کراچی کے 71 فیصد علاقوں کے پانی میں نیگلیریا کی موجودگی کا انکشاف
’نیگلیریا کی جانچ کیلیے 18 ٹاؤنز سے پانی کے نمونے لیے گئے، 71.79 فیصد علاقوں میں کلورین کی مقدار موجود نہیں تھی‘
طبی ماہر ڈاکٹر محمد اقبال نے شہر قائد کے تقریب 71 فیصد علاقوں میں دماغ کو کھانے والے خطرناک امیبا (نیگلیریا) کی موجودگی کا انکشاف کیا ہے۔
آئی سی سی بی ایس کے سربراہ ڈاکٹرمحمد اقبال نے کہا کہ جامعہ کراچی کے شعبہ بائیو کیمسٹری اور جمیل الرحمن سینٹرفار جینوم ریسرچ کی جانب سے پہلی مرتبہ انسانی دماغ کھانے والے خطرناک امیبا (نیگلیر) کی جینو ٹائپنگ کی گئی ہے جس میں کراچی کے مختلف علاقوں سے لیے گئے پانی کے نمونوں کی جانچ سے انکشاف ہوا ہے کہ 71.79 فیصد علاقوں کے پانی میں کلورین کی مقدار بہت کم ہے یا ان میں کلورین موجود ہی نہیں ہے۔
بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم (آئی سی سی بی ایس) جامعہ کراچی کے سربراہ اور کامسٹیک کےکوارڈینیٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹرمحمد اقبال چوہدری نے غیر ملکی ماہرین سے گفتگو کے دوران کہی۔
جامعہ کراچی کے شعبہ انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بایولوجیکل سائنسز (آئی سی سی بی ایس) کے سربراہ ڈاکٹرمحمد اقبال نے غیرملکی ماہرین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نیگلیریا سے متاثرہ ملکوں میں پاکستان دوسرے درجے پر ہے اور کراچی نیگلیریا سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیگلیریا کی اہم وجہ پانی سپلائی کا ناقص نظام ہے، نیگلیریا گرم اور تازہ پانی اور مٹی میں پایا جاتا ہےاور 44 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرم پانی میں رہ سکتا ہے جبکہ کھارے یا کلورین ملے پانی میں یہ امیبا مرجاتا ہے۔
ڈاکٹر محمد اقبال نے کہا کہ نیگلیریا کی جانچ کیلیے 18 ٹاؤنز کے مختلف علاقوں سے پانی کے 40 نمونے لیے گئے، جانچ سے انکشاف ہوا کہ 71.79 فیصد علاقوں کے پانی میں کلورین کی مقداربہت کم ہے یا موجود ہی نہیں ہے، 28.21فیصد پانی فراہم کرنے والی لائنوں میں کلورین کی باقیات ہے مگر یہ ڈبلیو ایچ او کی جانب سے مقرر کردہ مقدار سے کم ہے۔
ڈاکٹر محمد اقبال کا کہنا تھا کہ منوڑہ، نارتھ کراچی، نیو کراچی، گلشنِ حدید، ملیر، قائدآباد، کورنگی، کیماڑی، سوہراب گوٹھ، لیاری، اور گولیمار سے لیے گئے پانی کے نمونوں میں نیگلیر پایا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نیگلیریا سے متاثرہ افراد میں اموات کی شرح 98 فیصد ہے اس لیے شہری نگلیریا سے بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔
ایکسپریس سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے چیف انجینئر الیکٹریکل مکینیکل واٹر بورڈ انتخابات راجپوت نے کہا کہ 'میرے ماتحت کراچی میں بلک پمپنگ اسٹیشنز اور فلٹر پلانٹس ہیں جس میں پانی کی باقاعدگی سے جانچ کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں 240 کلورین کے سلنڈرز 6 مختلف مقامات پر واقع 9 فلٹر پلانٹس میں ماہانہ جاتے ہیں۔ 1 سلنڈر میں 9 سو کلوگرام کلورین موجود ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کینجھر کے ذریعے پانی دھابے جی آتا ہے وہاں سے روزانہ 500 ملین گیلن پانی سکشن پمپ سے حاصل کرتے ہیں اور 100 ملین گیلن حب ڈیم سے حاصل کرتے ہیں، جس کی فلٹر پلانٹس میں کلورینیشن ہوتی ہے یہ فلٹر پلانٹس مناسب کلورینیشن کے لیے چوبیس گھنٹے کام کر رہے ہیں اور پی پی ایم کلورین برقرار رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مختلف کیمسٹ روزانہ سیمپل لے کر لیباریٹری میں جائزہ لیتے ہیں پھر صارفین تک اعشاریہ دو پانچ کلورین والا پانی فراہم کرتے ہیں، نگلیریا جیسی بیماری جولائی سے ستمبر تک گرمی کی شدت بڑھنے کے باعث مٹی کے اندر جنم لیتی ہے۔ سوئمنگ پول، اوور ہیڈ ٹینک اور انڈر گراؤنڈ ٹینک کی صفائی نہ ہونے کے باعث مٹی جمع ہوجاتی ہے جو کلورین کھا جاتی ہے جس سے نگلیریا جنم لیتی ہے۔
انتخاب راجپوت کا کہنا تھا کہ ہر مہینے صفائی ہونی چاہیے، جو اونچی عمارتیں ہیں ان کے ٹینکس کی صفائی کی جانی چاہئے اور ہر پندرہ دن بعد 2 کلورین کی ٹیبلیٹس ڈال دینی چاہئے تا کہ صفائی کا معیار بہتر ہو تاکہ پانی نیگلیریا سے پاک اور قابلِ استعمال ہوجائے۔