تعلیم مافیا کے قبضے میں…

اسکولوں میں بچوں کو کون سی تعلیم دینی چاہیے، معاشرتی تقاضا کیا ہے؟ دین کیا ہے؟ دنیا کیا ہے؟ ۔۔۔۔


تانیہ حبیب March 21, 2014

KARACHI: انسان کی روز اول سے بہتر سے بہتر زندگی گزارنے کی خواہش رہی ہے اور بہتر زندگی گزارنے کے لیے ''تعلیم'' ایک حقیقی وسیلہ ہے۔ یعنی فرد اور معاشرے کے تمام مسائل کا حل تعلیم ہے۔ افلاطون وہ پہلا شخص ہے جس کے خیال کے مطابق ''فرد اور معاشرہ دونوں کی بقا اسی میں ہے کہ فرد کو زیور تعلیم سے سنوار کر اس قابل بنایا جائے کہ وہ اچھائی اور برائی میں تفریق کر سکے۔ کیوں کہ معاشرے میں برائیوں کی وجہ فرد کی لاعلمی ہے۔''

گویا تعلیم کے بغیر معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ اور مختصراً یہ کہ تعلیم کا اہم مقصد معاشرے کو بہتری کی طرف لے جانا ہے اور اسی مقصد کے پیش نظر معاشرے میں اسکولوں کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔ جہاں بچوں کی تربیت کی جاتی ہے، انھیں معاشرے میں مفید شہری بنانے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ بچوں میں بھائی چارگی، انصاف پسندی، حب الوطنی، جیسے جذبات کو فروغ دیا جاتا ہے تا کہ یہ بچے معاشرے کے کارآمد شہری بن سکیں۔ اسکولوں میں بچوں کو کون سی تعلیم دینی چاہیے، معاشرتی تقاضا کیا ہے؟ دین کیا ہے؟ دنیا کیا ہے؟ یہ ساری باتیں اسکولوں میں ہم بذریعہ ''درسی کتب'' کے ذریعے طے کرتے ہیں۔ہماری حکومت کے دیے گئے نصاب کے مطابق ترتیب دے کر ''درسی کتب'' شایع ہوتی ہیں۔ درسی کتب سے مراد ایسی کتابیں ہیں جو طالب علموں کی ذہنی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے لیے لکھی جاتی ہیں۔ ان کے ذریعے ہم یہ طے کرتے ہیں ہمیں کون سے مضامین پڑھنے ہیں، کون سی زبانیں پڑھانی ہیں۔ ان مضامین میں کس طرح کا مواد ہونا چاہیے اور ساتھ ہی یہ بھی طے کیا جاتا ہے کہ کس عمر کے بچے کو کون سے مضامین پڑھانے ہیں مثال کے طور پر جماعت اول کے طالب علم کو پڑھائی جانے والی درسی کتب کسی کالج میں پڑھائی جانے والی کتب سے مختلف ہو نگی۔ ظاہر ہے کہ کالج کے طالب علموں کی ذہنی سطح کے لحاظ سے ان کے مضامین ہوں گے۔

ان درسی کتابوں میں سائنس، معاشرتی علوم، اسلامیات، اخلاقیات جیسے مضامین ہوتے ہیں جو وقت اور حالات دیکھ کر مرتب کیے جاتے ہیں اور ان کا مقصد صرف یہی ہے کہ طالب علم ان کو پڑھ کر نہ صرف اپنی معلومات میں اضافہ کرے بلکہ معاشرے کا کارآمد شہری بھی بنے۔

ہمارے ملک میں رائج نظام کے تحت یہ درسی کتابیں صوبائی ''ٹیکسٹ بک بورڈ'' شایع کرتی ہیں۔ گو کہ آج آزادی کے 67 سال بعد کئی ''تعلیمی پالیسیاں'' دینے کے باوجود آج یہ بورڈ یہ طے نہیں کر پائے کہ ''ذریعہ تعلیم'' کے لیے آخر کون سی زبان ہو؟ یوں تو ہمارا تعلیمی سال ہر صوبے کا الگ الگ ہے۔ جیسے پنجاب بورڈ اگست اور ہمارے سندھ میں اپریل سے شروع ہوتا ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ مارچ کے وسط میں ہمارا بورڈ کچھ کتابوں کو مرحلہ وار ختم کرنے کا سوچ رہا ہے۔ یعنی پبلشنگ کا کام شاید ابھی شروع بھی نہیں ہوا ہے۔ گویا تقریباً 6 مہینے بعد جا کر یہ چھپائی مکمل ہو گی۔ مگر ان کتابوں کی تعداد اسکولوں میں پڑھنے والے طالب علموں کی تعداد سے کہیں کم ہوتی۔ ان کی تعداد کم کیوں ہوتی ہے یہ سمجھ لیں کہ یہ بھی آپس میں کھانے کھلانے کی کہانی ہے۔ ایک لاکھ چھپنے والی کتابیں بچوں تک پہنچتے پہنچتے 25000 کیوں رہ جاتی ہیں، یہ ہے ایک معمہ سمجھنے کا۔ اور اس لیے اپریل تو ہے ہی ''فول'' بنانے کا مہینہ۔ لہٰذا آپ اور ہم جیسے والدین ان کتابوں کی خریداری کے لیے دکانوں پر چکر لگانے پر مجبور ہوتے ہیں۔

ابھی پچھلے سال معاشرتی علوم کی سرکاری کتاب اکتوبر کے مہینے میں مارکیٹ میں آئی۔ گویا اسکول کی کتابوں کی خریداری ایک دن کا کھیل نہیں بلکہ ہفتوں اور مہینوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ خبر یہ ہے کہ ان کتابوں کی اشاعت کی تاخیر کے پیچھے کچھ پردہ نشین پبلشرز کا ہاتھ ہوتا ہے۔ شاید کچھ کمال ان بریف کیسوں کا ہوتا ہے جو بورڈ میں پابندی سے پہنچائے جاتے ہیں تا کہ کتابیں تاخیر سے شایع ہوں اور کتابوں کی عدم دستیابی کی صورت میں مجبوراً اسکولوں میں پرائیویٹ کتابیں پڑھائی جائیں۔ جس طرح کچھ عرصہ پہلے صرف میڈیکل سیلز ریپریزنٹیٹیو ہوتے تھے جو اپنی دواؤں کو ڈاکٹروں سے منظور کروا کر ان کے لیے کمپنی سے مراعات حاصل کرتے تھے اسی طرح اب پرائیویٹ پبلشرز کے سیلز ریپریزنٹیٹیو ہوتے ہیں جو اسکولوں سے اپنی کمپنی کی کتابیں منظور کروا کر اسکولوں کے لیے کمیشن اور گفٹ ارینج کرتے ہیں۔ اسی ساری صورتحال کے پیش نظر اکثر پرائیویٹ اسکولوں نے پرائیویٹ پبلشرز کی کتابوں کا انتخاب کر کے والدین کو انتظار جیسی کوفت اور خواری سے بچا لیا ہے۔ ظاہر ہے سچی یاری ہمیشہ جیب پر بھاری ہوتی ہے۔

ابھی پچھلے سال جب نویں کی فزکس کتاب ناپید ہو گئی تھی تو یہ جان کر ہم حیران رہ گئے کہ اس کو شایع کرنے کا ٹھیکہ ایک پرائیویٹ پبلشر کو ملا ہے جس کی اپنی کتابیں سندھ کے چھوٹے بڑے اسکولوں میں لگی ہوئی ہیں۔ اسی طرح دیگر مضامین بھی ان ہی ''مافیا'' کے قبضے میں ہیں لہٰذا جو چاہتے ہیں وہ مارکیٹ میں لے آتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ اردو بازار میں بیٹھ کر کاروبار کرنے والا پبلشرز اپنی کئی کتابوں کی ڈیمانڈ پوری کر رہا ہے مگر ایک بااختیار بورڈ اپنے سیکڑوں ملازمین کے باوجود کتابوں کی فراہمی کو ممکن نہیں بنا پا رہا ہے کیوں؟ اور یہ ساری بات یہیں نہیں ختم ہو جاتی ہے بلکہ سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ جیسے جیسے تعلیم زوال پذیری کی طرف جا رہی ہے طالب علم کتابوں سے دور بھاگ رہا ہے ویسے ویسے ہم کتابوں کو مشکل سے مشکل بناتے جا رہے ہیں۔ جو ہم نے سائنس اپنی ساتویں جماعت میں پڑھی تھی وہ آج کا تیسری جماعت کا بچہ پڑھ رہا ہے۔

ہمارے 200 دنوں کے بعد موجودہ تعلیمی سال میں ہم نویں کے طالب علم کو کیمسٹری میں 368 صفحات پڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں اسی پاکستان اسٹڈی میں 168 یا ساتویں کو حساب میں 152 صفحات کروا رہے ہیں اگر خالی ہمیں پڑھوانا مقصود ہو تو یہ ممکن ہے مگر اس کے سوال جواب وغیرہ ملا کر کیسے ممکن ہے کہ ہم اسے تسلی سے کروائیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے کتابوں میں سے مخصوص مضامین نکال کر طالب علموں کو پڑھا رہے ہیں۔ یہی وہ وجہ ہے کہ اسکول سے زیادہ ٹیوشن سینٹر آباد ہو رہے ہیں اور اکثر بچوں کے لیے اردو شاعری بور۔ معاشرتی علوم سے بچے لاعلم، میتھ، سائنس انھیں خشک مضامین لگتے ہیں اور ان ہی وجوہات کی بنا پر ہم ''امتحان ہالوں'' میں پولیس اور فوج رکھ کر ٹی وی کیمروں کے چھاپوں کے ساتھ امتحان لے رہے ہوتے ہیں۔

یہاں مجھے ان قابل احترام لوگوں کی قابلیت پر ذرہ برابر بھی شک نہیں جن کی کاوشوں سے یہ درسی کتابیں وجود میں آتی ہیں۔ ان کتابوں کی تحریریں چیخ چیخ کر یہ کہہ رہی ہوتی ہیں کہ مجھے لکھنے والا اپنے شعبہ ہائے علم میں بے مثال ہے۔ مگر یہاں میرا ان سے یہ سوال ہے کہ پڑھنے بھی کیا آپ کی طرح قابل ہے؟ اور اگر یہ آپ سے کمتر ہیں یا کمزور ہیں تو آپ انھیں اپنی بات کس طرح سمجھا سکتے ہیں۔ کیوں کہ ساری بات ہی سمجھ کی ہے۔ اسی سمجھ کو ہم ''علم'' کہتے ہیں۔

بہرحال اسی ساری کھینچا تانی سے جو سب سے متاثر ہو رہا ہے وہ طالب علم ہے جو اپنے وزن سے بڑھ کر کتابوں کا وزن اپنی کمر پر اٹھائے مارا مارا پھر رہا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم کو ایک سماجی ضرورت اور مضمون سمجھا جائے۔ اپنی قومی ضرورت کے مطابق مقاصد و اہداف مقرر کیے جائیں اور ان ہی اہداف و مقاصد کے مطابق نصاب اور درسی کتابوں کی تیاری کی جائے۔

ذہن نشین رہے کہ مختلف النوع اقسام کے نصاب بنا کر اور طبقاتی تعلیم کو برقرار رکھ کر ہم ''ایک قوم'' نہیں بن سکتے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ تعلیم ایک سوشل سائنس ہے جس کا اطلاق تجرباتی نتائج کے بعد بھی ہونا چاہیے نہ کہ میز پر نصاب بنا کر اسے رائج کر دیا جائے۔ اگر ہمیں اپنے ملک کو موجودہ مسائل سے نکالنا ہے تو تعلیم کو درست سمت دینی ہو گی اور اسے پہلی ترجیح قرار دینا ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں