مقبوضہ کشمیر5اگست2019 کے بعد
وزیر اعظم، محمد شہباز شریف، اور وزیر خارجہ، بلاول بھٹو زرداری، نے حالیہ ایام میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس اور نیویارک میں عالمی میڈیا اور متعدد امریکی تھنک ٹینکس سے خطاب کرتے ہُوئے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم و استبداد کا کھلے الفاظ میں ذکر کیاہے ۔
پچھلے سال ستمبر کے یہی ایام تھے جب مقبوضہ و مظلومہ کشمیر کے ممتاز ترین مجاہد رہنما، حریت پسند لیڈر اور کئی وقیع کتابوں کے مصنف جناب سید علی گیلانی ہم سے جدا ہو گئے تھے۔
اُن کی شہادت کی خبر پاکستان سمیت عالمِ اسلام میں بسنے اور کشمیر کاز سے ہمدردی اور محبت رکھنے والوں کے لیے قیامت سے کم نہیں تھی ۔ اور یہ خبر مزید قیامت خیز تھی کہ مقبوضہ کشمیر پر سات عشروں سے زائد بھارتی افواج نے شہید سید علی گیلانی کی تدفین کے موقع پر مزید مظالم ڈھائے۔
اُن کی میت کی بے حرمتی اور توہین کی گئی۔غمزدہ اور دلگیر کشمیریوں کو اُن کی نمازِ جنازہ میں شرکت سے، بندوق کے زور پر، روک دیا گیا ۔ گیلانی صاحب مرحوم کے قریبی پیاروں اور عزیزوں کو بھی نمازِ جنازہ میں شریک نہ ہونے دیا گیا تھا۔ نہتے کشمیریوں سے خائف لاکھوں بھارتی قابض افواج نے بندوقوں اور سنگینوں کے مہیب سائے میں رات کی تاریکی میں سید علی گیلانی کا جسدِ خاکی لحد کے سپرد کیا گیا تھا۔
5اگست2019 کو ظالم و قاہر اور غاصب نریندر مودی کی قیادت میں مقبوضہ کشمیر پر رات کے اندھیرے میں استحصال و غصب کی جو مثال قائم کی گئی تھی، سید علی گیلانی کی میت کی بے حرمتی اِسی سلسلے کا دوسرا بڑا ظلم تھا۔ پچھلے75برسوں سے بھارت کی ہر حکومت مقبوضہ کشمیر اور اس کے باسیوں پر ہر معلوم ظلم ڈھاتی آ رہی ہے لیکن یہ ظلم پھر بھی ، قابض بھارتیوں کے حسبِ خواہش، ثمر آور ثابت نہیں ہو رہا۔ یہ مہیب و استبدادی بھارت کی اخلاقی و سیاسی شکست ہے۔
اِس شکست کو ساری دُنیا دیکھ تو رہی ہے مگر بھارت کا دستِ ستم روکنے کے لیے دُنیا، بالخصوص عالمِ اسلام، بھارت کے سامنے منہ میں گھنگنیاں ڈالے ہُوئے ہے۔ اِس مجرمانہ خاموشی سے بھارت کو مزید شہ ملتی ہے ۔
5اگست2019کو نریندر مودی کے ظالم و غاصب بھارت نے بھارتی آئین میں درج مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرتے ہُوئے مقبوضہ کشمیر پر ایک بار پھر ظالمانہ حملہ کیا تھا۔ اِس تاریخی ظلم کو تین سال گزر گئے ہیں۔
پاکستان نے اِس بھارتی بہیمیت اور ظلم کے خلاف، حسبِ توفیق، دُنیا کے ہر فورم پر بھارتی دستِ ستم کے خلاف احتجاجات بھی کیے ہیں اور مظاہرے بھی۔ ان گزرے تین برسوں کے دوران قابض بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں اپنے پنجے مزید مضبوطی سے گاڑے ہیں اور کشمیر کے الگ و منفرد تشخص کا مذاق و مضحکہ اُڑایا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر کے اصل باسیوں کی تعداد گھٹانے اور کم کرنے کے کئی حربے اور ہتھکنڈے بروئے کار لائے گئے ہیں۔
