سیلاب اورگلوبل وارمنگ دوسرا حصہ
بتانا صرف یہ تھا کہ ''طوفان'' یا سیلاب کوئی فرضی کہانی نہیں بلکہ درحقیقت ایک ایسا دور اس زمین پر گزرا ہے کہ گلوبل وارمنگ سے برف کاطوفان ختم ہوگیا اورایک سیلابی اوربارانی دورشروع ہوا تھا۔
دوانگریزمحققین نے ایک کتاب انڈس ویلی سوئلائزیشن میں لکھا ہے کہ ایسا لگتاہے جیسے قدیم زمانوں میں ہندوکش ایک بہت بڑا ڈیم رہاہو اورپھر اچانک وہ ڈیم ٹوٹ گیاہو، یہ بات بالکل سچ ہے لیکن وہ ڈیم پانی کا نہیں بلکہ برف کا تھا یعنی لاکھوں سالوں میں جو برف یہاں پڑی تھی وہ پگھلنا شروع ہوئی، یہی اس ڈیم کا ٹوٹنا تھا۔لیکن اس میں جو اصل بات ہے وہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ اتفاقات نہیں بلکہ '' انتظامات'' تھے اس عظیم خالق ،انجینئر اور زراعت کارکے ۔
کوئی اس ہستی کو کسی بھی نام یاشکل وصورت میں مانے یانہ مانے لیکن طبیعات والے بھی کہتے ہیں اورمانتے ہیں کہ اس عظیم الشان کارخانہ قدرت کے پیچھے کوئی انتہائی طاقتوراورذہین ترین ''طاقت'' کارفرما ہے اوریہ سب کچھ اتفاقی یاحادثاتی نہیں ہے۔یہ بات قطعی غلط ہے کہ طبیعات والے اس ہستی کے منکر ہیں،منکر اس حد تک ہیں کہ ابھی تک ایسی کوئی ہستی تجربے اورمشاہدے میں نہیں آئی اورنہ ہی اس صورت میں مانتے ہیں جس صورت میں مابعد الطبیعات یامذاہب مانتے ہیں لیکن صاف منکربھی نہیں ،کیوں کہ طبیعات میں وہ چیزمانی جاتی ہے جو تجربے اورمشاہدے میں آتی ہو۔
آپ میں سے اکثرنے اس عظیم الشان ''مشین'' کے بارے میں سنا ہوگا جو سوئیٹزرلینڈ میں دنیا کے تمام ممالک کے اشتراک سے بنائی گئی،یہ مشین زمین کے اندرستائیس کلومیٹرگہرائی میں ہے اوراس میں پاکستان اسٹیل مل کے بنائے ہوئے کچھ حصے بھی شامل ہیں۔ اس مشین میں ''بگ بینگ'' جیسا تجربہ کرنا مقصود ہے کہ بگ بینگ کے فوراً بعد کیاہواتھا ،ایک تجربہ کیاگیاہے اوراس کے بعد اعلان بھی ہوا تھا کہ ''گاڈ پارٹیکل '' یا ''خدائی ذرہ ''دریافت کرلیاگیاہے لیکن اس کے بعد کی خاموشی بتاتی ہے کہ ہنوزدلی دوراست۔
ظاہرہے کہ ''تلاش ''اس چیزکی،کی جاتی ہے جس کی موجودگی کایقین یاامید ہوگویا طبیعات والے اس ''سپریم پاور'' کے منکر بھی نہیں ہیں اورقائل بھی نہیں کہ مشاہدے میں ابھی نہیں آئی لیکن کسی نہ کسی شکل میں موجودضرور ہے کیوں کہ اتنی باریکی اورذہانت سے ترتیب دیاہوا یہ خود کار ،کارخانہ محض کوئی بے مہار اتفاق یاحادثہ تو ہونہیں سکتا۔
دوبارہ اس ڈیم کے ٹوٹنے یاسیلابوں کی بات کرتے ہیں یہ بات تو طے شدہ ہے کہ ہم جس سفید کاکشی نسل کی بات کرتے ہیں جس میں سامی اورآریائی ساری اقوام شامل ہیں اس کی پیدائش اسی سلسلہ کوہ کی ہے، خاص طورپر جس حصے کو ہندوکش کہاجاتاہے۔
فلپ ختی نے اپنی کتاب ''تاریخ شام'' جسے مولانا غلام رسول مہرنے اردومیں ترجمہ کیاہے۔ لکھا ہے کہ یہ وسطی ایشیا کاخطہ دنیا کارحم مادریاجوف الارض ہے یہاں سے پانچ بارانسانوں کے خروج نکلے ہیں اوردنیامیں پھیلے ہیں، پہلاخروج سو میریوں کاتھا،دوسرا آریاؤں کا،تیسرااساک یاتو رانیوں کا تھا جنھیں یونانیوں نے میتھن کہا ہے، چوتھا سوجی ساکا اورہنوں کاآخری پانچواں خروج چنگیزخان کا تھا، حیرت انگیزطورپر ایک ہزارسال کے بعد ایک خروج نکلتارہا جیسے ماں کی کوکھ میں بچہ نومہینے میں تیارہوجاتاہے اورجب ماں کے پیٹ کی خوراک اس کے لیے ناکافی ہوجاتی ہے تو باہرآجاتاہے، ٹھیک اسی طرح اس جوف الارض سے بھی خروج کا ایک بچہ نکلتارہاہے۔ایک ہزارسال خروج کاایک بچہ تیارہوجاتاتھا۔قلت خوراک اورکثرت آبادی کی وجہ سے۔
فلپ ختی نے توچھٹے خروج کے بارے میں نہیں لکھاہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ چھٹاخروج چینیوں کی شکل میں شاید شروع ہوچکا ہے کیوں کہ چنگیزی خروج کو اتناہی عرصہ ہوچکاہے۔ اب ہم اس پورے سلسلے کوغورسے دیکھتے ہیں تو باقاعدہ ایک لگے بندے نظام کے ساتھ سب کچھ ہوتا رہاہے۔
چالیس کروڑ سال پہلے ایک بہت بڑی ٹیکٹانک موومنٹ ہوئی جس میں ہند کاایک تکون ٹکڑا نہایت زورکے ساتھ اوراتھلے سمندرکو اچھالتا ہوا پیوست ہوتا ہے اس ٹکراؤ اورپیوستگی کے مقام پر یہ پہاڑی سلسلہ ابھرتا ہے جو برما سے شروع ہوکر ایران میں کوہ بابا پر ختم ہوجاتاہے جب کہ ایک شاخ خیبر پر سے مڑ کر جنوب میں بلوچستان اورپھر سندھ میں کیرتھر تک جاتی ہے۔
اس وقت حیات یازندہ مخلوق صرف پانی میں تھی اورخشکی پر نہیں آئی تھی اس موومنٹ میں ہند اور ایشیا کے درمیان اتھلے سمندر ابھر کر یہ پہاڑی سلسلے بنے تو بے شمار آبی مخلوق بھی ایک دم خشکی پر آپڑی جس میں لاتعداد ہندسوں کی حد سے بھی پرے مخلوق تلف ہوگئیں۔جس کا ثبوت اس پہاڑی سلسلے کے گردا گرد پائے جانے والے تیل کے ذخائرہیں۔
(جاری ہے)
دوانگریزمحققین نے ایک کتاب انڈس ویلی سوئلائزیشن میں لکھا ہے کہ ایسا لگتاہے جیسے قدیم زمانوں میں ہندوکش ایک بہت بڑا ڈیم رہاہو اورپھر اچانک وہ ڈیم ٹوٹ گیاہو، یہ بات بالکل سچ ہے لیکن وہ ڈیم پانی کا نہیں بلکہ برف کا تھا یعنی لاکھوں سالوں میں جو برف یہاں پڑی تھی وہ پگھلنا شروع ہوئی، یہی اس ڈیم کا ٹوٹنا تھا۔لیکن اس میں جو اصل بات ہے وہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ اتفاقات نہیں بلکہ '' انتظامات'' تھے اس عظیم خالق ،انجینئر اور زراعت کارکے ۔
کوئی اس ہستی کو کسی بھی نام یاشکل وصورت میں مانے یانہ مانے لیکن طبیعات والے بھی کہتے ہیں اورمانتے ہیں کہ اس عظیم الشان کارخانہ قدرت کے پیچھے کوئی انتہائی طاقتوراورذہین ترین ''طاقت'' کارفرما ہے اوریہ سب کچھ اتفاقی یاحادثاتی نہیں ہے۔یہ بات قطعی غلط ہے کہ طبیعات والے اس ہستی کے منکر ہیں،منکر اس حد تک ہیں کہ ابھی تک ایسی کوئی ہستی تجربے اورمشاہدے میں نہیں آئی اورنہ ہی اس صورت میں مانتے ہیں جس صورت میں مابعد الطبیعات یامذاہب مانتے ہیں لیکن صاف منکربھی نہیں ،کیوں کہ طبیعات میں وہ چیزمانی جاتی ہے جو تجربے اورمشاہدے میں آتی ہو۔
آپ میں سے اکثرنے اس عظیم الشان ''مشین'' کے بارے میں سنا ہوگا جو سوئیٹزرلینڈ میں دنیا کے تمام ممالک کے اشتراک سے بنائی گئی،یہ مشین زمین کے اندرستائیس کلومیٹرگہرائی میں ہے اوراس میں پاکستان اسٹیل مل کے بنائے ہوئے کچھ حصے بھی شامل ہیں۔ اس مشین میں ''بگ بینگ'' جیسا تجربہ کرنا مقصود ہے کہ بگ بینگ کے فوراً بعد کیاہواتھا ،ایک تجربہ کیاگیاہے اوراس کے بعد اعلان بھی ہوا تھا کہ ''گاڈ پارٹیکل '' یا ''خدائی ذرہ ''دریافت کرلیاگیاہے لیکن اس کے بعد کی خاموشی بتاتی ہے کہ ہنوزدلی دوراست۔
ظاہرہے کہ ''تلاش ''اس چیزکی،کی جاتی ہے جس کی موجودگی کایقین یاامید ہوگویا طبیعات والے اس ''سپریم پاور'' کے منکر بھی نہیں ہیں اورقائل بھی نہیں کہ مشاہدے میں ابھی نہیں آئی لیکن کسی نہ کسی شکل میں موجودضرور ہے کیوں کہ اتنی باریکی اورذہانت سے ترتیب دیاہوا یہ خود کار ،کارخانہ محض کوئی بے مہار اتفاق یاحادثہ تو ہونہیں سکتا۔
دوبارہ اس ڈیم کے ٹوٹنے یاسیلابوں کی بات کرتے ہیں یہ بات تو طے شدہ ہے کہ ہم جس سفید کاکشی نسل کی بات کرتے ہیں جس میں سامی اورآریائی ساری اقوام شامل ہیں اس کی پیدائش اسی سلسلہ کوہ کی ہے، خاص طورپر جس حصے کو ہندوکش کہاجاتاہے۔
فلپ ختی نے اپنی کتاب ''تاریخ شام'' جسے مولانا غلام رسول مہرنے اردومیں ترجمہ کیاہے۔ لکھا ہے کہ یہ وسطی ایشیا کاخطہ دنیا کارحم مادریاجوف الارض ہے یہاں سے پانچ بارانسانوں کے خروج نکلے ہیں اوردنیامیں پھیلے ہیں، پہلاخروج سو میریوں کاتھا،دوسرا آریاؤں کا،تیسرااساک یاتو رانیوں کا تھا جنھیں یونانیوں نے میتھن کہا ہے، چوتھا سوجی ساکا اورہنوں کاآخری پانچواں خروج چنگیزخان کا تھا، حیرت انگیزطورپر ایک ہزارسال کے بعد ایک خروج نکلتارہا جیسے ماں کی کوکھ میں بچہ نومہینے میں تیارہوجاتاہے اورجب ماں کے پیٹ کی خوراک اس کے لیے ناکافی ہوجاتی ہے تو باہرآجاتاہے، ٹھیک اسی طرح اس جوف الارض سے بھی خروج کا ایک بچہ نکلتارہاہے۔ایک ہزارسال خروج کاایک بچہ تیارہوجاتاتھا۔قلت خوراک اورکثرت آبادی کی وجہ سے۔
فلپ ختی نے توچھٹے خروج کے بارے میں نہیں لکھاہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ چھٹاخروج چینیوں کی شکل میں شاید شروع ہوچکا ہے کیوں کہ چنگیزی خروج کو اتناہی عرصہ ہوچکاہے۔ اب ہم اس پورے سلسلے کوغورسے دیکھتے ہیں تو باقاعدہ ایک لگے بندے نظام کے ساتھ سب کچھ ہوتا رہاہے۔
چالیس کروڑ سال پہلے ایک بہت بڑی ٹیکٹانک موومنٹ ہوئی جس میں ہند کاایک تکون ٹکڑا نہایت زورکے ساتھ اوراتھلے سمندرکو اچھالتا ہوا پیوست ہوتا ہے اس ٹکراؤ اورپیوستگی کے مقام پر یہ پہاڑی سلسلہ ابھرتا ہے جو برما سے شروع ہوکر ایران میں کوہ بابا پر ختم ہوجاتاہے جب کہ ایک شاخ خیبر پر سے مڑ کر جنوب میں بلوچستان اورپھر سندھ میں کیرتھر تک جاتی ہے۔
اس وقت حیات یازندہ مخلوق صرف پانی میں تھی اورخشکی پر نہیں آئی تھی اس موومنٹ میں ہند اور ایشیا کے درمیان اتھلے سمندر ابھر کر یہ پہاڑی سلسلے بنے تو بے شمار آبی مخلوق بھی ایک دم خشکی پر آپڑی جس میں لاتعداد ہندسوں کی حد سے بھی پرے مخلوق تلف ہوگئیں۔جس کا ثبوت اس پہاڑی سلسلے کے گردا گرد پائے جانے والے تیل کے ذخائرہیں۔
(جاری ہے)