شناختی کارڈ بنوانا اور جنس تبدیل کروانا آسان کام نہیں خواجہ سرا کمیونٹی
مردوں کا عورت اور عورتوں کا مردوں والا شناختی کارڈ بنوانے کا تاثر درست نہیں،خواجہ سرا برادری
خواجہ سراؤں کا کہنا ہے کہ شناختی کارڈ بنوانا اور خاص طور جنس تبدیل کروانا آسان کام نہیں ہے، ایسے افراد کو عدالتی آرڈر اور میڈیکل بورڈ کی رپورٹ پیش کرنا پڑتی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق خواجہ سرا برادری کا کہنا ہے کہ ٹرانس جینڈر پرسنز رائٹس ایکٹ کے تحت مردوں کا عورت اور عورتوں کا مردوں والا شناختی کارڈ بنوانے کا تاثر درست نہیں ہے۔
خواجہ سرا ثنیہ عباسی، نیلی رانا اور عاشی بٹ کا کہنا ہے کہ ٹرانس جینڈرپرسنز رولز 2020ء کے تحت صرف خواجہ سرا ہی خواجہ سرا کا شناختی کارڈ بنوا سکتے ہیں، نادرا کے پاس شناختی کارڈ بنوانا اور خاص طورپر جنس تبدیل کروانا آسان کام نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگرکوئی مرد یا عورت اپنی جنس تبدیل کرواتے ہیں تو اس حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کا سن 2010ء کا ایک فیصلہ موجود ہے،ایسے افراد کو عدالت سے آرڈرلینا پڑتے ہیں اورمیڈیکل بورڈ کی مکمل رپورٹ پیش کرنا پڑتی ہے۔
خواجہ سراؤں کا کہنا ہے کہ ان کی کمیونٹی کا اس معاملے سے کوئی تعلق ہی نہیں، خواجہ سرا کو صرف ایکس کیٹگری میں شناختی کارڈ ملے گا۔ شناختی کارڈ پر مردیا عورت نہیں بلکہ خواجہ سرا لکھا جائیگا اور اسی کارڈ کے مطابق ہمیں وراثت میں حصہ،مخصوص کوٹہ میں نوکری،تعلیم اور صحت کی سہولتیں مل سکیں گی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ خواجہ سراؤں کو اسلام نے مکمل حقوق دیئے ہیں، برطانوی دور میں یہاں ایسا قانون بنایا گیا جس میں صرف مردوں اور عورتوں کو حقوق دیئے گئے،خواجہ سراؤں کو مردم شماری میں بھی شامل نہیں کیا۔
واضح رہے کہ جمعیت علمائے اسلام نے سینیٹ میں ٹرانس جینڈر رائٹس ایکٹ 2018 میں متعدد ترامیم پیش کی ہیں اور وفاقی شرعی عدالت میں بھی اس ایکٹ کو چیلنج کیا ہے۔ سینیٹ کی طرف سے یہ بل متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا ہے جو پیش کی گئی ترامیم کا جائزہ لے گی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق خواجہ سرا برادری کا کہنا ہے کہ ٹرانس جینڈر پرسنز رائٹس ایکٹ کے تحت مردوں کا عورت اور عورتوں کا مردوں والا شناختی کارڈ بنوانے کا تاثر درست نہیں ہے۔
خواجہ سرا ثنیہ عباسی، نیلی رانا اور عاشی بٹ کا کہنا ہے کہ ٹرانس جینڈرپرسنز رولز 2020ء کے تحت صرف خواجہ سرا ہی خواجہ سرا کا شناختی کارڈ بنوا سکتے ہیں، نادرا کے پاس شناختی کارڈ بنوانا اور خاص طورپر جنس تبدیل کروانا آسان کام نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگرکوئی مرد یا عورت اپنی جنس تبدیل کرواتے ہیں تو اس حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کا سن 2010ء کا ایک فیصلہ موجود ہے،ایسے افراد کو عدالت سے آرڈرلینا پڑتے ہیں اورمیڈیکل بورڈ کی مکمل رپورٹ پیش کرنا پڑتی ہے۔
خواجہ سراؤں کا کہنا ہے کہ ان کی کمیونٹی کا اس معاملے سے کوئی تعلق ہی نہیں، خواجہ سرا کو صرف ایکس کیٹگری میں شناختی کارڈ ملے گا۔ شناختی کارڈ پر مردیا عورت نہیں بلکہ خواجہ سرا لکھا جائیگا اور اسی کارڈ کے مطابق ہمیں وراثت میں حصہ،مخصوص کوٹہ میں نوکری،تعلیم اور صحت کی سہولتیں مل سکیں گی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ خواجہ سراؤں کو اسلام نے مکمل حقوق دیئے ہیں، برطانوی دور میں یہاں ایسا قانون بنایا گیا جس میں صرف مردوں اور عورتوں کو حقوق دیئے گئے،خواجہ سراؤں کو مردم شماری میں بھی شامل نہیں کیا۔
واضح رہے کہ جمعیت علمائے اسلام نے سینیٹ میں ٹرانس جینڈر رائٹس ایکٹ 2018 میں متعدد ترامیم پیش کی ہیں اور وفاقی شرعی عدالت میں بھی اس ایکٹ کو چیلنج کیا ہے۔ سینیٹ کی طرف سے یہ بل متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا ہے جو پیش کی گئی ترامیم کا جائزہ لے گی۔