بڑھتی ہوئی سیاسی محاذ آرائی ثقافتی اقدار کو بھی روندنے لگی
پاکستان تحریک انصاف بھی اپنے پتے بھرپور انداز میں کھیل رہی ہے
ملک کے سیاسی افق پر چھائے دھند کے بادل چھٹنا شروع ہوگئے ہیں اور سیاسی منظر نامہ میں بدلاؤ بھی تیز ہوگیا ہے۔
بیرون ملک بسے پردیسی خودساختہ جلاوطنی ختم کر کے وطن پہنچنا شروع ہو گئے ہیں جبکہ کچھ کی بیرون ملک اڑان بھرنے کی تیاریاں ہیں۔ ادھر پاکستان مسلم لیگ(ن)کی نائب صدر مریم نواز کے پاسپورٹ کی واپسی کا کیس بھی سماعت کیلئے لگ چکا ہے اس کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سمیت ن لیگ اور پی ٹی آئی سے متعلق دیگر اہم کیس بھی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان عدالتوں اور عدالتوں سے باہر لڑائی عروج پر ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف ایک طرف آئندہ عام انتخابات کی تیاری کیلئے بڑے بڑے جلسے کر کے بھرپور عوامی طاقت کا مظاہرہ کر رہی ہے تو دوسری طرف اپنے خلاف بنائے گئے کیس بھگت رہی ہے اور یہ مکافات عمل کا شاندار عملی نمونہ ہے، کل تک ن لیگ ، پیپلز پارٹی سمیت اتحادی حکومت میں شامل دوسری سیاسی جماعتوں کی قیادت اور دوسرے رہنما وں کو اس صورتحال کا سامنا تھا اور ملک بھر میں پیشیاں بھگت رہے تھے پھر وقت نے کروٹ بدلی اور صورتحال بالکل برعکس ہوگئی۔
آج پی ٹی آئی کی قیادت اور دیگر رہنما پیشیاں بھگت رہے ہیں، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اس وقت لڑائی زوروں پر ہے اوراسکی تپش سرحدوں کی قید سے بھی آزاد ہو چکی ہے اب بیرون ممالک میں مقیم پاکستانی ایک دوسرے کے خلاف سیاسی نفرت میں تمام حدیں پار کرتے دکھائی دے رہے ہیں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ پر تنقید ہو رہی ہے کہ وہ عمران خان جو نوجوان نسل کی تربیت اور کردار سازی کی بات کرتا ہے۔
اس کے اپنے فالورز اور سوشل میڈیا بدتمیزی بدتہذیبی اور گالم گلوچ میں سب سے آگے ہیں ابھی حال ہی میں وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ نے پوری دنیا میں پاکستانیوں کے سر شرم سے جھکا دیئے ہیں اور مریم اورنگزیب نے جس تحمل کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابل داد ہے اور پھر جس جرات و تحمل کے ساتھ سوالات کے جوابات دیئے وہ بھی لائق تحسین ہیں ۔
دوسری پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سربراہ میاں نواز شریف کے سیکرٹری راشد نصر اللہ پر نامعلوم افراد کی طرف سے چاقو سے حملہ کی بھی اطلاعات ہیں حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں، سیاسی رواداری ختم ہوتی جا رہی ہے دلیل کی جگہ گالی اور گولی لیتی دکھائی دے رہی ہے اور سیاسی قیادت اپنے ورکروں کی تربیت کرنے کی بجائے شہہ دیتی دکھائی دے رہی ہے۔
دنیا بھر میں ملک کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے اب کہا جا رہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اس معاملے کوبرطانوی حکومت کے ساتھ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے اگرچہ یہ بہت دیر پہلے اٹھایا جانا چاہیے تھا اگر اب فیصلہ کر ہی لیا گیا ہے تو دیر آید درست آید کے مصداق اسے منطقی انجام تک بھی پہنچایا جانا چاہیئے تاکہ کسی کو ملک کے امیج سے کھیلنے کی جرات نہ ہو سکے اور اس قسم کے رجحانات کو روکا جا سکے کیونکہ سیاست میں عدم برداشت کا بڑھتا ہوا رجحان زہر قاتل بنتا جا رہا ہے۔ ہر جماعت اپنی اپنی جیت کیلئے کوشاں ہے لیکن اس لڑائی میں پاکستان کا امیج بری طرح متاثر ہو رہا ہے اس کی کسی کو کوئی پروا نہیں ہے۔
اس وقت ملک کا سیاسی ماحول یکسر بدلتا دکھائی دے رہا ہے ، وزیراعظم میاں شہباز شریف اپنے لندن اور امریکہ کے دوروں کے بعد پاکستان واپس پہنچ چکے ہیں اور واپسی پر اپنے ہمراہ اسحاق ڈار کو بھی لائے ہیں جو کہ اب ملک کے اگلے وزیر خزانہ بننے جا رہے ہیں۔
