ناکام ریاست اور گلیڈئیٹر
تحقیق کی دنیا میں جانور اور پرندے استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہی کام یہاں عام آدمی کو استعمال کر کے سرانجام دیا جاتا ہے
آپ دنیا کی کسی سائنسی تجربہ گاہ میںچلے جائیے۔آپ کو ہر جانب مختلف پرندے اور جانور نظر آئیں گے۔یہ بڑے دیدہ زیب پنجروں میں بند بڑی عجیب وغریب بلکہ حیرت انگیز حرکتیں کر رہے ہونگے۔آپ کو بہت بڑے بڑے چوہے نظر آئیں گے۔ان کے بالکل ساتھ سیمپل کے طور پر لاغر اور نحیف چوہے فاقہ زدہ حالات میں بڑی خاموشی سے بیٹھے دکھائی دینگے۔یہ تمام چوہے ایک گھنٹی کی آواز سن کر ترتیب میں بھاگنا شروع کر دینگے۔اسی طرح آپ کو ایسے خرگوش بھی نظر آئینگے جوبینائی سے محروم ہو چکے ہیں۔وہ بھی ایک مخصوص صوتی اشارے پر گھاس کھانا شروع کر دینگے اور پھر ایک دم ایک خاص مدت کے بعد خاموشی سے بیٹھ جائینگے۔اصل میں سائنس کی ساری ترقی ان تجرباتی پرندوں اور جانوروں ہی کی مرہون منت ہے۔تمام دوائیاں،انجکشن اور شربت ان معصوم بے زبانوں پر انتہائی بے رحم طریقے سے استعمال کیے جاتے ہیں۔برسوں کی تحقیق کے بعد یہ تمام دوائیاں انسانوں کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ان تجربات میں لاکھوں جانور بغیر سوچے سمجھے، ترقی اور تحقیق کے نام پر مار دیے جاتے ہیں۔ ہمارا ملک بالکل ایک ایسی ہی تجربہ گاہ ہے۔
فرق صرف اتنا ہے کہ تحقیق کی دنیا میں جانور اور پرندے استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہی کام ہمارے وطن عزیز میں عام آدمی کو استعمال کر کے سرانجام دیا جاتا ہے۔کبھی ہمیں جمہوریت کی مٹھائی بڑے اہتمام سے کھلائی جاتی ہے لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ اس میں باریک شیشہ ملا ہوا ہے۔کبھی ہمیں آپریشن تھیٹر میں لٹا کر شریانوں میں خاکی خون بھر دیا جاتا ہے اور اصرار ہوتا ہے کہ اس سے تمام بیماریاں فوراً ٹھیک ہو جائیں گی۔کبھی ہمیں کسی مصلے میں رسیوں سے پرو دیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ ہر چیز ملے گی،ہر راحت نصیب ہو گی۔بس تھوڑی سی مجبوری ہے کہ ان خوبصورت چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے صرف ''مرنا'' پڑے گا۔ہمارا ملک دراصل ایک عظیم تجربہ گاہ بن چکا ہے جہاں ہر طرح کا سیاستدان،سرکاری افسر،علما،پیر، نجومی اور درویش اپنا اپنا سامان بیچ رہا ہے۔وہ بھی بہت بھاری شرح منافع کے ساتھ!ہمارے عوام اور ان کی جان حکمرانوں کے لیے پرندوں اور جانوروں سے بھی کم تر ہے۔ جذباتی نعروں اور ماضی کی خون گرما دینے والی کہانیاں سُن سُن کر ہماری قوم بے دم ہو چکی ہے۔آپ ہمارے کسی بھی وقت کے حکمرانوں کی باتیں،بیانات اور تقریریں سماعت کریں۔یہ تمام صیغہ مستقبل پر مشتمل نظر آئیں گی۔ہر بیان کا اختتام ''ہوگا''، ''ہوجائیگا''،''کر دینگے'' اور''ہوناچاہیے'' پر ہوگا۔یہ ظالم لوگ عام آدمیوں کو مستقبل کے خواب بیچ کر مسلسل حکومت کر رہے ہیں۔
فنڈ برائے امن(Fund for Peace)امریکا کا ایک تجزیاتی ادارہ ہے۔اس ادارہ کو چلانے کے لیے ایک بورڈ آف ٹرسٹیز موجود ہے جس کے14ارکان ہیں۔اس فنڈ کا چیئرمین جارج اے۔ لیحنر نامی شخص ہے۔یہ یونیورسٹی آف میشی گن کا تعلیم یافتہ ہے۔سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں اس شخص نے دہائیوں کام کیا ہے۔دیگر ارکان جیسے سائوبھان مکی ڈرموٹ،باربرہ ہلاس اور جیری تھامسن وغیرہ بہت مضبوط ساکھ کے افراد ہیں۔ ان لوگوں نے حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کے ساتھ کام کرتے ہوئے اپنی عمریں گزار دیں ہیں۔یہ تمام لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار ہیں۔یہ ادارہ دنیا کے تمام ممالک کا انتہائی باریک بینی سے مسلسل تجزیہ کرتا رہتا ہے۔اس تجزیہ کے مختلف پہلو ہیں۔یہ ماہرین بارہ مختلف زاویوں سے دنیا کے ممالک کو ہمہ وقت پرکھتے رہتے ہیں۔ہر سال یہ ادارہ مدلل اور بے لاگ رپورٹ شایع کرتا ہے۔اس رپورٹ میں ہر ملک کو مختلف نمبر دیے جاتے ہیں۔ جس ملک کے نمبر جتنے کم ہونگیں وہ اتنا ہی کامیاب ہوگا۔
کمزور اور ناکام ممالک زیادہ نمبر حاصل کرتے ہیں۔بارہ پہلوئوں میں چار سماجی(Social)نوعیت کے ہیں۔دو اقتصادی طرز کے ہیں۔چھ کا تعلق سیاسی شعبہ سے ہے۔ان تمام پہلوئوں کو پھر آگے تفصیلی طور پر تقسیم کیا گیا ہے۔یہ جزئیات انتہائی تفصیل اور عرق ریزی سے ترتیب دی گئی ہیں۔کسی عنصر کو تجزیہ کرنے کے لیے رائے یا بیان کا سہارا نہیں لیا جاتا بلکہ ہر ایک کے لیے ٹھوس بنیادوں پر ثبوت حاصل کیے جاتے ہیں۔دنیا کے تمام ملکوں کے ذکر کے بعد ہر ملک کی ترتیب طے کی جاتی ہے۔دنیا کا ناکام ترین ملک صومالیہ قرار دیا گیا ہے۔اس کے 113نمبر ہیں۔اس کے بعد افریقہ کے کچھ ممالک جیسے سوڈان،چاڈ وغیرہ ہیں۔ افغانستان106نمبر لے کر ساتویں نمبر پر ہے۔عراق گیارویں مقام پر کھڑا نظر آتا ہے۔اس کے مجموعی مارکس 103ہیں۔پاکستان 13ویں نمبر پر ہے اور اس کے نمبر102ہیں۔مملکت خداداد پاکستان کے بعد افریقہ کے کئی ممالک ہیں جیسے ایتھوپیا،کینیا،یوگنڈا۔یہ تمام ممالک پاکستان سے بہتر تصور کیے گئے ہیں۔ہم کئی سالوں سے تقریباً ایک ہی جیسی کمزور پوزیشن پر بہت استقامت سے بغیر کسی شرم کے کھڑے ہوئے ہیں۔ناروے،سویڈن اور فن لینڈ دنیا کے مستحکم ترین ممالک گردانے گئے ہیں۔ان کے نمبر بالترتیب21,19,اور18ہیں۔یہ2013کی رپورٹ انٹرنیٹ پر موجود ہے اور کوئی بھی اسے دیکھ سکتا ہے۔
آئیے، ملاحظہ فرمائیے کہ یہ عناصر کون کون سے ہیں۔میں بہت مختصر طریقے سے ان کا احاطہ کرنے کی کوشش کرونگا۔پہلا نکتہ کسی بھی ملک پر اُس کی بڑھتی ہوئی آبادی کا دبائو ہے۔اس میں قدرتی آفات،بیماری،ماحولیات،غذا کی قلت، پانی کا کم ہونا،نوجوان لوگوں کی کثیر تعداد سب کچھ شامل ہیں۔ہمارے ملک میں سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر آبادی کی مستند تعداد کا تعین موجود نہیں ہے۔ہم اپنی آبادی کا شمار قطعاً نہیں کر سکتے۔ہم صرف اندازے سے کام لے کر18سے20کروڑ کی تعداد بتاتے ہیں۔
