زباں فہمی اردو اور دیگر زبانوں کے مشترک محاورات و ضرب الامثال حصہ آخر
ہمارے یہاں کہتے ہیں، ’’ہونی تو ہوکے رہتی ہے‘‘ یعنی تقدیر کا لکھا تو اَٹل ہے، ہوکر ہی رہے گا
زباں فہمی 157
sohailahmed.siddiqui@live.com
Twitter Handle:@urdu_1046
موضوع پر گفتگو آگے بڑھانے سے قبل یہ وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے کہ محاورے کی مُسلمہ تعریف (کہ وہ کلام یا کلمہ جو اپنے حقیقی کی بجائے مجازی معنوں میں استعمال ہو) اور کہاوت کی مشہور تعریف (یعنی یہ کہ وہ مکمل اور معنی خیز جملہ، عبارت یا شعر یا مصرع جو عوام وخواص کی زبان پر چڑھ گیا ہو، بکثرت مستعمل ہو اور کسی معاملے میں بطور مثال پیش ہو;نیز اکثر اس کے پس منظر میں کوئی حکایت ہو) تو اپنی جگہ ، مگر ہم نے دیکھا کہ کئی کتابوں میں بہت سے محاوروں کو کہاوت لکھا گیا، جس کا سبب غالباً اُن کا بکثرت استعمال ہوسکتا ہے۔
گزشتہ کالم میں ''انگورکھٹّے ہیں'' کی بابت یادداشت سے لکھا تھا۔ اب فرہنگ آصفیہ پیش نظر ہے جو بتاتی ہے کہ پوری مثل یوں ہے:
''آخ تھُو! کھٹّے ہوتے ہیں;(مثل ) یعنی جب کوئی چیز آدمی کے ہاتھ نہیں لگتی تو اُس میں عیب نکال کر، دل کو تسلی دے لیتا ہے۔ فقرہ: گیدڑ سے کہا، انگور کھاؤ گے؟ بولا، 'آخ تھُو! کھٹے ہوتے ہیں''۔ اب کہیں تو کیا کہیں کہ لومڑی ہر جگہ بدنام ہے او رہماری پسندیدہ لغت، گیدڑ کو اس حکایت کا کردار بتاتی ہے۔ مزید تحقیق کی تو پتا چلا کہ ایک گیدڑ ہی پر کیا موقوف، لومڑی بھی کھانے پر آئے تو ممکن ہے کہ انگور بھی کھالے کیونکہ وہ ہمہ خور (Omnivorous) جانور ہے۔
البتہ انگریزی تمثیل "Sour grapes" کے پس منظر میں بیان کردہ حکایت کا کردار وہی ہے۔ گیدڑ کے متعلق مشہورِزمانہ کہاوت ہے کہ جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کا رُخ کرتا ہے۔
اس کے لیے عربی کہاوت میں اونٹ کا استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں: اِذَا جَاء َ اَجَلَ اْلبَعِیرِ حَام حَولَ الْبِئرِ (جب اونٹ کی موت آتی ہے تو کنویں کے گرد گھومتا ہے)۔ یہاں قارئین کرام کی دل چسپی کے لیے عرض کرتا ہوں کہ ہماری زبان میں، لومڑی کی شان میں بھی کہاوت موجود ہے: ''لومڑی کے شکار کو جائیے تو شیر کا سامان کیجئے'' یعنی کام خواہ چھوٹا ہی ہو، اس کے لیے بہت انتظام کرنا چاہیے۔
اردو کے سرائیکی سے تعلق کے بارے میں ایک کالم ، زباں فہمی میں لکھا جاچکا ہے، (کالم نمبر 143، اردو اور سرائیکی کا لسانی تعلق، مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، مؤرخہ بارہ جون دوہزاربائیس :https://www.express.pk/story/2333967/1/)، اب اس زبان کی کہاوتوں سے خوشہ چینی: بچوں کی کہانیوں میں ایک کہانی، بڑی پرانی، ہے تو سرائیکی میں، مگر لگتا ہے کہ کہیں اس سے جُڑی ہوئی یہ کہاوت پہلے بھی سنی پڑھی ہے: ''آ میاں گِدّڑ آ، بیر پکّی پئی'' یعنی آمیاں گیدڑ! بیر پک گئے ہیں۔ اس حکایت میں ایک چور گیدڑ کا کسی بڑھیا کے گھر کے بیر کھانے اور وہاں گند پھیلانے کا ذکر ہے۔
اُسے سزا دینے کے لیے بڑھیا نے گرم تَوا رَکھ دیا جس سے اُس کے کولھے جل گئے اور اُسے بھاگنا پڑا، مابعد، بڑھیا نے جنگل میں اتفاقیہ ملاقات پر، اُسے چھیڑا: آمیاں گیدڑ! بیر پک گئے ہیں، یعنی اب تُو میرے گھر آکر بیر کھالے۔گیدڑ نے اُسے برا بھلا کہا اور جان چھڑائی۔
سرائیکی میں بچوں ہی کی ایک کہانی ''ماما کُکّڑ، ماما کُکّڑ، کیڈڑے وِیندا'' (یعنی ماموں مرغے، مامو ں مرغے ، کہاں جارہے ہو) ہے۔ یہ ہماری اردو کی مشہور ''پودنے اور پودنی کی کہانی'' کی ایک بدلی ہوئی شکل ہے۔ اس حکایت میں مرغا بھنگ پینے کی وجہ سے اپنی اوقات بھول گیا اور بادشاہ سے اُس کی بیٹی کا رشتہ مانگ لیا۔ اُسی پودنے والی کہانی کی طرح اس کہانی میں بھی مختلف جانور اور دریا، مرغے کی بیل گاڑی میں سوار ہوکر، اُس کے ہمراہی بن کر گئے اور انجام کار، بادشاہ کو شکست ہوئی تو شہزادی کی شادی مرغے سے کرنی پڑی۔ یہ کہانی پنجابی والی کہانی سے بھی مختلف ہے۔
(ماقبل خاکسار نے زباں فہمی کے کسی کالم میں عنوان باندھا تھا ، ''کہانی کی کہانی'' ۔ اس میں مذکور کچھ کہانیوں کے بعد، آج ادب اطفال سے کچھ اقتباس )۔ ایک بہت مشہور کہانی ہے، ''کھاچِڑی، کھاچِڑی....اُڑچِڑی، اُڑچِڑی''، یہ بعینہ سرائیکی میں بھی موجود ہے، اس کا عنوان ہے : ''ہُو ہَوَا، ہُو ہَوَا''۔ یہ ساری حکایتیں اپنی جگہ مکمل کہاوت ہی کا درجہ رکھتی ہیں کہ جب مثال دی جائے تو کہانی بھی دُہرائی جاتی ہے اور برمحل ہوتی ہے۔
ہمارے یہاں کہتے ہیں، ''ہونی تو ہوکے رہتی ہے'' یعنی تقدیر کا لکھا تو اَٹل ہے، ہوکر ہی رہے گا، خواہ اُسے روکنے یا اُس سے بچنے کے لیے کچھ بھی کرلو۔ قدیم سرائیکی (ماقبل ِظہورِ اسلام) میں لفظ تقدیر کے لیے ''ہو نونی'' مستعمل تھا جو آج بھی دیہات کے بڑے بوڑھے بولتے ہیں، جیسے ''جو ہونونی ہوندی اے، اوتھی تے رہندی اے''۔ ترجمہ: ''ہونی تو ہوکے رہتی ہے''۔
سرائیکی میں ایک محاورہ ہے، ''مرد اور عورت، ہِکو کپڑا ہن'' یعنی مرد اور عورت ایک ہی کپڑا (یا لباس ) ہیں، یہ وہی بات ہے جو قرآن کریم کی ایک آیت میں بہت دل نشیں انداز میں بیان فرمائی گئی اور فارسی آمیز اُردو میں کہا جاتا ہے،''یک جان، دوقالب''۔ سرائیکی کے فاضل محقق محترم بشیر احمد ظامی ؔبہاول پوری لکھ گئے ہیں کہ اُن کے قیاس کے مطابق، سرائیکی کا لفظ ''ساکھ''، عربی کا ''ساق'' (پنڈلی) ہے ۔ اس زبان میں رشتہ مانگنے کے لیے محاورتاً کہتے ہیں، '' دھی دا ساکھ ڈے'' ۔ اس ضمن میں بازو ڈیون اور ڈھنگ ڈیون بھی مستعمل ہیں۔
اردو کے محاورات اور ضرب الامثال سے مماثل یا مفہوم میں قریب تر مثالیں دیگر عالمی زبانوں کی طرح ہِسپانوی [Spanish] میں بھی موجود ہیں۔ کسی معاملے میں بَروَقت فیصلہ کرنا،''لوہا گرم ہوتو چوٹ لگانا'' کہلاتا ہے۔ اس کے لیے ہِسپانوی میں کہتے ہیں:
Dar en el blanco (دار این ایل بلانکو)۔ اس کا لفظی مطلب ہے، ''سفید میں پھینک دینا''۔ یہاں بلانکو وہی لفظ ہے جو فرینچ میں بلاں[Blanc] (مذکر) اور بلانش[Blanche] (نون غُنّہ کے ساتھ: مؤنث) ہے اور معنی بھی سفید رنگ کے ہیں۔ یہ اسم بہت سے فرینچ مشاہیر کے ناموں میں لقب کے طور پر بھی مستعمل رہا۔ ہِسپانوی کے اس محاورے کا بامحاورہ ترجمہ کیا گیا: ''To hit the bulls eye''۔ (ہدف پر صحیح نشانہ لگانا)، یہی بات ہمارے محاورے میں بہ اندازِدِگر کہی جاتی ہے۔
یہی لفظ Blanc آگے چل کر انگریزی کا Blank بنا جو کئی معانی دیتا ہے، بشمول 'خالی'۔ {لطف کی بات یہ ہے کہ اردو کا محاورہ 'جب لوہا گرم ہو تب چوٹ لگاؤ''، فرہنگ آصفیہ، نوراللغات، فیروزاللغات اور مختصر اردو لغت، (اردولغت بورڈ)، حتیٰ کہ پروفیسر محمد حسن کی ''فرہنگ اردومحاورات'' میں شامل نہیں، البتہ فرہنگ آصفیہ سے معلوم ہوا کہ ٹھنڈا لوہا، گرم لوہے کو کاٹتا ہے}۔ اردو محاورہ ہے،''سونے کا چمچہ (مُنھ میں) لے کر پیدا ہونا'' یعنی معزز خاندان سے تعلق ہونا، انگریزی میں کہتے ہیں:''To be born with a silver spoon -in your mouth'' جبکہ ہِسپانوی میں یہی بات یوں کہی جاتی ہے: Tener sangre azul۔ ہمارے یہاں ہی نہیں، دنیا بھر میں کسی شخص کا حسب نسب، خاندانی، قبائلی تعلق وحیثیت، باعث افتخار سمجھا جاتا ہے۔
انگریزی میں To have blue blood: To belong to a royal or very rich family بھی اسی کے پیش نظر ہے، مگر اِس کے برعکس ہندی میں پرانی مَثَل ہے،''جنم لیو گھر نِیچ کے سب سے بھَیو پَرنام، جو جنم ہوتا گھر اُونچ کے بِسرجات ہرنام'' یعنی پیدا ہوئے گھر، نِیچ کے، سب سے ہوئی عاجزی (اپنے آپ کو سب سے کم تر سمجھا)، جو پیدا ہوتے، گھر اُونچ (بڑے یا امیر) کے، (اُنھیں) بھُول جاتا نامِ خدا۔ انکسار اور خاکساری کے لیے ضرب المثل ہے:
؎ مِٹادے اپنی ہستی کو، اگر کچھ مرتبہ چاہے+ کہ دانہ خاک میں مل کر گُل وگلزار ہوتا ہے۔
اس مضمون میں بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔ علامہ اقبال نے جابجالفظ 'دانہ' پر بہت فکراَنگیز اشعار کہے ہیں جن میں اس کی قدیم وجدید تراکیب مستعمل ہیں۔
اردو میں تیز اور چُست نگاہ کے لیے 'عقاب کی نظر' اور 'عقابی نگاہ' بہت مشہور ہے، اسے انگریزی میں کہا جاتا ہے:''To have an eagle eye''۔ ہِسپانوی میں محاورہ ہے : ''Tener vista de lince''۔ کسی بھی شعبے میں غدّاروں اور نمک حراموں کے لیے 'کالی بھیڑ' کا استعمال عام ہے، ہِسپانوی میں کہتے ہیں: Ser la oveja negraیعنی انگریزی میں To be the black sheep۔ اس محاورے میں لفظ نِیگرا کا استعمال سیاہ فام نسل اور اس کے متعلقات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
اردو میں لومڑی کی چالاکی اور مکّاری بھی ضرب المثل ہے، ہِسپانوی میں بھی اس کا سراغ ملتا ہے۔''Ser más astuto que un zorro'' یعنی لومڑی سے زیادہ ہوشیار ہونا۔ اردو میں ''سونے کا انڈہ دینے والی مرغی'' کی اہمیت سے کون بے خبر ہے ، ہِسپانوی میں کہتے ہیں: Ser la gallina de los huevos de oro یعنی لغوی مطلب وہی اور مفہوم دولت کے حصول کا ذریعہ، البتہ انگریزی میں اس کے لیے Goose(قاز۔ یا ۔ بڑی بطخ) رائج ہے۔
ہندی میں کہاوت ہے: بِن پانی/جل کے مچھلی تڑپَت ہے دن رَین+دِیا جَرت ہے رَین کو جِیا جَلَت ہے دن رَین
(مچھلی بغیر پانی کے، دن رات تڑپتی ہے، چراغ رات کو جلتا ہے، مگر دل تو دن رات جلتا ہے)۔ اردومیں بھی 'پانی کے بغیر مچھلی' مشہور محاورہ ہے۔ بچوں کی مشہور نظم ہے، ''مچھلی جَل کی رانی ہے، جیون اُس کا پانی ہے، ہاتھ لگاؤ ڈرجائے گی، باہر نکالو، مرجائے گی''۔ مگر روسی زبان کا یہ محاورہ مچھلی کے بارے میں، مختلف ہی معلوم ہوا: ''Kak ryba, vytashchennaya iz vody''( Like a fish out of water)۔ اس کے استعمالات میں جابجا کسی کی انفرادیت، اختصاص، نیا پن۔یا۔ نامانوسیت مراد لی جاتی ہے۔
مشہور کہاوت ہے، ''دکھ جھیلیں بی فاختہ اور کوّے انڈے کھائیں''، اس کے لیے عربی مثل بھی دل چسپ ہے: یَاْ کُلُ التّمرُ وَاُرجَمُ بالنّویٰ (کھجور وہ کھارہا ہے اور گُٹھلیاں مجھے ماری جارہی ہیں)۔ عربی سے ایک قدم آگے بڑھیں تو اردو کے دیگر عالمی زبانوں سے تعلق کے ضمن میں ہم عبرانی [Hebrew]کو بھی نظراَنداز نہیں کرسکتے جو صدیوں مُردہ زبان کہلانے کے بعد، اسرائیل کے قیام کے طفیل، نہ صرف زندہ ہوئی، بلکہ بہت تیزی سے ترقی کرکے اہم زبانوں کی صف میں شامل ہوگئی۔
عبرانی میں عموماً امثال کا تعلق الہامی کتاب، تورات سے ہے، خواہ وہ مُحَرّف (یعنی تحریف شدہ) حالت ہی میں ہو، نیز بعض انبیائے علیہم السلام کے صحائف جو بائبل میں شامل ہیں۔ یہاں یہ حقیقت مدِنظر رہے کہ ہمارا موضوع لسان و لسانیات ہے، سو ہم اس بحث میں پڑے بغیر بات کریں گے کہ متن کی صحت کے متعلق کیا تحقیق ہے۔
اردو میں ایسے اشعار اور محاورات وضرب الامثال بڑی تعداد میں موجود ہیں جن سے دنیا کی بے ثباتی، ناپائیداری اور انسان کی عدم حقیقت کے سبب، آخرت کی فکر کا ذکر یا اُس سے احتراز کی تلقین ملتی ہے۔ فارسی میں عظیم مغل تاجدار بابُر کا مصرع ، ''بابُر بہ عیش کوش کہ عالَم دوبارہ نیست'' ضرب المثل ہے اور اُردو میں بھی مستعمل ہے۔ اس مفہوم میں دیگر زبانوں کے محاورے اور کہاوتیں بھی دستیاب ہیں۔ انگریزی میں کہتے ہیں:
''Life is short.''
اس بلیغ جملے کی توضیح وتشریح میں متعدد اَقوال موجود ہیں۔ اگر بابُر کا مصرع ذہن میں رکھیں تو یہ تشریح بالکل مماثل لگتی ہے:
Life is short, so enjoy it to the fullest. [John Walters]
عبرانی میں حضر ت یسعیاہ علیہ السلام (Isaiah)کے صحیفے سے ماخوذ، یہ عبارت، بہ اعتبار مفہوم قریب محسوس ہوتی ہے:
اخول وے شاتو کی مخر نامُوت (Akhol ve-shato ki makhar namut.) یعنی کھاؤ پیو، کہ، کل ہمیں مرجانا ہے۔
["Eat and drink; for tomorrow we shall die."]
اردو میں کسی کی عیب جُوئی کرنے والے کو تنبیہ کے طور پر کہا جاتا ہے، ''اپنے گریبان میں جھانکو''۔ بہادرشاہ ظفرؔ کا یہ شعر حسب ِحال اور ضرب المثل ہے:
نہ تھی حال کی جب ہمیں خبر، رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر، تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا
انگریزی میں اس کے مقابل قول ہے:"What you spot is what you've got."
اس کی تشریح میں قدیم یونانی مفکر اَبَک تی تُوس [Epictetus] کا قول پیش کیا جاتا ہے :
''جب تم کسی شخص کی خرابیوں پر بَرہم ہوتے ہو تو ذرا اپنی طرف رجوع کرو اور اپنی خرابیوں کا جائزہ لو''۔
["When you are offended at any man's faults, turn to yourself and study your own faults".]
عبرانی میں کہتے ہیں کہ جو شخص دوسرے کو رَد کرتا ہے، درحقیقت اپنے آپ کو رَد کرتا ہے:
کول ہا۔پوسیل بی۔مُومو پوسیل
Kol ha-posel be-mumo posel.
یہ قول ماخوذ ہے، یہودی مذہب کی اہم کتاب ''تالمُود'' سے ۔
حکیم بُو علی سینا سے منسوب قول اردو میں بہت مشہور ہے :'' اتنا کھاؤ جتنا، ہضم کرسکو''۔انگریزی میں کہا جاتا ہے:
''Don't bite off more than you can chew''.
اس کے مقابل تالمُود کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
تفاستا میرُو بیہ لو تفاستا:Tafasta merubeh lo tafasta.
مفہوم قدرے مختلف معلوم ہوتا ہے: ''اگر تم بہت زیادہ ہتھیا لوگے تو سمجھو کہ تم نے کچھ بھی حاصل نہیں کیا''۔
مشہور اُردو کہاوت ہے، ''جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے'' یعنی جھوٹ زیادہ دیر چلتا نہیں اور سچ آخر کار عیاں ہو ہی جاتا ہے۔ اسے مختلف زبانوں میں مختلف طرح بیان کیا گیا۔ انگریزی میں ایک مُبہم سی کہاوت ہے:
''Liar, liar, pants on fire''.
اس کی تفصیلی بحث سے قطع نظر، عبرانی میں اس کے مقابل یا مماثل (یا مفہوم کے لحاظ سے قریب) ایک دل چسپ عوامی کہاوت ہے:
ال روش ہا۔گاناف بوئر ہا۔کووا:'Al rosh ha-ganav bo'er ha-kova'.
یعنی چور کے سر پر سجی ہوئی ٹوپی جل جاتی ہے: "The hat burns atop the thief's head."
دیکھا جائے تو اس کا موازنہ کسی حد تک ''چور کی ڈاڑھی میں تنکا'' سے بھی ہوسکتا ہے۔
یہ موضوع کسی سمندر جیسی گہرائی کا حامل ہے۔ حیرت ہے کہ کسی نے اس پر ابھی تک تحقیق نہیں کی۔ خاکسار نے اپنی سی سعی کی، ہرچند کہ ابھی بہت سی زبانوں (بشمول فرینچ، سواحلی، رُوسی، وسط ایشیائی ) سے تعلق کا پہلو ہنوز باقی ہے۔
مآخذ
ا)۔ نقوش 'رسول نمبر' مختلف جلدیں۔
ب)۔ ''الفاروق'' از علامہ شبلی نعمانی۔
ج)۔ ''ساندل بارل۔ وسطی پنجاب کی کہانی، لوک روایات کی زبانی ازاحمد غزالی۔فیروز سنز: 1988ء۔
د)۔ سرائیکی لو ک کہانیاں، مؤلفہ، مترجمہ ومرتبہ: بشیر احمد ظامیؔ بہاول پوری، ناشر: اردو اکادمی ، بہاول پور۔ 1984ء۔
ہ)۔ مخزن ِ اخلاق از رحمت اللہ سبحانی لودیانوی، لاہور۔ اٹھارویں اشاعت: 1961ء
و)۔ اردو میں قرآن اورحدیث کے محاورات از پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفی خاں، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد: 1980ء۔
ز)۔ ''دربَرگِ لالہ وگُل: کلام اقبالؔ میں مطالعہ نباتات'' (جلد اوّل) از افضل رضوی (مقیم آسٹریلیا)
ح)۔ نوراللغات ط)۔ فرہنگ آصفیہ ی)۔ مختصر اُردولغت (اردولغت بورڈ)
ک)۔ آموزگارِ فارسی از پروفیسر حضور احمد سلیم ل)۔ فرہنگ ِ عصریہ (اردو۔فارسی) ازپروفیسر حافظ نذر احمد۔
م)۔ حسن اللغات (فارسی اردو) ن)۔ المنجد عربی اردو لغت۔ اشاعت یازدہم، دارالاشاعت: 1994ء ۔
س)۔ مصباح اللغات (عربی اردو)
ع)۔ مختلف ویب سائٹس۔
1-Hunza Proverbs by Etienne Tiffou 1980 : 2-Al-Mawrid: A modern English- Arabic Dictionary
]''المورد، القاموس انکلیزی ۔عربی'' -منیر بعلبکی، لُبنان[
3-English-Urdu Dictionary: National Language Authority
sohailahmed.siddiqui@live.com
Twitter Handle:@urdu_1046
موضوع پر گفتگو آگے بڑھانے سے قبل یہ وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے کہ محاورے کی مُسلمہ تعریف (کہ وہ کلام یا کلمہ جو اپنے حقیقی کی بجائے مجازی معنوں میں استعمال ہو) اور کہاوت کی مشہور تعریف (یعنی یہ کہ وہ مکمل اور معنی خیز جملہ، عبارت یا شعر یا مصرع جو عوام وخواص کی زبان پر چڑھ گیا ہو، بکثرت مستعمل ہو اور کسی معاملے میں بطور مثال پیش ہو;نیز اکثر اس کے پس منظر میں کوئی حکایت ہو) تو اپنی جگہ ، مگر ہم نے دیکھا کہ کئی کتابوں میں بہت سے محاوروں کو کہاوت لکھا گیا، جس کا سبب غالباً اُن کا بکثرت استعمال ہوسکتا ہے۔
گزشتہ کالم میں ''انگورکھٹّے ہیں'' کی بابت یادداشت سے لکھا تھا۔ اب فرہنگ آصفیہ پیش نظر ہے جو بتاتی ہے کہ پوری مثل یوں ہے:
''آخ تھُو! کھٹّے ہوتے ہیں;(مثل ) یعنی جب کوئی چیز آدمی کے ہاتھ نہیں لگتی تو اُس میں عیب نکال کر، دل کو تسلی دے لیتا ہے۔ فقرہ: گیدڑ سے کہا، انگور کھاؤ گے؟ بولا، 'آخ تھُو! کھٹے ہوتے ہیں''۔ اب کہیں تو کیا کہیں کہ لومڑی ہر جگہ بدنام ہے او رہماری پسندیدہ لغت، گیدڑ کو اس حکایت کا کردار بتاتی ہے۔ مزید تحقیق کی تو پتا چلا کہ ایک گیدڑ ہی پر کیا موقوف، لومڑی بھی کھانے پر آئے تو ممکن ہے کہ انگور بھی کھالے کیونکہ وہ ہمہ خور (Omnivorous) جانور ہے۔
البتہ انگریزی تمثیل "Sour grapes" کے پس منظر میں بیان کردہ حکایت کا کردار وہی ہے۔ گیدڑ کے متعلق مشہورِزمانہ کہاوت ہے کہ جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کا رُخ کرتا ہے۔
اس کے لیے عربی کہاوت میں اونٹ کا استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں: اِذَا جَاء َ اَجَلَ اْلبَعِیرِ حَام حَولَ الْبِئرِ (جب اونٹ کی موت آتی ہے تو کنویں کے گرد گھومتا ہے)۔ یہاں قارئین کرام کی دل چسپی کے لیے عرض کرتا ہوں کہ ہماری زبان میں، لومڑی کی شان میں بھی کہاوت موجود ہے: ''لومڑی کے شکار کو جائیے تو شیر کا سامان کیجئے'' یعنی کام خواہ چھوٹا ہی ہو، اس کے لیے بہت انتظام کرنا چاہیے۔
اردو کے سرائیکی سے تعلق کے بارے میں ایک کالم ، زباں فہمی میں لکھا جاچکا ہے، (کالم نمبر 143، اردو اور سرائیکی کا لسانی تعلق، مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، مؤرخہ بارہ جون دوہزاربائیس :https://www.express.pk/story/2333967/1/)، اب اس زبان کی کہاوتوں سے خوشہ چینی: بچوں کی کہانیوں میں ایک کہانی، بڑی پرانی، ہے تو سرائیکی میں، مگر لگتا ہے کہ کہیں اس سے جُڑی ہوئی یہ کہاوت پہلے بھی سنی پڑھی ہے: ''آ میاں گِدّڑ آ، بیر پکّی پئی'' یعنی آمیاں گیدڑ! بیر پک گئے ہیں۔ اس حکایت میں ایک چور گیدڑ کا کسی بڑھیا کے گھر کے بیر کھانے اور وہاں گند پھیلانے کا ذکر ہے۔
اُسے سزا دینے کے لیے بڑھیا نے گرم تَوا رَکھ دیا جس سے اُس کے کولھے جل گئے اور اُسے بھاگنا پڑا، مابعد، بڑھیا نے جنگل میں اتفاقیہ ملاقات پر، اُسے چھیڑا: آمیاں گیدڑ! بیر پک گئے ہیں، یعنی اب تُو میرے گھر آکر بیر کھالے۔گیدڑ نے اُسے برا بھلا کہا اور جان چھڑائی۔
سرائیکی میں بچوں ہی کی ایک کہانی ''ماما کُکّڑ، ماما کُکّڑ، کیڈڑے وِیندا'' (یعنی ماموں مرغے، مامو ں مرغے ، کہاں جارہے ہو) ہے۔ یہ ہماری اردو کی مشہور ''پودنے اور پودنی کی کہانی'' کی ایک بدلی ہوئی شکل ہے۔ اس حکایت میں مرغا بھنگ پینے کی وجہ سے اپنی اوقات بھول گیا اور بادشاہ سے اُس کی بیٹی کا رشتہ مانگ لیا۔ اُسی پودنے والی کہانی کی طرح اس کہانی میں بھی مختلف جانور اور دریا، مرغے کی بیل گاڑی میں سوار ہوکر، اُس کے ہمراہی بن کر گئے اور انجام کار، بادشاہ کو شکست ہوئی تو شہزادی کی شادی مرغے سے کرنی پڑی۔ یہ کہانی پنجابی والی کہانی سے بھی مختلف ہے۔