اس سے پہلے وہ سینیٹر کے طور پر حلف اٹھائیں گے اور انکی سینٹ کی نشست سے متعلق عدالت میں دائر کیس کا فیصلہ بھی محفوظ ہے ابھی وہ فیصلہ بھی آنا باقی ہے تاہم اب وہ پاکستان پہنچ چکے ہیں اپنے خلاف دائر تمام کیسوں کا بھی سامنے کریں گے اور ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریاں بھی نبھائیں گے۔
پاکستان پہنچنے کے بعد ایئربیس پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار کا کہنا تھاکہ پارٹی قائد میاں نواز شریف اور وزیراعظم میاں شہباز شریف کی ہدایت پر پاکستان پہنچا ہوں، پارٹی قیادت نے بطور وزیر خزانہ ذمہ داریاں سنبھالنے کی ہدایت کی ہے ، انہوں نے کہا کہ ہم اس ملک کو معاشی بھنور سے نکالیں گے، پاکستان کو معاشی بھنور سے 1999 اور 2013-14 کی طرح نکالیں گے۔
بہت امید ہے ہم مثبت معاشی ڈائریکشن میں جائیں گے۔ اب پہلے مرحلے میں سینیٹر کا حلف اٹھائیں گے پھر وزیر خزانہ کے طور پر حلف اٹھائیں گے مگر یہ سب کچھ انکی سینٹ کی نشست سے متعلق عدالت کے محفوظ فیصلے سے جڑا ہے اور عدالت سے کلیئرنس ضروری ہے۔
البتہ ان کی وطن واپسی سے ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس سے میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی راہ ہموار ہو گی اور اگلے مرحلے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نوازشریف کی بھی وطن واپسی ہونے والی ہے۔
اس تناظر میں کچھ حلقوں میں اہم قوانین میں ترامیم کی بھی باتیں ہو رہی ہیں اور بعض لوگوں کا تو کہنا ہے کہ موجودہ حکومت سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی واپسی کیلئے اپنے اتحادیوں کی مشاورت سے قانون میں ترامیم کا اصولی فیصلہ بھی کر چکی ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ کیا مقتدر حلقوں کو اس معاملے میں آن بورڈ لیا جا چکا ہے اگرچہ اسحاق ڈار کی واپسی کو اسی زمرے میں لیا جاتا ہے لیکن اسکے باوجود قانون میں ترمیم ایک بڑا اقدام ہوگا اور یہ شائد مقتدر قوتوں کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکے گا۔
اگر وہاں سے ستے خیراں ہیں تو پھر سب ٹھیک ہو جائے گا البتہ کہا یہی جا رہا ہے کہ دو قانون تبدیل کئے جا رہے ہیں جس کیلئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑکی جانب سے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے معروف قانون دان سینٹر فاروق ایچ نائیک اورکامران مرتضی ایڈووکیٹ کے تعاون سے ابتدائی کام بھی مکمل کر لیا ہے ان مجوزہ ترامیم کے تحت پہلی ترمیم سپریم کورٹ آف پاکستان کے کسی فیصلے پر نظر ثانی کیلئے فل کورٹ ہونے سے متعلق ہے تو دوسری ترمیم بنچ کی تشکیل بارے اختیارات سے متعلق ہے کہا جا رہا ہے کہ ان دواہم ترامیم کے ذریعے میاں نوازشریف کی وطن واپسی کو ممکن بنایا جائے گا۔
پہلی ترمیم میں تجویز ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے کسی بھی فیصلے پر نظر ثانی کیلئے فل کورٹ ہونا چاہیئے، دوسری ترمیم میں تجویز ہے کہ سپریم کورٹ کا بنچ تشکیل کرنے کا اختیار چیف جسٹس آف پاکستان کی بجائے چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں ججز کے پینل کو ہونا چاہیئے جس میں دو سے تین ججز شامل ہوں اس کے ساتھ ساتھ ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ ان ترامیم کو اسمبلی اور سینٹ سے منظور کروانے کیلئے پیش کرنے سے پہلے سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت نیب ترامیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی پٹیشن کے فیصلے کا انتظار کر لیا جائے کہ اس کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کا کیا فیصلہ آتا ہے اب یہ آگے چل کر صورتحال واضح ہو جائے گی کہ سیاسی فرنٹ پر کیا ہونے جا رہا ہے کیونکہ سیاسی بیان بازی اور کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں اس میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
سیلاب کے باعث فوری انتخا بات ممکن تو نظر نہیں آتے ، اس لئے نیا بیانیہ لایا گیا ہے ساتھ ساتھ کوشش بھی کر رہے ہیں کہ فروری تک الیکشن اور اپریل سے پہلے حکومت تشکیل پا جائے۔ انہیں یقین ہے کہ وہ الیکشن میں دوتہائی اکثریت حاصل کر لیں گے ،اسی لئے ٹیمپو نہیں توڑنا چاہتے لیکن بدقسمتی سے انہیں خدشات بھی ہیں کہ کیا وہ صرف عوامی مقبولیت کی بدولت اقتدار کی منزل تک پہنچ پائیں گے؟ آئین اور قانون کے مطابق آرمی چیف کا تقرر وزیراعظم کا اختیار ہے۔
شہبازشریف کو آئینی اور قانونی طور پر اپنے اختیارات کے استعمال سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن عمران خان پر اپنی مقبولیت کی وجہ سے ایک مخصوص کیفیت طاری ہے۔ وہ اب ہر چیز پراپنا استحقاق سمجھتے ہیں اور جو چیز ان کی دسترس میں نہ آئے تو وہ اسے متنازعہ بنانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ وزیراعظم نے لندن میں نوازشریف سے بھی مشاورت کی ہے، حتمی فیصلہ بھی نوازشریف نے اتحادیوں کو اعتماد میں لے کر ہی کرنا ہے۔ سب سے زیادہ تقرریوں کا اعزاز بھی نوازشریف کو ہی حاصل ہے لیکن ان کے کئے فیصلے انہیں کبھی راس نہیں آئے۔
دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف بھی اپنے پتے بھرپور انداز میں کھیل رہی ہے اور کپتان پر امید ہے کہ جلد وہ ایسی گیند کروائے گا جس سے تینوں وکٹیں ایک ساتھ گریں گی اپنے حالیہ خطاب میں عمران خان نے اپنے ورکروں کو پیغام دیا ہے کہ وہ اچانک کال دیں گے اور اس کیلئے زیادہ وقت نہیں ہوگا لیکن وہ یہ کال اس وقت دیں گے جب ان کے مخالفین یہ سمجھیں گے کہ عمران خان پیچھے ہٹ گیا ہے۔
بیرون ملک بسے پردیسی خودساختہ جلاوطنی ختم کر کے وطن پہنچنا شروع ہو گئے ہیں جبکہ کچھ کی بیرون ملک اڑان بھرنے کی تیاریاں ہیں۔ ادھر پاکستان مسلم لیگ(ن)کی نائب صدر مریم نواز کے پاسپورٹ کی واپسی کا کیس بھی سماعت کیلئے لگ چکا ہے اس کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سمیت ن لیگ اور پی ٹی آئی سے متعلق دیگر اہم کیس بھی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان عدالتوں اور عدالتوں سے باہر لڑائی عروج پر ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف ایک طرف آئندہ عام انتخابات کی تیاری کیلئے بڑے بڑے جلسے کر کے بھرپور عوامی طاقت کا مظاہرہ کر رہی ہے تو دوسری طرف اپنے خلاف بنائے گئے کیس بھگت رہی ہے اور یہ مکافات عمل کا شاندار عملی نمونہ ہے، کل تک ن لیگ ، پیپلز پارٹی سمیت اتحادی حکومت میں شامل دوسری سیاسی جماعتوں کی قیادت اور دوسرے رہنما وں کو اس صورتحال کا سامنا تھا اور ملک بھر میں پیشیاں بھگت رہے تھے پھر وقت نے کروٹ بدلی اور صورتحال بالکل برعکس ہوگئی۔
آج پی ٹی آئی کی قیادت اور دیگر رہنما پیشیاں بھگت رہے ہیں، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اس وقت لڑائی زوروں پر ہے اوراسکی تپش سرحدوں کی قید سے بھی آزاد ہو چکی ہے اب بیرون ممالک میں مقیم پاکستانی ایک دوسرے کے خلاف سیاسی نفرت میں تمام حدیں پار کرتے دکھائی دے رہے ہیں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ پر تنقید ہو رہی ہے کہ وہ عمران خان جو نوجوان نسل کی تربیت اور کردار سازی کی بات کرتا ہے۔
اس کے اپنے فالورز اور سوشل میڈیا بدتمیزی بدتہذیبی اور گالم گلوچ میں سب سے آگے ہیں ابھی حال ہی میں وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ نے پوری دنیا میں پاکستانیوں کے سر شرم سے جھکا دیئے ہیں اور مریم اورنگزیب نے جس تحمل کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابل داد ہے اور پھر جس جرات و تحمل کے ساتھ سوالات کے جوابات دیئے وہ بھی لائق تحسین ہیں ۔
دوسری پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سربراہ میاں نواز شریف کے سیکرٹری راشد نصر اللہ پر نامعلوم افراد کی طرف سے چاقو سے حملہ کی بھی اطلاعات ہیں حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں، سیاسی رواداری ختم ہوتی جا رہی ہے دلیل کی جگہ گالی اور گولی لیتی دکھائی دے رہی ہے اور سیاسی قیادت اپنے ورکروں کی تربیت کرنے کی بجائے شہہ دیتی دکھائی دے رہی ہے۔
دنیا بھر میں ملک کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے اب کہا جا رہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اس معاملے کوبرطانوی حکومت کے ساتھ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے اگرچہ یہ بہت دیر پہلے اٹھایا جانا چاہیے تھا اگر اب فیصلہ کر ہی لیا گیا ہے تو دیر آید درست آید کے مصداق اسے منطقی انجام تک بھی پہنچایا جانا چاہیئے تاکہ کسی کو ملک کے امیج سے کھیلنے کی جرات نہ ہو سکے اور اس قسم کے رجحانات کو روکا جا سکے کیونکہ سیاست میں عدم برداشت کا بڑھتا ہوا رجحان زہر قاتل بنتا جا رہا ہے۔ ہر جماعت اپنی اپنی جیت کیلئے کوشاں ہے لیکن اس لڑائی میں پاکستان کا امیج بری طرح متاثر ہو رہا ہے اس کی کسی کو کوئی پروا نہیں ہے۔
اس وقت ملک کا سیاسی ماحول یکسر بدلتا دکھائی دے رہا ہے ، وزیراعظم میاں شہباز شریف اپنے لندن اور امریکہ کے دوروں کے بعد پاکستان واپس پہنچ چکے ہیں اور واپسی پر اپنے ہمراہ اسحاق ڈار کو بھی لائے ہیں جو کہ اب ملک کے اگلے وزیر خزانہ بننے جا رہے ہیں۔
اس سے پہلے وہ سینیٹر کے طور پر حلف اٹھائیں گے اور انکی سینٹ کی نشست سے متعلق عدالت میں دائر کیس کا فیصلہ بھی محفوظ ہے ابھی وہ فیصلہ بھی آنا باقی ہے تاہم اب وہ پاکستان پہنچ چکے ہیں اپنے خلاف دائر تمام کیسوں کا بھی سامنے کریں گے اور ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریاں بھی نبھائیں گے۔
پاکستان پہنچنے کے بعد ایئربیس پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار کا کہنا تھاکہ پارٹی قائد میاں نواز شریف اور وزیراعظم میاں شہباز شریف کی ہدایت پر پاکستان پہنچا ہوں، پارٹی قیادت نے بطور وزیر خزانہ ذمہ داریاں سنبھالنے کی ہدایت کی ہے ، انہوں نے کہا کہ ہم اس ملک کو معاشی بھنور سے نکالیں گے، پاکستان کو معاشی بھنور سے 1999 اور 2013-14 کی طرح نکالیں گے۔
بہت امید ہے ہم مثبت معاشی ڈائریکشن میں جائیں گے۔ اب پہلے مرحلے میں سینیٹر کا حلف اٹھائیں گے پھر وزیر خزانہ کے طور پر حلف اٹھائیں گے مگر یہ سب کچھ انکی سینٹ کی نشست سے متعلق عدالت کے محفوظ فیصلے سے جڑا ہے اور عدالت سے کلیئرنس ضروری ہے۔
البتہ ان کی وطن واپسی سے ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس سے میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی راہ ہموار ہو گی اور اگلے مرحلے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نوازشریف کی بھی وطن واپسی ہونے والی ہے۔
اس تناظر میں کچھ حلقوں میں اہم قوانین میں ترامیم کی بھی باتیں ہو رہی ہیں اور بعض لوگوں کا تو کہنا ہے کہ موجودہ حکومت سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی واپسی کیلئے اپنے اتحادیوں کی مشاورت سے قانون میں ترامیم کا اصولی فیصلہ بھی کر چکی ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ کیا مقتدر حلقوں کو اس معاملے میں آن بورڈ لیا جا چکا ہے اگرچہ اسحاق ڈار کی واپسی کو اسی زمرے میں لیا جاتا ہے لیکن اسکے باوجود قانون میں ترمیم ایک بڑا اقدام ہوگا اور یہ شائد مقتدر قوتوں کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکے گا۔
اگر وہاں سے ستے خیراں ہیں تو پھر سب ٹھیک ہو جائے گا البتہ کہا یہی جا رہا ہے کہ دو قانون تبدیل کئے جا رہے ہیں جس کیلئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑکی جانب سے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے معروف قانون دان سینٹر فاروق ایچ نائیک اورکامران مرتضی ایڈووکیٹ کے تعاون سے ابتدائی کام بھی مکمل کر لیا ہے ان مجوزہ ترامیم کے تحت پہلی ترمیم سپریم کورٹ آف پاکستان کے کسی فیصلے پر نظر ثانی کیلئے فل کورٹ ہونے سے متعلق ہے تو دوسری ترمیم بنچ کی تشکیل بارے اختیارات سے متعلق ہے کہا جا رہا ہے کہ ان دواہم ترامیم کے ذریعے میاں نوازشریف کی وطن واپسی کو ممکن بنایا جائے گا۔
پہلی ترمیم میں تجویز ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے کسی بھی فیصلے پر نظر ثانی کیلئے فل کورٹ ہونا چاہیئے، دوسری ترمیم میں تجویز ہے کہ سپریم کورٹ کا بنچ تشکیل کرنے کا اختیار چیف جسٹس آف پاکستان کی بجائے چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں ججز کے پینل کو ہونا چاہیئے جس میں دو سے تین ججز شامل ہوں اس کے ساتھ ساتھ ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ ان ترامیم کو اسمبلی اور سینٹ سے منظور کروانے کیلئے پیش کرنے سے پہلے سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت نیب ترامیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی پٹیشن کے فیصلے کا انتظار کر لیا جائے کہ اس کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کا کیا فیصلہ آتا ہے اب یہ آگے چل کر صورتحال واضح ہو جائے گی کہ سیاسی فرنٹ پر کیا ہونے جا رہا ہے کیونکہ سیاسی بیان بازی اور کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں اس میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
سیلاب کے باعث فوری انتخا بات ممکن تو نظر نہیں آتے ، اس لئے نیا بیانیہ لایا گیا ہے ساتھ ساتھ کوشش بھی کر رہے ہیں کہ فروری تک الیکشن اور اپریل سے پہلے حکومت تشکیل پا جائے۔ انہیں یقین ہے کہ وہ الیکشن میں دوتہائی اکثریت حاصل کر لیں گے ،اسی لئے ٹیمپو نہیں توڑنا چاہتے لیکن بدقسمتی سے انہیں خدشات بھی ہیں کہ کیا وہ صرف عوامی مقبولیت کی بدولت اقتدار کی منزل تک پہنچ پائیں گے؟ آئین اور قانون کے مطابق آرمی چیف کا تقرر وزیراعظم کا اختیار ہے۔
شہبازشریف کو آئینی اور قانونی طور پر اپنے اختیارات کے استعمال سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن عمران خان پر اپنی مقبولیت کی وجہ سے ایک مخصوص کیفیت طاری ہے۔ وہ اب ہر چیز پراپنا استحقاق سمجھتے ہیں اور جو چیز ان کی دسترس میں نہ آئے تو وہ اسے متنازعہ بنانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ وزیراعظم نے لندن میں نوازشریف سے بھی مشاورت کی ہے، حتمی فیصلہ بھی نوازشریف نے اتحادیوں کو اعتماد میں لے کر ہی کرنا ہے۔ سب سے زیادہ تقرریوں کا اعزاز بھی نوازشریف کو ہی حاصل ہے لیکن ان کے کئے فیصلے انہیں کبھی راس نہیں آئے۔
دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف بھی اپنے پتے بھرپور انداز میں کھیل رہی ہے اور کپتان پر امید ہے کہ جلد وہ ایسی گیند کروائے گا جس سے تینوں وکٹیں ایک ساتھ گریں گی اپنے حالیہ خطاب میں عمران خان نے اپنے ورکروں کو پیغام دیا ہے کہ وہ اچانک کال دیں گے اور اس کیلئے زیادہ وقت نہیں ہوگا لیکن وہ یہ کال اس وقت دیں گے جب ان کے مخالفین یہ سمجھیں گے کہ عمران خان پیچھے ہٹ گیا ہے۔