جمہوری حکومت کے بد خواہ
خدا خدا کر کے اب تمام فرقوں کو ساتھ لے کر اگر بد امنی کے خاتمے کی کوئی مخلصانہ کوشش کی گئی ہے۔۔۔
بدقسمتی سے ہمارے یہاں ایسے لوگوں کی ہر گز کمی نہیں جو مارشل لا دور میں جمہوریت کے نعرے بلند کرتے ہیں اور جمہوری دور میں مارشل لا کی دعائیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اُن کی دلی خواہش یہی ہوتی ہے کہ جلد سے جلد موجودہ نظامِ حکومت لپیٹ دیا جائے اور ایک دوسرا آمرانہ نظام رائج ہو جائے۔ بے وقت اور بے مقصد تبدیلی کی خواہشوں کی تکمیل کے لیے وہ اچھے بھلے چلتے نظام کو روزانہ الیکٹرانک میڈیا کے طفیل کسی نہ کسی چینل پر بیٹھ کر ایسی ایسی باتیں کرتے رہتے ہیں جیسے ملک تباہی و بربادی کے گہرے گڑھے میں گرا جا رہا ہے اور اُسے اِس تباہی سے صرف مارشل لا کے ذریعے ہی بچایا جا سکتا ہے۔ کچھ لوگ تو جمہوری حکومت کے جانے کی تاریخیں بھی دے ڈالتے ہیںاور روزانہ دن گن گن کر اپنی حسرتوں پر پانی پھیر جانے کا غم لیے ایسی درد بھری کہانیاں سناتے رہتے ہیں جیسے اگر اُن کے خیالوں اور خوابوں کو اُن کی من پسند تعبیر نہ ملی تو وطنِ عزیز خدا نخواستہ دو لخت ہو جائے گا۔ یہی سلسلہ گزشتہ پانچ سال بڑی تندہی اور جانفشانی سے چلتا رہا اور تمام تر خواہشوں او ر کوششوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اُن کی اِن بد خواہیوں کو ناکامیوں سے دوچارکر دیا۔ اب ایک دوسرا دورِ جمہوریت اپنے ابتدائی دنوں کی سنگلاخ چٹانوں سے نبرد آزما ہے تو وہ ایک بار پھر سرگرم ہو کر عسکری قوتوں کو پکار پکار کر اقتدار پر قابض ہونے کے لیے اشتعال دلاتے رہتے ہیں۔
افسوس کا مقام ہے کہ اِن میں ہمارے ایسے ایسے با شعور دانشوراور نقاد بھی اپنی آوازیں ملاتے دکھائی دیتے ہیں جو سابقہ مارشل لا دور میں بد ترین جمہوریت کو بھی ایک اچھا نظام تسلیم کرتے ہوئے اُس کے قصیدے پڑھا کرتے تھے اور مارشل لا کی ایسی لاتعداد برائیاں گنوا کرتے تھے کہ اللہ کی پناہ۔ اب وہی دانشور شب روز کسی نہ کسی چینل پر بیٹھ کر جمہوریت کے لیے منہ بسوڑ کر خرافات بکتے رہتے ہیں۔ قبل از وقت عجیب و غریب پیشن گوئیاں کے یہ خود ساختہ ماہرِ نجوم رواں مہینے یعنی مارچ 2014ء میں وہ موجودہ جمہوریت کے خاتمے کی تمنا کیے بیٹھے تھے ،اب وہ اپنی اِن معصومانہ خواہشوں کو ہر قیمت پر پورا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ جیسے جیسے مارچ کا مہینہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے وہ مزید بے تابی سے اپنی حسرتوں کی تکمیل کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے لگے ہیں۔ ملک میں رائج نظامِ جمہوریت کو روزانہ بُرا بھلا کہہ کر نجانے وہ کس کی خدمت کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بہتر سے بہتر آمرانہ نظام کبھی بھی جمہوریت سے اچھا نہیں ہوا کرتا ہے۔
