آڈیو لیک اک نیا سیاسی داؤ پیچ
آڈیو اور ویڈیو لیکس پاکستانی سیاست کا وہ گھناؤنا داؤ پیچ ہے جس میں سیاستدانوں کے مکروہ چہرے عیاں ہورہے ہیں
پاکستان اس وقت ''آڈیو لیکس'' کے دور سے گزر رہا ہے۔ پہلے وزیراعظم شہباز شریف کی آڈیوز لیک ہوئیں اور اب عمران خان اس کی زد میں ہیں۔ شہباز شریف کی آڈیو لیک ہونے سے پریشانی کے شکار حکومتی وزرا نے عمران خان کی آڈیو لیک ہونے سے کچھ سکھ کا سانس لیا ہے اور تازہ دم ہوکر میدان میں اتر آئے ہیں۔ اب جملوں کے نشتر اور تنقید کے تیروں کا رخ عمران خان کی طرف ہوگیا ہے۔
حکومت اس آڈیو لیک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عمران خان کے بیانیے کا توڑ کرنے میں مصروف ہے کہ سابق حکومت کا بوریا بستر گول کرنے میں کوئی بیرونی سازش نہیں بلکہ خود عمران خان کی مایوس کن کارکردگی ہے۔
عمران خان جو کرکٹ کے دور سے مضبوط اعصاب رکھنے اور شکست تسلیم کرنے کے بجائے آخری بال تک لڑنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ سیاسی میدان میں بھی اپنے بیانیے کی گیند سے حکومت کی وکٹیں اڑانے کےلیے پرعزم ہیں۔ وہ کسی صورت پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ توشہ خان کیس سے نااہلی کی لٹکتی تلوار سے بھی وہ نہ گھبرائے اور توہین عدالت سے بھی بچ کر نکل آئے ہیں۔
آڈیو لیکس اور اقتدار کی اس کشمکش میں ملک کس خطرناک موڑ پر پہنچ چکا ہے اور قومی سلامتی کے معاملات کتنی بری طرح متاثر ہورہے ہیں اس کا ادراک نہ حکومت کو ہے اور نہ عمران خان سمجھنے کو تیار ہیں۔
یہ سب کچھ اتنا نیا بھی نہیں۔ لگتا ہے ملکی سیاست کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں مسلسل گھومے جارہی ہے اور حکمرانوں کی میوزیکل چیئر ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں کسی وزیراعظم نے اپنے عہدے کی میعاد مکمل نہیں کی۔ کبھی قتل کردیے گئے، کبھی سولی پر لٹکا دیے گئے، کبھی آئین کے ایک آرٹیکل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صدر مملکت، جمہوری وزیراعظم کا بستر گول کردیتے تو کبھی ملک میں مارشل لا نافذ ہوتا اور یہ سب کرنا ممکن نہ رہتا تو عدالتی نااہلی کی تلوار یہ معرکہ سر کرلیتی۔
پیپلز پارٹی کی چیئرمین بے نظیر بھٹو دو بار، جب کہ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف تین بار وزیراعظم بن چکے ہیں اور ہر بار یہ دونوں عہدے کی میعاد مکمل ہونے سے پہلے گھر بھیج دیے گئے۔ اس پر بھی قرار نہ آیا تو ایک تیسری قیادت لانے کا فیصلہ ہوا، جس کےلیے قرعہ فال عمران خان کے نام نکلا۔
عمران خان پاکستانی سیاست میں نوے کی دہائی سے ہیں۔ گو اس وقت وہ ملک کو ورلڈ کپ جتوا چکے تھے اور کینسر اسپتال بھی پایہ تکمیل کو پہنچ چکا تھا لیکن وہ سیاست میں بری طرح ناکام رہے اور ناکام ہوتے چلے گئے۔ اللہ اللہ کرکے مشرف دور میں ایک سیٹ ملی اور کہا جاتا ہے یہ بھی دی گئی تھی۔ پھر اچانک فضا بدلی اور سب کچھ عمران خان کے حق میں بہتر ہونے لگا۔ ملک بھر کے وہ الیکٹیبلز جنھیں لوٹا کہا جاتا تھا، ایک ایک کرکے عمران خان کی جھولی میں گرنے لگے۔ اینکرز ان کے نمائندے بن گئے اور لکھاریوں کے قلم ''مدح عمران'' میں فر فر چلنے لگے۔
خیر سے خان صاحب وزیراعظم بن گئے۔ چند ''حاسدوں'' نے کہا کہ وہ ڈمی وزیراعظم ہیں اور خود خان صاحب کے فیصلوں اور حد سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ پر انحصار سے بھی یہ ثابت ہونے لگا کہ بلاول بھٹو کا سلیکٹڈ کا طعنہ یا مریم نواز کا کٹھ پتلی ہونے الزام اتنا غلط بھی نہیں۔ اپوزیشن قیادت یا تو ملک سے باہر تھی یا جیلوں میں قید تھی۔ حکومت بھی بار بار یہی دعویٰ کررہی تھی کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اس بار وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری کرلیں گے۔ ہم بھی خوش تھے کہ چلو جیسے تیسے سہی کم از کم کوئی وزیراعظم تو پوری رات کا دلہا ثابت ہو۔
لیکن یہ خواب بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا اور عمران خان بھی یہ ریکارڈ نہ توڑ سکے۔ تاہم یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ خان صاحب سابق وزرائے اعظم کی طرح اقتدار سے باہر ہونے کے بعد خاموش بیٹھنے کے بجائے ''خطرناک'' ثابت ہونے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔
یوں تو پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے ہی سیاست دان اقتدار کی کرسی تک پہنچتے اور پھر اتارے بھی جاتے ہیں، لیکن لاڈلا کا خطاب عمران خان کے حصے میں آیا اور اب تک انھیں لاڈلا ہی سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ ملکی اداروں اور ان کے سربراہان کے خلاف جلسوں میں نامناسب زبان اور نعروں کے باوجود عمران خان کے خلاف کسی بھی قسم کی تادیبی کارروائی کا نہ ہونا ہے۔
حال ہی میں صوبہ پنجاب کے ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے میں طلبا سے خطاب کے دوران عمران خان کے ایک سوال کے جواب میں ''نیوٹرل نیوٹرل'' کے نعرے بلند ہونے سے صاف نظر آتا ہے کہ یہ خطرناک بیانیہ کس حد تک ذہنوں کو پراگندہ کرچکا ہے۔ عمران خان کے حامی اس کو مقتدر حلقوں پر دباؤ ڈالے رکھنے کی حکمت عملی قرار دیتے ہوئے دفاع کرتے ہیں کہ خان صاحب نے بارہا ایک مضبوط فوج کی حمایت کی ہے، کیوں کہ یہ فوج ہی ہوتی ہے جو ملک کی حفاظت کرتی ہے۔
دوسری جانب اسحاق ڈار کی وطن واپسی کو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات میں بہتری کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ پاکستانی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، اس کا فیصلہ اکتوبر تک ہوجائے گا اور تب تک تناؤ، ہیجان اور کشیدگی کے اس کھیل میں وہی کھلاڑی میدان میں کھڑا رہے گا جو اعصابی طور پر مضبوط ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
حکومت اس آڈیو لیک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عمران خان کے بیانیے کا توڑ کرنے میں مصروف ہے کہ سابق حکومت کا بوریا بستر گول کرنے میں کوئی بیرونی سازش نہیں بلکہ خود عمران خان کی مایوس کن کارکردگی ہے۔
عمران خان جو کرکٹ کے دور سے مضبوط اعصاب رکھنے اور شکست تسلیم کرنے کے بجائے آخری بال تک لڑنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ سیاسی میدان میں بھی اپنے بیانیے کی گیند سے حکومت کی وکٹیں اڑانے کےلیے پرعزم ہیں۔ وہ کسی صورت پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ توشہ خان کیس سے نااہلی کی لٹکتی تلوار سے بھی وہ نہ گھبرائے اور توہین عدالت سے بھی بچ کر نکل آئے ہیں۔
آڈیو لیکس اور اقتدار کی اس کشمکش میں ملک کس خطرناک موڑ پر پہنچ چکا ہے اور قومی سلامتی کے معاملات کتنی بری طرح متاثر ہورہے ہیں اس کا ادراک نہ حکومت کو ہے اور نہ عمران خان سمجھنے کو تیار ہیں۔
یہ سب کچھ اتنا نیا بھی نہیں۔ لگتا ہے ملکی سیاست کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں مسلسل گھومے جارہی ہے اور حکمرانوں کی میوزیکل چیئر ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں کسی وزیراعظم نے اپنے عہدے کی میعاد مکمل نہیں کی۔ کبھی قتل کردیے گئے، کبھی سولی پر لٹکا دیے گئے، کبھی آئین کے ایک آرٹیکل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صدر مملکت، جمہوری وزیراعظم کا بستر گول کردیتے تو کبھی ملک میں مارشل لا نافذ ہوتا اور یہ سب کرنا ممکن نہ رہتا تو عدالتی نااہلی کی تلوار یہ معرکہ سر کرلیتی۔
