شراب شباب اور کتاب
مغرب میں کہتے ہیں کہ مرد کی زندگی تین ڈبلیوز کا تعاقب کرتے ہوئے گزرتی ہے۔ Women، Whiskey، Wealth
وہ پیدائش کے حوالے سے پاکستانی تھا۔ کیوں کہ اس کا جنم پنجاب کے ہریالے اور خوبصورت ضلعے خوشاب کے گاؤں 'ہڈالی' میں ہوا تھا۔ مگراس کی موت بھارت کے دارالحکومت دہلی میں ہوئی۔ اس کی زندگی کے ننانوے برس کس طرح گزرے؟ کھرا سچ بولنے کی وجہ سے شہرت پانے والے اس ادیب نے اپنے ہاتھوں سے لکھے ہوئے ہزاروں صفحات میں بھی اس حقیقت کا مکمل بیان نہیں کیا جو ایک انسان دیکھتا اور جھیلتا رہتا ہے۔ مگر پھر بھی برصغیر میں اس جیسا اور کوئی ادیب، صحافی، کالم نگار اور مورخ پیدا نہیں ہوا جس کے سچ کا چرچہ صحافت کے ہر اس پرچے کی کامیابی بنا جس میں اس نے لکھا۔ وہ حساس اور ذہین انسان جس کی گہری آنکھوں نے نہ صرف ایک ملک میں تین ممالک بنتے دیکھے مگر اس نے اپنی طویل زندگی میں ایسی بہت ساری باتوں کا مشاہدہ بھی کیا جو شاید وہ قلمبند نہیں کرپایا۔ مگر کیا ہڈالی کے سکھ خاندان میں جنم لینے والے اس بچے نے سوچا بھی ہوگا کہ وہ میڈیا اور ادب کے عجیب دنیا میں اپنے بال سفید کرے گا؟ اس نے اپنے کیریئر کا آغاز فارین سروسز سے کیا مگر پروٹوکولز والی پابند زندگی اسے اچھی نہیں لگی۔ اس لیے اس نے صحافت کو اپنایا اور تقسیم ہند کے بعد ایک نئے عہد میں داخل ہونے والے ہر شعبۂ زندگی سے فنون لطیفہ اور میڈیا کو سب سے زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی۔
وہ اس ابھرتی ہوئی لہر پر آخر تک سوار رہے۔ انھوں نے زندگی کو قہقہوں سے لے کر آنسوؤں تک ہر روپ اور ہر رنگ میں دیکھا۔ جب اس نے اپنی مشہور کتاب ''ٹرین ٹو پاکستان'' لکھی تب پڑھنے والوں کو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ تاریخ کے لہولہاں سفر کا مسافر تھا۔ لیکن اس نے اپنے قارئین کو رلایا کم اور ہنسایا بہت! وہ سچا سکھ تھا اس لیے خود نے سکھوں پر بنے ہوئے لطیفوں کو بھی جمع کیا ۔ کیوں کہ ان میں اپنے آپ پر ہنسنے کی ہمت تھی۔ وہ اپنے عقائد میں ایک آزاد خیال انسان تھا۔ مگر وہ سکھ مذہب کے کلچر کے تعلق سے آخر تک جڑے رہے۔ وہ ادیب اور صحافی جنہیں بھارت کا 'پدم بھوشن' ایوارڈ بھی دیا گیا تھا مگر جب اندار گاندھی کی حکومت نے سکھوں کے مشہور عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل پر ''آپریشن بلو اسٹار'' نامی کارروائی کی تو انھوں نے بھارت کا ریاستی ایوارڈ واپس کردیا۔ کیوں کہ اس نے اپنے زندگی کے ہر رشتے کو قبول کیا تھا۔ یہی سبب ہے کہ بہت ماڈرن اور عقائد کے حوالے سے آزاد خیال خوشونت سنگھ نے ساری زندگی شیو نہیں کی۔ سکھ ہونا ان کے لیے نہ تو قابل فخر تھا اور نہ باعث شرمندگی! مگر پھر بھی اس نے سکھ مذہب کی تاریخ پر سب سے مشہور اور بے حد سنجیدہ کتاب History of Sikhs لکھی۔ جس طرح اس کی کتاب ''ٹرین ٹو پاکستان'' سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ صرف ہنسانے والا شخص نہیں تھا، اسی طرح ان کی سکھوں کی تاریخ پر شایع ہونے والی کتابوں سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے شوخ اور طنز و مزاح والی شخصیت میں ایک سنجیدہ محقق کو بھی محفوظ رکھا کرتا تھا۔
ادیب اپنے آپ پر خوامخواہ سنجیدگی کا خول چڑھاکر چلتے ہیں مگر خوشونت سنگھ نے ساری زندگی زندہ دلی سے گزاری مگر پھر بھی ان کی سنجیدگی پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ وہ جب چاہتا ہنستا اور جب چاہتا خاموش ہوجاتا۔ انھوں نے ادب کی روح کو سمجھا اور اپنے دور کے دہشت میں آنے سے عملی طور پر انکار کرتے ہوئے انھوں نے ادب کو لوگوں کو باشعور بنانے اور ان کی دل کو بہلانے کا راستہ سمجھا اور اس راستے پر وہ چھ دہائیوں تک چلتا رہا ۔ اس کے مخالفین اس کے بارے میں بہت کچھ کہتے اور لکھتے رہے مگر وہ ہمیشہ اپنے دل کی آواز سننے اور دنیا کو صدائے دل سنانے میں مصروف رہے۔ ان کو معلوم تھا کہ انسانوں میں دوسرے انسانوں کا خون بہانے کی وحشت ہوتی ہے اور اس وحشت کو وہ بہادری کا نام دیتے ہیں۔ جب کہ اس نے اپنی تحریر سے اس بات کی نفی کی۔ اس نے ثابت کیا کہ سب سے بڑی بہادری سچ کا اظہار کرنے میں ہے۔ اس لیے اس نے سچائی لکھنے کے سلسلے میں کبھی اپنے نام نہاد امیج کی ذرا بھی پروا نہیں کی۔ اس نے جن خواتین سے زندگی کے خوبصورت لمحات بتائے ان کو بہادری اور بے خوفی سے قلمبند کیا۔
ان کی کتابWomen and Men in My Life کو پڑھتے ہوئے مجھے سندھی زبان کے عظیم شاعر شیخ ایاز کی وہ بات یاد آئی جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ ''وہ میری آغوش میں آئی اور مجھ سے پوچھنے لگی کہ تمہاری زندگی میں میرے سوا اور کون کون سی عورتیں آئیں؟ میں نے اس سے کہا کہ میں ٹرین کے ذریعے سکھر جا رہا تھا۔ ہماری گاڑی حیدرآباد اسٹیشن پر رکی۔ ہماری گاڑی کے ساتھ ایک اور ٹرین بھی رک گئی اور اس ٹرین کی کھڑکی سے ایک خوبصورت عورت جھانکنے لگی۔ اور اسے لمحے ہماری ٹرین چلنے لگی۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ وہ عورت میرے دل میں بس گئی اورابھی تک وہیں ہے''۔ خوشونت سنگھ نے زندگی کو صرف جنسیات کے حوالے سے نہیں دیکھا مگر اس کی آزاد خیالی اور بھارت میں دوسرے ادیبوں روایت پسندی نے انھیں مشہور کردیا کہ جنسی موضوعات پر لکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خوشونت سنگھ نے The Company of Women کے نام سے جو ناول تحریر کیا تھا وہ بھارت اور پاکستان میں سب سے زیادہ فروخت ہوا اور پاکستان میں تو پبلشر حضرات نے پیسے کمانے کے چکر میں اس ناول کو کئی کئی ناموں سے شایع کیا۔ اور اس ناول کا میں نے سندھی زبان میں ترجمہ بھی کیا ہے جس کے ایک سال میں دو ایڈیشن شایع ہوئے۔ اور میں سمجھتا تھا ہوں کہ پورنوگرافی کو آرٹ کے ساتھ پیش کرنے میں خوشونت سنگھ باکمال قلم نگار تھے۔
مگر وہ صرف الفاظ سے الجھتے نہیں رہے۔ ان کے دل میں اپنے ملک اور ماحول کو مثبت انداز سے تبدیل کرنے کی ایک تڑپ بھی تھی۔ اور وہ تڑپ اسے سیاست میں لے گئی اور وہ کچھ عرصہ انڈیا کی اسمبلی کے ممبر بھی رہے مگر وہاں سے آکر انھوں نے لکھا کہ ''انڈیا کے پارلیمنٹرین جب اسمبلی میں بیٹھے ہوتے ہیں تب بھی بدبو نکالتے رہتے ہیں اور جب وہ بولتے ہیں تو اس بدبو میں بہت اضافہ ہوجاتا ہے'' مگر سیاست میں وہ زیادہ دیر نہیں رہے اور انھوں نے پھر قلم اور کاغذ کو سنبھالا۔
