پی ٹی آئی کی قیادت لانگ مارچ کی حتمی تاریخ کا اعلان کیوں نہیں کر رہی
عمران خان لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کرتے ہیں تو وفاق بھی اسلام آباد کو محفوظ کرنے کیلئے سکیورٹی انتظامات کرے گا
مرکز کے حکمرانوں کا خیال تھا کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان لانگ مارچ کی کال دیںگے اور لانگ مارچ کے شرکاء کو روکنے کے لیے حفاظتی انتظامات سخت ترین ہونے چاہئیں اسی بات کو لیے مرکز نے چاروں صوبوں سے سکیورٹی اہلکاروں کی خدمات مانگیں، خیبرپختونخوا سے بھی پولیس اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کے اہلکاروں کی خدمات مانگی گئیں لیکن خیبرپختونخوا نے مذکورہ اہلکاروں کی خدمات مرکز کو دینے سے انکار کردیا ۔
گوکہ آئی جی پی ہوں یا چیف سیکرٹری وہ دونوں ہی صوبوں میں مرکز کے نمائندے ہوتے ہیں اور مرکز کی جانب سے انھیں جو ہدایات دی جائیں وہ اس پر بھی عمل درآمد کرتے ہیں تاہم ایک ترتیب برابر رکھنے کے لیے انھیں صوبائی حکومت کی ہدایات کو بھی مد نظررکھنا پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ آئی جی پی کو مرکز کی جانب سے جو ہدایات موصول ہوئیں وہ انہوں نے چیف سیکرٹری کو ارسال کردیں تاہم اس سے قبل ہی صوبائی حکومت نے اپنا فیصلہ لیتے ہوئے سکیورٹی اہلکاروں کی خدمات دینے سے انکار کردیا۔
اس ضمن میں صوبائی حکومت نے تو اپنا فیصلہ لے لیا لیکن مرکز کی جانب سے اس بارے میں کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا کیونکہ دوسری جانب پی ٹی آئی کے چیئرمین نے لانگ مارچ کی حتمی تاریخ کا کوئی اعلان بھی نہیں کیا۔ یہ اعلان انہوں نے رحیم یار خان کے جلسہ میں کرنا تھا تاہم نہ تو رحیم یار خان کے جلسہ میں ایسا کوئی اعلان ہوا اور تاریخ دی گئی اور نہ ہی کرک کے جلسہ میں انہوں نے اعلان کیا جس کی وجہ سے مرکز بھی حالات کو دیکھتے ہوئے معاملات کو ڈیل کر رہا ہے۔
تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر پی ٹی آئی کے چیئرمین لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کرتے ہیں تو پھر مرکز بھی اسلام آباد کو محفوظ کرنے کے لیے سکیورٹی کے انتظامات کرے گا پھر بھلے اس کے لیے مرکز صوبوں سے سیکورٹی اہلکار منگواتا ہے یا پھر دیگر سکیورٹی اداروں کو استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک پارٹی پورے ملک سے ورکروں کو وفاقی دارالحکومت آنے کی کال دے اور مرکز کے حکمران ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین لانگ مارچ کی حتمی تاریخ کا اعلان کیوں نہیں کر رہے ؟ یہ سوال اس وقت ضرور موجود ہے کہ جو پی ٹی آئی کی صفوں میں زیادہ شدت کے ساتھ محسوس کیاجا رہا ہے ، کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ عمران خان کے مبینہ طور پر اندرون خانہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جو مذاکرات جاری ہیں وہ ان کے حتمی صورت کو پہنچنے کے منتظر ہیں تاکہ اس کے مطابق وہ اپنا لائحہ عمل وضع کریں جبکہ یہ خیال بھی کیا جا رہا ہے کہ چونکہ مرکز میں تبدیلیاں آنے والی ہیں۔
اس لیے ان کا انتظار کیا جا رہا ہے ، یقینی طور پر سب کی نظریں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی پاکستان واپسی پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ وطن واپس آئیں اور وزیر خزانہ کا چارج سنبھالیں ، ان کے وزیر خزانہ بننے کے بعد ملک کو معاشی طور پر کیا فائدہ ہوتا ہے؟اس پر بھی سب کی نظریں ٹکی ہوئی ہیں اور خیال یہ کیا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین بھی اس صورت حال کو دیکھ رہے ہیں کیونکہ بہرکیف اس وقت سب سے اہم ترین ایشو ملک کی معاشی صورت حال ہی ہے۔
صوبائی حکومت بھی یہ دیکھے گی کہ مفتاح اسماعیل کی رخصتی اور اسحاق ڈار کی آمد سے مرکز اور صوبوں کے مابین جو ایشوز ہیں ان کے حوالے سے کیا پیش رفت ہوتی ہے، خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت اس وقت مالی بحران کا شکار ہے اور وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا کے مطابق صوبہ کا مالی خسارہ 275 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔
ان حالات میں صوبہ کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ مرکز سے اپنے مالی وسائل کا حصول ممکن بنائے اس لیے بھی شاید تھوڑا انتظار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کیونکہ اگر لیگی رہنما اسحاق ڈار کی آمد کے بعد معاشی صورت حال میں بہتری آتی ہے اور صوبہ کو اس کے مالی وسائل کی فراہمی ہونا شروع ہو جاتی ہے تواس صورت میں معاملات کو نئے تناظر میں دیکھتے ہوئے پالیسی اپنائی جائے گی تاہم جہاں تک صوبائی حکومت کے وسائل کا پی ٹی آئی چیئرمین کی سیاسی وانتخابی مہم کو استعمال کرنے کا تعلق ہے تو یہ سلسلہ بدستور جاری ہے جو یقینی طور پر الیکشن کمیشن کی کمزوری کو عیاں کرتا ہے۔
الیکشن کمیشن نے سابق وزیراعظم عمران خان کے دورہ چارسدہ کے موقع پرسرکاری ہیلی کاپٹر کے استعمال اور وزیراعلیٰ کی انتخابی جلسہ میں موجودگی کے حوالے سے ایکشن لیا لیکن اس ایکشن کا کوئی نتیجہ نہ نکل سکا جس کی وجہ سے کرک جلسہ کے لیے ایک مرتبہ پھر سابق وزیراعظم نے سرکاری ہیلی کاپٹر کا استعمال کیا، اس ضمن میں یقینی طور پر الیکشن کمیشن کو ایسے مضبوط قواعدوضوابط بنانے ہونگے کہ جن کی خلاف ورزی ممکن نہ ہو ورنہ تو جس انداز میں الیکشن کمیشن ایسی خلاف ورزیوں کے خلاف ایکشن لیتا ہے وہ سٹیریو ٹائپ کاروائیاں لگتی ہیں جس کی وجہ سے برسراقتدار سیاسی جماعتوں کو من مانی کرنے کا موقع ملتاہے۔
تاہم اگر الیکشن کمیشن اپنے قواعدوضوابط کو تگڑا کرے تو اس سے صورت حال کو کنٹرول میں لایا جا سکتا ہے۔ چونکہ ضمنی انتخابات پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی دونوں کے لیے ہی زندگی اور موت کا مسلہ بنے ہوئے ہیں اسی لیے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان جلسوںکا انعقاد بھی کررہے ہیں اور پشاورمیں بھی انہوں نے مختلف طبقات سے خطابات کے ذریعے ہوا کا رخ اپنے موافق بنانے کی کوشش کی۔
اس وقت جلسے اگر کوئی پارٹی کر رہی ہے تو وہ پی ٹی آئی ہی ہے لیکن ماہ اکتوبر کا آغاز ہوتے ہی پی ڈی ایم بھی میدان میں نکلے گی، پنجاب کے لیے پی ڈی ایم کیا پالیسی بناتی ہے یہ تو الگ بات ہے تاہم خیبرپختونخوا کے لیے دو بڑے جلسوں کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے جن میں شاید ایک پشاور اور دوسرا مردان میں منعقد ہو، پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں اور خصوصا اے این پی کی کوشش ہے کہ مریم نواز ان جلسوں سے خطاب کریں تاکہ رائے عامہ کو بھی ہموار کیا جا سکے اور ساتھ ہی لیگی ورکر بھی متحرک ہوں۔
اس ضمن میں ابھی کسی قسم کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا تاہم ان جلسوں کے شیڈول کو حتمی شکل دی جائے گی جس کے لیے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن بھی متحرک ہونگے کیونکہ دو حلقوں پر ان کی اپنی پارٹی کے امیدوار بھی میدان میں ہیں جبکہ پشاور کے حلقہ این اے 31 سے اے این پی کے امیدوار حاجی غلام بلور کے ساتھ بھی ان کے دیرینہ تعلقات ہیں جن کو نبھانے کے لیے وہ بزرگ سیاستدان کو ضرور سپورٹ فراہم کریں گے۔
اس سلسلے میں بات مولانا فضل الرحمن یا مریم نواز تک محدود نہیں رہنی چاہیے، پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت کو ضمنی انتخابی مہم میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے جلسوں میں مرکزی قائدین کو بھجوانا چاہیے اور اس موقع پر دیگر کے علاوہ اے این پی کے مرکزی سینئر نائب صدر امیر حیدرہوتی کی کمی بھی محسوس کی جا رہی ہے کیونکہ پشاور سے ان کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے بزرگ سیاستدان غلام احمدبلور میدان میں ہیں تو ساتھ ہی چارسدہ سے ان کے کزن اور پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے پی ٹی آئی چیئرمین کا مقابلہ کرنا ہے جس کے لیے ان کا سکرین پر ہونا ضروری ہے تاہم وہ پس منظر میں ہیں ۔n
گوکہ آئی جی پی ہوں یا چیف سیکرٹری وہ دونوں ہی صوبوں میں مرکز کے نمائندے ہوتے ہیں اور مرکز کی جانب سے انھیں جو ہدایات دی جائیں وہ اس پر بھی عمل درآمد کرتے ہیں تاہم ایک ترتیب برابر رکھنے کے لیے انھیں صوبائی حکومت کی ہدایات کو بھی مد نظررکھنا پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ آئی جی پی کو مرکز کی جانب سے جو ہدایات موصول ہوئیں وہ انہوں نے چیف سیکرٹری کو ارسال کردیں تاہم اس سے قبل ہی صوبائی حکومت نے اپنا فیصلہ لیتے ہوئے سکیورٹی اہلکاروں کی خدمات دینے سے انکار کردیا۔
اس ضمن میں صوبائی حکومت نے تو اپنا فیصلہ لے لیا لیکن مرکز کی جانب سے اس بارے میں کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا کیونکہ دوسری جانب پی ٹی آئی کے چیئرمین نے لانگ مارچ کی حتمی تاریخ کا کوئی اعلان بھی نہیں کیا۔ یہ اعلان انہوں نے رحیم یار خان کے جلسہ میں کرنا تھا تاہم نہ تو رحیم یار خان کے جلسہ میں ایسا کوئی اعلان ہوا اور تاریخ دی گئی اور نہ ہی کرک کے جلسہ میں انہوں نے اعلان کیا جس کی وجہ سے مرکز بھی حالات کو دیکھتے ہوئے معاملات کو ڈیل کر رہا ہے۔
تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر پی ٹی آئی کے چیئرمین لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کرتے ہیں تو پھر مرکز بھی اسلام آباد کو محفوظ کرنے کے لیے سکیورٹی کے انتظامات کرے گا پھر بھلے اس کے لیے مرکز صوبوں سے سیکورٹی اہلکار منگواتا ہے یا پھر دیگر سکیورٹی اداروں کو استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک پارٹی پورے ملک سے ورکروں کو وفاقی دارالحکومت آنے کی کال دے اور مرکز کے حکمران ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین لانگ مارچ کی حتمی تاریخ کا اعلان کیوں نہیں کر رہے ؟ یہ سوال اس وقت ضرور موجود ہے کہ جو پی ٹی آئی کی صفوں میں زیادہ شدت کے ساتھ محسوس کیاجا رہا ہے ، کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ عمران خان کے مبینہ طور پر اندرون خانہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جو مذاکرات جاری ہیں وہ ان کے حتمی صورت کو پہنچنے کے منتظر ہیں تاکہ اس کے مطابق وہ اپنا لائحہ عمل وضع کریں جبکہ یہ خیال بھی کیا جا رہا ہے کہ چونکہ مرکز میں تبدیلیاں آنے والی ہیں۔
اس لیے ان کا انتظار کیا جا رہا ہے ، یقینی طور پر سب کی نظریں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی پاکستان واپسی پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ وطن واپس آئیں اور وزیر خزانہ کا چارج سنبھالیں ، ان کے وزیر خزانہ بننے کے بعد ملک کو معاشی طور پر کیا فائدہ ہوتا ہے؟اس پر بھی سب کی نظریں ٹکی ہوئی ہیں اور خیال یہ کیا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین بھی اس صورت حال کو دیکھ رہے ہیں کیونکہ بہرکیف اس وقت سب سے اہم ترین ایشو ملک کی معاشی صورت حال ہی ہے۔
صوبائی حکومت بھی یہ دیکھے گی کہ مفتاح اسماعیل کی رخصتی اور اسحاق ڈار کی آمد سے مرکز اور صوبوں کے مابین جو ایشوز ہیں ان کے حوالے سے کیا پیش رفت ہوتی ہے، خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت اس وقت مالی بحران کا شکار ہے اور وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا کے مطابق صوبہ کا مالی خسارہ 275 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔
ان حالات میں صوبہ کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ مرکز سے اپنے مالی وسائل کا حصول ممکن بنائے اس لیے بھی شاید تھوڑا انتظار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کیونکہ اگر لیگی رہنما اسحاق ڈار کی آمد کے بعد معاشی صورت حال میں بہتری آتی ہے اور صوبہ کو اس کے مالی وسائل کی فراہمی ہونا شروع ہو جاتی ہے تواس صورت میں معاملات کو نئے تناظر میں دیکھتے ہوئے پالیسی اپنائی جائے گی تاہم جہاں تک صوبائی حکومت کے وسائل کا پی ٹی آئی چیئرمین کی سیاسی وانتخابی مہم کو استعمال کرنے کا تعلق ہے تو یہ سلسلہ بدستور جاری ہے جو یقینی طور پر الیکشن کمیشن کی کمزوری کو عیاں کرتا ہے۔
الیکشن کمیشن نے سابق وزیراعظم عمران خان کے دورہ چارسدہ کے موقع پرسرکاری ہیلی کاپٹر کے استعمال اور وزیراعلیٰ کی انتخابی جلسہ میں موجودگی کے حوالے سے ایکشن لیا لیکن اس ایکشن کا کوئی نتیجہ نہ نکل سکا جس کی وجہ سے کرک جلسہ کے لیے ایک مرتبہ پھر سابق وزیراعظم نے سرکاری ہیلی کاپٹر کا استعمال کیا، اس ضمن میں یقینی طور پر الیکشن کمیشن کو ایسے مضبوط قواعدوضوابط بنانے ہونگے کہ جن کی خلاف ورزی ممکن نہ ہو ورنہ تو جس انداز میں الیکشن کمیشن ایسی خلاف ورزیوں کے خلاف ایکشن لیتا ہے وہ سٹیریو ٹائپ کاروائیاں لگتی ہیں جس کی وجہ سے برسراقتدار سیاسی جماعتوں کو من مانی کرنے کا موقع ملتاہے۔
تاہم اگر الیکشن کمیشن اپنے قواعدوضوابط کو تگڑا کرے تو اس سے صورت حال کو کنٹرول میں لایا جا سکتا ہے۔ چونکہ ضمنی انتخابات پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی دونوں کے لیے ہی زندگی اور موت کا مسلہ بنے ہوئے ہیں اسی لیے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان جلسوںکا انعقاد بھی کررہے ہیں اور پشاورمیں بھی انہوں نے مختلف طبقات سے خطابات کے ذریعے ہوا کا رخ اپنے موافق بنانے کی کوشش کی۔
اس وقت جلسے اگر کوئی پارٹی کر رہی ہے تو وہ پی ٹی آئی ہی ہے لیکن ماہ اکتوبر کا آغاز ہوتے ہی پی ڈی ایم بھی میدان میں نکلے گی، پنجاب کے لیے پی ڈی ایم کیا پالیسی بناتی ہے یہ تو الگ بات ہے تاہم خیبرپختونخوا کے لیے دو بڑے جلسوں کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے جن میں شاید ایک پشاور اور دوسرا مردان میں منعقد ہو، پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں اور خصوصا اے این پی کی کوشش ہے کہ مریم نواز ان جلسوں سے خطاب کریں تاکہ رائے عامہ کو بھی ہموار کیا جا سکے اور ساتھ ہی لیگی ورکر بھی متحرک ہوں۔
اس ضمن میں ابھی کسی قسم کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا تاہم ان جلسوں کے شیڈول کو حتمی شکل دی جائے گی جس کے لیے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن بھی متحرک ہونگے کیونکہ دو حلقوں پر ان کی اپنی پارٹی کے امیدوار بھی میدان میں ہیں جبکہ پشاور کے حلقہ این اے 31 سے اے این پی کے امیدوار حاجی غلام بلور کے ساتھ بھی ان کے دیرینہ تعلقات ہیں جن کو نبھانے کے لیے وہ بزرگ سیاستدان کو ضرور سپورٹ فراہم کریں گے۔
اس سلسلے میں بات مولانا فضل الرحمن یا مریم نواز تک محدود نہیں رہنی چاہیے، پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت کو ضمنی انتخابی مہم میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے جلسوں میں مرکزی قائدین کو بھجوانا چاہیے اور اس موقع پر دیگر کے علاوہ اے این پی کے مرکزی سینئر نائب صدر امیر حیدرہوتی کی کمی بھی محسوس کی جا رہی ہے کیونکہ پشاور سے ان کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے بزرگ سیاستدان غلام احمدبلور میدان میں ہیں تو ساتھ ہی چارسدہ سے ان کے کزن اور پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے پی ٹی آئی چیئرمین کا مقابلہ کرنا ہے جس کے لیے ان کا سکرین پر ہونا ضروری ہے تاہم وہ پس منظر میں ہیں ۔n