جمہوریت کے لیے صبح و شام بد دعائیں نکالنے والوں کو ایک عادت سی ہو گئی ہے کہ وہ کسی حال میں خوش نہیں رہتے۔ سابقہ دور میں اگر وہ جمہوریت کو لعن و طعن کر رہے تھے تو اُس کی کو ئی مضبوط وجہ بھی موجود تھی، لیکن موجودہ دور ِ جمہوریت قدرے ایک بہتردورکہلانے کا حق رکھتا ہے۔ موجودہ حکمرانوں کے دامن پر ابھی تک کسی بڑی کرپشن کے داغ نہیں پڑ پائے ہیں۔ وہ بڑی احتیاط کے ساتھ ملک کو اُس کے مالی بحران سے نکالنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اُن کی اِن کوششوں کی بدولت ملک کی معاشی صورتحا ل ایک خطرناک دور سے باہر نکل آئی ہے اور وطنِ عزیز ڈیفالٹ کر جانے کے خدشات سے بچ گیا۔ مالی معاملات سدھارنے کے علاوہ اپوزیشن اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی مراسم کا بھی نہایت خیال رکھا گیااور بلاوجہ ہر زہ سرائی اور بیان بازی سے اجتناب کیا گیا۔ تمام وزراء اورخاص کر وزیرِ اعظم بڑی احتیاط اور تدبر کے ساتھ ساری جماعتوں کو اعتماد میں لے کر ضروری فیصلے کر رہے ہیں۔ وراثت میں ملنے والے بد امنی اور دہشت گردی کے مسائل کو نہایت خوش اسلوبی سے طے کرنے کے لیے وزیرِ اعظم خود چل کر عمران خان کے گھر تشریف لے گئے اور الیکشن کے دنوں کی بد مزگی کو ایک بہتر انداز سے دور کرنے کی کامیاب سعی و کوشش کی۔
ملک میں جاری دس سالہ دہشت گردی کا خاتمہ کوئی آسان کام نہیں ہے، اِس کے لیے جس شعور و دانشمندی، احتیاط اور وسعتِ نظر کی ضرورت ہے وزیر ِاعظم اُسی کی حصول کی خاطرتمام فریقوں کو رضامند کرنے کی کوششوں میں رات دن مصروف ہیں اور کسی بڑے خون خرابہ سے بچنے کی خاطرکامیاب مذاکرات کے ذریعے ملک کے اندر امن قائم کرنا چاہتے ہیں۔ طالبان کے ساتھ نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے اُنکی نیتوں پر شک نہیں کی جا سکتا ہے، نتائج خواہ کچھ بھی ہوں لیکن ایک بات طے ہے کہ وہ اب خلوص ِ دل کے ساتھ ایک عرصے سے جاری خونریز دہشت گردی کا پُر امن خاتمہ چاہتے ہیں۔کراچی میں بھی امن و امان جیسے سنگین مسئلے کو باہم رضامندی سے حل کرنے کی پُر خلوص کوشش کی گئی اور سندھ کی صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر مسئلے کے مثبت حل کے لیے ٹارگٹڈ آپریشن کا فیصلہ کیا گیا۔ ہمارے لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ صبر اور برداشت کے ساتھ اِس آپریشن کی کامیابی کے لیے حکومت کی مخلصانہ کوششوں میں اُس کا ہاتھ بٹائیں نہ کہ بلاجواز تنقید کر کے اُسے ناکام قرار دلوا دیں۔ کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن سے مطلوبہ نتائج ہنوز حاصل نہ ہو سکے لیکن حالات میں بہتری کا سفر درست سمت میں مسلسل رواں دواں ہے۔کراچی کی بد امنی بھی کوئی چند ماہ کی مصیبت نہیں ہے یہ لمبے عرصے پر محیط مختلف مسائل اور وجوہات کا شاخسانہ ہے، اِس میں علاقائی، لسانی اور فرقہ وارانہ فیکٹرز کے علاوہ ملزمان کی سیاسی وابستگی اور حکام کی عدم توجہی ایک بڑا سبب رہا ہے۔
خدا خدا کر کے اب تمام فرقوں کو ساتھ لے کر اگر بد امنی کے خاتمے کی کوئی مخلصانہ کوشش کی گئی ہے تو ہمیں اُس کی کامیابی کے لیے ہمہ وقت دعاگو رہنا چاہیے نہ کہ لوگوں میں مایوسی پھیلا کراُسے نیست و نابود کر دینے کی اپنی خواہشوں کی تسکین کا سامان پیدا کرنا چاہیے۔ ہماری اِس نئی جمہوری حکومت کو ابھی صرف نو ماہ ہی گذرے ہیں۔ کارکردگی کے لحاظ سے وہ کسی بھی بین الاقوامی اُصولوں اور پیمانوں پر پورا اُترتی ہے۔ ملک کو مصائب کے دلدل سے نکال باہر کرنے کے ساتھ ساتھ اُسے ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کا مشکل ترین بیڑہ پار لگانا اب اُس کی ذمے داری ہے ۔ ہمیں جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی بجائے اُس کی مضبوطی اور پائیداری کے لیے اپنی اِس نئی منتخب حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنا ہونگے۔ غیر جمہوری قوتوں کو بلاوجہ مداخلت کی دعوت دے کر ہم وطن عزیز کی کوئی خدمت نہیںکر یں گے بلکہ اُسے غیر مستحکم اور کمزور کر کے گہری کھائی میں دھکیل رہے ہونگے۔ جمہوری دور میں آمریت اور آمرانہ دور میں جمہوریت کے گُن گانے کا یہ غیر ذمے دارانہ سلسلہ اب ہمیں ترک کر دینا ہو گا اور خلوصِ نیت اور نیک ارادوں کے ساتھ صرف جمہوریت کی آبیاری اور کامیابی کی جستجو کرنا ہو گی۔
افسوس کا مقام ہے کہ اِن میں ہمارے ایسے ایسے با شعور دانشوراور نقاد بھی اپنی آوازیں ملاتے دکھائی دیتے ہیں جو سابقہ مارشل لا دور میں بد ترین جمہوریت کو بھی ایک اچھا نظام تسلیم کرتے ہوئے اُس کے قصیدے پڑھا کرتے تھے اور مارشل لا کی ایسی لاتعداد برائیاں گنوا کرتے تھے کہ اللہ کی پناہ۔ اب وہی دانشور شب روز کسی نہ کسی چینل پر بیٹھ کر جمہوریت کے لیے منہ بسوڑ کر خرافات بکتے رہتے ہیں۔ قبل از وقت عجیب و غریب پیشن گوئیاں کے یہ خود ساختہ ماہرِ نجوم رواں مہینے یعنی مارچ 2014ء میں وہ موجودہ جمہوریت کے خاتمے کی تمنا کیے بیٹھے تھے ،اب وہ اپنی اِن معصومانہ خواہشوں کو ہر قیمت پر پورا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ جیسے جیسے مارچ کا مہینہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے وہ مزید بے تابی سے اپنی حسرتوں کی تکمیل کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے لگے ہیں۔ ملک میں رائج نظامِ جمہوریت کو روزانہ بُرا بھلا کہہ کر نجانے وہ کس کی خدمت کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بہتر سے بہتر آمرانہ نظام کبھی بھی جمہوریت سے اچھا نہیں ہوا کرتا ہے۔
جمہوریت کے لیے صبح و شام بد دعائیں نکالنے والوں کو ایک عادت سی ہو گئی ہے کہ وہ کسی حال میں خوش نہیں رہتے۔ سابقہ دور میں اگر وہ جمہوریت کو لعن و طعن کر رہے تھے تو اُس کی کو ئی مضبوط وجہ بھی موجود تھی، لیکن موجودہ دور ِ جمہوریت قدرے ایک بہتردورکہلانے کا حق رکھتا ہے۔ موجودہ حکمرانوں کے دامن پر ابھی تک کسی بڑی کرپشن کے داغ نہیں پڑ پائے ہیں۔ وہ بڑی احتیاط کے ساتھ ملک کو اُس کے مالی بحران سے نکالنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اُن کی اِن کوششوں کی بدولت ملک کی معاشی صورتحا ل ایک خطرناک دور سے باہر نکل آئی ہے اور وطنِ عزیز ڈیفالٹ کر جانے کے خدشات سے بچ گیا۔ مالی معاملات سدھارنے کے علاوہ اپوزیشن اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی مراسم کا بھی نہایت خیال رکھا گیااور بلاوجہ ہر زہ سرائی اور بیان بازی سے اجتناب کیا گیا۔ تمام وزراء اورخاص کر وزیرِ اعظم بڑی احتیاط اور تدبر کے ساتھ ساری جماعتوں کو اعتماد میں لے کر ضروری فیصلے کر رہے ہیں۔ وراثت میں ملنے والے بد امنی اور دہشت گردی کے مسائل کو نہایت خوش اسلوبی سے طے کرنے کے لیے وزیرِ اعظم خود چل کر عمران خان کے گھر تشریف لے گئے اور الیکشن کے دنوں کی بد مزگی کو ایک بہتر انداز سے دور کرنے کی کامیاب سعی و کوشش کی۔
ملک میں جاری دس سالہ دہشت گردی کا خاتمہ کوئی آسان کام نہیں ہے، اِس کے لیے جس شعور و دانشمندی، احتیاط اور وسعتِ نظر کی ضرورت ہے وزیر ِاعظم اُسی کی حصول کی خاطرتمام فریقوں کو رضامند کرنے کی کوششوں میں رات دن مصروف ہیں اور کسی بڑے خون خرابہ سے بچنے کی خاطرکامیاب مذاکرات کے ذریعے ملک کے اندر امن قائم کرنا چاہتے ہیں۔ طالبان کے ساتھ نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے اُنکی نیتوں پر شک نہیں کی جا سکتا ہے، نتائج خواہ کچھ بھی ہوں لیکن ایک بات طے ہے کہ وہ اب خلوص ِ دل کے ساتھ ایک عرصے سے جاری خونریز دہشت گردی کا پُر امن خاتمہ چاہتے ہیں۔کراچی میں بھی امن و امان جیسے سنگین مسئلے کو باہم رضامندی سے حل کرنے کی پُر خلوص کوشش کی گئی اور سندھ کی صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر مسئلے کے مثبت حل کے لیے ٹارگٹڈ آپریشن کا فیصلہ کیا گیا۔ ہمارے لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ صبر اور برداشت کے ساتھ اِس آپریشن کی کامیابی کے لیے حکومت کی مخلصانہ کوششوں میں اُس کا ہاتھ بٹائیں نہ کہ بلاجواز تنقید کر کے اُسے ناکام قرار دلوا دیں۔ کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن سے مطلوبہ نتائج ہنوز حاصل نہ ہو سکے لیکن حالات میں بہتری کا سفر درست سمت میں مسلسل رواں دواں ہے۔کراچی کی بد امنی بھی کوئی چند ماہ کی مصیبت نہیں ہے یہ لمبے عرصے پر محیط مختلف مسائل اور وجوہات کا شاخسانہ ہے، اِس میں علاقائی، لسانی اور فرقہ وارانہ فیکٹرز کے علاوہ ملزمان کی سیاسی وابستگی اور حکام کی عدم توجہی ایک بڑا سبب رہا ہے۔
خدا خدا کر کے اب تمام فرقوں کو ساتھ لے کر اگر بد امنی کے خاتمے کی کوئی مخلصانہ کوشش کی گئی ہے تو ہمیں اُس کی کامیابی کے لیے ہمہ وقت دعاگو رہنا چاہیے نہ کہ لوگوں میں مایوسی پھیلا کراُسے نیست و نابود کر دینے کی اپنی خواہشوں کی تسکین کا سامان پیدا کرنا چاہیے۔ ہماری اِس نئی جمہوری حکومت کو ابھی صرف نو ماہ ہی گذرے ہیں۔ کارکردگی کے لحاظ سے وہ کسی بھی بین الاقوامی اُصولوں اور پیمانوں پر پورا اُترتی ہے۔ ملک کو مصائب کے دلدل سے نکال باہر کرنے کے ساتھ ساتھ اُسے ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کا مشکل ترین بیڑہ پار لگانا اب اُس کی ذمے داری ہے ۔ ہمیں جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی بجائے اُس کی مضبوطی اور پائیداری کے لیے اپنی اِس نئی منتخب حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنا ہونگے۔ غیر جمہوری قوتوں کو بلاوجہ مداخلت کی دعوت دے کر ہم وطن عزیز کی کوئی خدمت نہیںکر یں گے بلکہ اُسے غیر مستحکم اور کمزور کر کے گہری کھائی میں دھکیل رہے ہونگے۔ جمہوری دور میں آمریت اور آمرانہ دور میں جمہوریت کے گُن گانے کا یہ غیر ذمے دارانہ سلسلہ اب ہمیں ترک کر دینا ہو گا اور خلوصِ نیت اور نیک ارادوں کے ساتھ صرف جمہوریت کی آبیاری اور کامیابی کی جستجو کرنا ہو گی۔