خوف کا بت توڑنا ہوگا
جس طرح ’’ہارر فلموں‘‘ میں لکھا ہوتا ہے کہ ’’کمزور دل افراد‘‘ نہ دیکھیں ایسا ہی پاکستان ٹیم کے میچز پر بھی ہونا چاہیے
جس طرح ''ہارر فلموں'' کے اشتہار میں لکھا ہوتا ہے کہ ''کمزور دل افراد'' نہ دیکھیں ایسا ہی پاکستان ٹیم کے میچز پر بھی ہونا چاہیے، اکثر مقابلے اتنے سنسنی خیز ہوتے ہیں کہ لوگوں کا بلڈ پریشر بڑھنے لگتا ہے، ایسا ہی میچ کراچی میں انگلینڈ کے خلاف بھی ہوا جس میں کسی جاسوسی ناول کی طرح کئی ٹوئسٹ آئے مگر آخر میں فتح میزبان ٹیم کو نصیب ہوئی، شائقین تو دور کی بات ہے پاکستانی ہیڈ کوچ بھی میچ کے دوران تناؤ میں نظر آئے۔
ایک موقع پر بولر کی پٹائی پر وہ غصے کا اظہار کرتے بھی دکھائی دیے، ٹی ٹوئنٹی بڑا سنگدل فارمیٹ ہے، اس میں کوئی ٹیم ہارتے ہارتے جیت جاتی ہے تو کبھی بظاہر آسانی سے جیتی والی سائیڈ ناکام رہتی ہے، محمد حسنین نے جب 18ویں اوور میں 24 رنز دیے تو پاکستانی پلیئرز کے مرجھائے چہرے کہانی بیان کر رہے تھے۔
شائقین میں سے بھی کئی نے واپسی کا ارادہ کرلیا تھا،2 اوورز میں 3وکٹوں کی موجودگی میں9 رنز بننا کیا مشکل تھا لیکن ایسے میں حارث رؤف سامنے آئے، انھوں نے دوسری گیند پر چوکے کا کوئی اثر نہ لیا اور مسلسل بالز پر ڈاسن اور اولی اسٹون کو آؤٹ کر کے پاکستان کو کھیل میں واپس لے آئے، پھر آخری اوور میں شان مسعود نے جب ٹوپلے کو رن آؤٹ کیا تو میدان میں جیت کا جشن شروع ہوگیا۔
حارث لاہور قلندرز اور عاقب جاوید کی دریافت ہیں، بابراعظم کے بارے میں ایک بیان پر سابق پیسر ان دنوں سوشل میڈیا پر شائقین کے نشانے پر ہیں مگر صرف حارث جیسا بولر ملک کو دینے پر ہی ان کی پسند نہ آنے والی بات کو نظر انداز کر دینا چاہیے، شاہین شاہ آفریدی اور شاداب خان کی عدم موجودگی میں پاکستان کی جانب سے 166 رنز کا دفاع قابل تعریف ہے، محمد نواز نے ایک اوور کے سوا باقی بولنگ بہترین کی۔
ایسا ہی محمد حسنین کے ساتھ تھا، وسیم کی کارکردگی بھی بہتر رہی، عثمان قادر کی انجری نے افتخار احمد کو 4 اوورز کرنے کا موقع دیا جس میں انھوں نے بیٹرز کو کھل کر نہ کھیلنے دیا، بولنگ کے حوالے سے بابر اعظم کو پالیسی میں تبدیلی لانا ہوگی، پہلا اوور فلاں، دوسرا فلاں سے کراؤں گا، پھر اسے لاؤں گا۔
پہلے سے پلان کرنے کے بجائے میدان میں صورتحال دیکھ کر بولنگ میں تبدیلیاں کریں تو زیادہ فائدہ ہوگا، سیریز میں دوسری بار پاکستان کو پہلے بیٹنگ کا موقع ملا اور دونوں بار زیادہ بڑا اسکور نہ بنایا،دوسری جانب انگلینڈ نے 199اور221کا مجموعہ پایا، اگر آصف علی اختتامی 2گیندوں پر چھکے نہ لگاتے تو پاکستانی بولرز کو فائٹ کے قابل اسکور نہ ملتا،اچھے آغاز کے بعد پھر اسکورنگ ریٹ کم ہوا،آخری 8 اوورز میں بیٹنگ کیلیے شان مسعود کی جگہ کسی پاور ہٹر کو بھیجنا زیادہ مناسب ہوتا،اس وقت وکٹیں گرنے کا خوف دل سے نکال دینا چاہیے تھا۔
آپ انگلینڈ کو دیکھ لیں 14 رنز پر 3 کھلاڑی آؤٹ ہو گئے، اس کے بعد بھی وکٹیں گرتی رہیں مگر ٹیم نے اسکورنگ کا سلسلہ نہ روکا اور جسے موقع ملا جارحانہ شاٹس کھیلے، ہمیں خوف کا بت توڑنا ہوگا، اسی صورت میں بڑا اسکور بنا سکیں گے کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ ہر بار بولرز نسبتاً کم اسکور کا دفاع کر لیں، یہ ہماری ہوم سیریز ہے اور انگلینڈ کے کئی اہم کھلاڑی بھی دستیاب نہیں اس کے باوجود گرین شرٹس کی مجموعی کارکردگی مکمل طور پر حریف پر حاوی ہونے والی نہیں ہے۔
اسکواڈ میں کچھ کمی نظر آتی ہے خصوصا مڈل آرڈر کے مسائل برقرار ہیں،شان مسعود اچھا اضافہ ہیں لیکن انھیں بطور پاور ہٹر استعمال نہیں کیا جا سکتا،چیف سلیکٹر کو جو نام ملے ان کا اعلان تو کر دیا مگر اب تک انھیں خود بھی یقین نہیں کہ ٹیم ورلڈکپ میں کچھ کر سکے گی،اسی لیے میڈیا کے دفاتر کی خاک چھان کر وضاحتیں دیتے پھر رہے ہیں، جتنے پلیئرز منتخب نہیں کیے اتنے محمد وسیم نے انٹرویوز دے دیے اور ابھی سے تبدیلوں کا بھی عندیہ دینے لگے ہیں،گذشتہ سال بھی ایسا ہی ہوا تھا، اب بھی اگر کوئی منتخب کھلاڑی''انجرڈ'' ہو کر باہر ہوا تو حیران نہ ہو گا۔
ٹیم کی بینچ اسٹرینتھ میں بھی بڑے نام موجود نہیں ہیں، ایسے میں بعض اوقات کسی کی غیر معمولی انفرادی کارکردگی تو کبھی فتح دلا دے گی مگر ایسا تسلسل کے ساتھ نہیں ہوگا،ہم محمد رضوان اور بابر اعظم پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں، یہ دونوں اگر سیٹ ہو گئے تو کبھی پورے 20 اوورز بھی کھیل جاتے ہیں،البتہ جلد آؤٹ ہو جائیں تو مسئلہ ہوتا ہے، یہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ہے،ضروری نہیں ہے کہ آپ 70،80 رنز ہی بنائیں بعض اوقات 15بالز پر 30،35 رنز بھی میچ جتوا سکتے ہیں،ہمیں جدید انداز اپنانے کی ضرورت ہے،کوچ ثقلین مشتاق دن، رات،سردی، گرمی جیسی باتوں کے بجائے کھیل پر توجہ دیں تو یقینا بہتری آئے گی۔
بدقسمتی سے اس وقت وہ ایک موٹیویشن لیڈر کا کردار ادا کر رہے ہیں مگر کھلاڑیوں کو ضرورت ایسے شخص کی ہے جو خوبیاں،خامیاں بتائے اور میچ کی حکمت عملی بنا کر دے،محمد یوسف بھی بظاہر ناکام ہیں جبکہ شان ٹیٹ کی کوئی افادیت نظر نہیں آتی،ہم شارٹ ٹرم پلاننگ پر چل رہے ہیں، ایک میچ جیت کر بھنگڑے ڈالنے لگتے ہیں،پھر اگلا ہار جائیں اور تنقید ہو تو برداشت نہیں ہوتی، 7 میچز کی سیریز میں مزید اپ ڈاؤن بھی آئیں گے، جب ٹرافی جیت جائیں تو کھلی بس پر لاہور کا چکر لگا لیں مگر ابھی انتظار کرنا مناسب ہوگا، کھلاڑیوں کو بھی چاہیے کہ اپنے جذبات قابو میں رکھیں۔
ان کے پاس بیٹ اور گیند ہے اس سے ناقدین کو جواب دیں زبان سے نہیں، بدقسمتی سے میڈیا ڈپارٹمنٹ صحافیوں کی آوازیں دبانے میں زیادہ مصروف رہتا ہے حالانکہ اب تو 2،3 ہی مخالفانہ آوازیں بچی ہیں،بورڈ کو کھلاڑیوں اور آفیشلز کو سمجھانا چاہیے کہ میڈیا کانفرنس میں کیا بات کرنی ہے، یہاں جو صاحب میڈیا منیجر بنے ہیں وہ ایسے اکڑ کر گھومتے ہیں کہ بعض اوقات ناواقف لوگ دھوکا کھا کر سمجھ بیٹھتے ہیں کہ وہ خود کوچ یا کوئی سپراسٹار ہیں۔
خیر انسان اپنے بڑوں کو دیکھ کر ہی سیکھتا ہے، قذافی اسٹیڈیم میں بڑے بڑے آئے اور آج ان کا کوئی نام بھی نہیں لیتا،مگر کسی کو یہ بات یاد تھوڑی رہتی ہے، خیر اب ٹیمیں لاہور پہنچ چکی ہیں، بقیہ تینوں میچز میں امید ہے گرین شرٹس تسلسل سے اچھا پرفارم کریں گے، کراچی والوں نے بھی اسٹیڈیم میں سماں باندھے رکھا لاہوریوں اب آپ کی باری ہے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)