آڈیو لیکس
یہ مسئلہ بغیرکسی سیاسی جماعت کی مخالفت کے قومی سلامتی کا اہم ترین مسئلہ بن چکا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں، قومی رہنماؤں اور دیگراہم ترین شخصیات کی نجی گفتگو کو ریکارڈ کرکے سوشل میڈیا پر پھیلائی جا رہی ہیں۔
حیرت اس بات پر ہے کہ یہ سب کچھ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت پاکستان کے اعلیٰ ایوانوں میں ہو رہا ہے۔ کبھی وزیر اعظم ہاؤس سے مبینہ آڈیو لیک کی جاتی ہے تو کبھی وزیر اعلیٰ ہاؤس اور کبھی کبھی تو حساس شخصیات کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو نامعلوم مقام سے لیک کیا جا رہا ہے۔
آپ سیاسی مخالف کو ایک طرف رکھ کر یہ سوچیں کہ اگر آپ کے قومی سلامتی اور سیکیورٹی کے امور لیک آؤٹ ہونا شروع ہوگئے تو پھر اس ملک کا کیا ہوگا؟ اور کیا پتہ کہ ہوتے بھی ہوں؟ کیوں کہ ہمیں تو یہ بھی علم نہیں ہے کہ جب ہم اپنی الیکٹرانک ڈیوائسز خصوصاً موبائل میں کسی بھی'' ایپ'' کے انسٹال کرنے کے بعد ''Allow'' کا بٹن پریس کرتے ہیں تو ہم اپنے موبائل کے آڈیو یا وڈیو فنکشن کو یہ اجازت دے رہے ہوتے ہیں کہ وہ ''ایپ'' کے لیے استعمال ہوں اور پھر ہمیں یہ بالکل اندازہ نہیں ہوتا کہ کونسی ''ایپ'' آپ کی جاسوسی کر رہی ہو ۔
اور پھر یہی نہیں بلکہ دنیا اس قدر ترقی کر چکی ہے کہ بغیر کسی ڈیوائسز کے آدھے کلومیٹر کی دوری سے شعاعوں کے ذریعے آپ کی آواز کو ریکارڈ کیا جاسکتا ہے۔بلکہ اس ٹیکنالوجی کے بارے میں 2010میں بھی خاصی گرماگرم بحث ہوئی تھی جب یہ کہا جا رہا تھا کہ کچھ غیر ملکی مشنز اور آپریٹرز ایوانِ صدر کے گرد موجود تقریباً تمام اعلیٰ اور اہم سرکاری دفاتر کی جاسوسی کے لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں۔ اور دسمبر 2009 میںبھی ایسی ہی ایک خبر شایع ہوئی تھی ۔
پھرقارئین کو یاد ہو گا کہ 2016ء میں بھی جس وقت پاناما پیپرز کیس پر سپریم کورٹ میں کارروائی جاری تھی اس وقت وزیر اعظم کے رہائشی کمپاؤنڈ اور بعد میں ملحقہ عمارت میں قائم دفاتر کی جاسوسی کی کوشش کی گئی تھی۔ مطلب ! جاسوسی کی یہ کارروائیاں ہمارے لیے نئی نہیں ہیں، لیکن ہم ٹھہرے بدھو کے بدھو! کہ عوام کو تحفظ دینا تو درکنا ہمارے لیڈروں کے لیے اپنا بچاؤ بھی ممکن نہیں رہا۔ حتیٰ کہ گزشتہ روز لیک ہونے والی مبینہ آڈیو کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے اعلیٰ سطح کے اجلاس کی ہے جس میں صرف وزراء ہی شرکت کرسکتے ہیں۔
ہاں ! اگرعام آدمی شرکت کرے تو اس قسم کی سنگین ''شرارت'' کے چانسز بڑھ جاتے ہیں ۔خیر واپس آتے ہیں گزشتہ روز ہونے والی آڈیو لیکس پر تو سوشل میڈیا پر متعدد آڈیو لیکس کے وائرل ہونے کے بعد انٹیلی جنس بیورو کو وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی مبینہ جاسوسی کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔ ان آڈیوز کا اگر سرسری جائزہ لیا جائے تو پہلی آڈیو میں وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے پرنسپل سیکریٹری ڈاکٹر توقیر شاہ کے درمیان ہونے والی بات چیت تھی۔
