پیرچناسی کی شبنم اور تنویر الیاس کے آنسو

وزیراعظم آزاد کشمیر کے مطابق ریاستی حکومت کے پاس اگلے ماہ سرکاری ملازمین کو دینے کےلیے پیسے نہیں ہیں


وفاقی حکومت آزاد کشمیر حکومت کے ہاتھ باندھنے کے بجائے آئینی اور قانونی ذمے داریاں ادا کرے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان میں اس وقت آڈیو اور ویڈیو اسکینڈلز کے تذکرے ہیں۔ اپوزیشن اور حکومت آڈیوز سے انکاری تو نہیں مگر ہر آڈیو کی اپنی اپنی تشریح ہورہی ہے۔ لیکن میں اس وقت سطح سمندر سے ساڑھے 9 ہزار فٹ بلند پیر چناسی کے مقام پر بیٹھا ہوں، جہاں کی زرد گھاس خزاں کی خبر دے رہی ہے جبکہ گھاس پر پڑی شبنم زندگی کی خبر دے رہی ہے۔ میرے ایک جانب وادی نیلم جبکہ دوسری طرف وادی جہلم ہے۔ ان قدرتی نظاروں کے بیچ مجھے وزیراعظم آزاد کشمیر کے وفاقی حکومت کے ساتھ شکوے، شکایات اور ان شکوؤں کے بیچ چھپا درد دکھائی دے رہا ہے۔

وزیراعظم آزاد کشمیر کے مطابق ریاستی حکومت کے پاس اگلے ماہ سرکاری ملازمین کو دینے کےلیے پیسے نہیں ہیں۔ ریاست میں ترقیاتی منصوبہ جات شروع کرنے کےلیے درکار وسائل بھی روک لیے گئے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وفاقی منصوبوں پر خرچ پیسوں کی رقم بھی آزاد حکومت کو نہیں دی جارہی۔ وزیراعظم آزاد کشمیر کی شکایات سے قبل ریاست کا مالیاتی نظام جاننا لازمی ہے۔ آزاد کشمیر حکومت کا ترقیاتی اور غیر ترقیاتی بجٹ 102 ارب روپے ہے، جبکہ دیگر اخراجات آزاد کشمیر حکومت ٹیکس کے ذریعے جمع کرتی ہے۔ جس کا زیادہ حصہ یعنی 74.32 ارب روپے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں چلا جاتا ہے جبکہ 28 ارب روپے ترقیاتی بجٹ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔

آزاد کشمیر حکومت اور حکومت پاکستان کے درمیان 2018 میں ایک مالیاتی معاہدہ ہوا، جس کے تحت وفاقی حکومت کل جمع کردہ ٹیکس کا 3.6 فیصد آزاد کشمیر کی حکومت کو ادا کرنے کی پابند تھی۔ اس بار حکومت پاکستان نے 6 ہزار ارب روپے ٹیکس جمع کیا مگر آزاد کشمیر حکومت کو تاحال 2 ارب 60 کروڑ جاری کیے گئے۔ جبکہ حکومت نے 28 کے بجائے کل بجٹ 26 ارب کردیا، حالانکہ معاہدے کے تحت آزاد کشمیر حکومت کے فنڈز میں سالانہ بنیادوں پر 10 فیصد اضافے کی پابند تھی۔

سوال یہ ہے کہ آزاد کشمیر حکومت اپنے ذاتی وسائل سے پیسے اکٹھے کیوں نہیں کرتی؟ آزاد کشمیر میں سابق دور حکومت میں صنعتیں لگانے کےلیے خصوصی اقدامات کیے لیکن ایف بی آر کے رویے اور پنجاب سے آزاد کشمیر مشنری کی منتقلی پر آنے والے مسائل کے باعث ریاست کی 236 صنعتیں بند ہوچکی ہیں۔ کسٹمز اور ٹیکسز کی بھرمار کے باعث کشمیری سرمایہ کار ریاست میں پیسہ لگانے کے بجائے پنجاب اور بیرون ملک صنعتیں لگانے پر مجبور ہیں۔ آزاد کشمیر کی 45 لاکھ کی آبادی اس وقت شدید بیروزگاری کا شکار ہے اور کشمیر کے قابل نوجوان اور ہنرمند اپنی صلاحیتیں ریاست میں لگانے کے بجائے بیرون ملک نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں۔

آزاد کشمیر حکومت کے ان شکوؤں کے دوران ہی مجھے پیپلز پارٹی کا دور حکومت یاد آگیا، جب وزیر امور کشمیر میاں منظور وٹو نے مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے بجٹ اور سہولیات کا تقابلی جائزہ لیا۔ انکشاف ہوا کہ آج سے دس برس قبل مقبوضہ کشمیر کا ترقیاتی بجٹ 20 ہزار ارب روپے تھا۔ کشمیری فصلوں اور صنعتوں کی سارے بھارت میں دھوم تھی۔ میڈیکل کے شعبے میں مقبوضہ کشمیر سب سے آگے تھا۔ اس تقابلی جائزے کے بعد وفاقی حکومت کو آزاد کشمیر میں تین میڈیکل کالجز اور ایک وومن یونیورسٹی بنانا پڑگئی۔ نئی سڑکیں اور اسپتال تعمیر کیے گئے۔ لیکن اس وقت وفاقی حکومت 15 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آزاد کشمیر حکومت کے مالیاتی اختیارات اپنے کنٹرول میں لینا چاہتی ہے، جس کے خلاف ریاست بھر میں شدید مزاحمت کی جارہی ہے۔ یہی نہیں بلکہ وفاق کی جانب سے مالیات کے محکمے کا نگران 19 ویں گریڈ کے آفیسر کو لگایا جارہا ہے، جو آزاد کشمیر کے 22 ویں گریڈ کے آفیسرز کی نگرانی کریں گے۔

پیر چناسی کی چراگاہوں میں اپنے مال مویشیوں کے ساتھ موجود خانہ بدوش ان مسائل سے لاعلم جڑی بوٹیوں کی تلاش میں مگن ہیں، لیکن آزاد جموں و کشمیر کے نوجوانوں میں وفاقی حکومت کے اقدامات کے حوالے سے شدید تحفظات پائے جاتے ہیں، کیونکہ ان کا اپنا وزیراعظم شدید پریشانی سے دوچار ہے۔ وہ ریاست کے امور کو چلانا چاہتا ہے مگر اس کے پاس وسائل نہیں، وہ ٹورازم کے فروغ کےلیے ترقیاتی کام کرانا چاہتا ہے مگر ترقیاتی فنڈز محدود ہیں۔ اس کی خواہش ہے کہ وہ یہاں پر اسمال انڈسٹریز کو فروغ دے، یہاں پر صنعتیں لگیں، یہاں پر زراعت کے جدید طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے ریاست کے وسائل میں اضافہ کیا جائے مگر کسٹم اور ٹیکسز کے فرسودہ نظام کی وجہ سے اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ وہ سرکاری ملازمین کی بڑھتی تعداد سے پریشان ہے مگر اس کو یہ خوف بھی لاحق ہے کہ ریاست میں اس وقت 5 ہزار ڈاکٹرز اور 15 ہزار نرسز کی کمی کا بھی سامنا ہے۔ اسے پریشانی ہے کہ زلزلے کے بعد اسپتالوں کی شاندار عمارتیں تو قائم ہیں مگر یہاں ادویہ ہیں اور نہ ہی مطلوبہ مشینری۔ آزاد کشمیر کے مریضوں کو راولپنڈی اور لاہور کے اسپتالوں میں جانا پڑتا ہے۔ اکثر مریض تو ایمنولینس ہی میں دم توڑ جاتے ہیں۔

سردار تنویر الیاس نے جب سے وزیراعظم آزاد کشمیر کا عہدہ سنبھالا ہے، انہیں بیورو کریسی، اپنے پارٹی کے ممبران، قانون ساز اسمبلی اور اپوزیشن کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ رہی سہی کسر وفاقی حکومت نے فنڈز روک کر پوری کردی ہے۔ میں پیر چناسی پر بیٹھا آزاد کشمیر کے مستقبل سے پریشان ہوں۔ مجھے رتن جوت اور تل پترا کے پھولوں کی خوشبو سے بھی خوف آرہا ہے۔ مجھے اس جنگل میں آزادی سے گھومتے بن ککڑ، دان گیر اور فاختاؤں کے نغموں سے بھی ڈر لگ رہا تھا۔ مجھے ان پھولوں کی خوشبو میں ریاست کے مایوس عوام کی پریشانیاں نظر آرہی تھیں، پرندوں کے نغموں میں ریاست کے نوجوان کے تحفظات دکھائی دے رہے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت تحریک انصاف کے ساتھ انتقام لینے کےلیے آزاد کشمیر حکومت کے ہاتھ باندھنے کے بجائے اپنی آئینی اور قانونی ذمے داریاں ادا کرے، کیونکہ کشمیر ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت حساس نوعیت کا معاملہ ہے۔ یہاں پر ہونے والے ہر احتجاج پر بھارتی میڈیا پروپیگنڈہ کرتا ہے۔ وزیراعظم آزاد کشمیر بھی بار بار اسی معاملے پر وفاق کو خط لکھ کر معاملے کی حساسیت سے آگاہ کرچکے ہیں۔ وہ وفاقی حکومت کو نشاندہی کرچکے ہیں کہ کشمیری عوام 1932 سے غیر مشروط طور پر پاکستان کے ساتھ بائی چوائس اپنی محبت کا اظہار کرچکے ہیں مگر وفاق کے اقدامات ریاست کے عوام میں نفرتوں کا باعث بن سکتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں