت، نوحقیقت پسندی، نوڈارونیت ( ڈارونیت)، نوفلاطونیت، نوکلاسیکیت، نوکنفیوشیت، نیچیرن بدھ مت، نیشنل سوشلزم ( نازی ازم) واحدیت، وارٹیسزم، وجودیت، وحدانیت، وحدت الوجود، وطن پرستی، وظیفہ گیریت، وفاقیت، ویشنومت، ہاسدیت، ہرمیٹسزم، ہندومت ، ہیگلیت، ہیلینیائیت، یہودیت اور یوگ شامل ہیں۔
اس کتاب میں صرف ایسے تصورات اور بنیادی نظریات کو جگہ دی گئی ہے جو ادب، لسانیات، آرٹ ، فلسفہ اور سیاست میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ مصنف نے اس قدر زیادہ نظریات کو کتاب میں شامل کیا ہے کہ ان کا یہاں تفصیل سے تعارف کرنا ممکن نہیں ۔ انھوں نے ان نظریات کا تذکرہ کچھ اس انداز میں کیا ہے کہ فکر و نظر کی نئی دنیائیں کھلتی ہیں۔
غدار ( ناول )
مصنف: کرشن چندر، قیمت: 500 روپے
ناشر: بک کارنر، جہلم، واٹس ایپ: 03215440882
برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے وقت جو کچھ ہوا ، وہ اب تک دونوں مملکتوں کے باسیوں کو بخوبی یاد ہے۔ ایسے تذکرے پڑھ کر ، سب کر ان باسیوں کے آنسو بہنے لگتے ہیں۔ اردو کے نامور ناول نگارکرشن چندر بھی اس ناول کی صورت میں زاروں قطار روئے ہیں لیکن ان کے آنسوؤں کا تعلق ماضی میں رونما ہونے والے واقعات سے نہیں بلکہ مستقبل سے ہے۔
کرشن چندر سمجھتے تھے کہ بہت سے لوگ ان تلخ واقعات کو بھولتے جا رہے ہیں لیکن اس نفرت کو نہیں بھولتے جس نے ان تلخ واقعات کو جنم دیا تھا ... اب بھی دونوںملکوں کے درمیان نفرت کی ایک دیوار کھڑی ہے۔ ان کے بقول : '' ہندوستان میں ایک یا دو نہیں لاکھوں انسان ایسے ہوں گے جو پشاور تک اکھنڈ بھارت کو پھیلانے کے خواب دیکھتے ہوں گے۔ پاکستان میں ایسے انسانوں کی کمی نہیں جو دلی پر ہلالی پرچم لہرا دینے کے متمنی ہیں اور اس کے لئے لاکھوںکی تعدادمیں جان دینے کے لئے تیار ہیں۔''
کرشن چندر کا یہ ناول اسی نفرت کو سمجھانے اور اسے قلب و ذہن سے مٹانے کی ایک کوشش ہے۔ ناول بیج ناتھ ( برہمن ) اور شاداں ( مسلمان لڑکی) کے معاشقے سے شروع ہوتا ہے۔ چھٹے باب میں ایک ہندو لڑکی ایک سکھ کی نظروں کا مرکز و محور بنتی ہے۔
آٹھویں باب میں ایک ہندو لڑکی پاروتی ایک مسلمان نوجوان امتیاز سے والہانہ محبت کرتی تھی۔ محبتوں سے اٹھان لیتی یہ کہانیاں بیان کرتی ہیں کہ کیسے امن اور پیار کے لئے کوشش کرنے والے اپنی اپنی اقوام کے ہاں '' غدار '' قرار دیے جاتے ہیں۔ بیج ناتھ جیسے کردار ہمارے معاشروں میں کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن ایسے کرداروں کی سخت ضرورت ہے کہ معاشرے خوشحال بن سکیں ۔کرشن چندر کی تمنا ہے کہ بیج ناتھ جیسے کرداروں سے نہ صرف ہندوستان اور پاکستان، بلکہ ساری دنیا بھر جائے۔
جیسا کہ سابقہ سطور میں بتایا گیا ہے کہ ناول کی کہانی 1947ء کے روح فرسا واقعات کے پس منظر میں لکھی گئی ہے ، بلکہ یہ زیادہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ یہ پون صدی قبل رونما ہونے والے شرمناک واقعات میں سے چند واقعات ہیں۔کرشن چندر نے اس کہانی کے ذریعے ہمیں انسانیت ، نیک کرداری ، امن اور اخوت کا فلسفہ سکھانے کی کوشش کی ہے۔ان کا انداز تحریر ایسا مسحور کن ہوتا ہے کہ قاری ہر جملے سے پوری طرح لطف پاتا ہے ۔ منظرنگاری ایسی خوبصورت ہوتی ہے کہ پڑھنے والا منظر میں کھوئے رہنا چاہتا ہے۔ اس ناول کو بڑے پیمانے پر پڑھنے اور پڑھانے کی ضرورت ہے۔ ( تبصرہ نگار : عبیداللہ عابد)
نقطہ ، خط ، دائرہ
مصنفہ : ڈاکٹر شائستہ جبیں، قیمت : درج نہیں
ناشر : دارالنوادر ، الحمد مارکیٹ ، سیکنڈ فلور ، اردو بازار ، لاہور ۔ رابطہ : 03008898639
زیر نظر کتاب کی مصنفہ گورنمنٹ گریجویٹ کالج ، جھنگ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ ان کی یہ تحاریر وقتاً فوقتاً روزنامہ ایکسپریس کے سنڈے میگزین اور ایک ویب سائٹ میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ یہ تحاریر زندگی کے مختلف مراحل پر پیش آنے والے مسائل کا حل سمجھاتی ہیں ، مختلف مشکل کیفیات سے نکلنے کا راستہ سجھاتی ہیں، آگے بڑھنے پر اکساتی ہیں، ہمارے مختلف معاشرتی مسائل پر ضرب لگاتی ہیں جو ہماری اچھی اقدار و روایات کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔
کتاب کی پہلی تحریر ہی کیا خوب ہے کہ ' آزمائش میں ہمارا طرزعمل کیسا ہونا چاہیے؟' پھر ' Overthinking ' ہی کو پڑھ لیجئے ، یقینی طور پر آپ بہت زیادہ سوچنے سے پرہیز کرنے لگیں گے۔ پھر ایک تحریر میں ایسے 50 کام بتائے گئے ہیں جو آپ کو 50 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے کرلینے چاہئیں۔
ایک تحریر تنہا رہنے والوں اور احساس تنہائی کے شکار لوگوں کے لئے ہے کہ وہ ان کیفیات سے کیسے باہر نکلیں؟ مزید چند تحاریر کے عنوانات بھی ملاحظہ ہوں : '' توقعات ... زندگی بوجھل کرتی ہیں '' ، '' خود اعتمادی'' ، '' خود پسندی '' ، '' خوشی کہاں ہے ؟ '' ، '' ذہنی آلودگی ، لمحہ فکریہ '' ، '' ذہن کو صحت مند رکھیں '' ، '' زندگی برانڈ نہیں '' ،' زہریلے لوگوں اور رشتوں سے خود کو بچانا ہے '' ، قدر دان بنیں '' ، '' مثبت سوچ ... مثبت زندگی '' ، '' وقت کیسے بچائیں ''، '' وقت نکالیں ، سب کے لئے ''۔ یہ تو ہیں تعمیر شخصیت سے جڑی تحاریر ۔
ڈاکٹر شائستہ جبیں نے اجتماعی مسائل پر بھی بات کی ہے۔ مثلاً ' معذرت ' ، ' مولوی ' ، ' میں فقط خاک ہوں ' ، ' کچھ تو خدا کا خوف کریں ' ، ' روح کے رشتے ' ، ' ذرا سا جھوٹ ' ۔ ' پنجابی اکھان ' ، ' آدمی کو صرف چمچہ گیر ہونا چاہیے '، ' بای ذنب قتلت ، وہ کس جرم میں ماری گئی؟' اور ' یہ کسی ایک کی کہانی نہیں ہے ۔'ڈاکٹر صاحبہ کی یہ تمام تحاریر ایسی پرتاثیر ہیں کہ اذہان و قلوب کو مسخر کرتی ہیں۔
یہ ہماری توجہ ایسے مسائل کی طرف مبذول کراتی ہیں جو المیے بن چکے ہیں لیکن بحیثیت مجموعی ان کا احساس نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ ان مسائل کی سنگینی کا احساس دلاتی ہیں اور ان کے خلاف جدوجہد پر ابھارتی ہیں۔ ' نقطہ ، خط ، دائرہ ' ان کتابوں میں سے ایک ہے جو ہر گھر کی لائبریری کا حصہ ہونی چاہیے، اس کا خود بھی مطالعہ کرتے رہنا چاہیے اور دوسروں کو بھی اس مطالعے میں شامل کرنا چاہیے۔
اقبالیاتی ادب
مصنف: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، قیمت: 400 روپے، صفحات: 188
ناشر: بزم اقبال 2 کلب چوک ، لاہور ( 04299200851)
علامہ اقبال کی شخصیت ایسی ہے کہ ہر لکھاری نے جب بھی ان کی شخصیت یا تصانیف پر قلم اٹھایا ہے تو بالکل الگ ہی جہت دریافت ہوئی ہے ، سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اصل میں علامہ صاحب کی شخصیت اور علم وفن کی متعدد جہتیں ہیں ، اور پھر ان سمتوں میں بھی مزید زاویے ہیں جس کی وجہ سے سالہا سال سے اس پر کام ہو رہا ہے اور دنیا بھر میں علامہ اقبال کے حوالے سے ادب تخلیق ہو رہا ہے ، ایسے میں ضرورت تھی کہ علامہ پر ہونے والے ادب کا جائزہ لیا جائے ۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کو اقبال شناسی میں تخصص حاصل ہے ، ان کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنھوں نے علامہ صاحب کی ہر جہت کے بارے میں آگہی حاصل کی ۔ ڈاکٹر وحید قریشی کہتے ہیں '' ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے ایک مدت سے اقبالیات کو اپنا میدان بنایا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبالیات ایک بحر ذخار ہے جس سے پوری توجہ کے بغیر انصاف نہیں کیا جا سکتا ۔ ہاشمی صاحب نے اپنے شب و روز کا بنیادی محور مطالعہ اقبال کو بنا کر اختصاصی مطالعے کو اہمیت دی ہے ۔
اسی لئے نتائج کے استخراج میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ اگرچہ معاصروں کے علمی کارناموں کا جائزہ لینے میں اندیشہ تو رہتا ہے کہ کہیں کہیں آدمی جذباتی ہو جائے۔'' ڈاکٹر تحسین فراقی کہتے ہیں '' پیش نظر اوراق میں ڈاکٹر رفیع نے علامہ اقبال پر وجود میں آنے والے سوانحی سرمائے، عالم عرب اور سرزمین بھارت میں ہونے والی اقبالیاتی کاوشوں اور بعض اہم کتابوں کو بھی موضوع تحقیق و محاکمہ بنایا ہے اور سلاست و صراحت فکر کے ساتھ اپنے نتائج پیش کیے ہیں ۔'' بہت تحقیقی کام کیا گیا ہے ۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
گواہی
مصنف:ممتاز احمد، قیمت:700 روپے، صفحات:256
ناشر: ٹی اینڈ ٹی پبلشرز، بنک کالونی، سمن آباد، لاہور(03004191687)
ہر انسان کی زندگی کی ایک کہانی ہے جو کچھ تو وہ خود لکھتا ہے اور کچھ حالات لکھتے ہیں کیونکہ بعض اوقات وہ حالات کے جبر سے مجبور ہر کر اپنی مرضی ترک کر کے خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے ۔ اب کہانی تو ہر فرد کی ہے مگر صرف ادیب ہی اپنی قوت مشاہدہ اور حساس طبیعت سے محسوس کرتا ہے اور قلم کی مدد سے صفحات پر اتارتا ہے ۔ ممتاز احمد اس سے قبل بھی متعدد کتابیں تصنیف کر چکے ہیں جن میں پلیٹ فارم ، لاری اڈہ، خواہش اور زندگی ، پہلی اینٹ، تڑپ ایک خواب کی اور کرن کرن روشنی شامل ہیں ۔ ان کی ادبی کاوشوں پر انھیں متعدد ادبی ایوارڈز سے نوازا گیا ۔
پروفیسر عبدالقیوم چوہدری کہتے ہیں '' ممتاز احمد کی بیس کہانیاں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں ۔ خوشگوار حیرت ہوئی ۔ یہ کہانیاں اپنے ہی شب و روز کی بازگشت محسوس ہوئیں ۔ کردار زندگی سے بھر پور اور جیتے جاگتے ، قاری کے لئے سوچوں کے در وا کرتے ہوئے ۔ میری دیانت دارانہ رائے میں تو یہ مجموعہ ''گواہی'' اس قابل ہے کہ اس کی کامیابی کی گواہی دی جائے اور مجھے اس کا گواہ ہونے پر فخر ہے ۔'' معروف ادیب کاشی چوہان کہتے ہیں '' ممتاز احمد بہت محنتی اور اچھے لکھاری ہیں ، اپنے پیشہ ورانہ فرائض کے ساتھ ساتھ لکھنا ان کا پرانا شوق ہے اور انتھک محنت سے لکھ رہے ہیں جس کا ثبوت ان کی چھٹی کتاب آ رہی ہے ۔
میں نے گواہی کی کہانیاں پڑھی ہیں تو اس میں چند کہانیاں جن میں گرفت، لوٹ کے بنجارہ گھر آیا، طوائف ، تقدیر کے کھیل ، انعام ، گواہی اور دو ٹکڑے دل کو چھو لیتی ہیں ۔ امید ہے کہ یہ تمام کہانیاں پڑھنے والوں کے دل کے تاروں کو چھیڑیں گی ۔'' کہانیوں کا بہت خوبصورت مجموعہ ہے ، ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیئے ۔