حالات سنورنے میں ابھی وقت لگے گا
ہماری قوم کو سیلاب نے ایک تکلیف دہ مرحلے سے گزار دیا ہے، اس حوالے سے کچھ اسکینڈل اخبارات میں بھی شایع ہوئے، قوم نے وہ بھی صبر سے پڑھ لیے، پندرہ سو سے زیادہ قیمتی انسانی جانیں سیلاب کی نذر ہوگئیں، جو بچ گئے ہیں وہ امتحان میں ہیں کہ نہ جانے یہ امتحان کب ختم ہوگا کیونکہ جو بچ گئے ہیں وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہیں۔کم ازکم تین کروڑ افراد متاثر ہوئے اور جو متاثر نہیں ہوئے وہ اپنی ذمے داری کو محسوس نہیں کر رہے۔
میرا وطن امتحان میں ہے، رب ان مشکلات کو آسان کرے۔ ایک مسئلہ اختتام کو نہیں پہنچتا دوسرا تیاری کرکے سامنے آجاتا ہے، ہماری خوبی یہ ہے کہ ہم سیاسی طور پر گفتگو کے بلاوجہ عادی ہوگئے ہیں، ایک مسئلہ حل نہیں ہوتا کہ دوسرا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ ڈینگی نے جان عذاب کردی ہے پورا صوبہ سندھ متاثر ہو رہا ہے مگر حفاظتی اقدامات کہیں نظر نہیں آتے۔
ٹرانس جینڈر ایکٹ بل پاس ہو گیا وہ بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں۔ لکھنے کو تو بہت کچھ ہے مگر تفصیل میں جانا بے کار ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ علما کا کام تھا کہ وہ آواز اٹھاتے مگر انھوں نے خاموشی اختیار کرلی، یعنی جن کی ذمے داری ہے وہ ذمے داری کو محسوس ہی نہیں کر رہے۔
قارئین! چلیے دوبارہ چلتے ہیں عوامی مسائل کی طرف کہ :
پانی کے اترنے میں ابھی وقت لگے گا
حالات سنورنے میں ابھی وقت لگے گا
کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا اظہار کرنا بچکانہ فعل لگتا ہے مگر متحرک انداز میں قارئین کو سمجھانا پڑتا ہے کہ احکامات دینے والے کچھ نہیں سوچتے کہ ان باتوں میں اصلاح کا کوئی پہلو ہے اب ان کی دی ہوئی قابلیت کے ناتے عمل تو کروایا جاتا ہے بے شک اس کا رزلٹ کچھ بھی ہو، اکثر بینکوں میں واردات کے قصے جس کا فریضہ ڈاکو انجام دیتے ہیں، کیس کے انجام کا پتا نہیں چلتا کروڑوں روپے کی حفاظت کے لیے غریب اور ناتواں گارڈ کو رکھا جاتا ہے جس کی تنخواہ 15000 یا 20000 ہزار ہوتی ہے غیر تعلیم یافتہ حضرات کے لیے آگاہی کے حوالے سے آئل ٹینکر پر حفاظتی اقدامات انگریزی میں لکھی ہوتے ہیں۔
سڑک پہلے بنا دیتے ہیں پھر اسے کھود کر بجلی، گیس اور پانی کی لائنیں ڈالی جاتی ہیں، مسجدوں سے بجلی کے بل میں ٹی وی لائسنس فیس لی جا رہی ہے۔ یہ بات دوسری ہے کہ ہم خود کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری کہتے ہیں حادثات میں مرنے اور جلنے والوں کے ورثا کو کبھی کبھار بھاری رقم دے دی جاتی ہے مگر حادثات کی روک تھام ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جاتے ۔
خود قرضے پر قرضہ بڑے فخریہ انداز میں لیتے ہیں ان میں آئی ایم ایف کے بے مثال قرضے شامل ہیں، مگر عوام کو صبر کا دامن تھامنے کی تلقین کی جاتی ہے کھلاڑیوں کو لاکھوں روپے دے دیتے ہیں مگر ہر شہر میں ڈھنگ کا اسپتال قائم نہیں کرتے، غریب تو مر گیا وہ کیا کرے، وہ صرف دی جانے والی نصیحت پر عمل کرے، عیدالفطر، عیدالاضحی، شادی، رمضان سب چاند دیکھ کر مناتے ہیں مگر یہی قوم 31 دسمبر رات 12 بجے کے بعد پچھلے تمام چاند بھول جاتی ہے اور اتنی خوشی میں دیوانے ہوتے ہیں کہ فائرنگ کرکے شریف اور پرسکون لوگوں کا سکون برباد کر دیتے ہیں اور اس موقع پر سنجیدہ پاکستانی سوئے ہوئے قانون کو کیسے جگا سکتا ہے؟
اے وطن میں مایوس نہیں ہوں
پر زخموں کو بھرنے میں ابھی وقت لگے گا
پچھلے دنوں ایک غیر ملکی خاتون کا انتقال ہوا، اگر یہ خاتون پاکستان میں ہوتیں تو سوچیں کہ یہاں کیا ہوتا؟ ریڈ زون کو کنٹینر لگا کر بند کردیا گیا اور دارالحکومت میں دفعہ 144 نافذ کردی گئی ہے، قوم سڑکوں پر نکل گئی کل بھی وہ خاتون زندہ تھیں آج بھی وہ خاتون زندہ ہیں، اس غم میں ایک پٹرول پمپ،5 دکانیں اور 3 بسیں جلا دی گئیں، خاتون کے لواحقین کی جانب سے 30 دیگیں بانٹنے کا اہتمام ، ڈبل سواری پر پابندی عائد کردی گئی اور موبائل فون بند کردیے گئے۔
میت میں شرکت کے لیے قوم جوق در جوق روانہ، بسوں نے کرایہ کی مد میں 10 فیصد اضافہ کردیا، اسکول اور کالج کے امتحانات ملتوی کردیے گئے ہیں، سوچیں یہ قوم کتنی وفادار ہے، اور یہ سارے کام مسائل کی قبروں پر کھڑے ہوکر کرتی ہے، صوبہ سندھ میں غیر ملکی حضرات نے اپنی اجارہ داری قائم کردی ہے سب کے پاس اس معزز ملک کی شہریت ہے اور جس کے پاس نہیں ہے وہ بھی بادشاہ بنا ہوا ہے اور انٹرنیٹ پر ان کی زیادتیوں کی وڈیوز آن ایئر ہوتی ہے تو محب وطن پاکستانی اس اقدام سے بہت مایوس ہیں، ان غیر ملکیوں پر اقامہ سسٹم نافذ کیا جائے۔
ان کا کفیل سندھ ڈومیسائل والے کو بنایا جائے، ہر غیر ملکی کی زیادتی کا ذمے دار ان کے کفیل کو بنایا جائے اور ہر سال ان کے اقامے پر حکومت پاکستان اسٹامپ لگائے اور اس کی فیس 2 لاکھ کی جائے اور یہ نظام تو سعودی عرب، امارات، مسقط میں قائم ہے تو یہاں بھی اس پر عمل کیا جائے، امداد لیتے وقت یہ قابل احترام ملک ہوتے ہیں قانون بھی ان کا نافذ کیجیے، اس پر عمل کیا جائے۔ ماضی میں راقم دبئی اور مسقط میں صحافتی ذمے داری کے حوالے سے جاب کر چکا ہے، رات 11 بجے کے بعد پولیس سختی سے پوچھتی تھی کہ '' اقامہ دکھاؤ'' مگر ہماری جرأت نہیں ہوتی تھی کہ ہم ان سے بحث کریں، خاموشی سے اقامہ دکھا دیتے تھے۔
ہمارے ملک میں غیر ملکی چارجڈ پارکنگ میں گاڑیوں کے پیسے وصول کرتے ہیں، یہاں ٹیکسیاں چلا رہے ہیں، چارجڈ پارکنگ میں شرفا سے بدتمیزی کرتے ہیں تو اپنی قسمت پر رونا آتا ہے کہ میرے دیس میں یہ کیا ہو رہا ہے جس کے پاس کروڑوں کی گاڑی ہے ملکی نظام میں بطور شہری کے ٹیکس دیتا ہے جب کہ غیر ملکی باقاعدہ اسے دھکے دیتے ہوئے کہتا ہے100 روپے پارکنگ دو اور بدتمیزی کرتا ہے قانون کو سخت کیجیے ان کی مکمل شان بیان کیجیے یہ کون ہوتے ہیں جو ملک کو ٹیکس دے کر ثابت قدم ہیں، انھیں ایک غیر ملکی دھمکیاں دیتا ہے یہ راقم کے ساتھ ہو چکا ہے، خدارا قانون اس پر توجہ دے چند پیسوں کے خاطر ان کو شناختی کارڈ بنا کر دیے گئے۔
پاکستان عظیم ملک ہے اسے عظیم رہنے دیں اگر اس پر توجہ نہ دی تو اس کے نتائج بہتر نہیں نکلیں گے لہٰذا اس پر توجہ دی جائے کہ یہ ملک ہمارا ہے غیر ملکیوں کا نہیں، پانی کو سر سے اونچا نہ ہونے دیں ایسا نہ ہو کہ جن کو پوچھنا ہے کل ان سے یہ غیر ملکی بدتمیزی کا مظاہرہ کریں اور وہ دیکھتے رہ جائیں کہ طاقت ہونے کے باوجود وہ سوچیں وہ اب کیا کرنا ہے۔
لہٰذا اسے مکمل قانون کے زمرے میں لایا جائے کہ یہ وطن ہمارا ہے۔ مزے کی بات دیکھیں کہ سب کچھ ہو رہا ہے نجی اسپتال ڈینگی کے حوالے سے ٹیسٹوں کی من مانی قیمتیں وصول کر رہے ہیں، ویسے تو من مانی قیمتوں کا سلسلہ تو 4 سال سے کامیابی سے چل رہا ہے پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ سیاست دان تو بیان دے کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں مگر من مانی کرنے والے بادشاہ لوگ ہیں، بس دعا یہ ہے کہ رب کریم ملک پر رحم کرے۔
میرا وطن امتحان میں ہے، رب ان مشکلات کو آسان کرے۔ ایک مسئلہ اختتام کو نہیں پہنچتا دوسرا تیاری کرکے سامنے آجاتا ہے، ہماری خوبی یہ ہے کہ ہم سیاسی طور پر گفتگو کے بلاوجہ عادی ہوگئے ہیں، ایک مسئلہ حل نہیں ہوتا کہ دوسرا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ ڈینگی نے جان عذاب کردی ہے پورا صوبہ سندھ متاثر ہو رہا ہے مگر حفاظتی اقدامات کہیں نظر نہیں آتے۔
ٹرانس جینڈر ایکٹ بل پاس ہو گیا وہ بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں۔ لکھنے کو تو بہت کچھ ہے مگر تفصیل میں جانا بے کار ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ علما کا کام تھا کہ وہ آواز اٹھاتے مگر انھوں نے خاموشی اختیار کرلی، یعنی جن کی ذمے داری ہے وہ ذمے داری کو محسوس ہی نہیں کر رہے۔
قارئین! چلیے دوبارہ چلتے ہیں عوامی مسائل کی طرف کہ :
پانی کے اترنے میں ابھی وقت لگے گا
حالات سنورنے میں ابھی وقت لگے گا
کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا اظہار کرنا بچکانہ فعل لگتا ہے مگر متحرک انداز میں قارئین کو سمجھانا پڑتا ہے کہ احکامات دینے والے کچھ نہیں سوچتے کہ ان باتوں میں اصلاح کا کوئی پہلو ہے اب ان کی دی ہوئی قابلیت کے ناتے عمل تو کروایا جاتا ہے بے شک اس کا رزلٹ کچھ بھی ہو، اکثر بینکوں میں واردات کے قصے جس کا فریضہ ڈاکو انجام دیتے ہیں، کیس کے انجام کا پتا نہیں چلتا کروڑوں روپے کی حفاظت کے لیے غریب اور ناتواں گارڈ کو رکھا جاتا ہے جس کی تنخواہ 15000 یا 20000 ہزار ہوتی ہے غیر تعلیم یافتہ حضرات کے لیے آگاہی کے حوالے سے آئل ٹینکر پر حفاظتی اقدامات انگریزی میں لکھی ہوتے ہیں۔
سڑک پہلے بنا دیتے ہیں پھر اسے کھود کر بجلی، گیس اور پانی کی لائنیں ڈالی جاتی ہیں، مسجدوں سے بجلی کے بل میں ٹی وی لائسنس فیس لی جا رہی ہے۔ یہ بات دوسری ہے کہ ہم خود کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری کہتے ہیں حادثات میں مرنے اور جلنے والوں کے ورثا کو کبھی کبھار بھاری رقم دے دی جاتی ہے مگر حادثات کی روک تھام ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جاتے ۔
خود قرضے پر قرضہ بڑے فخریہ انداز میں لیتے ہیں ان میں آئی ایم ایف کے بے مثال قرضے شامل ہیں، مگر عوام کو صبر کا دامن تھامنے کی تلقین کی جاتی ہے کھلاڑیوں کو لاکھوں روپے دے دیتے ہیں مگر ہر شہر میں ڈھنگ کا اسپتال قائم نہیں کرتے، غریب تو مر گیا وہ کیا کرے، وہ صرف دی جانے والی نصیحت پر عمل کرے، عیدالفطر، عیدالاضحی، شادی، رمضان سب چاند دیکھ کر مناتے ہیں مگر یہی قوم 31 دسمبر رات 12 بجے کے بعد پچھلے تمام چاند بھول جاتی ہے اور اتنی خوشی میں دیوانے ہوتے ہیں کہ فائرنگ کرکے شریف اور پرسکون لوگوں کا سکون برباد کر دیتے ہیں اور اس موقع پر سنجیدہ پاکستانی سوئے ہوئے قانون کو کیسے جگا سکتا ہے؟
اے وطن میں مایوس نہیں ہوں
پر زخموں کو بھرنے میں ابھی وقت لگے گا
پچھلے دنوں ایک غیر ملکی خاتون کا انتقال ہوا، اگر یہ خاتون پاکستان میں ہوتیں تو سوچیں کہ یہاں کیا ہوتا؟ ریڈ زون کو کنٹینر لگا کر بند کردیا گیا اور دارالحکومت میں دفعہ 144 نافذ کردی گئی ہے، قوم سڑکوں پر نکل گئی کل بھی وہ خاتون زندہ تھیں آج بھی وہ خاتون زندہ ہیں، اس غم میں ایک پٹرول پمپ،5 دکانیں اور 3 بسیں جلا دی گئیں، خاتون کے لواحقین کی جانب سے 30 دیگیں بانٹنے کا اہتمام ، ڈبل سواری پر پابندی عائد کردی گئی اور موبائل فون بند کردیے گئے۔
