طالبان دھڑے ممکنہ امن معاہدے کے اطلاق پر تقسیم

سید سجنا صرف وزیرستان،فضل اللہ ودیگرتمام علاقوں پراطلاق چاہتے ہیں،ذرائع کا دعویٰ


شائق حسین March 21, 2014
سید سجنا صرف وزیرستان،فضل اللہ ودیگرتمام علاقوں پراطلاق چاہتے ہیں،ذرائع کا دعوی. فوٹو: فائل

حکومت کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں کسی ممکنہ امن معاہدے کے اطلاق کے حوالے سے تحریک طالبان پاکستان کی قیادت منقسم ہے۔

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے طالبان کے ایک مضبوط دھڑے کی خواہش ہے کہ کسی بھی ممکنہ امن معاہدے کااطلاق وزیرستان پرہو جبکہ طالبان کے سربراہ مولوی فضل اللہ اور دیگر رہنما چاہتے ہیں کہ معاہدے کا اطلاق دیگر قبائلی علاقوں اورملک کے ان حصوں جہاں طالبان موجودہیں پربھی ہو۔ باخبرذرائع کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کے جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے کمانڈر خان سیدعرف سجنا کے گروپ کاخیال ہے کہ حکومت کے ساتھ جو بھی معاہدہ ہوتا ہے وہ جنوبی اور شمالی وزیرستان کے حوالے سے ہواوردونوںفریقین یعنی سیکیورٹی فورسزاورطالبان ان 2 قبائلی ایجنسیوں میں ایک دوسرے کیخلاف کارروائیاں نہ کریں۔ دوسری طرف ذرائع کاکہنا ہے کہ چنددیگرگروپ اور تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مولوی فضل اللہ چاہتے ہیں کہ دیگر قبائلی علاقے اورملک کے وہ علاقے جہاںطالبان موجودہیں، پرمعاہدے کا اطلاق ہواوران علاقوں میں حکومت و طالبان ایک دوسرے کو ٹارگٹ نہ کریں۔

طالبان سے مذاکرات کیلیے قائم کمیٹی کے ایک رکن نے بتایاکہ ممکنہ معاہدے کے اطلاق کے حوالے سے طالبان کی صفوں میںکیا سوچ ہے؟، اس بارے میں انھیںکوئی علم نہیں۔ انھوں نے کہا وہ پُرامید ہیںکہ مذاکرات کا عمل آگے بڑھے گا ، طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلیے جگہ کا تعین کیا جا رہا ہے، یہ بات درست ہے کہ طالبان حکومت کے تجویزکردہ مقامات مثلا بنوں سے دور واقع ایف آر ریجن ''بکاخیل'' میں آنے سے گریزاں ہیں جبکہ حکومتی کمیٹی وزیرستان کے شکتوئی جیسے دور دراز علاقوں میں جاکر بات چیت سے احترازکررہی ہے۔ ان کے خیال میں یہ معاملہ جلد حل ہوجائیگا،انھوں نے بتایا کہ دونوں مذاکراتی کمیٹیوں کی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی سے ایک دو روز میں ملاقات متوقع ہے، اس ملاقات کے بعد مذاکرات کے عمل کا دوبارہ سے باقاعدہ آغاز ہوگا، یہ مذاکرات دونوں کمیٹیوں اور طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت کی صورت میں ہو سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