تین بھارتی مقتدر و طاقتور ترین شخصیات (نرنید مودی، بھارت کے وزیر داخلہ اور بھارتی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر) نے اپنا گھناؤنا و سازشی کردار ادا کرتے ہُوئے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا مثلہ کرنے کی اپنی سی تمام کوششیں کی ہیں۔
یہ کوششیں کیسی گھناؤنی اور پہلو دار تھیں، پاکستان اور دیگر ممالک کے دانشوروں اور اہلِ دل لکھاریوں نے اِن سب پر ، حسبِ استطاعت، ردِعمل بھی دیا اور آنکھیں بند کرنے والے ''اپنوں'' کی آنکھیں کھولنے کی اپنی سی سعی بھی کی ۔ یہ حرفِ مطبوعہ تاریخ کا حصہ بن گئے اور پڑھنے والوں کو باور بھی کروا گئے کہ سب غفلت زدگان نہیں ہیں اور ردِ عمل دینے کی طاقت و توفیق بھی رکھتے ہیں۔
اِ ن تاریخ ساز ردِ عمل و چشم کشا تحریروں اور تجزیوں کو اب ''کشمیر: 5اگست2019 کے بعد'' کے زیرعنوان ایک خوبصورت کتاب کی شکل میں مرتب کر دیا گیا ہے۔ ممتاز مصنف ، مورّخ، اُردو ادبیات کے سابق استاد اور دانشور، جناب سلیم منصور خالد، نے یہ کتاب ترتیب دی ہے۔
سلیم منصور خالد صاحب جماعتِ اسلامی سے وابستہ ایک ایسے کارکن ہیں جن کے اخلاص وکمٹمنٹ کی مثال دی جا سکتی ہے۔انھیں جماعتِ اسلامی کا چلتا پھرتا انسائیکلو پیڈیا بھی کہا جا سکتا ہے ۔زیر نظر کتاب (کشمیر: 5اگست 2019کے بعد) پانچ صد سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔
اِس کا اشاریہ تو لاجواب ہے جو دراصل مرتب کنندہ کے ادبی و کتابی ذوق کا آئینہ دار بھی ہے۔ اِس سے قبل بھی وہ کئی نظریاتی کتابوں کی ترتیب دے چکے ہیں۔ مثال کے طور پر بنگلہ دیش میں جماعتِ اسلامی کے کئی جان نثاروں کا وزیر اعظم حسینہ واجد کے ہاتھوں پھانسی پرجھول جانے والوں کا تذکرہ ۔ زیر نظر کتاب مگر اپنی حیثیت میں انفرادیت کی حامل ہے کہ اِس میں پاکستان کا دل بھی دھڑکتا محسوس ہوتا ہے اور ہماری کئی بے حسیاں بھی عیاں ہوتی ہیں ۔
مورّخ و مرتب کنندہ نے ، اِس ضمن میں، پانچ اگست 2019 کے بعد مقبوضہ کشمیر پر ظلم کے حوالے سے شایع ہونے والی وقیع تحریریں یکجا کرکے ایک تاریخی و ادبی کارنامہ انجام دیا ہے ۔
زیر نظر کتاب میں 5درجن سے زائد مضامین و تجزئیے شامل کیے گئے ہیں۔ چار مصنفین کی تحریریں اکثریت میں ہیں۔ مثال کے طور پر : سید افتخار گیلانی کے لکھے گئے 26، پروفیسر خورشیداحمد کے 7،سید علی گیلانی اور سلیم منصور خالدکے چار چار مضامین شامل ہیں ۔افتخار گیلانی چونکہ شہید سید علی گیلانی کے قریبی عزیز بھی ہیں ، مقبوضہ کشمیر و بھارت کے معروف اخبار نویس و مصنف بھی، اس لیے مقبوضہ کشمیر و سید علی گیلانی کے بارے میں لکھے گئے۔