(ماقبل خاکسار نے زباں فہمی کے کسی کالم میں عنوان باندھا تھا ، ''کہانی کی کہانی'' ۔ اس میں مذکور کچھ کہانیوں کے بعد، آج ادب اطفال سے کچھ اقتباس )۔ ایک بہت مشہور کہانی ہے، ''کھاچِڑی، کھاچِڑی....اُڑچِڑی، اُڑچِڑی''، یہ بعینہ سرائیکی میں بھی موجود ہے، اس کا عنوان ہے : ''ہُو ہَوَا، ہُو ہَوَا''۔ یہ ساری حکایتیں اپنی جگہ مکمل کہاوت ہی کا درجہ رکھتی ہیں کہ جب مثال دی جائے تو کہانی بھی دُہرائی جاتی ہے اور برمحل ہوتی ہے۔
ہمارے یہاں کہتے ہیں، ''ہونی تو ہوکے رہتی ہے'' یعنی تقدیر کا لکھا تو اَٹل ہے، ہوکر ہی رہے گا، خواہ اُسے روکنے یا اُس سے بچنے کے لیے کچھ بھی کرلو۔ قدیم سرائیکی (ماقبل ِظہورِ اسلام) میں لفظ تقدیر کے لیے ''ہو نونی'' مستعمل تھا جو آج بھی دیہات کے بڑے بوڑھے بولتے ہیں، جیسے ''جو ہونونی ہوندی اے، اوتھی تے رہندی اے''۔ ترجمہ: ''ہونی تو ہوکے رہتی ہے''۔
سرائیکی میں ایک محاورہ ہے، ''مرد اور عورت، ہِکو کپڑا ہن'' یعنی مرد اور عورت ایک ہی کپڑا (یا لباس ) ہیں، یہ وہی بات ہے جو قرآن کریم کی ایک آیت میں بہت دل نشیں انداز میں بیان فرمائی گئی اور فارسی آمیز اُردو میں کہا جاتا ہے،''یک جان، دوقالب''۔ سرائیکی کے فاضل محقق محترم بشیر احمد ظامی ؔبہاول پوری لکھ گئے ہیں کہ اُن کے قیاس کے مطابق، سرائیکی کا لفظ ''ساکھ''، عربی کا ''ساق'' (پنڈلی) ہے ۔ اس زبان میں رشتہ مانگنے کے لیے محاورتاً کہتے ہیں، '' دھی دا ساکھ ڈے'' ۔ اس ضمن میں بازو ڈیون اور ڈھنگ ڈیون بھی مستعمل ہیں۔
اردو کے محاورات اور ضرب الامثال سے مماثل یا مفہوم میں قریب تر مثالیں دیگر عالمی زبانوں کی طرح ہِسپانوی [Spanish] میں بھی موجود ہیں۔ کسی معاملے میں بَروَقت فیصلہ کرنا،''لوہا گرم ہوتو چوٹ لگانا'' کہلاتا ہے۔ اس کے لیے ہِسپانوی میں کہتے ہیں:
Dar en el blanco (دار این ایل بلانکو)۔ اس کا لفظی مطلب ہے، ''سفید میں پھینک دینا''۔ یہاں بلانکو وہی لفظ ہے جو فرینچ میں بلاں[Blanc] (مذکر) اور بلانش[Blanche] (نون غُنّہ کے ساتھ: مؤنث) ہے اور معنی بھی سفید رنگ کے ہیں۔ یہ اسم بہت سے فرینچ مشاہیر کے ناموں میں لقب کے طور پر بھی مستعمل رہا۔ ہِسپانوی کے اس محاورے کا بامحاورہ ترجمہ کیا گیا: ''To hit the bulls eye''۔ (ہدف پر صحیح نشانہ لگانا)، یہی بات ہمارے محاورے میں بہ اندازِدِگر کہی جاتی ہے۔
یہی لفظ Blanc آگے چل کر انگریزی کا Blank بنا جو کئی معانی دیتا ہے، بشمول 'خالی'۔ {لطف کی بات یہ ہے کہ اردو کا محاورہ 'جب لوہا گرم ہو تب چوٹ لگاؤ''، فرہنگ آصفیہ، نوراللغات، فیروزاللغات اور مختصر اردو لغت، (اردولغت بورڈ)، حتیٰ کہ پروفیسر محمد حسن کی ''فرہنگ اردومحاورات'' میں شامل نہیں، البتہ فرہنگ آصفیہ سے معلوم ہوا کہ ٹھنڈا لوہا، گرم لوہے کو کاٹتا ہے}۔ اردو محاورہ ہے،''سونے کا چمچہ (مُنھ میں) لے کر پیدا ہونا'' یعنی معزز خاندان سے تعلق ہونا، انگریزی میں کہتے ہیں:''To be born with a silver spoon -in your mouth'' جبکہ ہِسپانوی میں یہی بات یوں کہی جاتی ہے: Tener sangre azul۔ ہمارے یہاں ہی نہیں، دنیا بھر میں کسی شخص کا حسب نسب، خاندانی، قبائلی تعلق وحیثیت، باعث افتخار سمجھا جاتا ہے۔
انگریزی میں To have blue blood: To belong to a royal or very rich family بھی اسی کے پیش نظر ہے، مگر اِس کے برعکس ہندی میں پرانی مَثَل ہے،''جنم لیو گھر نِیچ کے سب سے بھَیو پَرنام، جو جنم ہوتا گھر اُونچ کے بِسرجات ہرنام'' یعنی پیدا ہوئے گھر، نِیچ کے، سب سے ہوئی عاجزی (اپنے آپ کو سب سے کم تر سمجھا)، جو پیدا ہوتے، گھر اُونچ (بڑے یا امیر) کے، (اُنھیں) بھُول جاتا نامِ خدا۔ انکسار اور خاکساری کے لیے ضرب المثل ہے:
؎ مِٹادے اپنی ہستی کو، اگر کچھ مرتبہ چاہے+ کہ دانہ خاک میں مل کر گُل وگلزار ہوتا ہے۔
اس مضمون میں بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔ علامہ اقبال نے جابجالفظ 'دانہ' پر بہت فکراَنگیز اشعار کہے ہیں جن میں اس کی قدیم وجدید تراکیب مستعمل ہیں۔
اردو میں تیز اور چُست نگاہ کے لیے 'عقاب کی نظر' اور 'عقابی نگاہ' بہت مشہور ہے، اسے انگریزی میں کہا جاتا ہے:''To have an eagle eye''۔ ہِسپانوی میں محاورہ ہے : ''Tener vista de lince''۔ کسی بھی شعبے میں غدّاروں اور نمک حراموں کے لیے 'کالی بھیڑ' کا استعمال عام ہے، ہِسپانوی میں کہتے ہیں: Ser la oveja negraیعنی انگریزی میں To be the black sheep۔ اس محاورے میں لفظ نِیگرا کا استعمال سیاہ فام نسل اور اس کے متعلقات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
اردو میں لومڑی کی چالاکی اور مکّاری بھی ضرب المثل ہے، ہِسپانوی میں بھی اس کا سراغ ملتا ہے۔''Ser más astuto que un zorro'' یعنی لومڑی سے زیادہ ہوشیار ہونا۔ اردو میں ''سونے کا انڈہ دینے والی مرغی'' کی اہمیت سے کون بے خبر ہے ، ہِسپانوی میں کہتے ہیں: Ser la gallina de los huevos de oro یعنی لغوی مطلب وہی اور مفہوم دولت کے حصول کا ذریعہ، البتہ انگریزی میں اس کے لیے Goose(قاز۔ یا ۔ بڑی بطخ) رائج ہے۔
ہندی میں کہاوت ہے: بِن پانی/جل کے مچھلی تڑپَت ہے دن رَین+دِیا جَرت ہے رَین کو جِیا جَلَت ہے دن رَین
(مچھلی بغیر پانی کے، دن رات تڑپتی ہے، چراغ رات کو جلتا ہے، مگر دل تو دن رات جلتا ہے)۔ اردومیں بھی 'پانی کے بغیر مچھلی' مشہور محاورہ ہے۔ بچوں کی مشہور نظم ہے، ''مچھلی جَل کی رانی ہے، جیون اُس کا پانی ہے، ہاتھ لگاؤ ڈرجائے گی، باہر نکالو، مرجائے گی''۔ مگر روسی زبان کا یہ محاورہ مچھلی کے بارے میں، مختلف ہی معلوم ہوا: ''Kak ryba, vytashchennaya iz vody''( Like a fish out of water)۔ اس کے استعمالات میں جابجا کسی کی انفرادیت، اختصاص، نیا پن۔یا۔ نامانوسیت مراد لی جاتی ہے۔
مشہور کہاوت ہے، ''دکھ جھیلیں بی فاختہ اور کوّے انڈے کھائیں''، اس کے لیے عربی مثل بھی دل چسپ ہے: یَاْ کُلُ التّمرُ وَاُرجَمُ بالنّویٰ (کھجور وہ کھارہا ہے اور گُٹھلیاں مجھے ماری جارہی ہیں)۔ عربی سے ایک قدم آگے بڑھیں تو اردو کے دیگر عالمی زبانوں سے تعلق کے ضمن میں ہم عبرانی [Hebrew]کو بھی نظراَنداز نہیں کرسکتے جو صدیوں مُردہ زبان کہلانے کے بعد، اسرائیل کے قیام کے طفیل، نہ صرف زندہ ہوئی، بلکہ بہت تیزی سے ترقی کرکے اہم زبانوں کی صف میں شامل ہوگئی۔
عبرانی میں عموماً امثال کا تعلق الہامی کتاب، تورات سے ہے، خواہ وہ مُحَرّف (یعنی تحریف شدہ) حالت ہی میں ہو، نیز بعض انبیائے علیہم السلام کے صحائف جو بائبل میں شامل ہیں۔ یہاں یہ حقیقت مدِنظر رہے کہ ہمارا موضوع لسان و لسانیات ہے، سو ہم اس بحث میں پڑے بغیر بات کریں گے کہ متن کی صحت کے متعلق کیا تحقیق ہے۔
اردو میں ایسے اشعار اور محاورات وضرب الامثال بڑی تعداد میں موجود ہیں جن سے دنیا کی بے ثباتی، ناپائیداری اور انسان کی عدم حقیقت کے سبب، آخرت کی فکر کا ذکر یا اُس سے احتراز کی تلقین ملتی ہے۔ فارسی میں عظیم مغل تاجدار بابُر کا مصرع ، ''بابُر بہ عیش کوش کہ عالَم دوبارہ نیست'' ضرب المثل ہے اور اُردو میں بھی مستعمل ہے۔ اس مفہوم میں دیگر زبانوں کے محاورے اور کہاوتیں بھی دستیاب ہیں۔ انگریزی میں کہتے ہیں:
''Life is short.''
اس بلیغ جملے کی توضیح وتشریح میں متعدد اَقوال موجود ہیں۔ اگر بابُر کا مصرع ذہن میں رکھیں تو یہ تشریح بالکل مماثل لگتی ہے:
Life is short, so enjoy it to the fullest. [John Walters]
عبرانی میں حضر ت یسعیاہ علیہ السلام (Isaiah)کے صحیفے سے ماخوذ، یہ عبارت، بہ اعتبار مفہوم قریب محسوس ہوتی ہے:
اخول وے شاتو کی مخر نامُوت (Akhol ve-shato ki makhar namut.) یعنی کھاؤ پیو، کہ، کل ہمیں مرجانا ہے۔
["Eat and drink; for tomorrow we shall die."]
