مراعات یافتہ اور غیر مراعات یافتہ طبقہ

salmanabidpk@gmail.com

پاکستان میں سیاسی ، سماجی ، انتظامی ، قانونی او رمعاشی تبدیلی کے تناظر میں ایک بڑی جنگ مراعات یافتہ اور غیر مراعات یافتہ طبقہ میں موجود جنگ ہے۔ کیونکہ ہم عملی طور پر دو حصوں میں بٹ گئے ہیں ۔

ریاستی و حکومتی نظام طبقاتی لکیر کھینچ رہا ہے جو برابری یا مساوات کے تصور کے منافی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ملکی سطح پر موجود ترقی ، خوشحالی میں ایک واضح تقسیم ہے اور یہ تقسیم معاشر ے میں طبقاتی خلیج پیدا کر رہی ہے ۔ یہ تقسیم بنیادی طو رپر ریاست ، حکومت اورعوام میں ایک دوسرے کے خلاف مختلف نوعیت کی خلیج یا ٹکراو کے پہلو کو بھی نمایاں کررہی ہے ۔

ایک بنیادی تھیوری یہ دی جاتی ہے کہ خوشحال طبقہ مزید خوشحالی جب کہ پہلے سے موجود غریب یا کمزور طبقہ مزید مدحالی کا شکار ہورہا ہے ۔سماجی اور معاشی سطح پر ہمارے سرکاری اعدادوشمار خود اس محرومی کی تصویر کو نمایاں کرتے ہیں او رظاہر کرتے ہیں کہ طبقاتی تقسیم کو پہلو پہلے سے بھی بڑھ گیا ہے ۔

کسی بھی فریق کا مراعات یافتہ طبقہ ہونا گناہ نہیں لیکن اگر اس کے نتیجے میں معاشرے میں محرومی اور غربت کی سیاست مزید تقویت پکڑ رہی ہے تو یہ ایک سنجیدہ نوعیت کا سوال ہے۔ ریاستی و حکومتی نظام میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ وہ محض ایک مخصوص طبقہ کی حکمرانی کے نظام کو تو فائدہ دیتا ہے جب کہ کمزور طبقوں میں موجود مسائل میں اور زیادہ شدت پیدا کرتا ہے۔

اس لیے مسئلہ محض امیر یا غریب کا نہیں بلکہ اس نظام کا ہے جو ہم پر مسلط ہے اوراس کے نتیجہ میں محرومی کی سیاست کو غلبہ حاصل ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ ملک کی بڑی اشرافیہ یا فیصلہ ساز قوتیں ہیں جو سیاست سے لے کر دیگر شعبوں تک بالادست ہیں ۔

کیونکہ یہ طاقت ور طبقہ کمزو ریا عام آدمی کے مقابلے کے بجائے اپنے ہی سیاسی او رمعاشی مفادات کے گردگھومتا ہے ۔ ان کی تمام تر پالیسیوں او رقانون سازی سمیت عملدرآمد کے نظام میں عام آدمی کا مقدمہ کمزور اور ایک مخصوص طاقت ور طبقہ کا مضبوط نظر آتا ہے ۔یہ سب کچھ لا شعوری طور پر نہیں ہورہا بلکہ ایک شعوری انداز میں اس ملک کی طاقت ور اشرافیہ یہ سب کچھ کررہی ہے ۔

سیاست ، جمہوریت اور حکمرانی کے نظام کی اہم خوبی یا ترجیح یہ ہی ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کے کمزور طبقات کو بنیاد بنا کر ایسی پالیسیاں کو یقینی بناتا ہے جس کا براہ راست فائدہ عام آدمی کی حیثیت کو تبدیل میں کرنے میں معاون ثابت ہو۔اسی طرح کوشش یہ ہوتی ہے کہ لوگوں میں اس تاثر کی نفی کی جائے کہ ہمارا حکمرانی کا نظام دوہرے معیارات کے ساتھ چلتا ہے او راس میں عام آدمی کی کوئی نمایاں حیثیت نہیں ۔اسی بنیاد پر ہماری سیاست ، جمہوریت او رحکمرانی کے نظام کی ساکھ بھی قائم ہوتی ہے اور شفافیت پر مبنی نظام بھی ممکن ہوتا ہے۔

اس وقت ہماری حکمرانی کے نظام کو مختلف نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اول معاشرے میں بڑھتی ہوئی معاشی خلیج یا معاشی بدحالی کی تصویر ہے جو لوگوں میں محرومی کی سیاست کو مضبوط کررہی ہے۔ کیونکہ لوگوں کی آمدن اور اخراجات میں عدم توازن ہی ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے ۔دوئم وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے پورے حکمرانی کے نظام کو مشکل میں ڈال دیا ہے او رایک بڑے طبقہ کو لگتا ہے کہ اس نظام میں ہمارا حصہ کم اورمخصوص طبقوں کا زیادہ ہے ۔

سوئم ہمارا انصاف کا نظام بھی دوہرا ہے جہاں کمزور لوگوں کو انصاف کے نام پر بے انصافی کا سامنا ہے۔چہارم اس وقت ملک میں جو سیاسی اور سماجی انتشار نظر آتا ہے یا لوگ جو مختلف نوعیت کی ذہنی کوفیت کا شکار ہے۔

اس کے نتیجہ میں معاشرے میں پر تشدد رجحانات جنم لے رہے ہیں۔ یہ مسئلہ بلاوجہ معاشرے میں نفرت اور تعصب کی سیاست کو پیدا کرتا ہے او رلوگوں کو مجبو رکرتا ہے کہ وہ بھی ایسے غیر قانونی طور طریقے اختیار کریں جو ریاست یا حکومت کی رٹ کو کمزور کرتا ہے ۔


اصولی طور پر تو یہ جنگ سیاسی جماعتوں اور سیاسی نظام کی ہے۔ کیونکہ یہ معاشرے میں تبدیلی کے کارندے ہوتے ہیں او ران پر ایک بڑا دباو رائے عامہ بنانے والے افراد یا ادارے ڈالتے ہیں تاکہ حکمرانی کے نظام کو شفاف بنایا جاسکے۔

ہم مجموعی طور پر کمزور سیاسی اور جمہوری نظام سے دوچار ہیں اور سیاسی جماعتوں کا نظام یا پارلیمانی نظام بھی غیر فعالیت کا شکار ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ سیاسی نظام لوگوں کے بنیادی مسائل سے لاتعلق ہے یا اس کا انداز فکر مصنوعی ہے ۔جو سیاست ہورہی ہے وہ طاقت کی ہے اور طاقت کے مراکز کے گرد ہی گھومتی ہے۔ ایسی عملی سطح کی سیاست میں عوام یا کمزور آدمی محض ایک سیاسی کھلونا ہوتا ہے یا اسے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔

سب سے بڑی وجہ سیاسی او رمعاشی نظام پر ایک مخصوص طبقہ کا کنٹرول ہے او ریہ کنٹرول عام آدمی کو متاثر کرتا ہے۔ عمومی طور پر یہ منطق موجود ہے کہ محروم طبقہ ہو یا غیر مراعات یافتہ طبقہ ہو ان کی اصل طاقت ادارہ جاتی نظام کی مضبوطی ہوتی ہے ۔

کیونکہ عام آدمی کو ریلیف اداروں کی خود مختاری، شفافیت کے ساتھ ہی جڑی ہوتی ہے او راگر یہ نظام کمزور ہو تو پھر محروم طبقات کو اور زیادہ مختلف نوعیت کے استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس وقت ایک عام سا احساس یہ غالب ہے کہ یہاں ایک ہی جنگ باقی ہے جسے ظالم یا مظلوم کا نام دیا جاتا ہے ۔ اس جنگ کا بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہم نے معاشرے میں موجود مختلف نوعیت کی تقسیم او رٹکراو کو ختم یا کمزور کرنا ہے ۔

اگر ہم واقعی غیر مراعات یافتہ طبقہ کو طاقت دینا چاہتے ہیں تو اس میں موجودہ نظام سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔کیونکہ اس نظام میں ان کمزور طبقہ کاحصہ بہت کم ہے۔ ہمیں مجموعی طور پر اپنے پورے سیاسی ، انتظامی ، قانونی او ر معاشی نظام میں غیر معمولی تبدیلیاں لانی ہیں او ریہ ایک مضبوط سیاسی اور ریاستی کمٹمنٹ کے بغیر ممکن نہیں۔سیاسی نظام کی بڑی ناکامی لوگوں کے اعتماد سے جڑی ہوتی ہے۔

جب نظام کسی بھی سطح پر لوگوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت نہیں دے گا تو کیونکر لوگوں کا اعتماد اس نظام پر قائم ہوگا ۔ ہم لوگوں سے گلہ تو بہت کرتے ہیں کہ لوگ نظام میں خرابیاں پیدا کرتے ہیں لیکن اس پہلو کو نظرانداز کردیتے ہیں کہ خود بطور ریاست، حکومت او رطاقت ور طبقہ ہم غیر مراعات طبقہ پر کتنی بڑی سرمایہ کاری کررہے ہیں او راگر نہیں کررہے تو اس کی کیا وجوہات ہیں او رکو ن اس کے ذمے دار ہیں ۔

سیاست او رجمہوریت میں جو جنگ غیر مراعات یافتہ طبقہ کے نام پر لڑی جارہی ہے اس میں سے اسی طبقہ کو نظرانداز کرنا ہی اس سیاسی نظام کی بڑی ناکامی ہے جو ہمیں منصفانہ ترقی کے عمل سے بہت دور لے کر جارہی ہے ۔

یہ جو ہمارا ریاستی یا حکومتی نظام غیر مراعات طبقہ کو خیراتی بنیادوں سے نمٹ رہا ہے وہ درست حکمت عملی نہیں۔ خیراتی سوچ او رفکر پیدا کرکے ہم کسی بھی صورت میں ان کمز ور طبقو ں کو اوپر کی سطح پر کھڑا نہیں کرسکیں گے۔

خیراتی حکمت عملی بہت وقتی نوعیت کی ہوتی ہے جب کہ مستقل بنیادوں پر جب تک ہم ایک بڑے سیاسی اور معاشی فریم ورک میں کمزور طبقہ کی جنگ نہیں لڑیں گے اورایسی پالیسیاں اختیار نہیں کریں گے جو مستقل بنیادوں پر ان کے لیے منصفانہ ترقی نہ پیدا کرے ، باقی حکمت عملیاں نتیجہ خیز نہیں ہوسکتیں۔ یہ جو ملک میں امیر اور غریب کی تقسیم یا دیہی یا شہری تقسیم ، عورت او رمرد ، عام افراد یا معذور افراد یا خواجہ سرا سمیت مزدور ، کسان او راقلیتوں کی سطح پر تقسیم ہے۔

اس کا ہمیں مستقل بنیادوں پر مرض کی درست تشخیص او رپھر درست سیاسی او ر معاشی علاج کرنا ہوگا۔ لیکن یہ سب کچھ کیسے ہوگا یہ ہی بڑاسوال ہے جو ملک میں موجود سنجیدہ افراد کے زہنوں میں موجود ہے۔

کیونکہ مسائل او رحکمت عملیوں یا ترجیحات کی اہم نشاندہی تو سوچنے ، سمجھنے والے افراد یا ادارے کرسکتے ہیں ، لیکن ان پر عملدرآمد کا نظام کی کنجی برحال ریاستی یا حکومتی نظام کے ہی کنٹرول میں ہے۔ اس لیے بڑا چیلنج یہ ہی ہے کہ کیسے ریاست اور حکومت پر ایک پرامن سیاسی انداز میں بڑے دباو کی سیاست کو پیدا کیا جاسکے۔ کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جہاں جہاں تبدیلی کا عمل ہورہا ہے اس کا براہ راست تعلق ایک بڑے دباو کی سیاست سے ہی جڑا ہوا ہے ۔
Load Next Story