مغرب میں کہتے ہیں کہ مرد کی زندگی تین ڈبلیوز کا تعاقب کرتے ہوئے گزرتی ہے۔ Women، Whiskey، Wealth یعنی دولت، عورت اور شراب مگر وہ خوشونت سنگھ جو عمر کے آخری حصے میں بھی مے پیتا تھا اور اسکاچ کی تعریف میں انھوں نے کئی کالم بھی لکھے۔ مگر وہ دولت کے پیچھے بھاگنے والا شخص ہر گز نہیں تھا۔ ویسے تو اس شخص پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی مجھ سے کہے کہ خوشونت سنگھ کو تین الفاظ میں بیان کرو تو میں ''شراب، شباب اور کتاب'' کے علاوہ اور کچھ نہیں لکھوں گا۔ اسے عمدہ شراب، عمدہ اور باوقار عورتیں اور عمدہ کتابوں سے عشق تھا۔
وہ ایک آزاد انسان تھا۔ اس نے ساری زندگی وہ لکھا جو اس کی دل نے اس سے لکھنے کو کہا اور اس کے الفاظ لوگوں نے دل سے پڑھے۔ ان کے مخالفین انھیں ادب کا ''ڈرٹی اولڈ مین'' لکھا اور کہا کرتے تھے مگر وہ کسی بھی طور سے ایک شخص نہیں تھے۔ اگر وہ برے انسان ہوتے تو بھارت کی ادیب سعدیہ دہلوی ان کے بارے کیوں کہتی کہ ''خوشونت سنگھ عورت ہوتے تو ہمیشہ امید سے ہی رہتے کیوں کہ انھیں کسی کام کے لیے منع کرنا نہیں آتا تھا''
وہ خوشونت سنگھ جس نے کبھی پاکستان پر اپنا حق نہیں جتایا مگر اپنی جنم بھومی ہونے کے حوالے سے اسے یہ دھرتی بہت پیاری تھی۔ جب بھی وہ پاکستان کی سیاسی سرزمین کو مارشلا کے لانگ بوٹ تلے دیکھتا تو اسے دکھ ہوتا مگر اپنے دکھ کا طنز میں اظہار کرتے ہوئے اس نے لکھا تھا کہ :
''پاکستان دی موجاں ہی موجاں
چاروں پاسے فوجاں ہی فوجاں''
اپنے دل میں پاکستان کے پیار کا چھوٹا سا دیا جلاکر رکھنے والا خوشونت سنگھ ایک بھرپور زندگی گزار کر اس دنیا سے چلا گیا اور اس کی وفات پر بھارت کا افسوس سے بھرا ہوا ردعمل تو سمجھ میں آتا ہے مگر پاکستان کے میڈیا نے ان کے جانے کی خبر کو جس طرح جائز اہمیت نہیں دی، وہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ کیوں کہ خوشونت تو سچے سنگھ تھے اور سیاست میں تو سرحد ہوتی ہے مگر سچ میں تو کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ پھر خوشونت سنگھ کو سرحدوں میں کیوں دیکھا گیا؟
وہ اس ابھرتی ہوئی لہر پر آخر تک سوار رہے۔ انھوں نے زندگی کو قہقہوں سے لے کر آنسوؤں تک ہر روپ اور ہر رنگ میں دیکھا۔ جب اس نے اپنی مشہور کتاب ''ٹرین ٹو پاکستان'' لکھی تب پڑھنے والوں کو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ تاریخ کے لہولہاں سفر کا مسافر تھا۔ لیکن اس نے اپنے قارئین کو رلایا کم اور ہنسایا بہت! وہ سچا سکھ تھا اس لیے خود نے سکھوں پر بنے ہوئے لطیفوں کو بھی جمع کیا ۔ کیوں کہ ان میں اپنے آپ پر ہنسنے کی ہمت تھی۔ وہ اپنے عقائد میں ایک آزاد خیال انسان تھا۔ مگر وہ سکھ مذہب کے کلچر کے تعلق سے آخر تک جڑے رہے۔ وہ ادیب اور صحافی جنہیں بھارت کا 'پدم بھوشن' ایوارڈ بھی دیا گیا تھا مگر جب اندار گاندھی کی حکومت نے سکھوں کے مشہور عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل پر ''آپریشن بلو اسٹار'' نامی کارروائی کی تو انھوں نے بھارت کا ریاستی ایوارڈ واپس کردیا۔ کیوں کہ اس نے اپنے زندگی کے ہر رشتے کو قبول کیا تھا۔ یہی سبب ہے کہ بہت ماڈرن اور عقائد کے حوالے سے آزاد خیال خوشونت سنگھ نے ساری زندگی شیو نہیں کی۔ سکھ ہونا ان کے لیے نہ تو قابل فخر تھا اور نہ باعث شرمندگی! مگر پھر بھی اس نے سکھ مذہب کی تاریخ پر سب سے مشہور اور بے حد سنجیدہ کتاب History of Sikhs لکھی۔ جس طرح اس کی کتاب ''ٹرین ٹو پاکستان'' سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ صرف ہنسانے والا شخص نہیں تھا، اسی طرح ان کی سکھوں کی تاریخ پر شایع ہونے والی کتابوں سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے شوخ اور طنز و مزاح والی شخصیت میں ایک سنجیدہ محقق کو بھی محفوظ رکھا کرتا تھا۔
ادیب اپنے آپ پر خوامخواہ سنجیدگی کا خول چڑھاکر چلتے ہیں مگر خوشونت سنگھ نے ساری زندگی زندہ دلی سے گزاری مگر پھر بھی ان کی سنجیدگی پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ وہ جب چاہتا ہنستا اور جب چاہتا خاموش ہوجاتا۔ انھوں نے ادب کی روح کو سمجھا اور اپنے دور کے دہشت میں آنے سے عملی طور پر انکار کرتے ہوئے انھوں نے ادب کو لوگوں کو باشعور بنانے اور ان کی دل کو بہلانے کا راستہ سمجھا اور اس راستے پر وہ چھ دہائیوں تک چلتا رہا ۔ اس کے مخالفین اس کے بارے میں بہت کچھ کہتے اور لکھتے رہے مگر وہ ہمیشہ اپنے دل کی آواز سننے اور دنیا کو صدائے دل سنانے میں مصروف رہے۔ ان کو معلوم تھا کہ انسانوں میں دوسرے انسانوں کا خون بہانے کی وحشت ہوتی ہے اور اس وحشت کو وہ بہادری کا نام دیتے ہیں۔ جب کہ اس نے اپنی تحریر سے اس بات کی نفی کی۔ اس نے ثابت کیا کہ سب سے بڑی بہادری سچ کا اظہار کرنے میں ہے۔ اس لیے اس نے سچائی لکھنے کے سلسلے میں کبھی اپنے نام نہاد امیج کی ذرا بھی پروا نہیں کی۔ اس نے جن خواتین سے زندگی کے خوبصورت لمحات بتائے ان کو بہادری اور بے خوفی سے قلمبند کیا۔
ان کی کتابWomen and Men in My Life کو پڑھتے ہوئے مجھے سندھی زبان کے عظیم شاعر شیخ ایاز کی وہ بات یاد آئی جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ ''وہ میری آغوش میں آئی اور مجھ سے پوچھنے لگی کہ تمہاری زندگی میں میرے سوا اور کون کون سی عورتیں آئیں؟ میں نے اس سے کہا کہ میں ٹرین کے ذریعے سکھر جا رہا تھا۔ ہماری گاڑی حیدرآباد اسٹیشن پر رکی۔ ہماری گاڑی کے ساتھ ایک اور ٹرین بھی رک گئی اور اس ٹرین کی کھڑکی سے ایک خوبصورت عورت جھانکنے لگی۔ اور اسے لمحے ہماری ٹرین چلنے لگی۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ وہ عورت میرے دل میں بس گئی اورابھی تک وہیں ہے''۔ خوشونت سنگھ نے زندگی کو صرف جنسیات کے حوالے سے نہیں دیکھا مگر اس کی آزاد خیالی اور بھارت میں دوسرے ادیبوں روایت پسندی نے انھیں مشہور کردیا کہ جنسی موضوعات پر لکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خوشونت سنگھ نے The Company of Women کے نام سے جو ناول تحریر کیا تھا وہ بھارت اور پاکستان میں سب سے زیادہ فروخت ہوا اور پاکستان میں تو پبلشر حضرات نے پیسے کمانے کے چکر میں اس ناول کو کئی کئی ناموں سے شایع کیا۔ اور اس ناول کا میں نے سندھی زبان میں ترجمہ بھی کیا ہے جس کے ایک سال میں دو ایڈیشن شایع ہوئے۔ اور میں سمجھتا تھا ہوں کہ پورنوگرافی کو آرٹ کے ساتھ پیش کرنے میں خوشونت سنگھ باکمال قلم نگار تھے۔
