ماحولیاتی تحفظ… ایک چیلنج

ابن آدم بھی بڑا عجیب ہے وہ قدرت کے ساتھ رہنا بھی چاہتا ہے اور اس پر ظلم بھی ڈھاتا ہے۔۔۔

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

پرانی روایت ہے کہ صبح سویرے کھلی فضا میں گہرے سانس لینے سے دل کو تسکین اور دماغ کو راحت و تازگی مہیا ہوتی ہے۔ مگر یہ بات صبح کی تازہ ہوا پر صادق آتی ہے جو آج ہمیں میسر نہیں اور اس کی وجہ ہم خود ہی ہیں۔ آج جدید سائنسی دور اور مصروف ترین زندگی میں ماحولیاتی آلودگی ایک بین الاقوامی چیلنج بن چکی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی میں بری، بحری اور فضائی آلودگی بھی شامل ہیں اور ان آلودگیوں کے سبب انسان تو انسان، حیوان، چرند پرند حتیٰ کہ نباتات تک بری طرح متاثر ہو رہے ہیں کیونکہ انھیں ایسی کھلی فضا، صاف ہوا اور تر و تازہ ماحول ہی میسر نہیں جس میں وہ صحت بخش سانسیں لے سکیں۔ آج جس فضا میں ہم سانس لے رہے ہیں اسے مختلف کیمیائی مرکبات نے نہایت آلودہ بنا دیا ہے جس سے کرہ ارض پر زندگی اور زمینی ماحولیات کو مسلسل نقصان پہنچ رہا ہے۔

ابن آدم بھی بڑا عجیب ہے وہ قدرت کے ساتھ رہنا بھی چاہتا ہے اور اس پر ظلم بھی ڈھاتا ہے، اس نے جنگلات کو بے دریغ کاٹنا شروع کیا، دریاؤں سے بے تحاشہ ریت بجری اٹھانی شروع کر دی جس سے دریاؤں کی سطح میں کھارا پانی عود آیا۔ اس نے سمندروں سے کثیر تعداد میں مچھلیاں پکڑ کر انھیں اپنی غذا بنایا جس سے سمندری حیات کا وجود خطرے میں پڑگیا۔ جنگلات کے کٹاؤ سے فضا میں آکسیجن کی کمی ہو گئی۔ فطرت کے حسن کو فیکٹریوں سے اٹھنے اور گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں نے دھندلا دیا اور ساری فضا زہریلی بن گئی۔

سمندروں اور دریاؤں میں فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والے کیمیائی فضلے کی موجودگی نے پانی کو زہر آلود کر دیا۔ فضائی آلودگی نے کرہ فضائی یعنی زمین کی حفاظتی غلاف ''اوزون'' میں سوراخ کر دیا جس سے سورج کی تیز شعاعوں کے ساتھ بالائے بنفشی لہریں بھی سطح زمین تک زیادہ مقدار میں پہنچنے لگیں تو جلد کے سرطان جیسے موذی و مہلک امراض بھی شدت اختیار کرنے لگے۔ادھر بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی اور نتیجتاً بلند تر ہوتی ہوئی عالمی تپش (گلوبل وارمنگ) نے رفتہ رفتہ قطبین پر جمی برف کو پگھلانا شروع کردیا۔ قطبین پر وسیع و عریض برفانی تودوں کی شکل میں میٹھے پانی کے ذخائر پگھل پگھل کر سمندر میں داخل ہو رہے ہیں اور ان کی دبازت اور رقبے دونوں میں بتدریج کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔ اگر ہم نے قدرتی ماحول کے ساتھ ''انسانی ترقی'' کے نام پر سنجیدہ مذاق کا سلسلہ بند نہ کیا تو خدشہ کیا ہے کہ آنے والے پچیس سے تیس سال میں ہم ماحول کو اتنا شدید نقصان پہنچا چکے ہوں گے کہ جس کی تلافی بھی ممکن نہ ہو گی، ہماری اس عاقبت نا اندیشی کے نتیجے میں نہ صرف دوسرے جانداروں بلکہ خود ہمارا نوع انسانی کا وجود اور مستقبل خطرے میں پڑ چکا ہے۔


ہماری فضا و ہوا کو زہریلا و آلودہ کرنے والے عناصر میں گاڑیوں اور کاروں سے نکلنے والے دھوئیں میں شامل مختلف مرکبات کے ساتھ کاربن، سیسے اور سلفر کے مرکبات بھی شامل ہوئے ہیں۔ یہ سیسہ انسانی اعصابی نظام اور ذہن پر برے اثرات مرتب کرتا ہے جب کہ سلفر کے مرکبات تیزابی بارشوں کا سبب بنتے ہیں جس سے انسانوں کے ساتھ ساتھ نباتاتی حیات و حیوانات بھی متاثر ہوتے ہیں زمینی تیزابیت میں اضافہ ہوتا ہے اور پودوں، پھلوں اور فصلوں کی پیداوار اور معیار بھی متاثر ہوتے ہیں۔فیکٹریوں کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں اور ان کے فضلات دریاؤں اور ندیوں میں بہا دیے جاتے ہیں جو پانی کو آلودہ کر رہے ہیں ندیوں میں بہنے والا سیال جتنا شفاف پانی ہوتا ہے اتنا ہی سیاہ ہے فیکٹریوں کے دھوئیں اور فضلات میں ہیلوجن، سلفر اور نائٹروجن کے مرکبات کاربن مونو آکسائیڈ کاربن ڈائی آکسائیڈ، ہائیڈرو کاربن، ہائیڈروجن سلفائیڈ، کرومیم، لیڈ اور کاپر کے علاوہ آرسینک جیسی خطرناک دھات بھی شامل ہوتی ہے جن سے ہماری صحت کو کئی طرح کے نقصانات و بیماریاں، دل کے امراض، اعصابی امراض، ذہنی و جسمانی امراض، پیٹ کی بیماریاں، گردے کی بیماریاں اور کینسر جیسے مہلک امراض لاحق ہوسکتے ہیں۔

گردے اور پیٹ کے امراض خاص طور پر پانی کی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ آلودہ پانی میں موجود مختلف اقسام آرگینز مس اور بیکٹریا کو انسانی جسم میں پرورش کے سازگار حالات میسر آجاتے ہیں جو خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ سمندری پانی میں آلودگی کی ایک وجہ بحری جہازوں سے تیل کا بہنا بھی ہے جو پانی کی اوپری سطح پر پھیل کر پانی میں آکسیجن کے دخول کو روکتا ہے جس سے آبی حیات کو آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے اور بہت سے پرندے اور مچھلیاں وغیرہ اس تیل میں پھنس کر مر جاتے ہیں۔کوڑا کرکٹ، درختوں اور جنگلات کے جلنے سے بھی کئی طرح کی مضر صحت گیسیں اور زہریلے مرکبات ماحول کو مسلسل آلودہ کر رہے ہیں، فصلوں اور دوسری اشیا کو مختلف بیماریوں اور کیڑوں سے بچانے کے لیے متعدد ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے جن کے استعمال سے کارسینو جینک اثرات مرتب ہوتے ہیں یہ ادویات نہ صرف ہماری فضا بلکہ غذا کو بھی آلودہ بناتی ہیں۔ ہمارے ماحولیاتی آلودگی کا ایک اور سبب پولی تھین کے تھیلے بھی ہیں جو تحلیل نہیں ہوتے اور اگر انھیں جلایا جائے تو اس عمل سے ضرر رساں کیمیائی اشیا اور گیسیں کاربن ڈائی آکسائیڈ وغیرہ کی ایک کثیر مقدار خارج ہوتی ہے چنانچہ انھیں جلایا بھی نہیں جاسکتا پھر جو چیزیں ان میں بند ہوتی ہیں وہ سڑتی ہیں جن سے طرح طرح کے جراثیم آرگینزمس پیدا ہوتے ہیں جو مختلف قسم کی بیماریوں اور ماحول کی غیر صحت یابی کے ذمے دار بنتے ہیں۔

ریفریجریشن، پیکیجنگ اور ہمارے زیر استعمال مختلف اقسام کے اسپرے میں ایک خاص قسم کے کیمیائی مرکبات استعمال ہوتے ہیں جنھیں کلورو فلورو کاربن کہا جاتا ہے انھیں مختصراً سی ایف سی بھی کہتے ہیں ان کا ایک اور نام قریٹون بھی ہے۔ جن کے بارے میں سائنس دان 1970ء کے وسط میں واقف ہوئے کہ یہ مرکبات اوزان کی تباہ کاری کا باعث بن رہے ہیں جو ہماری زمین کے گرد ایک تہہ کی صورت میں حفاظتی غلاف ہے اور بالائے بنفشی شعاعوں کو سطح زمین تک پہنچنے سے روکتی ہے۔ سی ایف سی یا کلوروفلورو کاربن فضا میں خوب نفوذ کر جاتے ہیں اور زمین کے گرد موجود ذرات اسٹیریٹو اسفیئر میں پہنچ جاتے ہیں جہاں اوزون پایا جاتا ہے پھر کلورین کا ریڈیکل ''او'' زون کے ساتھ تعامل کرتا ہے جس کے نتیجے میں آکسیجن اور کلورین کا آکسائیڈ حاصل ہوتا ہے اور یوں اوزون کا مالیکیول تباہ ہو جاتا ہے۔

ان تحقیقات کی بنا پر امریکا نے سی ایف سی کے اسپرے پر پابندی لگا دی ہے اور آئسو ہیوٹین وغیرہ کو متبادل کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے ملک میں ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کریں اور ان پر سختی سے عمل کریں، ہمیں چاہیے کہ انفرادی و اجتماعی دونوں سطحوں پر سائنس دانوں کے بتائے ہوئے سائنسی طریقوں، مشوروں اور احتیاطی تدابیر پر عمل کریں۔ ہم نے فطرت سے محبت کے پرانے رشتے کو پھر سے زندہ نہیں کیا تو اس کی تباہی (اور نتیجتاً ہماری اپنی تباہی) کے ذمے دار ہم خود ہوں گے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ نہ صرف نظام شمسی بلکہ ساری معلوم کائنات میں فی الحال زمین ہی وہ واحد سیارہ ہے جہاں زندگی اپنی پوری آب و تاب سے ان گنت رنگوں میں جلوہ افروز ہے۔ انسان بھی اس کا باسی ہے لہٰذا ہمیں اپنے زمینی ماحول کو مناسب قدرتی شکل میں رکھنے کے لیے مناسب معلومات رکھنی چاہیے یہ اس مادر ارض کا حق اور ہمارا فرض ہے۔
Load Next Story