عظمت مصطفٰے جانِ رحمت ﷺ
روزِ ازل سے خیر و شر باہم دست و گریباں ہیں، بہ ظاہر شر کی قوتیں خیر پر حاوی نظر آتی ہیں لیکن انجامِ کار فتح حق ہی کی ہوتی ہے۔
یہ قانونِ فطرت ہے کہ سچائی خود کو منوا کر رہتی ہے۔ اسلام اپنے اصولوں میں بدی، بدخلقی، بدعت و خرافات اور زیغ و ضلال کی آمیزش سے پاک ہے اور ان آفاقی اصولوں کو امّت تک لانے والی ہستی کا نامِ نامی اسم گرامی محمد مصطفی ﷺ ہے۔
عالم انسانیت میں بسنے والے کلمہ گو مسلمان خواہ وہ یورپ و امریکا کے سفید فام ہوں یا افریقا کے سیاہ فام، ترک اور ایران کے سرخ رُو ہوں یا برعظیم ہند و پاک سے گندم رُو، سب کے سب ایک ہی نام کی تسبیح میں پروئے ہوئے دانے ہیں۔ نسل، قوم، علاقے اور جغرافیائی حدود کے فرق و تفاوق کے باوجود یہ ایک ہی نسبت سے متعلق ہیں اور وہ نسبت محمد الرسول اﷲ ﷺ کی مقدس اور متبرک نسبت ہے۔
اسلام کی آمد سے پہلے مشرکین عرب میں رواج تھا کہ کسی کی اولادِ نرینہ فوت ہوجاتی اسے ابتر یعنی مقطوع النسل کہا کرتے، اس کو حقا رت کی نگاہ سے دیکھتے اور اس کا مذاق اڑاتے۔ اﷲ تعالیٰ کی منشاء اور مصلحت کے تحت جب رسول کریم ﷺ کے صاحب زادے حضرت ابراہیمؓ کی وفات ہوئی تو مشرکین مکہ آپؐ کو ابتر کہنے لگے۔ چناں چہ آپؐ کی تالیف قلب اور دل جوئی کے لیے سورۃ الکوثر نازل ہوئی۔
ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: '' بے شک ہم نے آپؐ کو کوثر عطا کردی، سو نماز پڑھیے اور اپنے رب کے لیے قربانی کیجیے، بے شک آپؐ کا دشمن ہی جڑ کٹا (ابتر) ہوگا۔''
رسول اکرم ﷺ کی ہستی وہ مقدس ہستی ہے جس نے برس ہا برس سے گم راہی اور غفلت کے اندھیروں میں بھٹکتے انسانوں کو ایک امتیازی شان کے ساتھ روشن و تاب ناک تہذیب و تمدن عطا کیا اور ظلم و ناانصافی میں ڈوبے رسم و رواج کی بیخ کنی کی۔ استحصال کی چکی میں پستے مظلوموں اور بے کسوں کی زندگی میں راحت و سکون کا ماحول پید ا کیا اور بے راہ روی اور خوفِ خدا سے عاری لوگوں پر خالق و مخلوق کے رشتے اور تعلق کے اسرار منکشف کیے۔
اﷲ تعالی نے خاتم الانبیاء و المرسلین ﷺ کو ایسے اعلیٰ اور ارفع مقام پر پہنچا دیا کہ جہاں آپؐ کے قدموں تلے وقت کے بڑے بڑے فرعون اور قیصر و کسریٰ کی عظیم سلطنتیں زمیں بوس ہوگئیں۔ آج چودہ صدیوں سے زاید بیت جانے کے باوجود جب بہ حیثیت مجموعی امت مسلمہ، یک جہتی، اتفاق و یگانگت اور قرآن و سُنّت کی اصل تعلیمات سے بہت دور جاچکی ہے ، مگر اﷲ کے رسول ﷺ کی حرمت اور شانِ عظمت و رسالتؐ پر خون کا آخری قطرہ تک بہانے کے لیے ہر مسلمان ہم وقت اور ہمہ جہت تیار رہتا ہے۔
آج کوئی بتا سکتا ہے کہ رسول خدا ﷺ کے دشمن کہاں کہاں پیوند خاک ہیں ؟ آج ان کے نام و نشاں مٹ چکے ہیں۔ اور دوسری جانب روضۂ رسول ﷺ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے عقیدت و احترام اور دنیا کی ہر شے سے بڑھ کر عزت و توقیر اور تقدّس کا مرکز و محور بنا ہوا ہے۔
روضۂ اقدس کی محض جالی چُھو لینا ہی ہر مسلمان اپنے لیے بہت بڑی سعادت اور اپنی خوش بختی سمجھتا ہے۔ آج کے مادہ پرستی اور عقلیت پرستی کے دور میں بھی محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ کا نام ہی ہر مسلمان کے لیے سکونِ قلب، راحت و انبساط اور عقیدت و محبت کا مینار ہے۔ آج دنیا میں بسنے والے کلمہ گو مسلمان اپنی اولادوں کے نام ''مُحمّد'' رکھنے پر فخر محسوس کر تے ہیں۔
امت مسلمہ کی تو بات ہی کیا غیر مسلموں نے بھی عظمت مقامِ مصطفی ﷺ کو تسلیم کیا ہے۔ فرانس کا فلسفی والٹئیر کہتا ہے:
''محمد ﷺ جتنے طریقے بھی لائے وہ نفس کو مطیع کرنے والے اور اسے مہذّب بنانے والے ہیں۔ آپؐ نے حیرت انگیز حد تک ان طریقوں کا حسن جمال دین اسلام میں پیدا کیا۔ اسی لیے تو دنیا کی متعدد قومیں اسلام لے آئیں۔ حتیٰ کہ وسطِ افریقا کے زنگی اور جزائر بحرالکاہل کے باشندوں نے بھی اسلام کے سائے تلے سکون پایا۔''
دنیا کئی ممالک میں اٹھنے والی اسلامی بیداری کی لہریں اس بات کی غماز ہیں کہ اﷲ اور اس رسول ﷺ کی محبت اور اﷲ کے دین کی سربلندی کا جذبہ ابھی مضمحل نہیں ہوا ہے۔ ابھی امت مسلمہ کے دلوں میں احیائے دین اور کارِ رسالتؐ کی چنگاری سلگ رہی ہے جو کسی وقت بھی ایک شعلۂ جوالہ بن کر اسلام دشمن قوتوں کو جلا کر بھسم کر سکتی ہیں۔ یورپ میں '' محمد'' نام کی کثرت، فرانسیسی عورتوں کا کثیر تعداد میں اسلام قبول کرنا، اور فلسفۂ اسلام کو پڑھنے اور جاننے کا بڑھتا ہوا رجحان اس امر کی طرف واضح اشارہ ہے کہ اسلام یورپی ممالک میں اپنی جڑیں مضبوط کر رہا ہے۔
خالق کائنات نے ایک معصوم اور پاکیزہ صفت انسان کو اپنا رسول بنا کر بھیجا اور اپنے کلام میں فرما دیا کہ محمد ﷺ کی زندگی میں دنیا کے تمام انسانوں کے لیے قابل تقلید نمونہ ہے۔ قرآنِ کریم نے اس حقیقت کو اسوۂ حسنہ کے الفاظ سے نوازا ہے۔ ثابت یہ ہوا کہ محمد رسول اﷲ ﷺ ہی اس دنیا کی واحد ہستی ہیں جو تمام حسنات سے مرصع، پیکر حسن اخلاق اور پاکیزہ کردار و عمل کے روشن چراغ اور محسن انسانیت ﷺ ہیں۔
یہ قانونِ فطرت ہے کہ سچائی خود کو منوا کر رہتی ہے۔ اسلام اپنے اصولوں میں بدی، بدخلقی، بدعت و خرافات اور زیغ و ضلال کی آمیزش سے پاک ہے اور ان آفاقی اصولوں کو امّت تک لانے والی ہستی کا نامِ نامی اسم گرامی محمد مصطفی ﷺ ہے۔
عالم انسانیت میں بسنے والے کلمہ گو مسلمان خواہ وہ یورپ و امریکا کے سفید فام ہوں یا افریقا کے سیاہ فام، ترک اور ایران کے سرخ رُو ہوں یا برعظیم ہند و پاک سے گندم رُو، سب کے سب ایک ہی نام کی تسبیح میں پروئے ہوئے دانے ہیں۔ نسل، قوم، علاقے اور جغرافیائی حدود کے فرق و تفاوق کے باوجود یہ ایک ہی نسبت سے متعلق ہیں اور وہ نسبت محمد الرسول اﷲ ﷺ کی مقدس اور متبرک نسبت ہے۔
اسلام کی آمد سے پہلے مشرکین عرب میں رواج تھا کہ کسی کی اولادِ نرینہ فوت ہوجاتی اسے ابتر یعنی مقطوع النسل کہا کرتے، اس کو حقا رت کی نگاہ سے دیکھتے اور اس کا مذاق اڑاتے۔ اﷲ تعالیٰ کی منشاء اور مصلحت کے تحت جب رسول کریم ﷺ کے صاحب زادے حضرت ابراہیمؓ کی وفات ہوئی تو مشرکین مکہ آپؐ کو ابتر کہنے لگے۔ چناں چہ آپؐ کی تالیف قلب اور دل جوئی کے لیے سورۃ الکوثر نازل ہوئی۔
ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: '' بے شک ہم نے آپؐ کو کوثر عطا کردی، سو نماز پڑھیے اور اپنے رب کے لیے قربانی کیجیے، بے شک آپؐ کا دشمن ہی جڑ کٹا (ابتر) ہوگا۔''
رسول اکرم ﷺ کی ہستی وہ مقدس ہستی ہے جس نے برس ہا برس سے گم راہی اور غفلت کے اندھیروں میں بھٹکتے انسانوں کو ایک امتیازی شان کے ساتھ روشن و تاب ناک تہذیب و تمدن عطا کیا اور ظلم و ناانصافی میں ڈوبے رسم و رواج کی بیخ کنی کی۔ استحصال کی چکی میں پستے مظلوموں اور بے کسوں کی زندگی میں راحت و سکون کا ماحول پید ا کیا اور بے راہ روی اور خوفِ خدا سے عاری لوگوں پر خالق و مخلوق کے رشتے اور تعلق کے اسرار منکشف کیے۔
اﷲ تعالی نے خاتم الانبیاء و المرسلین ﷺ کو ایسے اعلیٰ اور ارفع مقام پر پہنچا دیا کہ جہاں آپؐ کے قدموں تلے وقت کے بڑے بڑے فرعون اور قیصر و کسریٰ کی عظیم سلطنتیں زمیں بوس ہوگئیں۔ آج چودہ صدیوں سے زاید بیت جانے کے باوجود جب بہ حیثیت مجموعی امت مسلمہ، یک جہتی، اتفاق و یگانگت اور قرآن و سُنّت کی اصل تعلیمات سے بہت دور جاچکی ہے ، مگر اﷲ کے رسول ﷺ کی حرمت اور شانِ عظمت و رسالتؐ پر خون کا آخری قطرہ تک بہانے کے لیے ہر مسلمان ہم وقت اور ہمہ جہت تیار رہتا ہے۔
آج کوئی بتا سکتا ہے کہ رسول خدا ﷺ کے دشمن کہاں کہاں پیوند خاک ہیں ؟ آج ان کے نام و نشاں مٹ چکے ہیں۔ اور دوسری جانب روضۂ رسول ﷺ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے عقیدت و احترام اور دنیا کی ہر شے سے بڑھ کر عزت و توقیر اور تقدّس کا مرکز و محور بنا ہوا ہے۔
روضۂ اقدس کی محض جالی چُھو لینا ہی ہر مسلمان اپنے لیے بہت بڑی سعادت اور اپنی خوش بختی سمجھتا ہے۔ آج کے مادہ پرستی اور عقلیت پرستی کے دور میں بھی محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ کا نام ہی ہر مسلمان کے لیے سکونِ قلب، راحت و انبساط اور عقیدت و محبت کا مینار ہے۔ آج دنیا میں بسنے والے کلمہ گو مسلمان اپنی اولادوں کے نام ''مُحمّد'' رکھنے پر فخر محسوس کر تے ہیں۔
امت مسلمہ کی تو بات ہی کیا غیر مسلموں نے بھی عظمت مقامِ مصطفی ﷺ کو تسلیم کیا ہے۔ فرانس کا فلسفی والٹئیر کہتا ہے:
''محمد ﷺ جتنے طریقے بھی لائے وہ نفس کو مطیع کرنے والے اور اسے مہذّب بنانے والے ہیں۔ آپؐ نے حیرت انگیز حد تک ان طریقوں کا حسن جمال دین اسلام میں پیدا کیا۔ اسی لیے تو دنیا کی متعدد قومیں اسلام لے آئیں۔ حتیٰ کہ وسطِ افریقا کے زنگی اور جزائر بحرالکاہل کے باشندوں نے بھی اسلام کے سائے تلے سکون پایا۔''
دنیا کئی ممالک میں اٹھنے والی اسلامی بیداری کی لہریں اس بات کی غماز ہیں کہ اﷲ اور اس رسول ﷺ کی محبت اور اﷲ کے دین کی سربلندی کا جذبہ ابھی مضمحل نہیں ہوا ہے۔ ابھی امت مسلمہ کے دلوں میں احیائے دین اور کارِ رسالتؐ کی چنگاری سلگ رہی ہے جو کسی وقت بھی ایک شعلۂ جوالہ بن کر اسلام دشمن قوتوں کو جلا کر بھسم کر سکتی ہیں۔ یورپ میں '' محمد'' نام کی کثرت، فرانسیسی عورتوں کا کثیر تعداد میں اسلام قبول کرنا، اور فلسفۂ اسلام کو پڑھنے اور جاننے کا بڑھتا ہوا رجحان اس امر کی طرف واضح اشارہ ہے کہ اسلام یورپی ممالک میں اپنی جڑیں مضبوط کر رہا ہے۔
خالق کائنات نے ایک معصوم اور پاکیزہ صفت انسان کو اپنا رسول بنا کر بھیجا اور اپنے کلام میں فرما دیا کہ محمد ﷺ کی زندگی میں دنیا کے تمام انسانوں کے لیے قابل تقلید نمونہ ہے۔ قرآنِ کریم نے اس حقیقت کو اسوۂ حسنہ کے الفاظ سے نوازا ہے۔ ثابت یہ ہوا کہ محمد رسول اﷲ ﷺ ہی اس دنیا کی واحد ہستی ہیں جو تمام حسنات سے مرصع، پیکر حسن اخلاق اور پاکیزہ کردار و عمل کے روشن چراغ اور محسن انسانیت ﷺ ہیں۔