سیلاب معیشت اور نئے وزیر خزانہ کا تقرر
سیلاب سے کل کاشت شدہ اراضی کے 22 ملین ہیکٹر میں سے 7 ملین ہیکٹر زیر آب آچکے ہیں
عالمی بینک کے نائب صدر مارٹن ریزر نے سیلاب متاثرین اور بنیادی ڈھانچے کی بحالی کے لیے پاکستان کے ساتھ بھرپور مالی تعاون کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
حالیہ سیلاب کے بعد عالمی بینک، آئی ایم ایف، ایشین ڈیولپمنٹ بینک اور دیگر مالیاتی اداروں کی جانب سے پاکستان کو تنہا نہ چھوڑنے کا اعلان خوش آیند ہے۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو خزانہ کا قلمدان دینے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ ان کے آنے سے معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی دنیا کے مختلف ممالک کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ اس کا زراعت پر گہرا اثر پڑتا ہے اور خوراک کی حفاظت کے خطرے کو زیادہ سے زیادہ کرتا ہے۔ پاکستان موسمی درجہ حرارت اور موسم کی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 10 ممالک میں سے ایک ہے۔
اس کا اثر وسیع ہے جیسے کہ زراعت کی پیداوار میں کمی، مسلسل خشک سالی، ساحلی کٹاؤ اور اوسط سے زیادہ بارش۔ آج ملک میں سیلاب کی صورتحال موسمیاتی تبدیلیوں کی ایک بڑی وجہ ہے جس نے ہزاروں ایکڑ اراضی کو تباہ اور لاکھوں افراد کو جانوں کے ضیاع کے ساتھ بے گھر کر دیا ہے۔
سیلاب سے کل کاشت شدہ اراضی کے 22 ملین ہیکٹر میں سے 7 ملین ہیکٹر زیر آب آچکے ہیں جو کہ تقریباً 33 فیصد ہے۔ موسمیاتی تبدیلی 21 ویں صدی کا سب سے بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ یہ موسم کے پیٹرن میں تبدیلیوں اور موسمی درجہ حرارت میں تبدیلیوں سے مراد ہے۔ بجلی کے بحران، طوفانی بارش، سیلاب سمیت ان تمام نقصانات کا خمیازہ ہماری معیشت کو بھگتنا پڑتا ہے اور ہم مزید بیرونی قرضوں میں ڈوب جاتے ہیں۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی نصف سے زیادہ آبادی زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے ، لیکن نا اہلی اور ناقص حکمت عملی نے ہمارے ملک کے زرعی شعبے کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ کسانوں کی جدید خطوط پر تربیت نہ ہونے کے باعث کسان کاشتکاری کے نئے طریقوں سے واقف نہیں ہیں جس کی وجہ سے فصل کی کاشت کے لیے پرانے اور روایتی طریقے اپنائے جاتے ہیں، نتیجہ زرعی پیداوار میں کمی کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔
اس کی وجہ سے زراعت میں ہماری خودانحصاری کم ہورہی ہے اور ہم سبزیاں درآمد کرنا شروع کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ پانی کی کمی اور زرعی اراضی کی سیرابی کے مروجہ طریقہ کار جو اکثر ملکوں میں متروکہ حیثیت اختیار کرچکے ہیں، بھی کسانوں کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔
ہم نے صنعتوں سے خارج ہونے والی گیس اور فضلے کو ٹھکانے لگانے کے خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے جو فضا کو آلودہ کرنے کے ساتھ ساتھ پانی میں شامل ہوکر انسانی زندگی کی لیے خطرے کا باعث بن رہے ہیں کیونکہ اکثر فیکٹریاں اپنا صنعتی فضلہ غیر محفوظ طریقے سے پھینک دیتی ہیں اور چونکہ سرکاری سطح پر یہاں بھی ناقص منصوبہ بندی اور حکمت عملی کا دور دورہ ہے ، اس لیے اکثر یہ زہریلا مواد صنعتی علاقوں کے قرب و جوار کی آبادیوں میں متعدد بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا ایک سبب یہ زہریلی اور مضر صحت گیس اور مادہ بھی ہیں جس کی طرف کسی کا دھیان نہیں ہے۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ان بنیادی مسائل پر خصوصی توجہ دے اور سب سے پہلے ملک میں پانی کے ذخائر میں اضافہ کرے تاکہ بجلی اور زراعت کا شعبہ مستحکم ہوسکے نیز ہر سال آنیوالے سیلاب اور اس کی تباہ کاریوں سے بھی بچا جا سکے ، نیز شجر کاری پر بھرپور توجہ دی جائے تاکہ گرمی کی شدت کا تدارک ہوسکے۔
دریاؤں ، چشموں کے پانی کو استعمال میں لا کر اس سے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ تھر کے صحرا کو پانی پہنچا کر وہاں قحط اور خشک سالی کی شکار معصوم زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں اور زرعی پیداوار میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ یہ سب بہت زیادہ مشکل کام بھی نہیں ہیں، بس ذرا سی منصوبہ بندی اور عزم درکار ہے تاکہ معیشت پر پڑنے والے بوجھ کو کم کیا جاسکے اور قدرتی وسائل سے استفادہ حاصل کیا جاسکے۔
اس وقت ملکی معیشت کے اشاریے مایوس کن صورت حال کا پتہ دے رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے جب خزانے کا قلمدان سنبھالا تو سابق حکومت پر ملبہ ڈال کر عوام کو کچھ عرصہ قربانی دینے کے لیے تیار رہنے کا کہا گیا، اس ضمن میں حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس جانے کو مجبوری قرار دے کر مہنگائی میں اضافہ کر دیا۔
عوام نے اس خیال سے کڑوا گھونٹ برداشت کر لیا کہ چند ماہ کہ بعد ریلیف ملنے والا ہے، لیکن '' مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی '' کے مصداق مہنگائی میں اضافہ ہوتا گیا اور ہر آنے والا دن عوام کے لیے پہلے سے مشکل ثابت ہونے لگا، ڈالر کی اونچی پرواز اور ضروریات کی اشیاء کا عام آدمی کی دسترس سے باہر ہو جانا ، بہت سے سوالات اٹھا رہا تھا ، ان حالات میں مفتاح اسماعیل کو ہٹا کر حکومت نے اسحق ڈار کو قلمدان سونپ رہی ہے۔
ان کے بارے میں چند لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ مصنوعی طریقے سے ڈالر کی قیمت قابو کرتے تھے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کے فیصلوں کی وجہ سے پاکستان میں مہنگائی کے طوفان کے سامنے بند باندھا جاتا رہا۔ اس وقت ملک کے معاشی حالات درست سمت میں چل رہے تھے ، انھیں بطور وزیر خزانہ، وزیر اعظم کا مکمل اعتماد حاصل تھا۔
ملک کے اندر سیاسی استحکام تھا اور بیرونی طور پر بھی کوئی غیر معمولی چیلنجز درپیش نہ تھے۔2017 میں پاناما پیپرز کے بعد پیدا ہونیوالے بحران کے دوران وہ بیرون ملک چلے گئے لیکن مختلف حوالوں سے میڈیا پر نظر آتے رہے۔2022 کے شروع میں جب شہباز شریف لیلائے اقتدار کی زلف کے اسیر ہوئے ، تب ملک کے معاشی حالات یکسر بدل چکے تھے۔ کورونا نے ملکی معیشت کا بھرکس نکال دیا تھا۔
ایف اے ٹی ایف کی تلوار سر پر لٹک رہی تھیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ مفتاح اسماعیل کے غیر دانشمندانہ فیصلوں نے ملک کو ایک گہری کھائی کی طرف دھکیل دیا ، وہ ڈالر جو اسحاق ڈار کی مٹھی سے نکلتا نہیں تھا آج اس کی اڑان قابو میں نہیں آرہی۔ مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آچکا ہے۔
بجلی اور گیس کے بلوں نے عوام کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔ اشیائے خورونوش عوام کی دسترس سے باہر ہو چکی ہیں۔ ایک طرف ملکی معیشت کا کوئی سر پیر معلوم نہیں ، دوسری طرف اپوزیشن اور اتحادی حکومت کی باہمی کشاکش کے دوران ملکی معیشت وینٹی لیٹر پر جا چکی ہے لیکن شاید ہی کسی سیاستدان نے ان بگڑتے حالات پر بات کی ہو۔
اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ معیشت کو سنبھالنا کسی ایک جماعت کے بس کی بات نہیں رہی۔ میثاق معیشت اس وقت پاکستان کی ضرورت ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کی باہمی اعتماد سازی سے ایسی معاشی پالیسیاں وضع کرنا ناگزیر ہو چکا ہے ، جو حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود تسلسل کی ساتھ جاری رہ سکیں۔