عطیہ کیے گئے گردوں کو محفوظ کرنے کے لیے نیا طریقہ کار وضع
تحقیق کے مطابق ٹرانسپلانٹ کے لیے عطیہ کیے جانے والے گردوں میں سے ہر سال تقریباً 100 گردوں کو محفوظ کیا جا سکتا ہے
سائنس دانوں نے عطیہ کیے گئے گردوں کو محفوظ رکھنے کے لیے نیا طریقہ کاروضع کیا ہے جو ان کے خراب ہونے تعداد میں کمی لاسکتا ہے۔
کِڈنی ریسرچ یو کے کے مطابق ڈونرز کی جانب سے ٹرانسپلانٹ کے لیے دیے جانے گردوں میں سے ہر سال تقریباً 100 گردوں کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔
این ایچ ایس اینڈ ٹرانسپلانٹ کے تین سال کے ڈیٹا پر مبنی اعداد و شمار سے مذکورہ بالا ادارے نے یہ تخمینہ لگایا کہ کتنی تعداد میں گردے طبی لحاظ سے استعمال کے قابل نہیں تھے۔
لیکن سرجری سے قبل گردوں کو بہتر انداز میں محفوظ کرنے کے لیے نئی تکنیک عضو کو طویل مدت تک قابلِ استعمال رکھ سکتی ہے اور ٹرانسپلانٹ کے لیے دستیاب عضو کی تعداد میں اضافہ کرسکتی ہے۔
محققین کا ماننا ہے کہ ان کے نیاطریقہ کارکااستعمال آئندہ تین سالوں میں شروع ہوسکے گا جو براہ راست لاجسٹک اور آپریشنل مسائل کو حل کردے گا۔
وضع کیے گئے طریقے میں نورموتھرمک پرفیوشن کا استعمال کیا گیا جس میں آکسیجن والا خون گردوں سے گزارا گیا تاکہ عضو سے خون کے بہاؤ کا تسلسل برقرار رہے۔
گردے کو جمانے کا طریقہ فی الحال ایک اسٹنڈرڈ طریقہ کار ہے لیکن جنتا زیادہ وقت عضو برف میں رہتا ہے اتنے زیادہ اس کو نقصان پہنچنے کے امکانات ہوتے ہیں۔
کڈنی ریسرچ یو کے کی چیف ایگزیکٹِو سینڈرا کیوری کا کہنا تھا کہ مریضوں کو کِڈنی ٹرانسپلانٹ کے لیے اوسطاً ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ انتظار کرنا پڑتا ہے، کچھ اس سے بھی زیادہ عرصہ انتظار کرتے ہیں اور جب ان کو بلایا جاتا ہے تو وہ انتہائی مشکل کا سامنا کرسکتے ہیں جس میں اسپتال جلدی پہنچنا شامل ہوتا ہے کہ کہیں ان سے یہ موقع ضائع نہ ہوجائے۔
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے بہت سے مریضوں کو اس لیے متعدد بار اسپتال بلایا گیا کہ انہیں یہ بتایا جاسکے کہ عطیہ کیا گیا گردہ کسی کام کا نہیں ہے۔
کِڈنی ریسرچ یو کے کے مطابق ڈونرز کی جانب سے ٹرانسپلانٹ کے لیے دیے جانے گردوں میں سے ہر سال تقریباً 100 گردوں کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔
این ایچ ایس اینڈ ٹرانسپلانٹ کے تین سال کے ڈیٹا پر مبنی اعداد و شمار سے مذکورہ بالا ادارے نے یہ تخمینہ لگایا کہ کتنی تعداد میں گردے طبی لحاظ سے استعمال کے قابل نہیں تھے۔
لیکن سرجری سے قبل گردوں کو بہتر انداز میں محفوظ کرنے کے لیے نئی تکنیک عضو کو طویل مدت تک قابلِ استعمال رکھ سکتی ہے اور ٹرانسپلانٹ کے لیے دستیاب عضو کی تعداد میں اضافہ کرسکتی ہے۔
محققین کا ماننا ہے کہ ان کے نیاطریقہ کارکااستعمال آئندہ تین سالوں میں شروع ہوسکے گا جو براہ راست لاجسٹک اور آپریشنل مسائل کو حل کردے گا۔
وضع کیے گئے طریقے میں نورموتھرمک پرفیوشن کا استعمال کیا گیا جس میں آکسیجن والا خون گردوں سے گزارا گیا تاکہ عضو سے خون کے بہاؤ کا تسلسل برقرار رہے۔
گردے کو جمانے کا طریقہ فی الحال ایک اسٹنڈرڈ طریقہ کار ہے لیکن جنتا زیادہ وقت عضو برف میں رہتا ہے اتنے زیادہ اس کو نقصان پہنچنے کے امکانات ہوتے ہیں۔
کڈنی ریسرچ یو کے کی چیف ایگزیکٹِو سینڈرا کیوری کا کہنا تھا کہ مریضوں کو کِڈنی ٹرانسپلانٹ کے لیے اوسطاً ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ انتظار کرنا پڑتا ہے، کچھ اس سے بھی زیادہ عرصہ انتظار کرتے ہیں اور جب ان کو بلایا جاتا ہے تو وہ انتہائی مشکل کا سامنا کرسکتے ہیں جس میں اسپتال جلدی پہنچنا شامل ہوتا ہے کہ کہیں ان سے یہ موقع ضائع نہ ہوجائے۔
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے بہت سے مریضوں کو اس لیے متعدد بار اسپتال بلایا گیا کہ انہیں یہ بتایا جاسکے کہ عطیہ کیا گیا گردہ کسی کام کا نہیں ہے۔