مریم نواز با عزت باری ٹارگٹڈ انصاف کی شکست
اسلام آباد ہائی کورٹ نے چار سال کی سماعت کے بعد ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے مریم نواز اور کیپٹن صفدر کودی جانے والی سزائیں نہ صرف کالعدم قرار دی ہیں بلکہ مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو باعزت بری بھی کر دیا ہے۔
مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی یہ اپیل اسلام آبا ہائی کورٹ میں چار سال تک زیر سماعت رہی۔ تاریخ پر تاریخ کا کھیل چلتا رہا۔ نیب نے اس کیس میں ریکارڈ التوا کی درخواستیں دی تھیں۔ نیب نے بار بار پراسیکیوٹر بھی بدلے۔ لیکن تاریخ پر تاریخ کی بھی ایک انتہا ہوتی ہے اور کیس جب اس انتہا کو پہنچ گیا تو بالا آخر فیصلہ ہوگیا۔ لیکن چار سال لگ گئے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ انصاف میں تاخیر بھی انصاف سے انکار کے ہی زمرے میں آتی ہے۔ یہاں بھی چار سال یہی صورتحال رہی ۔
یہ کیس دو سماعتوں کا تھا۔ ایک دن نیب نے دلائل دینے تھے دوسری تاریخ پر مریم نواز کے وکیل نے دلائل دینے تھے۔ لیکن دو سماعتیں چار سال میں ممکن ہوئیں۔ ان چار سالوں میں مریم نواز کی نیب کی حراست اور جیل میں گزارے دن بھی شامل ہیں۔ وہ دن بھی شامل ہے جب ان کو ان کے والد کے سامنے گرفتار کیا گیا۔ وہ دن بھی شامل ہے جب انھیں ختم کر دینے اور مٹا دینے کی واضح دھمکی دی گئی۔ نیب کی حراست میں وڈیو بنائی گئی۔ جیل کی حوالات میں ملاقاتیں بند کی گئیں۔
باپ بیٹی کی ملاقات بند کی گئی۔ اس لیے ان چار سالوں میں جو کچھ ہوا ہے وہ اس باعزت بری کے ساتھ یاد رکھنا ہوگا۔ اسی لیے کہتے ہیں انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے۔ کیونکہ تاخیر کے دوران نا انصافی کے جو دن گزرتے ہیں ان کی واپسی ممکن نہیں۔ ان چار سالوں میں مریم نواز کا سیاسی اور ذاتی بہت نقصان ہوا ہے۔ جس کا کوئی مداوا نہیں ہے۔
جب آپ ٹارگٹڈ احتساب کر رہے ہوتے ہیں دراصل آپ انتقام لے رہے ہوتے ہیں۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز کے مقدمات ٹارگٹڈ احتساب اور انتقام کی زندہ مثال ہیں۔ پاناما میں پاکستان سے چار سو سے زائد لوگوں کے نام تھے۔ ان میں صرف نواز شریف کے لیے کیس سنا گیا۔ باقیوں کے کیس بھی دائر کیے گئے لیکن نہیں سنے گئے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے باقی لوگوں کے لیے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی۔ جب سپریم کورٹ نے صرف نواز شریف اور مریم نواز کے لیے جے آئی ٹی بنائی۔ صرف ان کے لیے مانیٹرنگ جج لگایا گیا، صرف ان کے لیے خاص مقدمات بنائے گئے تو پھر اسے ٹارگٹڈ احتساب اور انتقام کی شکل ہی کہا جائے گا۔
مریم نواز دیر سے لیکن عدالت سے باعزت بری ہوئی ہیں۔ اس لیے آپ کہہ سکتے ہیں کہ بالاآخر انصاف ہوگیا۔ چار سال جنھوں نے انصاف کو روکے رکھا انھیں بالآخر شکست ہوئی۔ مریم نواز کو سیاست سے ٹیکنیکل ناک آؤٹ کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا۔ مریم نواز اور میاں نواز شریف کو 2018ء کے انتخابات سے باہر رکھنے کے لیے یہ سزائیں دلوائیں گئیں جن کی وجہ سے مریم نواز ٹیکنیکل آؤٹ ہو گئیں۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سزا ہونے کے باوجود مریم نواز اور نواز شریف ملک میں انتخابات سے قبل واپس آئے اور جیل گئے۔ جیل سے یہ اپیل دائر کی گئی جس کے فیصلے میں چار سال لگ گئے۔ اس لیے 2018ء کے انتخابات سے نواز شریف اور مریم نواز کو باہر رکھنے کا ایک مکمل اسکرپٹ تھا۔ جس کے لیے یہ سب کیا گیا۔ اس اسکرپٹ کے نتیجے میں ہی آر ٹی ایس بٹھایا گیا کیونکہ سزاؤں کے بعد بھی مطلوبہ نتائج ممکن نہیں تھے۔ اس لیے اور بھی بہت کچھ کیا گیا تا کہ عمران خان کو اقتدار میں لایا جا سکے۔
چار سال پہلے جب مریم نواز اور نواز شریف کو سزائیں سنائی گئیں تو میاں نواز شریف کو تو ایک اقامہ کی بنیاد پر تا حیات نا اہل کیا گیا۔ مریم نواز کو سات سال قید دی گئی۔ تب ہمیں یہی سمجھایا جاتا تھا کہ اب اس ملک میں شریف خاندان کا سیاسی کردار ختم کر دیا گیا۔ اب کوئی بھی جس کے نام کے ساتھ شریف آئے گا اسے اقتدار کے قریب بھی نہیں آنے دیا جائے گا۔ لوگ مریم نواز کو مشورہ دیتے تھے کہ وہ سیاست چھوڑ دیں ان کے لیے مسائل کم ہو جائیں گے۔ لوگ مشورے دینے لگ گئے کہ بس بہت ہو گئی اگر شریف فیملی چاہتی ہے کہ ان کی اگلی زندگی آسان ہو جائے تو انھیں چاہیے کہ وہ سیاست چھوڑ دیں۔
لیکن مریم نواز نے ایسے تمام مشورے رد کیے اور ان کی سیاست پر جتنی بھی پابندیاں لگائی گئیں انھوں نے اتنی ہی قوت سے اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ ایک لمحہ کے لیے بھی انھوں نے ایسا کوئی تاثر نہیں دیا کہ وہ ان ہتھکنڈوں سے مرعوب ہو کر ڈر جائیں گی۔ مریم نواز نے ان ہتھکنڈوں کا خوب مقابلہ کیا اور ثابت کیا کہ اگر ہمت ہو تو نا ممکن کو بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ ان چار سالوں میں ٹیکنیکل ناک آؤٹ ہونے کے باوجود انھوں نے اپنی سیاست میں جگہ بنائی ہے۔ وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ایک مضبوط آواز بن کر ابھری ہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس دوران مریم نواز کی سیاسی سرگرمیوں کی میڈیا کوریج پر بھی پابندی لگائی گئی۔
مریم نواز کے باعزت بری ہونے کے بعد ملک کے سیاسی منظر نامہ میں ایک بڑی تبدیلی آئے گی۔ مریم نواز اب انتخابی سیاست کے لیے اہل ہیں۔ ان کے گلے سے نا اہلی کا طوق ختم ہوگیا ہے۔ ایسے میں سوال ہے کہ کیا وہ فوری پارلیمنٹ میں آنے کی کوشش کریں گی یا وہ اگلے انتخابات تک انتظار کریں گی۔ بہر حال اسلام آباد ہائی کورٹ سے باعزت بری ہونے کے بعد بھی ابھی سپریم کورٹ کا مرحلہ باقی ہے۔ یہ معاملہ ابھی سپریم کورٹ میں جا سکتا ہے۔
وہاں کونسا بنچ سنتا ہے۔ یہ بھی اہم معاملہ ہے۔ ایک عمومی رائے ہے کہ جو مانیٹرنگ جج رہ چکے ہیں وہ بنچ میں نہیں ہو سکتے۔ اس معاملہ میں سپریم کورٹ کو ان کے بغیر ہی بنچ بنانا ہو گا۔ اس سے پہلے انھی جج کے پاس جب اسحاق ڈار کا کیس لگا تو انھوں نے بھی واپس لے لیا تھا۔ سپریم کورٹ میں مخصوص بنچ کے پاس کیس لگنے کے حوالے سے ن لیگ کو کافی تحفظات ہیں۔ اس لیے مجھے امید ہے کہ چیف جسٹس پاکستان اب اس تنازعہ کو بھی حل کرنے کی کوشش کریں گے۔
یکساں انصاف کے سنہرے اصول کی نفی کرتے ہوئے جب بھی ٹارگٹڈ انصاف کی کوشش کی جائے گی تو اس کی عوامی مقبولیت نہیں ہوگی۔ ٹارگٹڈ انصاف، انصاف کی نفی ہی ہوگا۔ مریم نواز کی بریت کے ساتھ نظام انصاف بھی ایک برے فیصلے کے داغ سے بری ہوا ہے۔ یہی حقیقت ہے اور ہم اس حقیقت سے منہ نہیں موڑ سکتے۔
مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی یہ اپیل اسلام آبا ہائی کورٹ میں چار سال تک زیر سماعت رہی۔ تاریخ پر تاریخ کا کھیل چلتا رہا۔ نیب نے اس کیس میں ریکارڈ التوا کی درخواستیں دی تھیں۔ نیب نے بار بار پراسیکیوٹر بھی بدلے۔ لیکن تاریخ پر تاریخ کی بھی ایک انتہا ہوتی ہے اور کیس جب اس انتہا کو پہنچ گیا تو بالا آخر فیصلہ ہوگیا۔ لیکن چار سال لگ گئے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ انصاف میں تاخیر بھی انصاف سے انکار کے ہی زمرے میں آتی ہے۔ یہاں بھی چار سال یہی صورتحال رہی ۔
یہ کیس دو سماعتوں کا تھا۔ ایک دن نیب نے دلائل دینے تھے دوسری تاریخ پر مریم نواز کے وکیل نے دلائل دینے تھے۔ لیکن دو سماعتیں چار سال میں ممکن ہوئیں۔ ان چار سالوں میں مریم نواز کی نیب کی حراست اور جیل میں گزارے دن بھی شامل ہیں۔ وہ دن بھی شامل ہے جب ان کو ان کے والد کے سامنے گرفتار کیا گیا۔ وہ دن بھی شامل ہے جب انھیں ختم کر دینے اور مٹا دینے کی واضح دھمکی دی گئی۔ نیب کی حراست میں وڈیو بنائی گئی۔ جیل کی حوالات میں ملاقاتیں بند کی گئیں۔
باپ بیٹی کی ملاقات بند کی گئی۔ اس لیے ان چار سالوں میں جو کچھ ہوا ہے وہ اس باعزت بری کے ساتھ یاد رکھنا ہوگا۔ اسی لیے کہتے ہیں انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے۔ کیونکہ تاخیر کے دوران نا انصافی کے جو دن گزرتے ہیں ان کی واپسی ممکن نہیں۔ ان چار سالوں میں مریم نواز کا سیاسی اور ذاتی بہت نقصان ہوا ہے۔ جس کا کوئی مداوا نہیں ہے۔
جب آپ ٹارگٹڈ احتساب کر رہے ہوتے ہیں دراصل آپ انتقام لے رہے ہوتے ہیں۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز کے مقدمات ٹارگٹڈ احتساب اور انتقام کی زندہ مثال ہیں۔ پاناما میں پاکستان سے چار سو سے زائد لوگوں کے نام تھے۔ ان میں صرف نواز شریف کے لیے کیس سنا گیا۔ باقیوں کے کیس بھی دائر کیے گئے لیکن نہیں سنے گئے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے باقی لوگوں کے لیے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی۔ جب سپریم کورٹ نے صرف نواز شریف اور مریم نواز کے لیے جے آئی ٹی بنائی۔ صرف ان کے لیے مانیٹرنگ جج لگایا گیا، صرف ان کے لیے خاص مقدمات بنائے گئے تو پھر اسے ٹارگٹڈ احتساب اور انتقام کی شکل ہی کہا جائے گا۔
مریم نواز دیر سے لیکن عدالت سے باعزت بری ہوئی ہیں۔ اس لیے آپ کہہ سکتے ہیں کہ بالاآخر انصاف ہوگیا۔ چار سال جنھوں نے انصاف کو روکے رکھا انھیں بالآخر شکست ہوئی۔ مریم نواز کو سیاست سے ٹیکنیکل ناک آؤٹ کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا۔ مریم نواز اور میاں نواز شریف کو 2018ء کے انتخابات سے باہر رکھنے کے لیے یہ سزائیں دلوائیں گئیں جن کی وجہ سے مریم نواز ٹیکنیکل آؤٹ ہو گئیں۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سزا ہونے کے باوجود مریم نواز اور نواز شریف ملک میں انتخابات سے قبل واپس آئے اور جیل گئے۔ جیل سے یہ اپیل دائر کی گئی جس کے فیصلے میں چار سال لگ گئے۔ اس لیے 2018ء کے انتخابات سے نواز شریف اور مریم نواز کو باہر رکھنے کا ایک مکمل اسکرپٹ تھا۔ جس کے لیے یہ سب کیا گیا۔ اس اسکرپٹ کے نتیجے میں ہی آر ٹی ایس بٹھایا گیا کیونکہ سزاؤں کے بعد بھی مطلوبہ نتائج ممکن نہیں تھے۔ اس لیے اور بھی بہت کچھ کیا گیا تا کہ عمران خان کو اقتدار میں لایا جا سکے۔
چار سال پہلے جب مریم نواز اور نواز شریف کو سزائیں سنائی گئیں تو میاں نواز شریف کو تو ایک اقامہ کی بنیاد پر تا حیات نا اہل کیا گیا۔ مریم نواز کو سات سال قید دی گئی۔ تب ہمیں یہی سمجھایا جاتا تھا کہ اب اس ملک میں شریف خاندان کا سیاسی کردار ختم کر دیا گیا۔ اب کوئی بھی جس کے نام کے ساتھ شریف آئے گا اسے اقتدار کے قریب بھی نہیں آنے دیا جائے گا۔ لوگ مریم نواز کو مشورہ دیتے تھے کہ وہ سیاست چھوڑ دیں ان کے لیے مسائل کم ہو جائیں گے۔ لوگ مشورے دینے لگ گئے کہ بس بہت ہو گئی اگر شریف فیملی چاہتی ہے کہ ان کی اگلی زندگی آسان ہو جائے تو انھیں چاہیے کہ وہ سیاست چھوڑ دیں۔
لیکن مریم نواز نے ایسے تمام مشورے رد کیے اور ان کی سیاست پر جتنی بھی پابندیاں لگائی گئیں انھوں نے اتنی ہی قوت سے اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ ایک لمحہ کے لیے بھی انھوں نے ایسا کوئی تاثر نہیں دیا کہ وہ ان ہتھکنڈوں سے مرعوب ہو کر ڈر جائیں گی۔ مریم نواز نے ان ہتھکنڈوں کا خوب مقابلہ کیا اور ثابت کیا کہ اگر ہمت ہو تو نا ممکن کو بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ ان چار سالوں میں ٹیکنیکل ناک آؤٹ ہونے کے باوجود انھوں نے اپنی سیاست میں جگہ بنائی ہے۔ وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ایک مضبوط آواز بن کر ابھری ہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس دوران مریم نواز کی سیاسی سرگرمیوں کی میڈیا کوریج پر بھی پابندی لگائی گئی۔
مریم نواز کے باعزت بری ہونے کے بعد ملک کے سیاسی منظر نامہ میں ایک بڑی تبدیلی آئے گی۔ مریم نواز اب انتخابی سیاست کے لیے اہل ہیں۔ ان کے گلے سے نا اہلی کا طوق ختم ہوگیا ہے۔ ایسے میں سوال ہے کہ کیا وہ فوری پارلیمنٹ میں آنے کی کوشش کریں گی یا وہ اگلے انتخابات تک انتظار کریں گی۔ بہر حال اسلام آباد ہائی کورٹ سے باعزت بری ہونے کے بعد بھی ابھی سپریم کورٹ کا مرحلہ باقی ہے۔ یہ معاملہ ابھی سپریم کورٹ میں جا سکتا ہے۔
وہاں کونسا بنچ سنتا ہے۔ یہ بھی اہم معاملہ ہے۔ ایک عمومی رائے ہے کہ جو مانیٹرنگ جج رہ چکے ہیں وہ بنچ میں نہیں ہو سکتے۔ اس معاملہ میں سپریم کورٹ کو ان کے بغیر ہی بنچ بنانا ہو گا۔ اس سے پہلے انھی جج کے پاس جب اسحاق ڈار کا کیس لگا تو انھوں نے بھی واپس لے لیا تھا۔ سپریم کورٹ میں مخصوص بنچ کے پاس کیس لگنے کے حوالے سے ن لیگ کو کافی تحفظات ہیں۔ اس لیے مجھے امید ہے کہ چیف جسٹس پاکستان اب اس تنازعہ کو بھی حل کرنے کی کوشش کریں گے۔
یکساں انصاف کے سنہرے اصول کی نفی کرتے ہوئے جب بھی ٹارگٹڈ انصاف کی کوشش کی جائے گی تو اس کی عوامی مقبولیت نہیں ہوگی۔ ٹارگٹڈ انصاف، انصاف کی نفی ہی ہوگا۔ مریم نواز کی بریت کے ساتھ نظام انصاف بھی ایک برے فیصلے کے داغ سے بری ہوا ہے۔ یہی حقیقت ہے اور ہم اس حقیقت سے منہ نہیں موڑ سکتے۔