گرانی کی کہانی اور ’’مفتاح SMILE‘‘

مقصد نیک ہو تو منزل آسان ہوجاتی ہے۔


Muhammad Usman Jami October 02, 2022
مقصد نیک ہو تو منزل آسان ہوجاتی ہے۔ فوٹو : فائل

آؤ بچو! سُنو کہانی، لیکن پہلے یہ سُن لو کہ یہ کہانی ''ایک تھا راجا، ایک تھی رانی'' والی نہیں، راجا رانی کے قصے کا اختتام تو ''دونوں مرگئے۔ ختم کہانی'' کے ساتھ کہانی شروع ہوتے ہی ہوجاتا ہے، جو کہانی ہم سْنا رہے ہیں اس میں سارے راجے اور تمام رانیاں صحیح سلامت رہیں گی، البتہ باقی کردار ''قسطوں میں خودکشی کا مزا ہم سے پوچھیے'' کہتے دھیرے دھیرے مر رہے ہوں گے۔

یہ وہ کہانی بھی نہیں جو ''ایک تھا بادشاہ'' سے شروع ہوتی ہے، اس میں تو ایک سے بڑھ کر ایک بادشاہ موجود ہے، نہ یہ ''ایک دفعہ کا ذکر ہے'' یہ تو ہر دفعہ کا ذکر ہے، وہ ذکر جو ہماری زندگی سے دفع ہوکر ہی نہیں دیتا۔

چلیے کہانی شروع کرتے ہیں۔

اسی زمانے کی بات ہے جب ملک پاکستان میں بہت مہنگائی ہوا کرتی تھی۔ اس مہنگائی سے سب ہی پریشان تھے، لیکن کچھ نیک دل، سرتاپا خلوص اور نہایت دیانت دار بزرگ اس سے کچھ زیادہ ہی تنگ اور رنجیدہ تھے۔ یہ بزرگ تھے شہبازشریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن، جو گرانی پر ہر وقت جلتے کُڑھتے رہتے، اور یہ سوچ سوچ کر ملول رہتے کہ اس مہنگائی میں غریبوں کا گزارہ کیسے ہوتا ہوگا؟ جب مفلسوں کا حال دیکھ دیکھ کر اِن کا اپنا بُرا حال ہوجاتا تو وہ قوالی ''مہنگائی مار گئی'' یوں جھوم جھوم کر گاتے کہ عوام کو حال آجاتا تھا۔ آخر غریبوں کے حالات سے بے تاب ہوکر انھوں نے فیصلہ کیا گرانی مٹانے کے لیے حکومت گرادی جائے۔

مقصد نیک ہو تو منزل آسان ہوجاتی ہے۔ جب غریبوں کو یہ پتا چلا کہ یہ حضرات انھیں غربت سے نجات دلانے کے لیے کیا کیا جتن کر رہے ہیں تو ان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، جو زیادہ غریب تھے، ان میں خوشی کی لہر بھی زیادہ دوڑی، جیسے جہانگیرترین اور علیم خان۔ وہ دوڑتے ہوئے آئے اور ان بزرگوں کے قافلے میں شامل ہوگئے۔ ایم کیوایم تو ہے ہی غریبوں کی جماعت، جو عشروں سے غربت مٹانے کے لیے کوشاں ہے، غربت مٹانا نیکی کا کام ہے اور نیکی اپنے گھر سے شروع کرنی چاہیے، سو ایم کیوایم کے اکثر راہ نماؤں نے یہی کیا۔

غریبوں کی ہم درد اس جماعت نے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حکومت کو یوں چھوڑا کہ اسے کہیں کا نہ چھوڑا اور مہنگائی کے خاتمے کے لیے شہبازشریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کی شریک سفر ہوگئی۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ضروری نہیں کہ ضمیر کی آواز اندر سے آئے، بعض اوقات یہ باہر سے بھی آتی ہے، اور فاصلہ زیادہ ہو تو ''ضمیر'' فون کے ذریعے اپنی آواز پہنچاتا ہے۔ یوں ان سب نے مل کر مہنگائی کے خاتمے کے لیے حکومت ختم کردی اور خود اقتدار سنبھال لیا۔

حکومت ختم کرکے آنے والے ان بزرگوں نے اپنے اوپر بنے مقدمات ختم کیے، بیرون ملک جانے پر لگی پابندی ختم کی، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ملنے والا ووٹ کا حق ختم کیا، الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا قانون ختم کیا۔۔۔اتنا کچھ ختم کرنے کے بعد نئے نیک دل حکم رانوں نے سوچا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ پچھلے حکم رانوں کی ہر نشانی ختم کردی جائے، یہ تو بڑا غیرجمہوری رویہ ہوگا، لوگ کیا کہیں گے، دنیا کیا کہے گی، پھر کوئی آثار تو ہوں جو بتا سکیں ''خان آیا تھا''، یہ سب سوچ کر انھوں نے مہنگائی ختم نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

لیکن ایسا نہیں کہ انھوں نے مہنگائی کو کھلا چھوڑ دیا ہو، غریبوں کے ہم درد شریف الطبع حکم راں ایسا کیسے کرسکتے تھے۔ انھوں نے جس مہنگائی کے خلاف اتنا احتجاج کیا تھا اسے کھل کھیلنے کی اجازت کیسے دیتے۔ انھوں نے ''اُس'' مہنگائی سے صاف صاف کہہ دیا،''اے بی گرانی! بہت کرلی تم نے من مانی، تم دوسرے کی لائی ہوئی مہنگائی ہو، ہم جیسے خوددار حکم راں پرائی مہنگائی کیسے اپنا سکتے ہیں! اب سے۔۔۔نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر۔۔۔۔تو جا۔۔۔ کچھ اپنا ٹھکانا کرلے۔۔۔غیر کی گرانی نہیں اپنائیں گے، ہم اپنی مہنگائی خود لائیں گے، یہی ہماری غیرت کا تقاضا ہے۔۔۔اخترشیرانی نے ہمارے بارے ہی میں تو کہا تھا۔۔۔۔فقیری میں بھی اختر غیرتِ شاہانہ رکھتے ہیں۔''

یہ سنتے ہی ''وہ والی'' مہنگائی یہ جا وہ جا، اب جو ہے وہ ''یہ والی'' مہنگائی ہے۔ اگر مہنگائی پہلے جتنی ہی ہوتی تو سابق وزیراعظم ''چور'' کی تکرار کے ساتھ موجودہ حکم رانوں پر ''نقل چور'' کی پھبتی بھی کس رہے ہوتے، اس لیے موجودہ وزیراعظم نے سوچا ''کچھ نیا کر'' اور انھوں نے اپنی والی مہنگائی کی ایسی غزل گائی کہ اس کے سامنے پچھلی حکومت کی مہنگائی چار مصرعوں والی رباعی ہوکر رہ گئی۔

اب یہ وہ گرانی تو ہے نہیں جو ہماری آپ کی طبیعت میں خودبہ خود ہوجاتی ہے، یہ گرانی تو بڑی محنت سے کرنی پڑتی ہے۔ اس مقصد کے لیے وزیراعظم نے مفتاح اسمعٰیل کو چُنا۔ لگتا ہے وزیراعظم ان کے نام کا درست تلفظ نہیں کرپائے، چناں چہ یہ سوچ کر چُن لیا کہ وہ دنیا سے ''مفت'' میں تیل اور دیگر ضروریات لے آئیں گے۔ اب مفتاح اسمعٰیل عوام سے الزام پاتے اور ''لندن'' سے ڈانٹ کھاتے ہیں، پھر یہ چنیدہ وزیرِخزانہ، وزیراعظم کو دیکھ کر گاتے ہیں''چُنی'' بدنام ہوئی ڈارلنگ تیرے لیے۔ مفتاح اسمعٰیل کو گرانی میں روانی، اس روانی کی نگرانی اور روپیہ گرانے کے فرائض سونپے گئے ہیں۔

