نیویارک ’’ مجموعہ خواب زنجیر ہوئے‘‘ کی تقریب رونمائی

hamdam.younus@gmail.com

اس بار جب میں چھ ہفتے پاکستان میں رہنے کے بعد واپس امریکا پہنچا تو نیویارک کے مقبول ترین اردو ٹی وی چینل ''سب رنگ'' کے روح رواں ظفر اقبال نے میری خیریت پوچھتے ہوئے کہا '' کیا حسب روایت پاکستان سے لوٹتے ہوئے کوئی نئی کتاب بھی چھپوا کر لائے ہیں؟ میں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا'' کیوں نہیں، دو کتابیں منظر عام پر آگئی ہیں، وہ ساتھ لایا ہوں۔'' ظفر اقبال بولے بس تو پھر کسی ایک کتاب کی تقریب رونمائی کا اہتمام سب رنگ کی طرف سے ہم کریں گے اور پھر 17 ستمبر کو تقریب فائنل کرلی گئی۔

تقریب کی صدارت نیویارک کے معتبر شاعر و ڈاکٹر محمد شفیق کے سپرد کردی گئی اور نظامت کے فرائض نیوجرسی کی مشہور شاعرہ فرح کامران نے انجام دینے کی حامی بھرلی۔ ایک ہفتے میں ساری تیاریاں مکمل ہوگئیں پھر شعری مجموعہ ''خواب زنجیر ہوئے'' کی تقریب کا 17 ستمبر کی شام 7 بجے آغاز ہوا۔ اس تقریب میں مقامی مذہبی شخصیت امام بخاری بھی موجود تھے جن کی شرکت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں تلاوت کلام کی دعوت دی گئی اور اللہ کے بابرکت نام سے یہ تقریب شروع ہوئی۔

فرح کامران نے اپنے ابتدائی کلمات کے ساتھ صاحب کتاب کی شاعری اور شخصیت پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ پھر فرح کامران نے نیویارک سے تعلق رکھنے والے مشہور اور سینئر شاعر الطاف ترمذی کو روسٹرم پر بلایا، الطاف ترمذی نے ایک مضمون کی صورت میں صاحب کتاب کی شاعری اور شخصیت پر اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ'' یونس ہمدم کا فلمی اور قلمی کام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔

انھوں نے 25 کے قریب فلموں کے لیے کہانیاں، مکالمے اور نغمات لکھے اور دس بارہ سال لاہور میں رہتے ہوئے اپنے فلمی سفر کے دوران 150 کے قریب گیت تحریر کیے جو پاکستان کے تمام نامور گلوکاروں اور گلوکاراؤں کی آوازوں کے ساتھ فلموں کی زینت بنے اور ان کے لکھے ہوئے ابتدائی گیتوں سے کئی گلوکاروں ناہید اختر، اے نیر وغیرہ کو خوب شہرت حاصل ہوئی۔ اسی دوران اداکارہ و گلوکارہ مسرت نذیر کے ایک گیت نے بھی بڑی مقبولیت حاصل کی جس کے بول ہیں:

گلشن کی بہاروں میں رنگین نظاروں میں

جب تم مجھے ڈھونڈو گے آنکھوں میں نمی ہوگی

محسوس تمہیں ہر دم پھر میری کمی ہوگی

اس گیت کو موسیقار نثار بزمی نے خوبصورت سروں سے سجایا تھا اور جسے مسرت نذیر کی مدھر آواز نے امر کردیا یہ کلام اس قدر عمدہ ہے کہ اس کو بھارت کی مقبول غزل سنگر ڈاکٹر رادھیکا چوپڑا نے اور پھر اس کے بعد ایک اور معروف انڈین سنگر راجیش پنوار نے بھی گایا اور یونس ہمدم کے اس گیت کی یہ مقبولیت ہم سب کے لیے بھی ایک اعزاز کی بات ہے۔ یونس ہمدم نے پاکستان کی فلم انڈسٹری کو بہت سے مقبول گیت دیے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان کا لکھا ہوا فلم '' لال آندھی'' میں ایک راجستھانی زبان میں دلکش گیت جو مہ ناز کی آواز میں تھا جس کی موسیقی کمال احمد نے دی تھی وہ بھی بڑا مقبول ہوا تھا۔

ان کے کامیاب گیتوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ آئیے اب ان کے فلمی سفر پر کچھ بات کرلیں جس میں ان کی ادبی خدمات بھی اور صحافت بھی شامل رہی ہے۔ بقول یونس ہمدم ایک وقت آیا جب انھوں نے ایک ادبی دوراہے پر شاعری کے لیے فلمی پگڈنڈی کو چھوڑ کر مروج شاعری کا مشکل ناہموار راستہ چنا اور یہ نہ تھکنے والا شخص اس راستے پر بھی کامیابی سے رواں دواں ہے اب تک چھ شعری مجموعے اور چھ نثری کتابیں شایع ہو کر پذیرائی حاصل کرچکی ہیں۔

ان کے شعری مجموعے ''خواب زنجیر ہوئے'' کے صفحہ 3 کی حمد نے دو وجوہات کی بنا پر مجھے متاثر کیا ہے اولاً یہ حمد ایسا لگتا ہے کہ سورۃ رحمن میں نعمتوں کے تذکرے کے جواب میں شاعر کا رب جہاں کے حضور شکرانہ ہے اور دوسری بات اس کی ردیف ''شکریہ'' یہ ردیف اردو شاعری میں بہت کم استعمال ہوئی ہے کہ اسے نبھانا مشکل ہوتا ہے۔ اب ان کے شعری مجموعے سے کچھ اشعار بھی دیکھیے:

زخموں کو دیکھ کر مرے دیتا تھا تسلی

دشمن تھا مگر پھر بھی وضع دار بہت تھا

...

باہر بارش کا منظر ہے اندر آتش دان سہی

باہر ہر سو سناٹا ہے اندر اک طوفان سہی

...


وہ جھوٹ بولتا ہے مگر کیا ہنر کے ساتھ

سب لوگ یہ سمجھتے ہیں سچا بہت ہے وہ

یونس ہمدم کے اس مجموعے میں اشعار کے مضامین بیان اور لفظیات کلاسیکل شاعری سے جڑے رہنے کی جستجو نظر آتی ہے ۔ مجموعہ پڑھنے کے بعد میں ایک حیرت میں بھی پڑا ہوں کہ متعدد اشعار میں ہونٹ اور آنکھوں کا تذکرہ ہی نہیں کہ چلیں یہ محبت کے اشارے ہیں۔ ہمدم نے بار بار یہ دو لفظ مختلف اشعار میں استعمال کیے ہیں ایسے کچھ اشعار دیکھیے:

اپنے ہونٹوں پہ انگلیاں رکھ لیں

اور آنکھوں سے مسکرانے لگے

زندگی چبھ رہی تھی آنکھوں میں

پھر بھی ہونٹوں پہ اک سوال آیا

پیار کے نور سے زخموں کو مرصع کردو

شکوہ ہونٹوں پہ کسی طور بھی لایا نہ کرو

نیند سے تھکی آنکھیں یادیں اوڑھ لیتی ہیں

خواب ٹوٹا ٹوٹا سا کروٹیں بدلتا ہے

کہاں ہیں ہونٹ ایسے جن پہ اک دربان بیٹھا ہو

بڑا عرصہ ہوا ہونٹوں پہ ایسا تل نہیں ملتا

ان اشعار کے شاعر سے یہ سوال کرنا تو حق بنتا ہے کہ آخر یہ ہونٹوں اور آنکھوں کا کیا معاملہ ہے اور کس کے ہیں یہ ہونٹ اور کس کی ہیں یہ آنکھیں؟ یہاں سا جملے پر دیر تک تالیاں بجتی رہیں۔ الطاف ترمذی کے بعد پاکستان ٹی وی کی نامور نیوز کاسٹر راحیلہ فردوس نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صاحب کتاب سے میری پہلی ملاقات، کراچی پریس کلب کی ایک تقریب میں ہوئی تھی جہاں ہم دونوں کے اعزاز میں ایک خوبصورت محفل سجائی گئی تھی اور پھر نیویارک میں ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا۔

راحیلہ فردوس کے بعد نیویارک کے نامور ڈاکٹر، شاعر اور ادیب عبدالرحمن عبد نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں یونس ہمدم سے آج پہلی بار مل رہا ہوں مگر ان کا نام اور ان کی شخصیت میرے لیے اجنبی نہیں ہے۔

فلمی دنیا میں قتیل شفائی، حمایت علی شاعر، منیر نیازی اور کلیم عثمانی جیسے جید شاعروں اور فلمی نغمہ نگاروں میں انھوں نے بڑی محنت سے اپنی پہچان پیدا کی اور اپنا مقام بنایا پھر عبدالرحمن عبد نے یونس ہمدم کو ایک نظم کی صورت میں خوبصورت خراج تحسین پیش کیا۔ صدر کے خطاب کے بعد سب رنگ ٹی وی چینل یو۔ایس۔اے کی طرف سے یونس ہمدم کی ادبی خدمات کو امریکا میں سراہتے ہوئے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ۔
Load Next Story