اردو میں کسی کی عیب جُوئی کرنے والے کو تنبیہ کے طور پر کہا جاتا ہے، ''اپنے گریبان میں جھانکو''۔ بہادرشاہ ظفرؔ کا یہ شعر حسب ِحال اور ضرب المثل ہے:
نہ تھی حال کی جب ہمیں خبر، رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر، تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا
انگریزی میں اس کے مقابل قول ہے:"What you spot is what you've got."
اس کی تشریح میں قدیم یونانی مفکر اَبَک تی تُوس [Epictetus] کا قول پیش کیا جاتا ہے :
''جب تم کسی شخص کی خرابیوں پر بَرہم ہوتے ہو تو ذرا اپنی طرف رجوع کرو اور اپنی خرابیوں کا جائزہ لو''۔
["When you are offended at any man's faults, turn to yourself and study your own faults".]
عبرانی میں کہتے ہیں کہ جو شخص دوسرے کو رَد کرتا ہے، درحقیقت اپنے آپ کو رَد کرتا ہے:
کول ہا۔پوسیل بی۔مُومو پوسیل
Kol ha-posel be-mumo posel.
یہ قول ماخوذ ہے، یہودی مذہب کی اہم کتاب ''تالمُود'' سے ۔
حکیم بُو علی سینا سے منسوب قول اردو میں بہت مشہور ہے :'' اتنا کھاؤ جتنا، ہضم کرسکو''۔انگریزی میں کہا جاتا ہے:
''Don't bite off more than you can chew''.
اس کے مقابل تالمُود کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
تفاستا میرُو بیہ لو تفاستا:Tafasta merubeh lo tafasta.
مفہوم قدرے مختلف معلوم ہوتا ہے: ''اگر تم بہت زیادہ ہتھیا لوگے تو سمجھو کہ تم نے کچھ بھی حاصل نہیں کیا''۔
مشہور اُردو کہاوت ہے، ''جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے'' یعنی جھوٹ زیادہ دیر چلتا نہیں اور سچ آخر کار عیاں ہو ہی جاتا ہے۔ اسے مختلف زبانوں میں مختلف طرح بیان کیا گیا۔ انگریزی میں ایک مُبہم سی کہاوت ہے:
''Liar, liar, pants on fire''.
اس کی تفصیلی بحث سے قطع نظر، عبرانی میں اس کے مقابل یا مماثل (یا مفہوم کے لحاظ سے قریب) ایک دل چسپ عوامی کہاوت ہے:
ال روش ہا۔گاناف بوئر ہا۔کووا:'Al rosh ha-ganav bo'er ha-kova'.
یعنی چور کے سر پر سجی ہوئی ٹوپی جل جاتی ہے: "The hat burns atop the thief's head."
دیکھا جائے تو اس کا موازنہ کسی حد تک ''چور کی ڈاڑھی میں تنکا'' سے بھی ہوسکتا ہے۔
یہ موضوع کسی سمندر جیسی گہرائی کا حامل ہے۔ حیرت ہے کہ کسی نے اس پر ابھی تک تحقیق نہیں کی۔ خاکسار نے اپنی سی سعی کی، ہرچند کہ ابھی بہت سی زبانوں (بشمول فرینچ، سواحلی، رُوسی، وسط ایشیائی ) سے تعلق کا پہلو ہنوز باقی ہے۔
مآخذ
ا)۔ نقوش 'رسول نمبر' مختلف جلدیں۔
ب)۔ ''الفاروق'' از علامہ شبلی نعمانی۔
ج)۔ ''ساندل بارل۔ وسطی پنجاب کی کہانی، لوک روایات کی زبانی ازاحمد غزالی۔فیروز سنز: 1988ء۔
د)۔ سرائیکی لو ک کہانیاں، مؤلفہ، مترجمہ ومرتبہ: بشیر احمد ظامیؔ بہاول پوری، ناشر: اردو اکادمی ، بہاول پور۔ 1984ء۔
ہ)۔ مخزن ِ اخلاق از رحمت اللہ سبحانی لودیانوی، لاہور۔ اٹھارویں اشاعت: 1961ء
و)۔ اردو میں قرآن اورحدیث کے محاورات از پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفی خاں، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد: 1980ء۔
ز)۔ ''دربَرگِ لالہ وگُل: کلام اقبالؔ میں مطالعہ نباتات'' (جلد اوّل) از افضل رضوی (مقیم آسٹریلیا)
ح)۔ نوراللغات ط)۔ فرہنگ آصفیہ ی)۔ مختصر اُردولغت (اردولغت بورڈ)
ک)۔ آموزگارِ فارسی از پروفیسر حضور احمد سلیم ل)۔ فرہنگ ِ عصریہ (اردو۔فارسی) ازپروفیسر حافظ نذر احمد۔
م)۔ حسن اللغات (فارسی اردو) ن)۔ المنجد عربی اردو لغت۔ اشاعت یازدہم، دارالاشاعت: 1994ء ۔
س)۔ مصباح اللغات (عربی اردو)
ع)۔ مختلف ویب سائٹس۔
1-Hunza Proverbs by Etienne Tiffou 1980 : 2-Al-Mawrid: A modern English- Arabic Dictionary
]''المورد، القاموس انکلیزی ۔عربی'' -منیر بعلبکی، لُبنان[
3-English-Urdu Dictionary: National Language Authority
- Various websites