دوسرا عنصر ہے، مہاجرین اور ملک کے اندر وہ لوگ جو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ان ملکی اور غیر ملکی مہاجرین سے پیدا ہونے والے مسائل گھمبیر ہیں۔ہمارے کسی ادارے کے پاس بھی افغان مہاجرین کی مستند تعداد نہیں ہے۔اکثر افغانی پیسے کا سہارا لے کر پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ حاصل کر چکے ہیں۔اس کے بعد گروہی نفرتیں اور مسائل ہیں۔اس میں فرقہ واریت،مذہبی جذباتیت،لسانی تشدد اور عدم برداشت کا رویہ ہے۔غور کریں تو ہم میں یہ تمام محرکات موجود ہیں۔اب آپ غیر منطقی معاشی ترقی کی جانب نظر دوڑائیے۔غریب اور امیر کے درمیان بڑھتا ہوا فرق،کچی آبادیاں،بنیادی سہولتوں کے حصول میں تفریق یہ سب کچھ معاشی ناانصافی کا نتیجہ ہے۔اگر ہم لاہور،کراچی اور اسلام آباد کو بہت بہتر کر چکے ہیں تو کیا ہمارے ملک کے دوسرے شہر ترقی کے اس سفر میں برابر کے حصہ دار ہیں یا معاملہ کچھ اور ہے!غربت اور معاشی تنزلی اگلا شعبہ ہے۔اس میں حکومتی قرضے،نوجوانوں کے لیے روزگار،قوت خرید اور مہنگائی شامل ہیں۔بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔اس کے بعد سیاسی بنیادوں پر چھ مختلف نکات کا ذکر ہے۔
حکومت کا اخلاقی جواز بے حد اہم ہے۔اس میں کرپشن،الیکشن کی ساکھ،کالادھن،کالے دھندے،حکومت کی گرفت،منشیات کا نظام،حکومتی کشمکش، ہڑتالیں اور حکومت کا کنٹرول وغیرہ سب کچھ شامل ہیں۔اب لوگوں کو میسر بنیادی سہولیات زندگی کی طرف آئیں۔ سڑکیں، پینے کا صاف پانی،تعلیم،بجلی،صحت کا نظام،جرائم کی شرح اور پولیس کی کارکردگی سب سوالیہ نشان ہیں۔ انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی طرف آئیے۔پریس کی آزادی، مذہبی تشدد، آزادی رائے،اس کے اہم جزو ہیں۔سیکیورٹی کے نظام کار پر نظر دوڑائیں تو فوج کا اقتدار پر قبضہ،اندرونی کشمکش، چھوٹے چھوٹے مسلح غیر فوجی دستے اور باغی گروہ شامل کار ہیں۔باہر کی حکومتوں کی دخل اندازی، بیرونی امداد،امن قائم کرنے کے لیے مخصوص دستے اس کا اگلا جزو ہیں۔آخر میں ملک کی اشرافیہ کا رویہ ہے کہ وہ تمام نظام پر اپنے ذاتی فائدہ حاصل کرنے کے لیے کتنی موثر ہوتی ہے۔یہ وہ تمام اجزاء تھے جسکی بنیاد پر فنڈ برائے امن نام کے ادارے نے پاکستان کو ایک ناکام ریاست قرار دیا ہے۔
جب غور سے میں ان اجزاء کو پاکستان کی تصویر میں دیکھتا ہوں تو دل بیٹھ سا جاتا ہے۔میں یقین اور بے یقینی کی پگڈنڈی کے درمیان چلنے کی کوشش شروع کر دیتا ہوں۔ میں پاکستان کو ناکام ریاست نہیں لکھ سکتا!زیادہ سے زیادہ میں اس رپورٹ کو دشمنوں کی سازش قرار دے سکتا ہوں؟ روم کے بادشاہ اپنی ناکام حکومتوں سے توجہ ہٹانے کے لیے مشکل اوقات میں سب سے خطرناک کھیل کا اہتمام کرتے تھے۔گلیڈئیٹر ایک دوسرے کو ہزاروں لوگوں کے سامنے بے رحم طریقے سے قتل کرتے تھے۔لوگ تالیاں بجا بجا کر موت کے اس رقص سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ہمیں بھی کثیر سرکاری رقم خرچ کر کے میلوں ٹھیلوں میں مصروف رکھنے کی بھر پُور کوشش کی جا رہی ہے۔نا انصافی،بے لگام جرائم اور قیامت خیز مہنگائی کی بدولت لوگوں کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسوئوں کو ثابت کیا جا رہا ہے کہ یہ خوشی کے آنسو ہیں۔سرکاری مسخرے جھوٹی تعریف کی قوالیوں میں سرشار ہیں۔آج ہمارے تمام حکمران تعصب کی غضب ناک تلوار لے کر لوگوں کے معاشی قتل میں ہر دم مصروف ہیں۔دلیل کی شمشیر سے اس رپورٹ کو رد کرنے والا فکری گلیڈئیٹر کہاں سے آئے گا؟
فرق صرف اتنا ہے کہ تحقیق کی دنیا میں جانور اور پرندے استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہی کام ہمارے وطن عزیز میں عام آدمی کو استعمال کر کے سرانجام دیا جاتا ہے۔کبھی ہمیں جمہوریت کی مٹھائی بڑے اہتمام سے کھلائی جاتی ہے لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ اس میں باریک شیشہ ملا ہوا ہے۔کبھی ہمیں آپریشن تھیٹر میں لٹا کر شریانوں میں خاکی خون بھر دیا جاتا ہے اور اصرار ہوتا ہے کہ اس سے تمام بیماریاں فوراً ٹھیک ہو جائیں گی۔کبھی ہمیں کسی مصلے میں رسیوں سے پرو دیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ ہر چیز ملے گی،ہر راحت نصیب ہو گی۔بس تھوڑی سی مجبوری ہے کہ ان خوبصورت چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے صرف ''مرنا'' پڑے گا۔ہمارا ملک دراصل ایک عظیم تجربہ گاہ بن چکا ہے جہاں ہر طرح کا سیاستدان،سرکاری افسر،علما،پیر، نجومی اور درویش اپنا اپنا سامان بیچ رہا ہے۔وہ بھی بہت بھاری شرح منافع کے ساتھ!ہمارے عوام اور ان کی جان حکمرانوں کے لیے پرندوں اور جانوروں سے بھی کم تر ہے۔ جذباتی نعروں اور ماضی کی خون گرما دینے والی کہانیاں سُن سُن کر ہماری قوم بے دم ہو چکی ہے۔آپ ہمارے کسی بھی وقت کے حکمرانوں کی باتیں،بیانات اور تقریریں سماعت کریں۔یہ تمام صیغہ مستقبل پر مشتمل نظر آئیں گی۔ہر بیان کا اختتام ''ہوگا''، ''ہوجائیگا''،''کر دینگے'' اور''ہوناچاہیے'' پر ہوگا۔یہ ظالم لوگ عام آدمیوں کو مستقبل کے خواب بیچ کر مسلسل حکومت کر رہے ہیں۔
فنڈ برائے امن(Fund for Peace)امریکا کا ایک تجزیاتی ادارہ ہے۔اس ادارہ کو چلانے کے لیے ایک بورڈ آف ٹرسٹیز موجود ہے جس کے14ارکان ہیں۔اس فنڈ کا چیئرمین جارج اے۔ لیحنر نامی شخص ہے۔یہ یونیورسٹی آف میشی گن کا تعلیم یافتہ ہے۔سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں اس شخص نے دہائیوں کام کیا ہے۔دیگر ارکان جیسے سائوبھان مکی ڈرموٹ،باربرہ ہلاس اور جیری تھامسن وغیرہ بہت مضبوط ساکھ کے افراد ہیں۔ ان لوگوں نے حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کے ساتھ کام کرتے ہوئے اپنی عمریں گزار دیں ہیں۔یہ تمام لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار ہیں۔یہ ادارہ دنیا کے تمام ممالک کا انتہائی باریک بینی سے مسلسل تجزیہ کرتا رہتا ہے۔اس تجزیہ کے مختلف پہلو ہیں۔یہ ماہرین بارہ مختلف زاویوں سے دنیا کے ممالک کو ہمہ وقت پرکھتے رہتے ہیں۔ہر سال یہ ادارہ مدلل اور بے لاگ رپورٹ شایع کرتا ہے۔اس رپورٹ میں ہر ملک کو مختلف نمبر دیے جاتے ہیں۔ جس ملک کے نمبر جتنے کم ہونگیں وہ اتنا ہی کامیاب ہوگا۔
کمزور اور ناکام ممالک زیادہ نمبر حاصل کرتے ہیں۔بارہ پہلوئوں میں چار سماجی(Social)نوعیت کے ہیں۔دو اقتصادی طرز کے ہیں۔چھ کا تعلق سیاسی شعبہ سے ہے۔ان تمام پہلوئوں کو پھر آگے تفصیلی طور پر تقسیم کیا گیا ہے۔یہ جزئیات انتہائی تفصیل اور عرق ریزی سے ترتیب دی گئی ہیں۔کسی عنصر کو تجزیہ کرنے کے لیے رائے یا بیان کا سہارا نہیں لیا جاتا بلکہ ہر ایک کے لیے ٹھوس بنیادوں پر ثبوت حاصل کیے جاتے ہیں۔دنیا کے تمام ملکوں کے ذکر کے بعد ہر ملک کی ترتیب طے کی جاتی ہے۔دنیا کا ناکام ترین ملک صومالیہ قرار دیا گیا ہے۔اس کے 113نمبر ہیں۔اس کے بعد افریقہ کے کچھ ممالک جیسے سوڈان،چاڈ وغیرہ ہیں۔ افغانستان106نمبر لے کر ساتویں نمبر پر ہے۔عراق گیارویں مقام پر کھڑا نظر آتا ہے۔اس کے مجموعی مارکس 103ہیں۔پاکستان 13ویں نمبر پر ہے اور اس کے نمبر102ہیں۔مملکت خداداد پاکستان کے بعد افریقہ کے کئی ممالک ہیں جیسے ایتھوپیا،کینیا،یوگنڈا۔یہ تمام ممالک پاکستان سے بہتر تصور کیے گئے ہیں۔ہم کئی سالوں سے تقریباً ایک ہی جیسی کمزور پوزیشن پر بہت استقامت سے بغیر کسی شرم کے کھڑے ہوئے ہیں۔ناروے،سویڈن اور فن لینڈ دنیا کے مستحکم ترین ممالک گردانے گئے ہیں۔ان کے نمبر بالترتیب21,19,اور18ہیں۔یہ2013کی رپورٹ انٹرنیٹ پر موجود ہے اور کوئی بھی اسے دیکھ سکتا ہے۔
آئیے، ملاحظہ فرمائیے کہ یہ عناصر کون کون سے ہیں۔میں بہت مختصر طریقے سے ان کا احاطہ کرنے کی کوشش کرونگا۔پہلا نکتہ کسی بھی ملک پر اُس کی بڑھتی ہوئی آبادی کا دبائو ہے۔اس میں قدرتی آفات،بیماری،ماحولیات،غذا کی قلت، پانی کا کم ہونا،نوجوان لوگوں کی کثیر تعداد سب کچھ شامل ہیں۔ہمارے ملک میں سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر آبادی کی مستند تعداد کا تعین موجود نہیں ہے۔ہم اپنی آبادی کا شمار قطعاً نہیں کر سکتے۔ہم صرف اندازے سے کام لے کر18سے20کروڑ کی تعداد بتاتے ہیں۔
دوسرا عنصر ہے، مہاجرین اور ملک کے اندر وہ لوگ جو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ان ملکی اور غیر ملکی مہاجرین سے پیدا ہونے والے مسائل گھمبیر ہیں۔ہمارے کسی ادارے کے پاس بھی افغان مہاجرین کی مستند تعداد نہیں ہے۔اکثر افغانی پیسے کا سہارا لے کر پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ حاصل کر چکے ہیں۔اس کے بعد گروہی نفرتیں اور مسائل ہیں۔اس میں فرقہ واریت،مذہبی جذباتیت،لسانی تشدد اور عدم برداشت کا رویہ ہے۔غور کریں تو ہم میں یہ تمام محرکات موجود ہیں۔اب آپ غیر منطقی معاشی ترقی کی جانب نظر دوڑائیے۔غریب اور امیر کے درمیان بڑھتا ہوا فرق،کچی آبادیاں،بنیادی سہولتوں کے حصول میں تفریق یہ سب کچھ معاشی ناانصافی کا نتیجہ ہے۔اگر ہم لاہور،کراچی اور اسلام آباد کو بہت بہتر کر چکے ہیں تو کیا ہمارے ملک کے دوسرے شہر ترقی کے اس سفر میں برابر کے حصہ دار ہیں یا معاملہ کچھ اور ہے!غربت اور معاشی تنزلی اگلا شعبہ ہے۔اس میں حکومتی قرضے،نوجوانوں کے لیے روزگار،قوت خرید اور مہنگائی شامل ہیں۔بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔اس کے بعد سیاسی بنیادوں پر چھ مختلف نکات کا ذکر ہے۔
حکومت کا اخلاقی جواز بے حد اہم ہے۔اس میں کرپشن،الیکشن کی ساکھ،کالادھن،کالے دھندے،حکومت کی گرفت،منشیات کا نظام،حکومتی کشمکش، ہڑتالیں اور حکومت کا کنٹرول وغیرہ سب کچھ شامل ہیں۔اب لوگوں کو میسر بنیادی سہولیات زندگی کی طرف آئیں۔ سڑکیں، پینے کا صاف پانی،تعلیم،بجلی،صحت کا نظام،جرائم کی شرح اور پولیس کی کارکردگی سب سوالیہ نشان ہیں۔ انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی طرف آئیے۔پریس کی آزادی، مذہبی تشدد، آزادی رائے،اس کے اہم جزو ہیں۔سیکیورٹی کے نظام کار پر نظر دوڑائیں تو فوج کا اقتدار پر قبضہ،اندرونی کشمکش، چھوٹے چھوٹے مسلح غیر فوجی دستے اور باغی گروہ شامل کار ہیں۔باہر کی حکومتوں کی دخل اندازی، بیرونی امداد،امن قائم کرنے کے لیے مخصوص دستے اس کا اگلا جزو ہیں۔آخر میں ملک کی اشرافیہ کا رویہ ہے کہ وہ تمام نظام پر اپنے ذاتی فائدہ حاصل کرنے کے لیے کتنی موثر ہوتی ہے۔یہ وہ تمام اجزاء تھے جسکی بنیاد پر فنڈ برائے امن نام کے ادارے نے پاکستان کو ایک ناکام ریاست قرار دیا ہے۔
جب غور سے میں ان اجزاء کو پاکستان کی تصویر میں دیکھتا ہوں تو دل بیٹھ سا جاتا ہے۔میں یقین اور بے یقینی کی پگڈنڈی کے درمیان چلنے کی کوشش شروع کر دیتا ہوں۔ میں پاکستان کو ناکام ریاست نہیں لکھ سکتا!زیادہ سے زیادہ میں اس رپورٹ کو دشمنوں کی سازش قرار دے سکتا ہوں؟ روم کے بادشاہ اپنی ناکام حکومتوں سے توجہ ہٹانے کے لیے مشکل اوقات میں سب سے خطرناک کھیل کا اہتمام کرتے تھے۔گلیڈئیٹر ایک دوسرے کو ہزاروں لوگوں کے سامنے بے رحم طریقے سے قتل کرتے تھے۔لوگ تالیاں بجا بجا کر موت کے اس رقص سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ہمیں بھی کثیر سرکاری رقم خرچ کر کے میلوں ٹھیلوں میں مصروف رکھنے کی بھر پُور کوشش کی جا رہی ہے۔نا انصافی،بے لگام جرائم اور قیامت خیز مہنگائی کی بدولت لوگوں کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسوئوں کو ثابت کیا جا رہا ہے کہ یہ خوشی کے آنسو ہیں۔سرکاری مسخرے جھوٹی تعریف کی قوالیوں میں سرشار ہیں۔آج ہمارے تمام حکمران تعصب کی غضب ناک تلوار لے کر لوگوں کے معاشی قتل میں ہر دم مصروف ہیں۔دلیل کی شمشیر سے اس رپورٹ کو رد کرنے والا فکری گلیڈئیٹر کہاں سے آئے گا؟