اُن کے مضامین ، تجزئیے اور تبصرے وقیع بھی ہیں اور معتبر بھی۔ کشمیر کاز کو اجاگر کرنے کی پاداش میں انھیں کئی برس بھارتی جیلوں میں قید بھی رکھا گیا۔ قید و بند پر مشتمل تجربات پر اُن کی لکھی گئی کتاب(My Days in Prison) خاصی چشم کشا کہلاتی ہے۔ 5اگست2019 کے بعد بھارت نے جس طرح نئے وحشیانہ طریقوں سے مقبوضہ کشمیر پر ظلم و ستم کی نئی داستانیں رقم کی ہیں،افتخار گیلانی نے اِن مظالم کے خلاف ردِ عمل لکھتے ہُوئے اپنے قلم کو شمشیرِ براں بنا لیا ہے۔
اُن کی تحریروں کا کمال و انفرادیت یہ بھی ہے کہ ان میں گہرا مشاہدہ بھی ہے اور کشمیر کاز کے ساتھ امٹ کمٹمنٹ بھی۔ بھارتی استبدادی حکومت کا نزلہ بھی اُن پر گرا ہے اور مجبوراً افتخار گیلانی کو بھارت و کشمیر چھوڑنا پڑا ہے۔
زیر نظر کتاب میں مقبوضہ کشمیر کی مظلوم خواتین اور اُن کی جرأت و ہمت کے کردار کی کہانیاں بھی سامنے لائی گئی ہیں ۔ یہ کہانیاں امریکا میں مقیم مشہور کشمیری دانشور و ایکٹوسٹ، ڈاکٹر غلام نبی فائی، اور طلعت عمران نے لکھی ہیں۔ بھارت میں متعین پاکستان کے سابق ہائی کمشنر، جناب عبدالباسط، کا مضمون بھی خوب ہے ۔کتاب کی ایک منفرد و دلکش بات یہ بھی ہے کہ مرتب کنندہ نے کئی مضامین نگاروں کا ایک ایک سطر میں تعارف بھی لکھ دیا ہے۔کتاب کی قیمت 1200روپے ہے اور اِسے جماعتِ اسلامی کے ادارے ''منشورات'' نے شایع کیا ہے ۔
پچھلے سال ستمبر کے یہی ایام تھے جب مقبوضہ و مظلومہ کشمیر کے ممتاز ترین مجاہد رہنما، حریت پسند لیڈر اور کئی وقیع کتابوں کے مصنف جناب سید علی گیلانی ہم سے جدا ہو گئے تھے۔
اُن کی شہادت کی خبر پاکستان سمیت عالمِ اسلام میں بسنے اور کشمیر کاز سے ہمدردی اور محبت رکھنے والوں کے لیے قیامت سے کم نہیں تھی ۔ اور یہ خبر مزید قیامت خیز تھی کہ مقبوضہ کشمیر پر سات عشروں سے زائد بھارتی افواج نے شہید سید علی گیلانی کی تدفین کے موقع پر مزید مظالم ڈھائے۔
اُن کی میت کی بے حرمتی اور توہین کی گئی۔غمزدہ اور دلگیر کشمیریوں کو اُن کی نمازِ جنازہ میں شرکت سے، بندوق کے زور پر، روک دیا گیا ۔ گیلانی صاحب مرحوم کے قریبی پیاروں اور عزیزوں کو بھی نمازِ جنازہ میں شریک نہ ہونے دیا گیا تھا۔ نہتے کشمیریوں سے خائف لاکھوں بھارتی قابض افواج نے بندوقوں اور سنگینوں کے مہیب سائے میں رات کی تاریکی میں سید علی گیلانی کا جسدِ خاکی لحد کے سپرد کیا گیا تھا۔
5اگست2019 کو ظالم و قاہر اور غاصب نریندر مودی کی قیادت میں مقبوضہ کشمیر پر رات کے اندھیرے میں استحصال و غصب کی جو مثال قائم کی گئی تھی، سید علی گیلانی کی میت کی بے حرمتی اِسی سلسلے کا دوسرا بڑا ظلم تھا۔ پچھلے75برسوں سے بھارت کی ہر حکومت مقبوضہ کشمیر اور اس کے باسیوں پر ہر معلوم ظلم ڈھاتی آ رہی ہے لیکن یہ ظلم پھر بھی ، قابض بھارتیوں کے حسبِ خواہش، ثمر آور ثابت نہیں ہو رہا۔ یہ مہیب و استبدادی بھارت کی اخلاقی و سیاسی شکست ہے۔
اِس شکست کو ساری دُنیا دیکھ تو رہی ہے مگر بھارت کا دستِ ستم روکنے کے لیے دُنیا، بالخصوص عالمِ اسلام، بھارت کے سامنے منہ میں گھنگنیاں ڈالے ہُوئے ہے۔ اِس مجرمانہ خاموشی سے بھارت کو مزید شہ ملتی ہے ۔
5اگست2019کو نریندر مودی کے ظالم و غاصب بھارت نے بھارتی آئین میں درج مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرتے ہُوئے مقبوضہ کشمیر پر ایک بار پھر ظالمانہ حملہ کیا تھا۔ اِس تاریخی ظلم کو تین سال گزر گئے ہیں۔
پاکستان نے اِس بھارتی بہیمیت اور ظلم کے خلاف، حسبِ توفیق، دُنیا کے ہر فورم پر بھارتی دستِ ستم کے خلاف احتجاجات بھی کیے ہیں اور مظاہرے بھی۔ ان گزرے تین برسوں کے دوران قابض بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں اپنے پنجے مزید مضبوطی سے گاڑے ہیں اور کشمیر کے الگ و منفرد تشخص کا مذاق و مضحکہ اُڑایا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر کے اصل باسیوں کی تعداد گھٹانے اور کم کرنے کے کئی حربے اور ہتھکنڈے بروئے کار لائے گئے ہیں۔
تین بھارتی مقتدر و طاقتور ترین شخصیات (نرنید مودی، بھارت کے وزیر داخلہ اور بھارتی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر) نے اپنا گھناؤنا و سازشی کردار ادا کرتے ہُوئے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا مثلہ کرنے کی اپنی سی تمام کوششیں کی ہیں۔
یہ کوششیں کیسی گھناؤنی اور پہلو دار تھیں، پاکستان اور دیگر ممالک کے دانشوروں اور اہلِ دل لکھاریوں نے اِن سب پر ، حسبِ استطاعت، ردِعمل بھی دیا اور آنکھیں بند کرنے والے ''اپنوں'' کی آنکھیں کھولنے کی اپنی سی سعی بھی کی ۔ یہ حرفِ مطبوعہ تاریخ کا حصہ بن گئے اور پڑھنے والوں کو باور بھی کروا گئے کہ سب غفلت زدگان نہیں ہیں اور ردِ عمل دینے کی طاقت و توفیق بھی رکھتے ہیں۔
اِ ن تاریخ ساز ردِ عمل و چشم کشا تحریروں اور تجزیوں کو اب ''کشمیر: 5اگست2019 کے بعد'' کے زیرعنوان ایک خوبصورت کتاب کی شکل میں مرتب کر دیا گیا ہے۔ ممتاز مصنف ، مورّخ، اُردو ادبیات کے سابق استاد اور دانشور، جناب سلیم منصور خالد، نے یہ کتاب ترتیب دی ہے۔
سلیم منصور خالد صاحب جماعتِ اسلامی سے وابستہ ایک ایسے کارکن ہیں جن کے اخلاص وکمٹمنٹ کی مثال دی جا سکتی ہے۔انھیں جماعتِ اسلامی کا چلتا پھرتا انسائیکلو پیڈیا بھی کہا جا سکتا ہے ۔زیر نظر کتاب (کشمیر: 5اگست 2019کے بعد) پانچ صد سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔
اِس کا اشاریہ تو لاجواب ہے جو دراصل مرتب کنندہ کے ادبی و کتابی ذوق کا آئینہ دار بھی ہے۔ اِس سے قبل بھی وہ کئی نظریاتی کتابوں کی ترتیب دے چکے ہیں۔ مثال کے طور پر بنگلہ دیش میں جماعتِ اسلامی کے کئی جان نثاروں کا وزیر اعظم حسینہ واجد کے ہاتھوں پھانسی پرجھول جانے والوں کا تذکرہ ۔ زیر نظر کتاب مگر اپنی حیثیت میں انفرادیت کی حامل ہے کہ اِس میں پاکستان کا دل بھی دھڑکتا محسوس ہوتا ہے اور ہماری کئی بے حسیاں بھی عیاں ہوتی ہیں ۔
مورّخ و مرتب کنندہ نے ، اِس ضمن میں، پانچ اگست 2019 کے بعد مقبوضہ کشمیر پر ظلم کے حوالے سے شایع ہونے والی وقیع تحریریں یکجا کرکے ایک تاریخی و ادبی کارنامہ انجام دیا ہے ۔
زیر نظر کتاب میں 5درجن سے زائد مضامین و تجزئیے شامل کیے گئے ہیں۔ چار مصنفین کی تحریریں اکثریت میں ہیں۔ مثال کے طور پر : سید افتخار گیلانی کے لکھے گئے 26، پروفیسر خورشیداحمد کے 7،سید علی گیلانی اور سلیم منصور خالدکے چار چار مضامین شامل ہیں ۔افتخار گیلانی چونکہ شہید سید علی گیلانی کے قریبی عزیز بھی ہیں ، مقبوضہ کشمیر و بھارت کے معروف اخبار نویس و مصنف بھی، اس لیے مقبوضہ کشمیر و سید علی گیلانی کے بارے میں لکھے گئے۔
اُن کے مضامین ، تجزئیے اور تبصرے وقیع بھی ہیں اور معتبر بھی۔ کشمیر کاز کو اجاگر کرنے کی پاداش میں انھیں کئی برس بھارتی جیلوں میں قید بھی رکھا گیا۔ قید و بند پر مشتمل تجربات پر اُن کی لکھی گئی کتاب(My Days in Prison) خاصی چشم کشا کہلاتی ہے۔ 5اگست2019 کے بعد بھارت نے جس طرح نئے وحشیانہ طریقوں سے مقبوضہ کشمیر پر ظلم و ستم کی نئی داستانیں رقم کی ہیں،افتخار گیلانی نے اِن مظالم کے خلاف ردِ عمل لکھتے ہُوئے اپنے قلم کو شمشیرِ براں بنا لیا ہے۔
اُن کی تحریروں کا کمال و انفرادیت یہ بھی ہے کہ ان میں گہرا مشاہدہ بھی ہے اور کشمیر کاز کے ساتھ امٹ کمٹمنٹ بھی۔ بھارتی استبدادی حکومت کا نزلہ بھی اُن پر گرا ہے اور مجبوراً افتخار گیلانی کو بھارت و کشمیر چھوڑنا پڑا ہے۔
زیر نظر کتاب میں مقبوضہ کشمیر کی مظلوم خواتین اور اُن کی جرأت و ہمت کے کردار کی کہانیاں بھی سامنے لائی گئی ہیں ۔ یہ کہانیاں امریکا میں مقیم مشہور کشمیری دانشور و ایکٹوسٹ، ڈاکٹر غلام نبی فائی، اور طلعت عمران نے لکھی ہیں۔ بھارت میں متعین پاکستان کے سابق ہائی کمشنر، جناب عبدالباسط، کا مضمون بھی خوب ہے ۔کتاب کی ایک منفرد و دلکش بات یہ بھی ہے کہ مرتب کنندہ نے کئی مضامین نگاروں کا ایک ایک سطر میں تعارف بھی لکھ دیا ہے۔کتاب کی قیمت 1200روپے ہے اور اِسے جماعتِ اسلامی کے ادارے ''منشورات'' نے شایع کیا ہے ۔