کے ایم سی ٹیکس وصولی روکے جانے پر ایڈمنسٹریٹر مستعفی نئی بحث کا آغاز

مختلف شہروں میں سیلاب زدگان کی جانب سے احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے ہیں

فوٹو : فائل

سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے بجلی کے بلوں میں کے ایم سی ٹیکس کی وصولی روکے جانے پر ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضی وہاب کی جانب سے مستعفی ہونے کے اعلان نے ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔

ملکی آئین پاکستان کے تمام اداروں کے دائرہ اختیار کو واضح کیا گیا ہے۔ مرتضیٰ وہاب کا شکوہ ہے کہ میں نے دن دیکھا اور نہ رات دیکھی بس کام کیا، جس بلدیہ عظمی کے لیے کہا گیا کہ اس کے پاس اختیارات نہیں اسی نے کام کیا لیکن میری پذیرائی نہیں کی گئی۔

یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا تھا جب کے ایم سی نے کے الیکٹرک کے ذریعے میونسپل ٹیکس کی وصولی کا فیصلہ کیا تھا۔ اس پر عوام کی جانب سے شدید ردعمل آیا تھا اور اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا گیا۔

سندھ ہائی کورٹ نے کے ایم سی کو کے الیکٹرک کے ذریعے میونسپل ٹیکس کی وصولی سے روک دیا تھا۔ دوران سماعت بیرسٹر مرتضیٰ وہاب بھی عدالت میں پیش ہوئے تھے۔ عدالت نے ان سے استفسار کیا تھا کہ کے الیکٹرک کے بلوں میں کیوں وصول کر رہے ہیں؟ شہری نہ دیں تو ان کی بجلی کٹ جائے۔

کے ایم سی کے پاس طریقہ کار موجود ہے۔ کے الیکٹرک کی گاڑیوں پرکچرا پھینکا جا رہا ہے۔ کے ایم سی کا اپنا ریکوری سیل ہے جو وصولی کرے۔ مرتضی وہاب نے عدالت کو بتایا کہ کے ایم سی کا کام شہر میں کام کرنا ہے پارک بنانا ہے۔عدالت کے اس فیصلے کے بعد مرتضیٰ وہاب نے ہنگامی پریس کانفرنس کی۔

وہ عدالتی فیصلے پر ناراض نظرآئے۔ ان کا کہنا تھا کہ کے ایم سی ٹیکس کے پیسے میری جیب میں نہیں کے ایم سی کے اکاؤنٹس میں آتے ہیں، کے الیکٹرک کے پاس رقم آنے کا چیک اینڈ بیلنس بہت اچھا ہے، 100 روپے بھی ادھر سے ادھر نہیں ہوتے اسی لیے یہ ٹیکس جمع کرنے کا ٹھیکا پرائیویٹ کرنے کے بجائے کے الیکٹرک کو دیا اور انہیں بہت مشکل سے راضی کیا۔

ہر چیز کا حل آئین اور قانون میں موجود ہے، قانون میں ہے کہ ٹیکس لگانے کا حق بلدیہ عظمی کے پاس ہے۔ مرتضی وہاب کا یہ بھی کہنا تھا کہ سڑکوں پر پانی ہوتا ہے تو آپ وسیم اختر، یا حافظ نعیم الرحمن سے نہیں پوچھتے، آپ مجھ سے، حکومت سے اور بلدیہ عظمی کراچی سے پوچھتے ہیں۔

پی ٹی وی کو ہر ماہ 100 روپے ٹیکس دیتے ہیں کسی سیاسی جماعت نے کبھی نہیں بولا، جب آپ انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں تووفاق سے نہیں پوچھتے کہ اس کے عوض کیا دوگے؟ آپ بلدیہ عظمی، ڈی ایم سی سے پوچھتے ہیں پانی کیوں نہیں نکالا؟۔ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے اور اس پر بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کے ردعمل نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔


مبصرین کا کہنا ہے کہ ا س بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ٹیکس وصول کرنا بلدیہ عظمیٰ کراچی کا حق ہے لیکن اس کی وصولی کے طریقہ کار پر تحفظات ہو سکتے ہیں۔ اگر مرتضیٰ وہاب یہ سمجھتے تھے کہ کے الیکٹرک کے ذریعے وہ ان ٹیکسوں کو بآسانی حاصل کر سکتے ہیں تو اس کے لیے انہیں پہلے شہر کے اسٹیک ہولڈرز سے بات کرنی چاہیے تھی کیونکہ کے الیکٹرک کے خلاف عوام میں پہلے ہی غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

عوام کی اصل برہمی ٹیکس کی وصولی پر نہیں بلکہ کے الیکٹرک کے ذریعے وصولی پر ہے۔ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ میونسپل ٹیکس کی وصولی کے لیے بلدیہ عظمیٰ کراچی کوئی دوسرا جامع طریقہ کار بھی اختیار کر سکتی ہے۔

ضروری نہیں ہے کہ اس ٹیکس کو بجلی کے بلوں کے ساتھ ہی وصول کیا جائے۔ بیرسٹرمرتضیٰ وہاب ایک سیاسی آدمی ہیں ان کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ کے الیکٹرک کا امیج عوام کی نظروں میں اچھا نہیں ہے اور وہ اس کے ذریعے کوئی بہتر کام بھی کریں گے تو اس کا ردعمل عوام کی جانب سے منفی ہی آئے گا۔ انہوں نے جذبات میں آکر استعفیٰ تو دے دیا ہے لیکن امکان یہی ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ اس استعفے کو قبول نہیں کریں گے اور ان کو کام جاری رکھنے کا کہیں گے۔

ان مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ عوام کو بھی اس بات کا احساس کرنا ہو گا کہ اگر وہ بہتر بلدیاتی سہولتیں حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے انہیں ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ اگر وہ کے الیکٹرک کے ذریعے اس ٹیکس کی ادائیگی نہیں چاہتے تو اس کا کوئی دوسرا طریقہ کار نکالا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے شہر کی اسٹیک ہولڈرز سیاسی جماعتوں کی اے پی سی بلا کر معاملہ ان کے سامنے رکھنا چاہیے اور اتفاق رائے سے ایک ایسا فیصلہ کرنا چاہیے جس سے بلدیہ عظمیٰ کراچی کا بھی فائدہ ہو اور عوام کو بھی یہ فیصلہ قابل قبول ہو۔

سندھ میں سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے صوبائی حکومت کے اقدامات جاری ہیں۔ حکومت نے سیلاب اور بارشوں سے جاں بحق افراد کے لواحقین کو دس لاکھ روپے مالی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس ضمن میں وزیراطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن کا کہنا ہے کہ اس امداد کے ساتھ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا دائرہ کار بھی مزید بڑھایا جا رہا ہے۔ شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ سیلابی صورتحال میں امدادی سرگرمیاں جاری ہیں، پانی کم ہو رہا ہے، لوگ اپنے گھروں کو واپس جا رہے ہیں۔

حیدرآباد میں 30 فیصد افراد ریلیف کیمپس سے واپس اپنے گھروں کو جا چکے ہیں، ضلعی انتظامیہ انہیں ٹرانسپورٹ کی سہولت اور راشن فراہم کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر علاقے کے اپنے ڈائنامکس ہیں، کچھ علاقوں سے 15 دن، بعض علاقوں سے 30 دن، جبکہ کچھ علاقوں سے پانی کی نکاسی میں تین مہینے لگ سکتے ہیں۔سندھ حکومت پانی کی نکاسی پر توجہ دے رہی ہے،اس ضمن میں وزیر اعلیٰ سندھ روزانہ کی بنیاد پر محکمہ آبپاشی سے اجلاس کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پانی کی نکاسی کے بعد ریہیبلیٹیشن کے کام کا آغاز کیا جائے گا۔

سندھ میں سیلابی صورت حال کے حوالے سے منعقدہ ایک اجلاس کے دوران وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا گیا ہے کہ ایف پی بند سے سیف اللہ اور رائیس کینال ڈویڑن میں 8 سے 11 فٹ پانی کم ہوا ہے۔جنوبی دادو ڈویڑن میں 4 سے 7 فٹ پانی کم ہوا ہے۔ سپریو پر پانی کی سطح بھی 5 سے 6 فٹ کم ہوگئی ہے۔ایم این وی کی آر ڈی 194 پر بھی 3 فٹ اور آر ڈی 10 پر 3 فٹ سے زیادہ پانی میں کمی آئی ہے۔ شہدادکوٹ میں ڈرین اور میروخان ڈرین کی سطح میں بھی ایک تا دو فٹ پانی کم ہوا ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے اس اجلاس میں ایک مرتبہ پھر اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ متاثرین کی دوبارہ بحالی کے لیے حکومت ہر ممکنہ اقدامات کرے گی اور کوشش کی جا رہی ہے کہ جلد ازجلد متاثرین دوبارہ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔ حکومتی اعلانات اور اقدامات کے حوالے سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تباہی جتنی بڑی ہے ریلیف کے کام اس کے مقابلے میں انتہائی کم ہیں۔ اب بھی ایسے بہت سے متاثرہ علاقے موجود ہیں۔

جہاں امداد نہیں پہنچی ہے۔مختلف شہروں میں سیلاب زدگان کی جانب سے احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے ہیں۔ دوسری جانب سے وبائی امراض کی صورت حال بھی ہر گذرتے دن کے ساتھ تشویشناک ہوتی جا رہی ہے اور کراچی سمیت سندھ بھر کے اسپتال ڈینگی اور ملیریا کے مریضوں سے بھرے پڑے ہیں۔ حکومت سندھ نے اس حوالے سے پنجاب سے بھی مدد کی اپیل کی ہے۔
Load Next Story