پیپلز پارٹی کی چیئرمین بے نظیر بھٹو دو بار، جب کہ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف تین بار وزیراعظم بن چکے ہیں اور ہر بار یہ دونوں عہدے کی میعاد مکمل ہونے سے پہلے گھر بھیج دیے گئے۔ اس پر بھی قرار نہ آیا تو ایک تیسری قیادت لانے کا فیصلہ ہوا، جس کےلیے قرعہ فال عمران خان کے نام نکلا۔
عمران خان پاکستانی سیاست میں نوے کی دہائی سے ہیں۔ گو اس وقت وہ ملک کو ورلڈ کپ جتوا چکے تھے اور کینسر اسپتال بھی پایہ تکمیل کو پہنچ چکا تھا لیکن وہ سیاست میں بری طرح ناکام رہے اور ناکام ہوتے چلے گئے۔ اللہ اللہ کرکے مشرف دور میں ایک سیٹ ملی اور کہا جاتا ہے یہ بھی دی گئی تھی۔ پھر اچانک فضا بدلی اور سب کچھ عمران خان کے حق میں بہتر ہونے لگا۔ ملک بھر کے وہ الیکٹیبلز جنھیں لوٹا کہا جاتا تھا، ایک ایک کرکے عمران خان کی جھولی میں گرنے لگے۔ اینکرز ان کے نمائندے بن گئے اور لکھاریوں کے قلم ''مدح عمران'' میں فر فر چلنے لگے۔
خیر سے خان صاحب وزیراعظم بن گئے۔ چند ''حاسدوں'' نے کہا کہ وہ ڈمی وزیراعظم ہیں اور خود خان صاحب کے فیصلوں اور حد سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ پر انحصار سے بھی یہ ثابت ہونے لگا کہ بلاول بھٹو کا سلیکٹڈ کا طعنہ یا مریم نواز کا کٹھ پتلی ہونے الزام اتنا غلط بھی نہیں۔ اپوزیشن قیادت یا تو ملک سے باہر تھی یا جیلوں میں قید تھی۔ حکومت بھی بار بار یہی دعویٰ کررہی تھی کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اس بار وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری کرلیں گے۔ ہم بھی خوش تھے کہ چلو جیسے تیسے سہی کم از کم کوئی وزیراعظم تو پوری رات کا دلہا ثابت ہو۔
لیکن یہ خواب بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا اور عمران خان بھی یہ ریکارڈ نہ توڑ سکے۔ تاہم یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ خان صاحب سابق وزرائے اعظم کی طرح اقتدار سے باہر ہونے کے بعد خاموش بیٹھنے کے بجائے ''خطرناک'' ثابت ہونے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔
یوں تو پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے ہی سیاست دان اقتدار کی کرسی تک پہنچتے اور پھر اتارے بھی جاتے ہیں، لیکن لاڈلا کا خطاب عمران خان کے حصے میں آیا اور اب تک انھیں لاڈلا ہی سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ ملکی اداروں اور ان کے سربراہان کے خلاف جلسوں میں نامناسب زبان اور نعروں کے باوجود عمران خان کے خلاف کسی بھی قسم کی تادیبی کارروائی کا نہ ہونا ہے۔
حال ہی میں صوبہ پنجاب کے ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے میں طلبا سے خطاب کے دوران عمران خان کے ایک سوال کے جواب میں ''نیوٹرل نیوٹرل'' کے نعرے بلند ہونے سے صاف نظر آتا ہے کہ یہ خطرناک بیانیہ کس حد تک ذہنوں کو پراگندہ کرچکا ہے۔ عمران خان کے حامی اس کو مقتدر حلقوں پر دباؤ ڈالے رکھنے کی حکمت عملی قرار دیتے ہوئے دفاع کرتے ہیں کہ خان صاحب نے بارہا ایک مضبوط فوج کی حمایت کی ہے، کیوں کہ یہ فوج ہی ہوتی ہے جو ملک کی حفاظت کرتی ہے۔
دوسری جانب اسحاق ڈار کی وطن واپسی کو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات میں بہتری کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ پاکستانی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، اس کا فیصلہ اکتوبر تک ہوجائے گا اور تب تک تناؤ، ہیجان اور کشیدگی کے اس کھیل میں وہی کھلاڑی میدان میں کھڑا رہے گا جو اعصابی طور پر مضبوط ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