ڈالر کی ورشا اور حرمین کی محبت
عربی من و سلویٰ کا اُترنا تھا، لاغر روپیہ کمر ٹھونک کر کھڑا ہوا تو لگا ڈالر پسپا ہونے۔
دھن داروں کی سرکار پہ دھن ہے کہ برسے جائے ہے۔ ماہرین حیرت زدہ ہیں تو ہوا کریں، اور حزبِ اختلاف والے انگلیاں اُٹھائے ہیں تو اُٹھایا کریں۔ پژمردہ روپے کو مالیاتی ٹیکے لگانے کی ضرورت تھی،خواہ دھن دار خود مہیا کرتے (جس کے لیے دھن والوں کو اپنے پیٹ کاٹنے پڑتے) یا کہیں سے مستعار لیتے اور وہ بھی کاسۂ گدائی کی رونمائی کیے بغیر۔ سو عربوں سے ہماری دیرینہ چاہ یا پھر نواز شریف کی اُن سے پرانی آشنائی نے خوب راہ نکالی۔ جو سعودیہ سے شروع ہو کر، بحرین سے گزرتی، متحدہ عرب امارات تک پہنچنے کو ہے! خالی ہوتے ہوئے خزانے میں جون تک مبلغ تین ارب ڈالر ذخیرہ ہونے کو ہیں۔ عربی من و سلویٰ کا اُترنا تھا، لاغر روپیہ کمر ٹھونک کر کھڑا ہوا تو لگا ڈالر پسپا ہونے۔
حکومت پر ڈالروں کی بابرکت برسات ہوئی تو تاجر برادری کو ٹیکسوں میں چھوٹ کا ثمر دیے بغیر معاشی نمو کو کیوں کر مہمیز لگائی جا سکتی ہے؟ ایسے میں جون تک بجٹ کا انتظار کون کرے جب SROs اپنی فیاضیاں لیے پہلے سے موجود ہیں۔ رہے عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) والے، اُنہیں اِس سے کیا غرض کہ خسارے ٹیکسوں اور جائز آمدنیوں کو بڑھانے سے پورے ہوتے ہیں (جیسا کہ ایسے ہی ہونا چاہیے ورنہ پھر فاقہ مستی آن دھمکے گی)، یا پھر مکے مدینے والوں کی غیبی امداد سے۔ مومن ضرورت مند کی مدد چھپ چھپا کر کرتا ہے کہ ثوابِ دارین دوبالا ہو۔ جب کہ شفافیت سے تو دکھلاوے کا سفلاپن ظاہر ہوتا ہے، خواہ اچھی حکومت کے ڈھنڈورچی کتنا ہی شور مچایا کریں یا ریاستوں کے مابین چلن کے تقاضے کچھ اور ہی کیوں نہ ہوں۔ سرمایہ حرامی ہو یا حلالی اور جہاں سے بھی آئے اور جیسے آئے بس آئے!
جب ڈالر چھ فیصد قدر کھو بیٹھا اور روپے کی شرح مبادلہ 100 کے ہندسے سے نیچے آن گری تو مہنگائی کے ہاتھوں بلبلاتے لوگوں میں یہ خیال پیدا ہونا بے محل نہ تھا کہ بقول سودا:
گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانۂ بر اندازِ چمن کچھ تو اِدھر بھی
کم از کم تیل اور بجلی کے نرخ اِتنے تو کم ہو جاتے جتنی ڈالر کی شرح میں کمی ہوئی۔ ایسی مہربانی غریبِ شہر کو کہاں میسر! اِس حکومت کے برسرِاقتدار آنے پر روپیہ اگر 98 روپے فی ڈالر تھا تو غریب کو کیا ہاتھ آیا اور جب یہ 108 تک چڑھ کر واپس 98 پہ آن گرا تو غریب کو کیا آسودگی ملی۔
فقیر شہر کے تن پہ لباس ابھی باقی ہے
امیرِ شہر کے ارمان ابھی کہاں نکلے
روپے کی اس دھماچوکڑی میں اگر کوئی خیال نظر سے اوجھل ہوا بھی ہے تو وہ بیچارے کاسۂ گدائی کا، جس کی بازگشت تک کہیں سنائی نہ دی۔ شرفائے وطن تو اسے کبھی کا توڑ تاڑ کر، واہ واہ کے شور میں ووٹوں کے بے بہا ڈونگروں سے فیضیاب ہو کر تخت نشین ہو چکے۔ خفت سے بچت کے لیے اب کاسۂ گدائی کا خاندانی قسم کا نام رکھ لیا گیا ہے اور وہ ہے پاکستان ڈویلپمنٹ فنڈ۔ اور ترقی کے لیے فنڈز اکٹھے کرنے کے نیک کام پر بک بک کرنے کی کس میں کیا جرأت! اسحاق ڈار صاحب جو اب ڈالر مار کے نام سے مشہور ہو چکے ہیں، نے صحیح تو کہا ہے کہ آم کھانے سے غرض رکھو، پیڑ گننے سے کیا حاصل۔
عرب شیوخ اور شاہوں کی مغرب میں شاہ خرچیوں کے قصے کیسے ہی دشمنانِ اسلام نے اُڑائے ہوں، ہم افتادگانِ خاک تو اُن کی زکوٰۃ و خیرات کی نعمتوں سے کب سے فیضیاب ہیں۔ آفت زدگان ہوں یا پھر ہمارے مدرسوں میں پڑھنے والے یتیم و مسکین اور اُن کے شدت پسند اساتذۂ کرام، سبھی تو اُن کی خدا ترسی کے مرہونِ منت ہیں اور دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں۔ ایسے میں کس کی جرأت کہ مدرسوں کی جانب میلی آنکھ سے دیکھے۔ بھلا زکوٰۃ و خیرات کا بھی کہیں آڈٹ ہوتا ہے؟ ماسوا رب العزت کے حضور۔ آخر عرب ڈالر کے ساتھ اُن کا مسلک بھی تو عام کرنا ہے۔ لیکن! حضرات اس بار معاملہ ذرا کہیں گھمبیر ہے۔ آنکھیں کھولیے تو کچھ اندازہ ہو۔
عرب دُنیا کا عوامی اُبھار قوم پرست آمریتوں کو تو بہا لے گیا لیکن جزیرہ نما عرب کے تپتے ریگزاروں میں، جہاں ہمارے خادمین حرمین شریف اور اسلامی بادشاہوں کے خانوادے خیمہ زن ہیں (جو مکمل ایئرکنڈیشنڈ ہیں) وہاں بھلا عرب بہار نے کیوں رُخ کرنا تھا۔ عرب بہار کے روزِ حشر تو عرب قوم پرستی کے رہے سہے اور جیسے کیسے نشانوں کو مقامِ عبرت نصیب ہونا تھا۔ بھلا ہو امریکیوں کا کہ صدام حسین عراق میں پھانسی چڑھا اور کرنل قذافی کو سڑکوں پر گھسیٹتے ہوئے انجام تک پہنچایا گیا۔ رہا حافظ الاسد جو بھلے اسرائیل کے خلاف آخر تک ڈٹا رہا ہو، ہے تو علوی، تو اس کے تیئے پانچے کے لیے مغرب کے ملعون یہود و نصاریٰ اور عالمِ اسلام کے شدت پسند سب ہی مل کر یلغار کیے ہوئے ہیں۔ ایسے میں جیسے ہی یہ عجمی اور غیر عجمی بیچ میں آن کھڑے ہوئے ہیں تو پورا مشرقِ وسطیٰ مسلکی جنگ میں ایسے غرق ہو رہا ہے کہ صلیبی جنگیں محض طفلانہ سرپھٹول لگیں گی۔ عربی عجمی جھگڑا تو تاریخی ہے ہی اسے بھڑکانے سے زیادہ آسان کھیل کوئی نہیں جب کہ فرقہ ورانہ فساد اتنا گرم کر دیا گیا ہے اور جس میں ان فرقوں کے ''دین مُلّا فی سبیل اللہ فساد'' والوں کا کوئی ثانی نہیں۔
اس پر مستزاد یہ کہ دُوربیں عجمیوں نے اپنے نیوکلیئر ہتھیاروں پہ سمجھوتے کی اُمید دلا کر امریکیوں اور سعودیوں میں بے اعتمادی بڑھا دی ہے اور شام میں القائدہ اور تکفیریوں کے میدان میں اُترنے سے سعودیوں کو اپنے گھر کی فکر پڑ گئی ہے جہاں خلافت کے داعی کسی بھی وقت حکمرانوں کو درختوں پہ لٹکا سکتے ہیں۔ بحرین میں شیعہ اکثریت کو سعودی طاقت سے کچلے جانے کے خلاف سعودی عرب کے اہلِ تشیع میں بے چینی بڑھ گئی ہے۔ سعودیوں کے لیے یہ اس لیے بھی کہیں زیادہ تشویشناک ہے کہ یہ سعودی اہلِ تشیع زیادہ تر تیل کے خزینوں پر براجمان ہیں۔ سعودیہ کی تیل سے مالامال اہلِ تشیع پٹی، عراق اور بحرین کی شیعہ اکثریت اور انقلابی ملائیت پسند ایران کے ملنے پر سعودی حکمرانوں کو اپنی پڑ گئی ہے۔ آخر مشکل میں دوست ہی کام آتے ہیں۔
کیا ہم ہمیشہ پاکستان کو مسلم دُنیا کا بازؤ شمشیر زن، پاک فوج کو اسلامی فوج اور خالص پاکستانی ایٹم بم کو اسلامی بم کا ورد کرتے ہوئے صبح شام اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کو زندہ و تابندہ کرنے کی مالا نہیں جپتے۔ اور اگر آج خادمینِ حرمین کو کوئی خطرہ لاحق ہے یا پھر خلیج کی ریاستوں، خاص طور پر بحرین میں، شورش دبائے نہیں دب رہی تو کیا ہم مسلک بھائیوں کی مدد کو پہنچنا کارِ ثواب نہیں؟ پاکستانی حکومت خادمین حرمین کی حفاظت کے لیے میدان میں نہیں اُترے گی تو پھر کون؟ عجیب نظارہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے واشگاف اعلان کیا ہے کہ پاکستان اپنی فوج کہیں نہیں بھیج رہا۔ حالانکہ جاننے والے جانتے ہیں کہ ایسے ہوتا آیا ہے، ہو رہا ہے اور خون بہنے سے پہلے ہی خون بہا کی ادائیگی سے خزانہ ڈالروں سے یونہی تو نہیں بھرا جا رہا۔ کاش! وزیراعظم اپنے اعلان پر قائم رہیں۔ ورنہ پاکستان عرب و عجم کی قومی و فرقہ وارانہ جنگ میں ایسے پھنسے گا کہ آگ سے بچنا مشکل ہوگا۔ افغانستان کا ڈھول ابھی گلے سے اُترا نہیں، ہم دُور کی بلائوں کو گلے لگانے کے لیے بے چین ہیں کہ ڈالر اور وہ بھی عرب الاصل دین و دُنیا میں برکت کا باعث ہے۔ ایسی محبت سے ہم باز آئے!