جوگزرگیا سو گزرگیا
سب کچھ ہوا کا ایک جھونکا ہوتا ہے جو آتا ہے اور پھر چلا جاتا ہے اور پیچھے صرف یادیں رہ جاتی ہیں
سچی بات کہیں تو ہم
حامی بھی نہیں، منکرغالب بھی نہیں ہیں
ہم اہل تذبذب کسی جانب بھی نہیں ہیں
لیکن بزرگوں نے کہا ہے کہ تلوار چلاؤ تو عزیزوں کے لیے اوربات کروتو خداکے لیے، چنانچہ کسی کی بھی طرف داری نہ کرتے ہوئے انصاف کی بات کریں تو جناب کپتان صاحب کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ۔ عموماًکہاجاتاہے کہ ایک باردیکھا ہے اوردوسری بار۔۔ بلکہ بارباردیکھنے کی ہوس ہے۔ ایک دم ایک جھٹکے کے ساتھ کسی بچے کے منہ سے بھی دودھ کی نپل کھینچی جائے تو وہ بھی روپڑے گا اوریہ تو ''وزارت عظمیٰ'' تھی ۔
حیف درچشم زدن صحبت یار آخر شد
روئے گل سیر نہ دیدم و بہار آخر شد
یعنی پلک جھپکنے میں یار کی صحبت ختم ہوگئی، ابھی جی بھر کر پھولوں کو دیکھا بھی نہیں تھا کہ بہار چلی گئی۔ کہاں وہ کروفراورکہاں یہ بے سروسامانی۔ گویا زورکا جھٹکا دھیرے سے نہیں بلکہ زورسے لگا۔
رہتے تھے کبھی جن کے دل میں جان سے زیادہ پیاروں کی طرح
بیھٹے ہیں ان کے کوچے میں ہم آج گناھگاروں کی طرح
ہمارے خیال میں اب وہ جو کچھ بول رہے ہیں، ان سے ں درگزرکردینا چاہیے۔
کچھ تو نازک مزاج ہیں ہم بھی
اوریہ چوٹ بھی نئی ہے ابھی
کہنے دیجیے جو وہ کہتے ہیں۔کہنے سے ان کے کیاہوگا،آہستہ آہستہ زخم بھرجائے گا تو راہ پر آجائیں گے، ویسے تو ان کو یاد دلانا چاہیے کہ انھوں نے بھی کسی کے ساتھ ایسا ہی کیاتھا ،کوئی اور مچھلی بھی اسی طرح پانی سے نکال کر خشک زمین پر پھینک دی گئی تھی کہ یہ دارمکافات ہے ، جلد یا بدیر ہرکسی کو اپنا کرنا بھرنا پڑتا ہے۔
اس کے علاوہ آہستہ آہستہ یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ ایسے بہت سارے لوگ ہوتے ہیں جو ایک بار دیکھنے کے بعد بارباردیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن بہت کم لوگ کامیاب ہوتے ہیں ،دوسری باردیکھیے یا بارباردیکھنے میں اکثرکے ساتھ وہی ہوتاہے کہ آتا ہے یاد مجھ کوگزراہوا زمانہ لیکن عروج یاگزرا ہوا زمانہ پلٹ کر نہیں آتا،اس کی مثال جوانی کی سی ہے جب ایک بار چلی جاتی ہے تو کوئی ''کشتہ'' کوئی ''معجون''اسے واپس نہیں لاسکتا۔
دنیا بھی عجب سرائے فانی دیکھی
ہرچیز یہاں کی آنی جانی دیکھی
جو آکے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا
جو جاکے نہ آئے وہ جوانی دیکھی
سب کچھ ہوا کا ایک جھونکا ہوتا ہے جو آتا ہے اور پھر چلا جاتا ہے اور پیچھے صرف یادیں رہ جاتی ہیں ،وقت انتہائی ظالم ہوتاہے جوانسان سے وہ سب کچھ منوا لیتاہے جو وہ نہیں مانتایا نہیں ماننا چاہتاہے۔
وہ ترے حسن کاجادوہوکہ میراغم دل
ہر مسافر کو کسی گھاٹ اترجاناہے
پشاورمیں موٹر سائیکلوں کی دکان تھی جہاں ہمارا اٹھنا بیٹھنا تھا،دکان کامالک ہندوستانی مہاجرتھا۔ ایک دن اس کے پاس انڈیا کاکوئی رشتہ دارمہمان بن کرآیا۔ یہ ایک نوجوان تھا،پچیس چھبیس برس کاتھا۔دکانداراس کے لیے دکان سے باہر ایک کرسی ڈال دیتا اوروہ سارا دن اس کرسی پربیٹھا آسمان کی طرف دیکھتارہتا تھا، نہ کسی سے بات کرتاتھا نہ کسی پر توجہ دیتاتھا۔
دکان دار نے اس کا قصہ سنایاتھا کہ بچپن میں اسے دلیپ کمارکے بچپن کا ایک کردار فلم گنگا جمنا میں ملاتھا، اس کے بعد اس نے بہت کوشش کی لیکن کسی فلم میں اسے چانس نہیں ملا،اس ایک کردار کی وجہ سے اسے یہ خوش فہمی ہوگئی تھی کہ ایک دن وہ بھی دلیپ کمار جیسا اداکار اور ہیروبن جائے گا لیکن قسمت نے یاوری نہیں کی اوراس کی وہ توقع، وہ آرزو،وہ تمنا تشنہ رہ گئی، اور اب اس کا یہی حال ہے، ہمیشہ خاموش رہ کر آسمان کو دیکھتا رہتاہے۔
کپتان صاحب تک ہماری پہنچ نہیں ورنہ ہم انھیں سمجھاتے کہ خوابوں کی دنیا میں رہنا خود کو مزید دکھی کرتاہے، کسی جگہ اگر تمہیں زمین پر پڑا ہوا سکہ مل جائے تو ضروری نہیں کہ تم اس کوچے اوراس جگہ کا طواف کرتے رہو، وہ تو ایک وقت کاجادوتھا جو چل گیا۔
اب نہ آئے گی جوانی نہ جوانی کی امنگ
راہ کیا دیکھیے روٹھے ہوئے مہمانوں کی
خواب تھا جو کچھ دیکھا، جو سنا،افسانہ تھا جہاں تک لوگوں کا تعلق ہے تولوگ ان لیڈروں سے بھی زیادہ ہرجائی اورطوائف صفت ہوتے ہیں۔ایک دن برطانیہ کے وزیراعظم ونسٹن چرچل کسی جلسے سے خطاب کررہے تھے، بہت بڑا ہجوم تھا،ایک دوست نے چرچل سے کہا، آپ کی تقریرسننے کے لیے کتنا بڑا ہجوم اکٹھا ہوگیا ہے ۔ چرچل نے کہا، اگر کل مجھے اس مقام پر پھانسی دی جانے لگی تو ہجوم اس سے بھی بڑا ہوگا۔
ہمارے کپتان صاحب بھی اس غلط فہمی یاخوش فہمی میں مبتلاہیںکہ لوگ ان کے عاشق ہیں جب کہ لوگ ان کے نہیں بلکہ اس ''چیز'' کے عاشق ہیں جو اب ان کے پاس نہیں رہی ہے ۔لیکن پھر بھی ہم اگر خدا لگتی کہیں، تو وہ اتنے قصوروار بھی نہیں ہیں، مچھلی کو اچانک پانی سے نکال کر خشکی پر ڈالا جائے تو وہ تڑپے گی ضرور۔
خودی کانشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا