معیشت کے حوالے سے اچھی پیشرفت
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دس روپے 19پیسے سے 12.63روپے فی لیٹر تک کمی
وفاقی حکومت نے آیندہ15روز کے لیے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دس روپے 19پیسے سے 12.63روپے فی لیٹر تک کمی کردی ہے۔
نئی قیمتوں کا اطلاق ہوگیا ہے، وزارت خزانہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے نئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اعلان کیا۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریلیف دینا بہتر فیصلہ ہے۔ امید یہی ہے کہ حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید کمی کرے گی جس سے ملک کے درمیانے طبقے کی مالی مشکلات میں کمی ہو گی۔
یہ بھی ایک اچھی بات ہے کہ اوگرا نے اکتوبر کے لیے ایل پی جی قیمت میں 10روپے کی کمی کردی۔ جس سے گھریلو سلنڈ122روپے اور کمرشل سلنڈر 470روپے سستا ہوگیا ہے۔ایل پی جی کو بھی مزید سستا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ملک میں سوئی گیس کی کمی کی وجہ سے گھریلو اور کمرشل دونوں سیکٹرز میں ایل پی جی کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ ایل پی جی سستی ہونے سے بھی صارفین کو مالی معاملات میں ریلیف ملے گا جس سے ملکی معیشت میں بھی بہتری آئے گی اور کاروباری سرگرمیوں میں بھی تیزی آئے گی۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ایف بی آر کو اب تک 18لاکھ انکم ٹیکس گوشوارے موصول ہوچکے ہیں، سیلاب کے باعث درپیش مشکلات اور ٹیکس بار ایسوسی ایشنز،تاجر تنظیموں سمیت دیگراسٹیک ہولڈرز کی درخواست پر ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کی تاریخ میں 31 اکتوبر تک توسیع کردی گئی ہے' ان کا کہنا تھا کہ امید ہے ٹیکس دہندگان بروقت اپنے ٹیکس گوشوارے جمع کروادیں گے۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ایف بی آر نے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی اورستمبرکے لیے مقرر کردہ ٹیکس وصولیوں کے اہداف حاصل کرلیے ، ایف بی آر نے ستمبر میں 685 ارب روپے کے محصولات حاصل کیے جو ہدف کے مطابق ہیں ، پہلی سہ ماہی میں ایف بی آر نے 1635 ارب روپے کے محصولات اکٹھے کیے جو ہدف 1609 ارب روپے سے 26 ارب روپے زائد ہے، پہلی سہ ماہی میں 84 ارب روپے کے ریفنڈز جاری کیے گئے جو گزشتہ اسی مدت میں 62 ارب روپے تھے۔سیلاب کی وجہ سے معیشت کو نقصان پہنچا انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کی مدت میں 31 اکتوبر تک توسیع کر دی گئی ہے۔
پاکستان میں ٹیکس کا نظام بھی خاصا پیچیدہ ہے۔نئے وزیر خزانہ اس صورت حال سے بخوبی آگاہ ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ قوانین جتنے سادہ 'عام فہم اور غیر مبہم ہوں گے' اس سے سرخ فیتے کا خاتمہ ہو جائے گا۔ بیوروکریسی کا اثر کم ہو گا۔ پاکستان میں ٹیکس سسٹم ہموار ہو تو ریونیو میں خود بخود اضافہ ہوتا چلا جائے گا ۔حکومت ٹیکس نیٹ بڑھانے کی بات کرتی ہے لیکن عملی طور پر ٹیکس نیٹ کو پھیلایا نہیں جاتا بلکہ ان طبقات کو قابو کیا جاتا ہے جنھیں ٹیکس سے چھوٹ دی گئی ہوتی ہے۔
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ایسے سیکٹرز ہیں جنھیں ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے' ان سیکٹرز کو ٹیکس نیٹ میں لانا ضروری ہے ' ایسا ضروری اس لیے ہے کہ ان سیکٹرز کو ٹیکس چھوٹ دی جاتی ہے ' اس کی ادائیگی مڈل کلاس طبقے پر ٹیکس بڑھا کر کی جا رہی ہے ' پاکستان میں فلاحی اداروں کے نام پر اربوں روپے گردش کرتے ہیں لیکن ان پر کوئی ٹیکس نہیں لیا جاتا 'اگر حکومت اس حوالے سے کوئی متوازن پالیسی بنائے تو ملک کے ریونیو کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ صوبائی حکومتوں کو بھی اپنے معاملات پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ گاڑیوں 'موٹر سائیکلزاور رکشے وغیرہ پر عائد ایکسائز ٹیکس بڑے شہروں میں تو وصول ہوتا ہے لیکن دور دراز علاقوں میں ایسا نہیں ہے۔
خیبرپختونخوا کے کئی حصوں میں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں چلانے کی اجازت ہے ' یہیں سے ایسی گاڑیاں ملک کے دیگر علاقوں میں جعل سازی کے ذریعے پہنچ جاتی ہیں۔ اگر خیبرپختونخوا حکومت اور مرکزی حکومت چاہیں تو یہ کاروبار ریگولرائز کیا جا سکتا ہے۔
افغانستان سے آنے والی گاڑیوں پر مرکزی حکومت کا جو ٹیکس عائد ہوتا ہے وہ وصول کیا جائے اور جو گاڑی کلیئر ہو کر خیبرپختونخوا کے شہروں یا دیہات میں سڑکوں پر آئے تو محکمہ ایکسائز اس سے ٹوکن ٹیکس وصول کرے تو اس کا فائدہ صوبائی حکومت کو بھی اور مرکزی حکومت کو بھی ہو گا اور کاروباری طبقے کو بھی کہ وہ ایک قانونی کام کر رہا ہے لیکن اس جانب شاید توجہ دینا کسی حکومت کی ترجیح نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی گاڑیاں جعل سازی سے رجسٹرڈ ہو کر سڑکوں پر دوڑتی پھرتی ہیں۔
بہرحال وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ ملک میں آنے والے حالیہ سیلاب کی وجہ سے ملکی معیشت شدید معاشی اورانسانی بحران کا شکار ہے،ملکی معیشت کو مہنگائی،بیرونی مالی دباو اور غیر یقینی صورت حال کا سامنا ہے جس کے باعث رواں مالی سال معاشی شرح نمو ہدف سے کم رہنے کا امکان ہے، سیلاب کے باعث فصلیں متاثر ہوئی ہیں اورخوراک کی عدم تحفظ کا خطرہ بڑھ گیا ہے.
وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ ماہانہ اقتصادی اپ ڈیٹ آو'ٹ لک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ(جولائی،اگست) کے دوران اوور سیز پاکستانیوں کی جانب سے مجموعی طور پر 5.2ارب ڈالر کی ترسیلات زر پاکستان بھجوائی گئی ہیں جب کہ اس سے پچھلے مالی سال کے پہلے دوماہ میں 5.4ارب ڈالر کی ترسیلات زر بھجوائی تھیں رپورٹ کے مطابق جولائی اگست میں ملکی برآمدات میں 11.3فیصد اضافہ ہوا۔
جولائی اگست نے پاکستان نے مجموعی طور پر 5.1ارب ڈالر کی برآمدات کی گئی ہیں اورپچھلے مالی سال کے پہلے دوماہ میں 4.6ارب ڈالر کی برآمدات کی تھیں رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ میں ملکی درآمدات میں 2.1 فیصد کمی ہوئی ہے رواں مالی سال کے پہلے دوماہ میں 11.1ارب ڈالر کی درآمدات کی گئی ہیں پچھلے مالی سال کے پہلے دوماہ میں مجموعی طور پر 11.3ارب ڈالر کی درآمدات کی گئی تھیں۔
ایک مثبت پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ پاکستان میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے جی 20 قرض معطلی اقدام کے تحت پاکستان کے لیے قرض ریلیف میں توسیع کے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں،اس موقع پر امریکی سفیر نے کہا کہ پاکستان کے اہم وسائل کو دوبارہ بروئے کار لانا ہماری ترجیح ہے،اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے نے بتایا کہ پاکستان کو تباہ کن سیلاب کی وجہ سے شدید معاشی بحران کا سامنا ہے،اس تناظر میں امریکی حکومت نے جمعہ کو پاکستان کے 13 کروڑ 20 لاکھ ڈالر قرض کی ادائیگی معطل کرنے کا فیصلہ کیا۔
قرض ادائیگی کی معطلی اپریل 2020 کے پیرس کلب معاہدے کی تحت کی گئی جو کورونا وبا کے دوران 73 غریب ممالک کی مدد کرنے کے لیے وجود میں آیا ،اس معاہدے کی رو سے امریکا نے پاکستان کو 12 کروڑ80 لاکھ ڈالر قرض پر ریلیف فراہم کیا تھا،اضافی 40 لاکھ ڈالر کے ساتھ قرض ادائیگی معطل کرنے کا معاہدہ اب دوبارہ شروع کر دیا گیا۔پاکستان کے لیے یہ ایک اچھی خبر ہے اس سے وفاقی حکومت کو خاصا ریلیف ملے گا اور وہ ملکی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے کام کرنے کے قابل ہو جائے گی۔
حالیہ سیلاب اور بارشوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان سیلاب سے نمٹنے اور آفات سے بچائو کے لیے مربوط نظام بنانے میں ناکام رہا ہے۔ 2010کے سیلاب کے بعد کوئی حکمت عملی نہیں بنائی گئی' پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیمز تک نہیں بنائے گئے۔ آبپاشی کے تمام منصوبے بدعنوانی اور بد انتظامی کا شکار ہیں۔ ڈیموں کی تعمیر اور منصوبے فضول اور بے نتیجہ سیاسی بحثوں کا شکار ہوتے رہے جس کا خمیازہ پاکستانی عوام کئی دہائیوں سے بھگت رہے ہیں۔ پاکستان میں ہے۔ لوگ بیماریوں سے مر رہے ہیں' تعمیر نو کے لیے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں جب کہ بہت جلد خوراک کے بحران کا بھی اندیشہ ہے۔
اس وقت حکومت اور عوام کو اکٹھے ہونے کی ضرورت ہے۔ اس بحران سے حکومت تنہا نہیں نمٹ سکتی۔ کثیر الجہتی چیلنج کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام وسائل' ہنر' ذرایع اور حکمت عملی کو ایک ساتھ استعمال میں لانا اشد ضروری ہو گیا ہے۔پاکستان کے پاس افرادی قوت بھی موجود ہے اور وسائل بھی ہیں ' ضرورت صرف نیک نیتی کی ہے۔ اگر ملکی معاملات چلانے والے طبقے خود احتسابی کے عمل سے گزریں تو انھیں ہر چیز شیشے کی طرح صاف نظر آ جائے گی اور یہ واضح ہو جائے گا کہ خرابی کہاں ہے۔
نئی قیمتوں کا اطلاق ہوگیا ہے، وزارت خزانہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے نئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اعلان کیا۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریلیف دینا بہتر فیصلہ ہے۔ امید یہی ہے کہ حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید کمی کرے گی جس سے ملک کے درمیانے طبقے کی مالی مشکلات میں کمی ہو گی۔
یہ بھی ایک اچھی بات ہے کہ اوگرا نے اکتوبر کے لیے ایل پی جی قیمت میں 10روپے کی کمی کردی۔ جس سے گھریلو سلنڈ122روپے اور کمرشل سلنڈر 470روپے سستا ہوگیا ہے۔ایل پی جی کو بھی مزید سستا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ملک میں سوئی گیس کی کمی کی وجہ سے گھریلو اور کمرشل دونوں سیکٹرز میں ایل پی جی کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ ایل پی جی سستی ہونے سے بھی صارفین کو مالی معاملات میں ریلیف ملے گا جس سے ملکی معیشت میں بھی بہتری آئے گی اور کاروباری سرگرمیوں میں بھی تیزی آئے گی۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ایف بی آر کو اب تک 18لاکھ انکم ٹیکس گوشوارے موصول ہوچکے ہیں، سیلاب کے باعث درپیش مشکلات اور ٹیکس بار ایسوسی ایشنز،تاجر تنظیموں سمیت دیگراسٹیک ہولڈرز کی درخواست پر ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کی تاریخ میں 31 اکتوبر تک توسیع کردی گئی ہے' ان کا کہنا تھا کہ امید ہے ٹیکس دہندگان بروقت اپنے ٹیکس گوشوارے جمع کروادیں گے۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ایف بی آر نے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی اورستمبرکے لیے مقرر کردہ ٹیکس وصولیوں کے اہداف حاصل کرلیے ، ایف بی آر نے ستمبر میں 685 ارب روپے کے محصولات حاصل کیے جو ہدف کے مطابق ہیں ، پہلی سہ ماہی میں ایف بی آر نے 1635 ارب روپے کے محصولات اکٹھے کیے جو ہدف 1609 ارب روپے سے 26 ارب روپے زائد ہے، پہلی سہ ماہی میں 84 ارب روپے کے ریفنڈز جاری کیے گئے جو گزشتہ اسی مدت میں 62 ارب روپے تھے۔سیلاب کی وجہ سے معیشت کو نقصان پہنچا انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کی مدت میں 31 اکتوبر تک توسیع کر دی گئی ہے۔
پاکستان میں ٹیکس کا نظام بھی خاصا پیچیدہ ہے۔نئے وزیر خزانہ اس صورت حال سے بخوبی آگاہ ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ قوانین جتنے سادہ 'عام فہم اور غیر مبہم ہوں گے' اس سے سرخ فیتے کا خاتمہ ہو جائے گا۔ بیوروکریسی کا اثر کم ہو گا۔ پاکستان میں ٹیکس سسٹم ہموار ہو تو ریونیو میں خود بخود اضافہ ہوتا چلا جائے گا ۔حکومت ٹیکس نیٹ بڑھانے کی بات کرتی ہے لیکن عملی طور پر ٹیکس نیٹ کو پھیلایا نہیں جاتا بلکہ ان طبقات کو قابو کیا جاتا ہے جنھیں ٹیکس سے چھوٹ دی گئی ہوتی ہے۔
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ایسے سیکٹرز ہیں جنھیں ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے' ان سیکٹرز کو ٹیکس نیٹ میں لانا ضروری ہے ' ایسا ضروری اس لیے ہے کہ ان سیکٹرز کو ٹیکس چھوٹ دی جاتی ہے ' اس کی ادائیگی مڈل کلاس طبقے پر ٹیکس بڑھا کر کی جا رہی ہے ' پاکستان میں فلاحی اداروں کے نام پر اربوں روپے گردش کرتے ہیں لیکن ان پر کوئی ٹیکس نہیں لیا جاتا 'اگر حکومت اس حوالے سے کوئی متوازن پالیسی بنائے تو ملک کے ریونیو کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ صوبائی حکومتوں کو بھی اپنے معاملات پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ گاڑیوں 'موٹر سائیکلزاور رکشے وغیرہ پر عائد ایکسائز ٹیکس بڑے شہروں میں تو وصول ہوتا ہے لیکن دور دراز علاقوں میں ایسا نہیں ہے۔
خیبرپختونخوا کے کئی حصوں میں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں چلانے کی اجازت ہے ' یہیں سے ایسی گاڑیاں ملک کے دیگر علاقوں میں جعل سازی کے ذریعے پہنچ جاتی ہیں۔ اگر خیبرپختونخوا حکومت اور مرکزی حکومت چاہیں تو یہ کاروبار ریگولرائز کیا جا سکتا ہے۔
افغانستان سے آنے والی گاڑیوں پر مرکزی حکومت کا جو ٹیکس عائد ہوتا ہے وہ وصول کیا جائے اور جو گاڑی کلیئر ہو کر خیبرپختونخوا کے شہروں یا دیہات میں سڑکوں پر آئے تو محکمہ ایکسائز اس سے ٹوکن ٹیکس وصول کرے تو اس کا فائدہ صوبائی حکومت کو بھی اور مرکزی حکومت کو بھی ہو گا اور کاروباری طبقے کو بھی کہ وہ ایک قانونی کام کر رہا ہے لیکن اس جانب شاید توجہ دینا کسی حکومت کی ترجیح نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی گاڑیاں جعل سازی سے رجسٹرڈ ہو کر سڑکوں پر دوڑتی پھرتی ہیں۔
بہرحال وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ ملک میں آنے والے حالیہ سیلاب کی وجہ سے ملکی معیشت شدید معاشی اورانسانی بحران کا شکار ہے،ملکی معیشت کو مہنگائی،بیرونی مالی دباو اور غیر یقینی صورت حال کا سامنا ہے جس کے باعث رواں مالی سال معاشی شرح نمو ہدف سے کم رہنے کا امکان ہے، سیلاب کے باعث فصلیں متاثر ہوئی ہیں اورخوراک کی عدم تحفظ کا خطرہ بڑھ گیا ہے.
وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ ماہانہ اقتصادی اپ ڈیٹ آو'ٹ لک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ(جولائی،اگست) کے دوران اوور سیز پاکستانیوں کی جانب سے مجموعی طور پر 5.2ارب ڈالر کی ترسیلات زر پاکستان بھجوائی گئی ہیں جب کہ اس سے پچھلے مالی سال کے پہلے دوماہ میں 5.4ارب ڈالر کی ترسیلات زر بھجوائی تھیں رپورٹ کے مطابق جولائی اگست میں ملکی برآمدات میں 11.3فیصد اضافہ ہوا۔
جولائی اگست نے پاکستان نے مجموعی طور پر 5.1ارب ڈالر کی برآمدات کی گئی ہیں اورپچھلے مالی سال کے پہلے دوماہ میں 4.6ارب ڈالر کی برآمدات کی تھیں رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ میں ملکی درآمدات میں 2.1 فیصد کمی ہوئی ہے رواں مالی سال کے پہلے دوماہ میں 11.1ارب ڈالر کی درآمدات کی گئی ہیں پچھلے مالی سال کے پہلے دوماہ میں مجموعی طور پر 11.3ارب ڈالر کی درآمدات کی گئی تھیں۔
ایک مثبت پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ پاکستان میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے جی 20 قرض معطلی اقدام کے تحت پاکستان کے لیے قرض ریلیف میں توسیع کے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں،اس موقع پر امریکی سفیر نے کہا کہ پاکستان کے اہم وسائل کو دوبارہ بروئے کار لانا ہماری ترجیح ہے،اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے نے بتایا کہ پاکستان کو تباہ کن سیلاب کی وجہ سے شدید معاشی بحران کا سامنا ہے،اس تناظر میں امریکی حکومت نے جمعہ کو پاکستان کے 13 کروڑ 20 لاکھ ڈالر قرض کی ادائیگی معطل کرنے کا فیصلہ کیا۔
قرض ادائیگی کی معطلی اپریل 2020 کے پیرس کلب معاہدے کی تحت کی گئی جو کورونا وبا کے دوران 73 غریب ممالک کی مدد کرنے کے لیے وجود میں آیا ،اس معاہدے کی رو سے امریکا نے پاکستان کو 12 کروڑ80 لاکھ ڈالر قرض پر ریلیف فراہم کیا تھا،اضافی 40 لاکھ ڈالر کے ساتھ قرض ادائیگی معطل کرنے کا معاہدہ اب دوبارہ شروع کر دیا گیا۔پاکستان کے لیے یہ ایک اچھی خبر ہے اس سے وفاقی حکومت کو خاصا ریلیف ملے گا اور وہ ملکی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے کام کرنے کے قابل ہو جائے گی۔
حالیہ سیلاب اور بارشوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان سیلاب سے نمٹنے اور آفات سے بچائو کے لیے مربوط نظام بنانے میں ناکام رہا ہے۔ 2010کے سیلاب کے بعد کوئی حکمت عملی نہیں بنائی گئی' پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیمز تک نہیں بنائے گئے۔ آبپاشی کے تمام منصوبے بدعنوانی اور بد انتظامی کا شکار ہیں۔ ڈیموں کی تعمیر اور منصوبے فضول اور بے نتیجہ سیاسی بحثوں کا شکار ہوتے رہے جس کا خمیازہ پاکستانی عوام کئی دہائیوں سے بھگت رہے ہیں۔ پاکستان میں ہے۔ لوگ بیماریوں سے مر رہے ہیں' تعمیر نو کے لیے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں جب کہ بہت جلد خوراک کے بحران کا بھی اندیشہ ہے۔
اس وقت حکومت اور عوام کو اکٹھے ہونے کی ضرورت ہے۔ اس بحران سے حکومت تنہا نہیں نمٹ سکتی۔ کثیر الجہتی چیلنج کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام وسائل' ہنر' ذرایع اور حکمت عملی کو ایک ساتھ استعمال میں لانا اشد ضروری ہو گیا ہے۔پاکستان کے پاس افرادی قوت بھی موجود ہے اور وسائل بھی ہیں ' ضرورت صرف نیک نیتی کی ہے۔ اگر ملکی معاملات چلانے والے طبقے خود احتسابی کے عمل سے گزریں تو انھیں ہر چیز شیشے کی طرح صاف نظر آ جائے گی اور یہ واضح ہو جائے گا کہ خرابی کہاں ہے۔