مگر وہ صرف الفاظ سے الجھتے نہیں رہے۔ ان کے دل میں اپنے ملک اور ماحول کو مثبت انداز سے تبدیل کرنے کی ایک تڑپ بھی تھی۔ اور وہ تڑپ اسے سیاست میں لے گئی اور وہ کچھ عرصہ انڈیا کی اسمبلی کے ممبر بھی رہے مگر وہاں سے آکر انھوں نے لکھا کہ ''انڈیا کے پارلیمنٹرین جب اسمبلی میں بیٹھے ہوتے ہیں تب بھی بدبو نکالتے رہتے ہیں اور جب وہ بولتے ہیں تو اس بدبو میں بہت اضافہ ہوجاتا ہے'' مگر سیاست میں وہ زیادہ دیر نہیں رہے اور انھوں نے پھر قلم اور کاغذ کو سنبھالا۔
مغرب میں کہتے ہیں کہ مرد کی زندگی تین ڈبلیوز کا تعاقب کرتے ہوئے گزرتی ہے۔ Women، Whiskey، Wealth یعنی دولت، عورت اور شراب مگر وہ خوشونت سنگھ جو عمر کے آخری حصے میں بھی مے پیتا تھا اور اسکاچ کی تعریف میں انھوں نے کئی کالم بھی لکھے۔ مگر وہ دولت کے پیچھے بھاگنے والا شخص ہر گز نہیں تھا۔ ویسے تو اس شخص پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی مجھ سے کہے کہ خوشونت سنگھ کو تین الفاظ میں بیان کرو تو میں ''شراب، شباب اور کتاب'' کے علاوہ اور کچھ نہیں لکھوں گا۔ اسے عمدہ شراب، عمدہ اور باوقار عورتیں اور عمدہ کتابوں سے عشق تھا۔
وہ ایک آزاد انسان تھا۔ اس نے ساری زندگی وہ لکھا جو اس کی دل نے اس سے لکھنے کو کہا اور اس کے الفاظ لوگوں نے دل سے پڑھے۔ ان کے مخالفین انھیں ادب کا ''ڈرٹی اولڈ مین'' لکھا اور کہا کرتے تھے مگر وہ کسی بھی طور سے ایک شخص نہیں تھے۔ اگر وہ برے انسان ہوتے تو بھارت کی ادیب سعدیہ دہلوی ان کے بارے کیوں کہتی کہ ''خوشونت سنگھ عورت ہوتے تو ہمیشہ امید سے ہی رہتے کیوں کہ انھیں کسی کام کے لیے منع کرنا نہیں آتا تھا''
وہ خوشونت سنگھ جس نے کبھی پاکستان پر اپنا حق نہیں جتایا مگر اپنی جنم بھومی ہونے کے حوالے سے اسے یہ دھرتی بہت پیاری تھی۔ جب بھی وہ پاکستان کی سیاسی سرزمین کو مارشلا کے لانگ بوٹ تلے دیکھتا تو اسے دکھ ہوتا مگر اپنے دکھ کا طنز میں اظہار کرتے ہوئے اس نے لکھا تھا کہ :
''پاکستان دی موجاں ہی موجاں
چاروں پاسے فوجاں ہی فوجاں''
اپنے دل میں پاکستان کے پیار کا چھوٹا سا دیا جلاکر رکھنے والا خوشونت سنگھ ایک بھرپور زندگی گزار کر اس دنیا سے چلا گیا اور اس کی وفات پر بھارت کا افسوس سے بھرا ہوا ردعمل تو سمجھ میں آتا ہے مگر پاکستان کے میڈیا نے ان کے جانے کی خبر کو جس طرح جائز اہمیت نہیں دی، وہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ کیوں کہ خوشونت تو سچے سنگھ تھے اور سیاست میں تو سرحد ہوتی ہے مگر سچ میں تو کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ پھر خوشونت سنگھ کو سرحدوں میں کیوں دیکھا گیا؟