دوسری آڈیو میں چچا اور بھتیجی کے درمیان پرویز مشرف کی بگڑتی ہوئی صحت کے بارے میں بات ریکارڈ کی گئی ہے جب کہ تیسری آڈیو میں مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری اور اس معاملے پر نواز شریف سے مشورہ لینے پر بات کی جا رہی ہے۔ جب کہ ایک اور آڈیو میں وزیراعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثنااللہ، وزیر دفاع خواجہ آصف اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سمیت دیگر رہنماؤں کی آوازیں ہیں۔
اگر یہ کام واقعی دشمن ملک کی خفیہ ایجنسیاں کر رہی ہیں تو پھر ہمیں سوچنا چاہیے کہ دشمن ہمارے ''بیڈرومز'' تک آچکا ہے۔ اور پھر ان تمام آڈیوز کے لیک ہونے کے بعد کیا وزیراعظم ہاؤس میں قومی سلامتی کے معاملے پر کوئی اجلاس ہو سکتا ہے؟یا حکومت اور وزیراعظم پالیسی سازی کے لیے ان کیمرہ اجلاس کرکے مطمئن ہو سکتے ہیں؟نہیں ناں! تو پھر حکومت اگر ان چیزوں کے لیے جیمر نہیں بنوا سکتی تو کم از کم ''بم پروف'' قسم کے کمرے بنا لے۔
تاکہ وہاں کسی قسم کی خطرناک ''شعاعیں'' داخل نہ ہوسکیں اور نہ ہی کوئی وہاں جاسوسی کے آلات نصب کر سکے۔ لہٰذا کیا پاکستان کے پاس اس قسم کی ٹیکنالوجی ہے کہ یہ کام کرنے والوں کوپکڑا جا سکے، یا کم از کم ریکارڈنگز کو ہی روکا جاسکے۔ اگر ہم ایسا نہیں کر سکتے تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہم میں سے کوئی محفوظ نہیں ہے۔
حیرت اس بات پر ہے کہ یہ سب کچھ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت پاکستان کے اعلیٰ ایوانوں میں ہو رہا ہے۔ کبھی وزیر اعظم ہاؤس سے مبینہ آڈیو لیک کی جاتی ہے تو کبھی وزیر اعلیٰ ہاؤس اور کبھی کبھی تو حساس شخصیات کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو نامعلوم مقام سے لیک کیا جا رہا ہے۔
آپ سیاسی مخالف کو ایک طرف رکھ کر یہ سوچیں کہ اگر آپ کے قومی سلامتی اور سیکیورٹی کے امور لیک آؤٹ ہونا شروع ہوگئے تو پھر اس ملک کا کیا ہوگا؟ اور کیا پتہ کہ ہوتے بھی ہوں؟ کیوں کہ ہمیں تو یہ بھی علم نہیں ہے کہ جب ہم اپنی الیکٹرانک ڈیوائسز خصوصاً موبائل میں کسی بھی'' ایپ'' کے انسٹال کرنے کے بعد ''Allow'' کا بٹن پریس کرتے ہیں تو ہم اپنے موبائل کے آڈیو یا وڈیو فنکشن کو یہ اجازت دے رہے ہوتے ہیں کہ وہ ''ایپ'' کے لیے استعمال ہوں اور پھر ہمیں یہ بالکل اندازہ نہیں ہوتا کہ کونسی ''ایپ'' آپ کی جاسوسی کر رہی ہو ۔
اور پھر یہی نہیں بلکہ دنیا اس قدر ترقی کر چکی ہے کہ بغیر کسی ڈیوائسز کے آدھے کلومیٹر کی دوری سے شعاعوں کے ذریعے آپ کی آواز کو ریکارڈ کیا جاسکتا ہے۔بلکہ اس ٹیکنالوجی کے بارے میں 2010میں بھی خاصی گرماگرم بحث ہوئی تھی جب یہ کہا جا رہا تھا کہ کچھ غیر ملکی مشنز اور آپریٹرز ایوانِ صدر کے گرد موجود تقریباً تمام اعلیٰ اور اہم سرکاری دفاتر کی جاسوسی کے لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں۔ اور دسمبر 2009 میںبھی ایسی ہی ایک خبر شایع ہوئی تھی ۔
