پاکستانی معیشت ایک دیو مالا

محنت کشوں کو جتنی کم اجرت دینی پڑے گی سرمایہ داروں کے منافعے اتنے ہی بڑھتے جائیں گے۔۔۔۔

zb0322-2284142@gmail.com

پاکستان کی معیشت کی حالت کسی یونانی المیے کی طرح طویل اور درد ناک ہوتی جا رہی ہے ۔ ایک جانب قرضوں اور سود کی ادائیگی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ اس کی کمر توڑ رہا ہے تو دوسری جانب کالے دھن کی معیشت اسے اندر سے کھائے چلی جا رہی ہے ۔ سرما یہ دارانہ تجزیہ نگار اور معیشت دان بھی اس معیشت پر افسوس کر رہے ہیں اور ان کے پاس بھی سود کے چنگل میں پھنسی معیشت کو نکالنے کا کوئی حل نہیں رہا ۔ دوسری جانب ملک کے حکمرانوں کی تمام تر ترجیح عالمی مالیاتی اداروں کی کاسہ لیسی اور ان کی سود اور منافعوں کی ہوس کی پیاس بجھانا رہ گیا ہے۔ گزشتہ 67 سال میں کئی حکومتیں بدل چکی ہیں بہت سے وزرا ئے خزانہ اپنی باریاں لگا چکے ہیں لیکن نہ تو محنت کشوں کی حالت بہتر ہوئی ہے اور نہ ہی اس ملک سے قرضوں کا بوجھ اتر سکا ہے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہو تا چلا جا رہا ہے۔

سرکاری معیشت کے ساتھ ساتھ غیر سرکاری معیشت تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے جس کی شرح نمو 9 فیصد سے بھی زائد ہے اور جو پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کی ایک تحقیق کے مطابق 2007-08ء میں غیر سرکاری معیشت کا 91 فیصد تھی۔ اس کے مطابق ملک کا سرکاری جی ڈی پی اصل جی ڈی پی کے نصف سے بھی کم ہے۔ کالے دھن کے ملکی معیشت میں سرایت کر جانے کی وجہ سے جہاں معیشت کا کردار تبدیل ہوا ہے وہاں سیاست اور ریاست کا کردار بھی بہت زیادہ تبدیل ہو چکا ہے۔ اب ریاست اور سیاست پر پیداواری صنعت کے مالکان اور سرمایہ داروں کی نسبت جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردی کی صنعت سے تعلق رکھنے والے افراد کی اجارہ داری کہیں زیادہ ہے۔ یوں کہنا غلط نہ ہو گا کہ

Politics has been criminalized and crimes have been politicalized.

اس کالے دھن کا ایک اظہار پراپرٹی کی قیمتوں میں بھی ہوتا ہے۔ عالمی سطح پر پراپرٹی کی قیمتوں میں زوال کے باوجود پاکستان میں یہ کاروبار آج بھی سب سے بڑا کاروبار ہے جس میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے جو کالے دھن ہی کی مرہون منت ہے۔ اس میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والا ادارہ بگ ڈی ہائوسنگ سوسائٹی کے نام سے بڑے منصوبے شروع کر رہا ہے۔ بینکوں کی منافع خوری بھی اسی کالے دھن کی وجہ سے ۔ سرکاری معیشت کے مطابق اس وقت پاکستان کا کل قرضہ 17356 ارب روپے سے زیادہ ہے جس کے مطابق ہر پاکستانی تقریبا ایک لاکھ روپے کا مقروض ہے۔ موجودہ حکومت کے صرف پہلے تین ماہ میں اس قرضے میں 1128 ارب روپے اضافہ ہوا ہے۔


حزب اختلاف میں رہتے ہوئے موجودہ وزیر خزانہ نے کشکول توڑنے کے نعرے لگائے تھے لیکن اقتدار میں آتے ہی پہلے چند دنوں میں آئی ایم ایف سے بھیک مانگنی شروع کر دی جس کے بعد 6.7 ارب ڈالر کا قرضہ ملا لیکن انتہائی سخت شرائط پر۔ یہ قرضہ 2008ء میں لیے گئے قرضے کا سود ادا کرنے کے لیے لیا گیا ہے ۔ اس سے آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی معیشت کی حالت کتنی نازک ہے۔ پاکستان میں عالمی مالیاتی اداروں اور دوسرے ممالک کو 60 ارب ڈالر سے زیادہ کے بیرونی قرضے ادا کرنے ہیں جو جی ڈی پی کے 62.7 فیصد کی خطر ناک شرح تک پہنچ چکے ہیں جب کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے کل ذخائر اس وقت 3.2 ارب ڈالر کی نحیف سطح پہنچے ہوئے ہیں۔ جون 2013 ء میں یہ ذخائر 11.01 ارب ڈالر تھے یعنی 6 ماہ میں غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں 8 ارب ڈالر کی کمی آئی ہے ۔

پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کے گزشتہ 5سالہ اقتدار میں اتنے قرضے لیے گئے جتنے اس سے پہلے کے 60 سالوں میں نہیں لیے گئے تھے۔ 2007ء میں پاکستان پر کل قرضے 6691 ارب روپے تھے جو جون 2013 ء میں 16228 ارب روپے ہو چکے تھے۔ موجودہ حکومت یہ ریکارڈ توڑنے کے در پر ہے اور اس سے کہیں زیادہ قرضے حاصل کر رہی ہے۔ یہ حالت در اصل ان ہی سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے تسلسل کا نتیجہ ہے جو یہاں کے حکمراں طبقات نے اپنائی ہوئی ہیں اور حکومتوں یا وزرائے خزانہ کی تبدیلی سے ان پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ صرف چہرے بدلتے ہیں جب کہ کشکول وہی رہتا ہے۔ گزشتہ چھ ماہ کا جائزہ لیں تو معیشت کی نازک حالت مزید عیاں ہوتی ہے ۔ پہلے ہی بجٹ میں عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کرنے کے باوجود معاشی زوال میں شدت آئی ہے ۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ 1589 ملین ڈالر ہو گیا ہے جب کہ اس دوران آئی ایم ایف کی جانب سے 1.1 ارب ڈالر قرضے کی مد میں جاری بھی کیا گیا ہے ۔ اس سے پچھلے سال اسی عرصے کے دوران یہ صرف 83 ملین ڈالر تھا۔

کرنٹ اکائونٹ خسارہ مزید بڑھ جاتا اگر اسحق ڈار دسمبر میں مصنوعی اقدامات سے برآمد کرنیوالے تاجروں پر دبائو نہ ڈالتا اور وہ اپنی رقوم جلد بازی میں نہ منگواتے۔ اس وقت حکومت نے تاجروں اور اسٹاک ایکس چینجوں پر شدید دبائو ڈال کر روپے کی قدر کو ڈالر کے مقابلے میں بچایا ہوا ہے جس کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک ڈالر 110 روپے کی سطح پر پہنچ چکا تھا اور روپے کی قدر مزید گرنے کے امکان تھے ۔ سعودی عرب نے پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر دیے، اس کے علاوہ غلط پالیسیوں کے باعث ہی وزیر خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے گورنر کے ما بین اختلافات ابھرے اور اس نے استعفٰی دے دیا۔ یہ اپنی مدت ملازمت پوری ہونے سے پہلے مستعفٰی ہونے والا لگاتار تیسرا اسٹیٹ بینک گورنر ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومتی اعداد شمار اور پالیسیوں میں کتنی مکاری اور فریب ہے کہ ان کے اپنے نمایندے اور مقرر کردہ شخص بھی ایک وقت میں آ کر اطاعت سے انکار کر دیتے ہیں۔

موجودہ مالی سال کے پہلے چھ ماہ جولائی تا دسمبر میں تجارتی خسارہ بھی گزشتہ سال کی نسبت 400 ملین ڈالر زیادہ ہے جب کہ خدمات کے شعبے میں بھی 1383 ملین ڈالر خسارہ ہے جو 2012ء میں دس ملین ڈالر زائد تھا ۔اس کی ایک وجہ امریکا کی جانب سے کولیشن سپورٹ فنڈ روکنا ہے ۔پاکستان کے غلام حکمراں امریکا سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ افغانستان سے 2014 ء میں اپنی فوجوں کے انخلا کے بعد بھی امریکا اس مد میں دیے جانے والی رقم کو جاری رکھے جس پر امریکا نے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ۔ پاکستان کے حکمراں اور مالیاتی ادارے معاشی مسائل کے حل کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری کو اکسیر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ایسی سرمایہ کاری کے لیے اپنے ملک کو پر کشش بنانے کے لیے در حقیقت اپنے ملک میں غریبوں اور بھوکے ننگوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ضروری ہے جسے عرف عام میں سستی لیبر کہتے ہیں۔

محنت کشوں کو جتنی کم اجرت دینی پڑے گی سرمایہ داروں کے منافعے اتنے ہی بڑھتے جائیں گے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری اسٹاک ایکس چینج کی اتار چڑھائو روپے کی قیمت میں کمی بیشی یا در آمد بر آمد میں خسارہ یا منافعے سے شہریوں اور کارکنان کی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑھتا ۔ ہماری اصل تنخواہ روپیہ نہیں ہے بلکہ اس سے خریدے جانے والے اجناس ہیں ۔ جہاں چاول 130 روپے کلو ، آٹا 55 روپے کلو ، دالیں 150 روپے کلو اور تیل 200 روپے کلو ہو ، وہاں معیشت میں بہتری نہیں بلکہ انحطاط پزیری ہے ۔ جہاں عوام بھوک سے تڑپ رہے ہوں اور حکمراں ارب پتی سے کھرب پتی بنتے ہوں وہاں انتخابات سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ وہاں غریب شہریوں اور محنت کشوں کے غیر طبقاتی انقلاب کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے ۔ جہاں نجی ملکیت کا خاتمہ کر کے سارے وسائل کے مالک سارے لوگ ہو ں تب جا کر عوام کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
Load Next Story