میت میں شرکت کے لیے قوم جوق در جوق روانہ، بسوں نے کرایہ کی مد میں 10 فیصد اضافہ کردیا، اسکول اور کالج کے امتحانات ملتوی کردیے گئے ہیں، سوچیں یہ قوم کتنی وفادار ہے، اور یہ سارے کام مسائل کی قبروں پر کھڑے ہوکر کرتی ہے، صوبہ سندھ میں غیر ملکی حضرات نے اپنی اجارہ داری قائم کردی ہے سب کے پاس اس معزز ملک کی شہریت ہے اور جس کے پاس نہیں ہے وہ بھی بادشاہ بنا ہوا ہے اور انٹرنیٹ پر ان کی زیادتیوں کی وڈیوز آن ایئر ہوتی ہے تو محب وطن پاکستانی اس اقدام سے بہت مایوس ہیں، ان غیر ملکیوں پر اقامہ سسٹم نافذ کیا جائے۔
ان کا کفیل سندھ ڈومیسائل والے کو بنایا جائے، ہر غیر ملکی کی زیادتی کا ذمے دار ان کے کفیل کو بنایا جائے اور ہر سال ان کے اقامے پر حکومت پاکستان اسٹامپ لگائے اور اس کی فیس 2 لاکھ کی جائے اور یہ نظام تو سعودی عرب، امارات، مسقط میں قائم ہے تو یہاں بھی اس پر عمل کیا جائے، امداد لیتے وقت یہ قابل احترام ملک ہوتے ہیں قانون بھی ان کا نافذ کیجیے، اس پر عمل کیا جائے۔ ماضی میں راقم دبئی اور مسقط میں صحافتی ذمے داری کے حوالے سے جاب کر چکا ہے، رات 11 بجے کے بعد پولیس سختی سے پوچھتی تھی کہ '' اقامہ دکھاؤ'' مگر ہماری جرأت نہیں ہوتی تھی کہ ہم ان سے بحث کریں، خاموشی سے اقامہ دکھا دیتے تھے۔
ہمارے ملک میں غیر ملکی چارجڈ پارکنگ میں گاڑیوں کے پیسے وصول کرتے ہیں، یہاں ٹیکسیاں چلا رہے ہیں، چارجڈ پارکنگ میں شرفا سے بدتمیزی کرتے ہیں تو اپنی قسمت پر رونا آتا ہے کہ میرے دیس میں یہ کیا ہو رہا ہے جس کے پاس کروڑوں کی گاڑی ہے ملکی نظام میں بطور شہری کے ٹیکس دیتا ہے جب کہ غیر ملکی باقاعدہ اسے دھکے دیتے ہوئے کہتا ہے100 روپے پارکنگ دو اور بدتمیزی کرتا ہے قانون کو سخت کیجیے ان کی مکمل شان بیان کیجیے یہ کون ہوتے ہیں جو ملک کو ٹیکس دے کر ثابت قدم ہیں، انھیں ایک غیر ملکی دھمکیاں دیتا ہے یہ راقم کے ساتھ ہو چکا ہے، خدارا قانون اس پر توجہ دے چند پیسوں کے خاطر ان کو شناختی کارڈ بنا کر دیے گئے۔
پاکستان عظیم ملک ہے اسے عظیم رہنے دیں اگر اس پر توجہ نہ دی تو اس کے نتائج بہتر نہیں نکلیں گے لہٰذا اس پر توجہ دی جائے کہ یہ ملک ہمارا ہے غیر ملکیوں کا نہیں، پانی کو سر سے اونچا نہ ہونے دیں ایسا نہ ہو کہ جن کو پوچھنا ہے کل ان سے یہ غیر ملکی بدتمیزی کا مظاہرہ کریں اور وہ دیکھتے رہ جائیں کہ طاقت ہونے کے باوجود وہ سوچیں وہ اب کیا کرنا ہے۔
لہٰذا اسے مکمل قانون کے زمرے میں لایا جائے کہ یہ وطن ہمارا ہے۔ مزے کی بات دیکھیں کہ سب کچھ ہو رہا ہے نجی اسپتال ڈینگی کے حوالے سے ٹیسٹوں کی من مانی قیمتیں وصول کر رہے ہیں، ویسے تو من مانی قیمتوں کا سلسلہ تو 4 سال سے کامیابی سے چل رہا ہے پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ سیاست دان تو بیان دے کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں مگر من مانی کرنے والے بادشاہ لوگ ہیں، بس دعا یہ ہے کہ رب کریم ملک پر رحم کرے۔