پھرقارئین کو یاد ہو گا کہ 2016ء میں بھی جس وقت پاناما پیپرز کیس پر سپریم کورٹ میں کارروائی جاری تھی اس وقت وزیر اعظم کے رہائشی کمپاؤنڈ اور بعد میں ملحقہ عمارت میں قائم دفاتر کی جاسوسی کی کوشش کی گئی تھی۔ مطلب ! جاسوسی کی یہ کارروائیاں ہمارے لیے نئی نہیں ہیں، لیکن ہم ٹھہرے بدھو کے بدھو! کہ عوام کو تحفظ دینا تو درکنا ہمارے لیڈروں کے لیے اپنا بچاؤ بھی ممکن نہیں رہا۔ حتیٰ کہ گزشتہ روز لیک ہونے والی مبینہ آڈیو کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے اعلیٰ سطح کے اجلاس کی ہے جس میں صرف وزراء ہی شرکت کرسکتے ہیں۔
ہاں ! اگرعام آدمی شرکت کرے تو اس قسم کی سنگین ''شرارت'' کے چانسز بڑھ جاتے ہیں ۔خیر واپس آتے ہیں گزشتہ روز ہونے والی آڈیو لیکس پر تو سوشل میڈیا پر متعدد آڈیو لیکس کے وائرل ہونے کے بعد انٹیلی جنس بیورو کو وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی مبینہ جاسوسی کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔ ان آڈیوز کا اگر سرسری جائزہ لیا جائے تو پہلی آڈیو میں وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے پرنسپل سیکریٹری ڈاکٹر توقیر شاہ کے درمیان ہونے والی بات چیت تھی۔
دوسری آڈیو میں چچا اور بھتیجی کے درمیان پرویز مشرف کی بگڑتی ہوئی صحت کے بارے میں بات ریکارڈ کی گئی ہے جب کہ تیسری آڈیو میں مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری اور اس معاملے پر نواز شریف سے مشورہ لینے پر بات کی جا رہی ہے۔ جب کہ ایک اور آڈیو میں وزیراعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثنااللہ، وزیر دفاع خواجہ آصف اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سمیت دیگر رہنماؤں کی آوازیں ہیں۔
اگر یہ کام واقعی دشمن ملک کی خفیہ ایجنسیاں کر رہی ہیں تو پھر ہمیں سوچنا چاہیے کہ دشمن ہمارے ''بیڈرومز'' تک آچکا ہے۔ اور پھر ان تمام آڈیوز کے لیک ہونے کے بعد کیا وزیراعظم ہاؤس میں قومی سلامتی کے معاملے پر کوئی اجلاس ہو سکتا ہے؟یا حکومت اور وزیراعظم پالیسی سازی کے لیے ان کیمرہ اجلاس کرکے مطمئن ہو سکتے ہیں؟نہیں ناں! تو پھر حکومت اگر ان چیزوں کے لیے جیمر نہیں بنوا سکتی تو کم از کم ''بم پروف'' قسم کے کمرے بنا لے۔
تاکہ وہاں کسی قسم کی خطرناک ''شعاعیں'' داخل نہ ہوسکیں اور نہ ہی کوئی وہاں جاسوسی کے آلات نصب کر سکے۔ لہٰذا کیا پاکستان کے پاس اس قسم کی ٹیکنالوجی ہے کہ یہ کام کرنے والوں کوپکڑا جا سکے، یا کم از کم ریکارڈنگز کو ہی روکا جاسکے۔ اگر ہم ایسا نہیں کر سکتے تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہم میں سے کوئی محفوظ نہیں ہے۔