ہم شرمندہ ہیں

پچھلے دنوں سے حکمران طبقے نے ملک میں پھیلی انارکی کو سمجھ لیا ہے، اور وہ اسے دور کرنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کو تیار ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے اپنی خدمات پیش کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔

حالیہ برسوں میں ہماری ملکی سیاست ، سیاست سے زیادہ بے ہودگی ہوکر رہ گئی ہے۔ اس افراتفری میں سوچنے والے ذہن بڑی الجھن میں مبتلا ہیں۔ سیاست دانوں نے ایک دوسرے کے لیے جیسی زبان اختیار کر رکھی ہے وہ سنجیدہ لیڈر شپ کو زیب نہیں دیتی۔ اس نے ہمارے معاشرے میں دریدہ دہنی ، لغو گوئی اور گالی گفتار کو فیشن بنا دیا ہے اور زبان درازی میں جو زیادہ جدت اور خصوصیت پیدا کر لے وہ شہرت اور ہر دل عزیزی حاصل کرلیتا ہے۔

ایسے میں حکمران طبقے کی وہ آواز ہے جو آئین اور قانون کے تقاضوں اور ان کے منصب حکمرانی کے مطابق ہے کہ وہ کسی طور جانب دار نہیں اور وہی کچھ کر رہے ہیں جو فرائض کی انجام دہی کے لیے قانون کا تقاضا ہوتا ہے۔

شاید اسی جذبے کے تحت صدر مملکت نے مختلف اور متضاد سیاسی عناصر کے درمیان گفت و شنید کو ضروری قرار دیا ہے اور اپیل کی ہے کہ مختلف سیاسی قوتیں یا جماعتیں مل بیٹھ کر ملکی مسائل کا حل نکالیں۔

اس سلسلے میں وہ اپنی خدمات پیش کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں ، لیکن اس افہام و تفہیم کے معاملے میں آئین و قانون کے تقاضوں کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے، ایسے معاملے سے گریز کرنا چاہیے جس کا تعلق افہام و تفہیم سے تو نہ ہو مگر آئین اور دستور سے ہو اور بہت واضح ہو۔

ریاستی اعلیٰ عہدے داروں کی تعیناتی انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے لیکن صدرمملکت کا کہنا ہے کہ اس کے لیے اتفاق رائے ضروری ہے۔ یہ اتفاق رائے والی بات نہ جانے کہاں سے پیدا ہوگئی۔ آرمی چیف کے تقرر کا طریقہ کار آئین میں وضاحت سے لکھا ہوا ہے کہ اس عہدے پر تقرر وزیر اعظم کا اختیار ہے اور وہ اپنی صوابدید سے چند سینئر افسران میں سے کسی کو بھی آرمی چیف مقرر کرسکتے ہیں۔

پاکستان ہی نہیں جہاں جہاں جمہوری حکومتیں ہیں وہاں یہی طریقہ کار رائج ہے لیکن ہمارے ملک کی حد تک یہ طریقہ کار دستور میں درج ہے اور آرمی چیف کے تقرر کے لیے اسی طریقہ کار پر انحصار ضروری ہے۔ اس لیے دستور کے تقاضوں کو '' اتفاق رائے'' کی قربان گاہ پر نہیں چڑھایا جاسکتا ، اگر ریاستی معاملات کو دستور سے ہٹ کر حل کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ ایک اور بڑے خلفشار کا باعث بنے گا۔ اس لیے دستوری امور کو دستوری طریقہ کار تک محدود رکھنا ضروری ہے۔


سطور بالا میں ہم نے اپنے ملک کے بگڑتے ہوئے سیاسی اخلاق کی بات کہی تھی۔ اب ہماری یہ بد اخلاقی ملک کی سرحدوں سے نکل کر دوسرے ممالک تک پھیل گئی ہے اور اگر ہم عالمی برادری کو یہی اخلاقیات تحفتاً پیش کرتے ہیں تو ہمارے معاشرے کا اللہ حافظ ہے۔ ہوا یہ تھا کہ تحریک انصاف کے رہنما اور اس وقت کے وزیر اعظم نے اپنی ایک تقریر میں اپنے مخالفین کو متنبہ کیا تھا کہ اگر ان کا یہی رویہ رہا تو وہ جہاں جائیں گے لوگ ان کے خلاف مظاہرے کریں گے۔

چنانچہ جب متحدہ اپوزیشن برسر اقتدار آئی اور وہ اظہار تشکر کے لیے سعودی عرب (حرمین شریفین کی زیارت کی غرض سے) گئے تو مدینہ منورہ میں عمران خان کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی اور وہاں لوگوں نے ان کے خلاف چور چور کے نعرے لگائے۔

سعودی قوانین کے تحت اور آداب اسلامی کے زیر اثر مدینہ منورہ میں نعرہ بازی یا بلند آواز سے ہلڑ تعزیراتی جرم ہے۔ اس لیے سعودی حکام نے فوراً کارروائی کرکے چند افراد کو گرفتار کر لیا اور چند دوسرے افراد کو کیمروں کی مدد سے تلاش کرنا شروع کیا مگر یہ افراط خاصے سمجھ دار تھے اور اسی روز مدینہ سے اپنے اپنے وطن کو سدھارے۔ جن لوگوں کو اس جرم میں سزا ہوئی۔

ان کی اگر وہ ملازم ہوں گے تو ملازمتیں بھی گئیں اور چند کو سزائیں ہوگئیں اور اب وہ سالوں کی سزا کاٹ رہے ہیں یہ شاخسانہ ہے اس سیاسی اخلاق کا جس میں رواداری تو چھوڑیے خود ان حضرات کی تربیت پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔

سعودیہ کی بات تو الگ تھی، وہاں کا تقدس تو ہر مسلمان کے علم میں ہے اور وہاں رہتے ہوئے کس انداز کو اختیار کیا جاتا ہے ہر مسلمان جانتا ہے مگر سیاسی انتہا پسندی نے ان سے وہ کچھ کروا دیا جس کی کسی مسلمان سے توقع نہیں کی جاسکتی۔

اب یہ چند روز پہلے کی بات ہے کہ موجودہ وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب ، برطانیہ میں کسی عوامی جگہ پر جا رہی تھیں کہ ان کے سیاسی مخالفین نے انھیں آ لیا۔ وہی مخالفان نعرے اور چوٹی کے کچوکے لگانا شروع کیے اور وہ متانت کی تصویر بنی اس صورت حال کو برداشت کرتی رہیں۔

یہ اگرچہ مدینہ منورہ سے کہیں کم تر درجے کا جرم ہے اور برطانوی انتظامی اداروں کو اس کا اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ ایک ملک کے وزیر اعظم کے وفد کی ایک رکن کے خلاف ایک دوسرے ملک میں اس طرح کا مظاہرہ کیا جا رہا ہوگا۔ ان کو یہ بھی اندازہ نہ ہوگا کہ اس مظاہرے میں کیا کچھ کہا جا رہا تھا۔ کیا معلوم وہ اسے کیا سمجھ رہے ہوں یا پھر وہ اس واقعہ کے وقت موجود ہی نہ ہوں۔

حکومت اور اپوزیشن کے جھگڑے کے باوجود کوئی ذی ہوش آدمی اس قسم کے '' سیاسی مظاہرے '' پر شرمندہ ہونے کے علاوہ کیا کرسکتا ہے۔ ہم اپنے کلچر کو اپنے ملک سے باہر کس انداز میں متعارف کرا رہے ہیں۔ یہ بات اگر سمجھ میں آجائے تو کیا بات ہے مگر جہاں ہم پہنچ چکے ہیں وہاں سے واپسی بھی تو دشوار ہے۔
Load Next Story