انھوں نے روپیہ گرانے میں وہ مہارت دکھائی ہے کہ روپیہ سیاست دانوں کے اخلاق کو بھی پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ مہنگائی آسمان پر اور روپیہ پاتال میں پہنچانے کے باوجود انھیں کا جگرا ہے کہ مسکراتے رہتے ہیں۔ ان کی اس مسکراہٹ کے باعث اردو میں انگریزی لگا ایک نیا محاورہ در آیا ہے۔

اب اگر حشر برپا کرکے بھی کوئی مسکرائے تو لوگ اس مسکان کو سفاکانہ مسکراہٹ کے بجائے ''مفتاح Smile'' کہتے ہیں۔ مفتاح اسمعٰیل جب بھی پریس کانفرنس کی نیت سے ٹی وی اسکرین پر مسکراتے ہوئے آتے ہیں، عوام دل پر ہاتھ رکھ کر ان سے پوچھنے لگتے ہیں۔۔۔۔تم اتنا جو مسکرا رہے ہو، کیا ''بم'' ہے جس کو چھپارہے ہو۔ مفتاح اسمعٰیل جس ''شہباز اسپیڈ'' سے مہنگائی کر رہے ہیں لوگ انھیں ''مہنگا اسمعیل'' کہنے لگے ہیں۔ کیوں نہ کہیں، ان کی Smile مونالیزا کی مسکراہٹ سے بھی مہنگی پڑی ہے۔

نئی مہنگائی کی اس کہانی میں یہ بتانا ضروری ہے کہ اس مہنگائی کو حکومت پیار سے ''مشکل فیصلہ'' کہتی ہے، اسے یہ نام اسے اس لیے دیا گیا ہے کہ یہ والی مہنگائی عوام کے لیے فیصلہ کرنا مشکل کرچکی ہے کہ موٹرسائیکل میں پیٹرول بھروائیں یا بسوں میں دھکے کھاکر کوفت اور غصے سے بھرے دفتر جائیں، گھر آئے مہمان کو چائے پر ٹرخائیں یا چھیپا کے دسترخوان پر لے جا بٹھائیں، آٹا خرید کر چینی کو ٹاٹا کریں یا آلو لے اور ٹماٹر چھوڑ کر سالن میں ذائقے کا گھاٹا کریں۔

اسکول کی فیس دیتے ہوئے والدین کی یہ کیفیت ہوتی ہے جیسے اپنے نہیں دشمن کے بچے پڑھارہے ہوں، کہیں سے شادی کا کارڈ آجائے تو یوں خون خشک ہونے لگتا ہے جیسے ''چشم براہ'' جنگ لڑنے کے لیے بلارہے ہوں اور کارڈ کے جواب میں۔۔ چشم براہ خواتین وحضرات کو لکھنے کا دل چاہتا ہے ''بھیا! یہاں زہر کھانے کے پیسے نہیں، تمھاری شادی میں جھپٹ پلٹ کر کھانے کو آنے کے لیے لفافہ اور کرائے کے پیسے کہاں سے لائیں۔۔۔تمھارا طوطا چشم'' بیویاں شوہر کو بجلی کا بل دکھانے سے پہلے ایدھی کی ایمبولینس کو فون کردیتی ہیں، گھروں میں انڈوں کی حفاظت یوں کی جاتی ہے جیسے سونے کے انڈے ہوں، خواتین کو انڈوں کی یوں پاسبانی کرتے دیکھ کر مرغیاں شرمندہ ہوجاتی ہیں، ہم نے تو یہاں تک دیکھا کہ جو برہم ہوکر اولاد سے کہتی تھیں ''دودھ نہیں بخشوں گی'' اب لخت جگر بیکری سے انڈا لاتے ہوئے توڑ بیٹھے تو دھمکی ملتی ہے،''انڈا نہیں بخشوں گی۔''

تو بچو! یہ تھی گرانی کی کہانی، جو ابھی ختم نہیں ہوئی ہے، یقیناً یہ کہانی پڑھ کر آپ کے چہروں پر ''مفتاح Smile'' آگئی ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں