کراچی ڈینگی کیسز میں ہوشربا اضافے کے بعد میگا پلیٹلیٹس کا کاروبار عروج پر پہنچ گیا

میگا یونٹ پلیٹلیٹس کی ایک بوتل 40 ہزار تک میں فروخت کی جارہی ہے، سندھ حکومت بھی خاموش


دعا عباس September 29, 2022
فوٹو فائل

شہر قائد میں ڈینگی کے کیسز میں ہوشربا اضافے کے بعد پلیٹلیٹس کی طلب بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے بحران سنگین ہوگیا ہے۔

شہر قائد میں ڈینگی کے بڑھتے مریضوں کے بعد اب میگا پلیٹلیٹس کا بحران جنم لینے لگا ہے جبکہ میگا پلیٹلیٹس کی مہنگی کٹس اور مشینوں کے سبب شہر کے چند ہی بلڈ بینکز میگا یونٹ پیلیٹیلٹس بنا رہے ہیں۔

کیسز میں ہولناک اضافے کے سبب پلیٹلیٹس کے طلب کئی گناہ بڑھ چکی ہے جبکہ پلیٹیلٹس کا انتظام شہریوں کے لیئے وبال جان بن چکا ہے اور وہ اپنوں کی جان بچانے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔

شہر میں موجود تمام سرکاری اسپتالوں میں پلیٹلیٹس دستیاب نہیں ہیں جبکہ اس وقت جو ڈینگی کا مرض پھیل رہا ہے اس میں مینول پلیٹلیٹس اثر نہیں ہورہے ہیں، جہاں ایک جانب مریضوں کو میگا پلیٹلیٹس کی اشد ضرورت ہے وہیں دوسری جانب میگا پلیٹ لیٹس کا بحران شدید ہوگیا ہے۔

اس ساری صورتحال میں صوبائی حکومت اور محکمہ صحت سندھ کی طرف سے میگا پلیٹلیٹس کی فراہمی کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں بنائی گئی ،نجی بلڈ بینگز میں میگا پلیٹلیٹس کی ایک بوتل کی قیمت 40 ہزار سے زائد تک جاپہنچی ہے جبکہ شہر کے بشتر بلڈ بینک میں میگا پلیٹلیٹس بنائے ہی نہیں جارہے ہیں۔

سرکاری اسپتال میں بھی صرف داخل ہوئے مریضوں کے لیئے میگا پلیٹلیٹس فراہم کیے جارہے ہیں،میگا پیلیٹیلٹس کا انتظام شہروں کے لیئے وبال جان بن چکا ہے۔

محکمہ صحت اور اس کے ماتحت ادارے میگا پلیٹلیٹس کی دستیابی یقینی بنانے اور منافع خوری کو روکنے کے بجائے شہریوں سے خون کے عطیات کی اپیلیں کررہے ہیں جبکہ کراچی میں ڈینگی وائرس کے سبب شہریوں کو ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے۔

میگا پلیٹلیٹس کیا ہیں؟

جناح اسپتال کے ماہر امراض خون (ہیماٹولوجسٹ) ڈاکٹر ذیشان حسین نے کہا کہ نارمل پلیٹلیٹس کو تکنیکی زبان میں رینڈم ڈونرز پلیٹلیٹس جو مختلف ڈونرز سے نکالے جاتے ہیں،جس میں پہلے خون لیا جاتا ہے اور پھر خون سے پلیٹ لٹس کو علیحدہ کیا جاتا ہے جبکہ میگا یونٹ پلیٹ لٹس کے لیئے ایک ہی ڈونر سے اتنے پلیٹ لٹس نکالتے ہیں جو رینڈم ڈونر کے 5 سے 8 پلیٹ لٹس کے برابر ہوتے ہیں۔ ۔

انہوں نے بتایا کہ یہ نارمل اور میگا یونٹ پلیٹلیٹس میں بنیادی فرق ہے جبکہ کلینیکل استعمال اور تجربے سے ان دونوں کی اثر انگیزی میں کوئی فرق نہیں ہے،صرف تحفظ کے لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر میں 5 یا 6 رینڈم ڈونر لوں گا تو اس میں 0.1 فیصد وائرل بیماری سے منتقل ہونے کے امکانات موجود ہوتے ہیں،جبکہ ایک ڈونر میں یہ خدشات کم ہوجاتے ہیںْ

ڈاکٹر ذیشان حسین نے بتایا کہ میگا یونٹ پلیٹلیٹس بنانے کےلیئے پلیٹ لٹس فریسس کی مشین ہوتی ہے اس مشین سے دیگر کام بھی لیئے جاتے ہیں لیکن یہ مہنگے اس لیے ہوتے ہیں کیوں کہ اس میں سے ایک ہی ڈونر سے صرف پلیٹ لٹس ہی نکالے جاتے ہیں،جبکہ پورا خون دوبارہ جسم میں چلا جاتا ہے،میگا یونٹ پلیٹ لٹس کی مشین میں لگنے والی کٹس جوکہ 20 سے 22ہزار کی ہوتی ہے وہ ایک ہی استعمال کے بعد دوبارہ استعمال کے قابل نہیں رہتی ہے،اس ہی لیئے میگا یونٹ پلیٹلیٹس 25 ہزار سے 40 ہزار تک فروخت کیے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بحران کی وجہ اچانک سے میگا پلیٹلیٹس کی طلب بڑھ جانا ہے اور کیوں کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں خون کا عطیات کم ہوتے ہیں، میگا یونٹ کی مشینیں بھی صرف کچھ ہی بلڈ بینکز استعمال کرتے ہیں کیوں کہ اگر سارے بلڈ بینکز مہنگے دام ان مشینوں کو خرید لیں گے تو ہنگامی صورتحال سے سنبھلنے کے بعد وہ ان مشینوں کا کیا استعمال کریں گے؟،سرطان جیسے دیگر امراض میں یہ مشین استعمال ہوسکتی ہے لیکن آغا خان یونیورسٹی اسپتال اور لیاقت نیشنل اسپتال جیسے بڑے اسپتال اور چند بلڈ بینکز ہی اس مشین کے اخراجات اٹھا سکتے ہیں،تکنیکی کام کے لیئے اور مشین کی سروس کے لیئے عملہ رکھنا پڑھتا ہے کیوں کہ اس مشین کی لاگت ہی ایک کڑوڑ سے زائد کی ہے۔ اور پلیٹ لٹس کی لائف بھی صرف 5 دنوں کی ہوتی ہے۔

دوسری جانب سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن آتھارٹی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر درے ناز جمال نے کہا کہ صوبے میں ڈینگی کے پھیلاؤ میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہورہا ہے، بہت سے افراد یہ سمجھ رہے ہیں کہ پلیٹلیٹس لگانا ہی ڈینگی کے مرض کا واحد حل ہے لیکن ایسا نہیں ہے، متاثرہ شخص میں پلیٹلیٹس کی کیا حد ہے یا تعداد کیا ہے؟ یہ سوال اہمیت کا حامل ہے،اگر مریض میں خون بہنے کے خدشات موجود ہوں توہی پیلیٹیلیٹس لگائے جاتے ہیں،لیکن اگر پلیٹلیٹس 20 ہزار سے زائد ہیں تو اضافی پیلیٹیلٹس کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ہر ڈینگی کیس میں میگا یونٹ پلیٹلیٹس لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، میگا یونٹ پیلیٹیلٹس صرف تشویشناک حالت میں موجود مریض کو لگائے جاتے ہیں،میگا پیلیٹیلٹس بنانے والی مشینیں بہت مہنگی ہوتیں ہیں،اس کی کٹس ہی 25 ہزار تک کی ہوتیں ہیں جبکہ اس کی اسکرینگ کا مرحلہ بھی اسان نہیں ہوتا ہے تقریبا پورا سال ہی پیلیٹیلٹس کی طلب نہیں ہوتی صرف ان چند مہینوں میں ہی پلیٹلیٹس کی ڈیمانڈ بڑھ جاتی ہے۔

ڈاکٹر درے کا مزید کہنا تھا کہ پلیٹلیٹس کی مشین کی سروس نہیں کی جاتی اور نہ ہی میگا پیلیٹیلٹس پہلے سے بنائے جاتے ہیں کیوں کہ ان کو 5 دنوں کے اندر استعمال کرنا ہوتا ہے ۔

انہوں نے شہریوں پر زور دیا کہ وہ طبی ماہرین کے مشورے سے ہی میگا پلیٹلیٹس لگوائیں کیوں کہ تقریبا 11 روز ہی ڈینگی وائرس کا اثر ختم ہوجاتا ہے اور جسم میں خود پیلیٹیلٹس بنانے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں