کیا حکومت کی رٹ ختم ہوچکی ہے
ہمارے یہاں ٹیکس جمع کرنے کے لیے ایک بھاری بھرکم ادارہ ایف بی آر موجود ہے
مزار قائداعظم سے گرومندر کی طرف چلیے تو صدر اور ٹاور کی سمت جانے والی سڑک ہے جس کی حالت چند دن پہلے تک ''چاند''جیسی تھی،جگہ جگہ گڑھے اور بارشوں میں وہ جھیل کا منظر پیش کرتی تھی۔لیکن کسی بد ذوق نے اس سڑک کی مرمت کرادی ہے جس سے وہ چاند جیسے گڑھے ختم ہوگئے ہیں جس میں جھیل ہواکرتی تھی وہ بھی خشک ہوگئی ہے۔
اس سڑک کی وجہ سے ساری ٹریفک فٹ پاتھ پر چلتی تھی اور پیدل چلنے والے سڑک پر۔اب سڑک درست ہے لیکن فٹ پاتھ پر گھروں میں قائم کسی این جی او نے قبضہ کررکھا ہے اور گملے ڈال کرپیدل چلنے والوں کا حق سلب کررکھا ہے پیدل چلنے والے اب بھی سڑک پر ہی چلتے ہیں۔سڑک پر ٹریفک پولیس والے چالان کرنے میں مصروف تھے موٹر سائیکلوں کی لائن لگی ہوئی تھی اور ہم پیدل چلتے ہوئے پولیس انسپکٹر کے پاس پہنچے اور کہا کہ'' میرے پیدل چلنے کا راستہ کلیئر کروایئے اور فٹ پاتھ پر رکھے گملوں کی جانب اشارہ کیاکہ انھوں نے ہمارا فٹ پاتھ پر چلنے کا حق چھین لیا ہے۔ ''
اس پر پولیس انسپکٹر نے کہا کہ '' آپ ایک درخواست دے دیجیے کیونکہ وہ ایک این جی او ہے اس لیے ہمیں مشکل پیش آئے گی۔ آپ درخواست دیں گے تو ہمیں اس پر کارروائی کرنا آسان ہوگا۔''پولیس انسپکٹر نے اپنا نمبر دیا کہ اس پر اپنی درخواست آپ واٹس ایپ کردیں۔میں سوچنے لگا کہ وہ کام جو کہ مفاد عامہ کا ہے اور جس کا کرنا پولیس کا فرض ہے اس کے لیے بھی ان کو درخواست دی جائے۔یہ ذہنیت آقائی ذہنیت ہے کہ ہم سے گزارش کی جائے۔جو سرکاری اہل کار عوام کی آمدنی پر پلتا ہو۔عوام پر عائدٹیکس سے اس محکمے کے اہل کاروں کو تنخواہیں دی جاتی ہیں وہ عوام کی خدمت کرنے کے بجائے یہ کہے کہ میرے حضور درخواست گزار ہو۔
کبھی ایسا ہوا ہے کہ جہاں آپ کام کرتے ہیں وہاں کے افسر نے آپ سے کوئی کام کرنے کے لیے کہا ہو تو آپ نے جواب میں ان سے کہا ہے کہ'' آپ درخواست لکھ کر لائیں کہ میں یہ کام کروں''لیکن ہمارے سرکاری ادارے اسی طرح چل رہے ہیں ہونا تو یہ چاہیے کہ درخواست کا لفظ ہی سرکاری کاموں سے خارج کردیا جائے لیکن دور غلامی کی یہ یاد گاریں پیچھا نہیں چھوڑتیں۔
دور جدید میں اچھی حکمرانی یعنی گڈ گورننس کے لیے حکومت کی رٹ کاقائم ہونا ضروری ہے۔یعنی اس کے احکامات صرف جاری نہ ہوںبلکہ نافذ بھی ہوں،مگر ہمارے ملک میں حکومت کی رٹ یعنی قوت نافذہ ختم ہوتی جارہی ہے۔کراچی جیسے بڑے شہر کی مثال لیجیے جہاں کی پولیس کو مثالی ہونا چاہیے تھا۔شہر میں کراچی یونیورسٹی کے سامنے اورمحکمہ موسمیات کے ارد گردناجائز جھونپڑیاں بنی ہوئی ہیں۔ کراچی یونیورسٹی میں دہشت گردی کی واردات ہوئی لیکن کسی نے ان ناجائز جھونپڑیوں کو نہیں ہٹایا جو دہشت گردوں کی محفوظ ترین پناگاہ ہوسکتی ہے۔ پولیس کی گشت کے باوجود ان جھونپڑیوں کی وجہ سے اسٹریٹ کرائم بڑھ گئے ہیں۔یہ سب اس بات کی علامت ہے کہ حکومت کی رٹ ختم ہوچکی ہے۔
کراچی پاکستان کی اقتصادیات کی بنیاد ہے۔اس کی مثال اس گائے کی طرح ہے جو کبھی فربہ تھی اور اس کے جسم سے اپنی ضرورت کے مطابق گوشت کاٹ لیا جاتا ہے، جب کہ یہ گائے دودھ بھی دے رہی ہے اور اس سے حسب ضرورت گوشت بھی کاٹ لیا جاتا ہے۔دودھ دینے والی اس گائے کے چارے کا انتظام بھی گائے کی ذمے داری قرار پائی ہے جوکہ ایک ناممکن کام ہے۔کوئی بھی اس بات کو نہیں سمجھ رہا ہے کہ حکومت اپنی رٹ یا قوت نافذہ کھو چکی ہے۔حکومت کی قوت نافذہ کی مثال مختلف ممالک میں مختلف ہیں۔کیا آپ دبئی،لندن،ٹورنٹو یا جدہ میں سڑک چیونگم چبا کر اسے سڑک پر پھینک سکتے ہیں، کیا وہاں آپ پان کھا کر پیک باہر تھوک سکتے ہیں؟
کیا آپ وہاں ٹریفک کے کسی قانون کی خلاف ورزی کرنے کے بعد مک مکابھی کرسکتے ہیں؟ کیا آپ وہاں خلاف قانون آپ اپنے مکان کے نقشے میں کمی و بیشی کرسکتے ہیں؟ آپ کا جواب ہوگا نہیں! اس لیے کہ ایسے کاموں کے کرنے پر وہاں کا قانون حرکت میں آجائے گا چاہے آپ کتنے ہی بڑے افسر یاسیاسی لیڈر ہوں اس لیے ان ممالک میں کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے ہزار بار سوچتے ہیں،یہ بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن یہ ظاہر کرتی ہیں کہ کسی حکومت کی رٹ یاقوت نافذہ کتنی مضبوط ہے اور حکومت اپنے ملک پر کتنا کنٹرول ہے۔
کئی ملکوں میں پاکستانی سفارت خانوں میں وزارت اطلاعات کی نمایندگی کرنے والے اوربھارت میں پریس اتاشی رہے والے رائے ریاض اپنی کتاب رائے عامہ میں لکھتے ہیں ۔''جاپان اور سری لنکا کی پوسٹنگ کے بعد جب ہم واپس اسلام آباد آئے تو ایک دن بلیو ایریاسڑک پر جاتے ہوئے میں نے دیکھا کہ ایک چمکتی ہوئی لینڈ کروزرکا شیشہ کھلااور اس میں سے ایک سگریٹ کی خالی ڈبیہ پٹاخ سے سڑک پر آگری مجھے کچھ عجیب سا لگاپھر ذرا غور کیا تو خیال آیا کہ جاپان اور سری لنکا میں یہ کبھی نہیں دیکھا۔خیال آیا کہ لینڈ کروزر میں بیٹھنے والے صاحب یقینا پڑھے لکھے اور اونچے درجے پر فائز ہوں گے مگر سڑک پر سگریٹ کی ڈبی،چپس کے ریپر، کینو کے چھلکے اور خالی شاپر پھینکنا معیوب نہیں سمجھتے۔
انھی دنوں میں بلیو ایریا کے ایک چوک پر دوسری ٹریفک کے ساتھ رکا ہوا تھا کہ ساتھ والی گاڑی کا شیشہ کھلا اورایک صاحب نے اپنے رومال کو جھاڑ کر صاف کیا اور مونگ پھلی کے چھلکوں کا ایک بڑا ساحصہ عین سڑک کے بیچ بلکہ چوراہے کے بیچ پھینکا۔میں نے ہارن بجا کر ان صاحب کو متوجہ کیا اور اشارے سے پوچھا ''یہ تو نے کیا کیاہے؟'' تو وہ صاحب غصے سے لال ہوگئے اور اشاروں کے ساتھ زبان سے بھی پوچھنے لگے جو سنائی تو نہیں دیا مگر مجھے اندازہ ہے کہ کہہ رہے ہوں گے '' توں ماما لگدا ایں۔''
میں نے آفس واپس آکر اپنے مرحوم دوست اور بیچ میٹ جاوید سرفرازملک سے ذکر کیا تو اس نے کہا،'' رائے،تم اپنی جاپان اور سری لنکا کی ٹریننگ اپنے پاس رکھو یہاں کوئی پکڑ کر تمہیں مارے گا '' اس کے بعد میں نے سڑک پر کسی کو گند ڈالتے ہوئے نہیں ٹوکامگر اپنے ملازموں اور بچوں کو ہمیشہ تلقین کرتا رہاکہ سڑک پر کچھ نہ پھینکیں۔'' یہ ایک اعلیٰ سرکاری افسر کی فریاد ہے جو ملک میں قانون کی حکمرانی دیکھنا چاہتا ہے کیونکہ اس نے دوسرے ملکوں میں یہی کچھ دیکھا ہے۔ لیکن کیا کیا جائے پاکستان میں حکومت کی رٹ ہی ختم ہوچکی ہے۔
اب ذرا اپنے ملک کی صورت حال کا جائزہ لیجیے ہمارے یہاں ٹیکس جمع کرنے کے لیے ایک بھاری بھرکم ادارہ ایف بی آر موجود ہے لیکن تمام تر ٹیکس بجلی،ٹیلی فون اورگیس کے بلوں سے وصول کیے جاتے ہیں۔موبائل فون کے کارڈز سے ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں۔پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس کی شرح 30 فیصد سے زیادہ ہے۔سیلز ٹیکس بجلی کے، گیس کے اور ٹیلی فون بلوں اور پٹرولیم مصنوعات پر عوام سے وصول کیے جاتے ہیں،جب کہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جو شخص یاادارہ کماتا ہے وہی سیلز ٹیکس ادا کرے۔بلوں کے ذریعے ٹیکس جمع کرنا بھی یہ ثابت کرتا ہے حکومت کی رٹ یاقوت نافذہ ختم ہوچکی ہے۔
حکومت سندھ نے کراچی کے بجلی کے صارفین کے بلوں میں بلدیہ کراچی کے واجبات ڈال کر یہ ثابت کیا کہ اس کی قوت نافذہ ختم ہوچکی ہے وہ عوام سے پانی اور دیگر بلدیاتی کا بل وصول نہیں کرسکتی،اگرچہ عدالت نے اسے اس کام سے روک دیا ہے لیکن کراچی میں بلدیاتی خدمات تو معدوم ہی ہیں۔
اس سڑک کی وجہ سے ساری ٹریفک فٹ پاتھ پر چلتی تھی اور پیدل چلنے والے سڑک پر۔اب سڑک درست ہے لیکن فٹ پاتھ پر گھروں میں قائم کسی این جی او نے قبضہ کررکھا ہے اور گملے ڈال کرپیدل چلنے والوں کا حق سلب کررکھا ہے پیدل چلنے والے اب بھی سڑک پر ہی چلتے ہیں۔سڑک پر ٹریفک پولیس والے چالان کرنے میں مصروف تھے موٹر سائیکلوں کی لائن لگی ہوئی تھی اور ہم پیدل چلتے ہوئے پولیس انسپکٹر کے پاس پہنچے اور کہا کہ'' میرے پیدل چلنے کا راستہ کلیئر کروایئے اور فٹ پاتھ پر رکھے گملوں کی جانب اشارہ کیاکہ انھوں نے ہمارا فٹ پاتھ پر چلنے کا حق چھین لیا ہے۔ ''
اس پر پولیس انسپکٹر نے کہا کہ '' آپ ایک درخواست دے دیجیے کیونکہ وہ ایک این جی او ہے اس لیے ہمیں مشکل پیش آئے گی۔ آپ درخواست دیں گے تو ہمیں اس پر کارروائی کرنا آسان ہوگا۔''پولیس انسپکٹر نے اپنا نمبر دیا کہ اس پر اپنی درخواست آپ واٹس ایپ کردیں۔میں سوچنے لگا کہ وہ کام جو کہ مفاد عامہ کا ہے اور جس کا کرنا پولیس کا فرض ہے اس کے لیے بھی ان کو درخواست دی جائے۔یہ ذہنیت آقائی ذہنیت ہے کہ ہم سے گزارش کی جائے۔جو سرکاری اہل کار عوام کی آمدنی پر پلتا ہو۔عوام پر عائدٹیکس سے اس محکمے کے اہل کاروں کو تنخواہیں دی جاتی ہیں وہ عوام کی خدمت کرنے کے بجائے یہ کہے کہ میرے حضور درخواست گزار ہو۔
کبھی ایسا ہوا ہے کہ جہاں آپ کام کرتے ہیں وہاں کے افسر نے آپ سے کوئی کام کرنے کے لیے کہا ہو تو آپ نے جواب میں ان سے کہا ہے کہ'' آپ درخواست لکھ کر لائیں کہ میں یہ کام کروں''لیکن ہمارے سرکاری ادارے اسی طرح چل رہے ہیں ہونا تو یہ چاہیے کہ درخواست کا لفظ ہی سرکاری کاموں سے خارج کردیا جائے لیکن دور غلامی کی یہ یاد گاریں پیچھا نہیں چھوڑتیں۔
دور جدید میں اچھی حکمرانی یعنی گڈ گورننس کے لیے حکومت کی رٹ کاقائم ہونا ضروری ہے۔یعنی اس کے احکامات صرف جاری نہ ہوںبلکہ نافذ بھی ہوں،مگر ہمارے ملک میں حکومت کی رٹ یعنی قوت نافذہ ختم ہوتی جارہی ہے۔کراچی جیسے بڑے شہر کی مثال لیجیے جہاں کی پولیس کو مثالی ہونا چاہیے تھا۔شہر میں کراچی یونیورسٹی کے سامنے اورمحکمہ موسمیات کے ارد گردناجائز جھونپڑیاں بنی ہوئی ہیں۔ کراچی یونیورسٹی میں دہشت گردی کی واردات ہوئی لیکن کسی نے ان ناجائز جھونپڑیوں کو نہیں ہٹایا جو دہشت گردوں کی محفوظ ترین پناگاہ ہوسکتی ہے۔ پولیس کی گشت کے باوجود ان جھونپڑیوں کی وجہ سے اسٹریٹ کرائم بڑھ گئے ہیں۔یہ سب اس بات کی علامت ہے کہ حکومت کی رٹ ختم ہوچکی ہے۔
کراچی پاکستان کی اقتصادیات کی بنیاد ہے۔اس کی مثال اس گائے کی طرح ہے جو کبھی فربہ تھی اور اس کے جسم سے اپنی ضرورت کے مطابق گوشت کاٹ لیا جاتا ہے، جب کہ یہ گائے دودھ بھی دے رہی ہے اور اس سے حسب ضرورت گوشت بھی کاٹ لیا جاتا ہے۔دودھ دینے والی اس گائے کے چارے کا انتظام بھی گائے کی ذمے داری قرار پائی ہے جوکہ ایک ناممکن کام ہے۔کوئی بھی اس بات کو نہیں سمجھ رہا ہے کہ حکومت اپنی رٹ یا قوت نافذہ کھو چکی ہے۔حکومت کی قوت نافذہ کی مثال مختلف ممالک میں مختلف ہیں۔کیا آپ دبئی،لندن،ٹورنٹو یا جدہ میں سڑک چیونگم چبا کر اسے سڑک پر پھینک سکتے ہیں، کیا وہاں آپ پان کھا کر پیک باہر تھوک سکتے ہیں؟
کیا آپ وہاں ٹریفک کے کسی قانون کی خلاف ورزی کرنے کے بعد مک مکابھی کرسکتے ہیں؟ کیا آپ وہاں خلاف قانون آپ اپنے مکان کے نقشے میں کمی و بیشی کرسکتے ہیں؟ آپ کا جواب ہوگا نہیں! اس لیے کہ ایسے کاموں کے کرنے پر وہاں کا قانون حرکت میں آجائے گا چاہے آپ کتنے ہی بڑے افسر یاسیاسی لیڈر ہوں اس لیے ان ممالک میں کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے ہزار بار سوچتے ہیں،یہ بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن یہ ظاہر کرتی ہیں کہ کسی حکومت کی رٹ یاقوت نافذہ کتنی مضبوط ہے اور حکومت اپنے ملک پر کتنا کنٹرول ہے۔
کئی ملکوں میں پاکستانی سفارت خانوں میں وزارت اطلاعات کی نمایندگی کرنے والے اوربھارت میں پریس اتاشی رہے والے رائے ریاض اپنی کتاب رائے عامہ میں لکھتے ہیں ۔''جاپان اور سری لنکا کی پوسٹنگ کے بعد جب ہم واپس اسلام آباد آئے تو ایک دن بلیو ایریاسڑک پر جاتے ہوئے میں نے دیکھا کہ ایک چمکتی ہوئی لینڈ کروزرکا شیشہ کھلااور اس میں سے ایک سگریٹ کی خالی ڈبیہ پٹاخ سے سڑک پر آگری مجھے کچھ عجیب سا لگاپھر ذرا غور کیا تو خیال آیا کہ جاپان اور سری لنکا میں یہ کبھی نہیں دیکھا۔خیال آیا کہ لینڈ کروزر میں بیٹھنے والے صاحب یقینا پڑھے لکھے اور اونچے درجے پر فائز ہوں گے مگر سڑک پر سگریٹ کی ڈبی،چپس کے ریپر، کینو کے چھلکے اور خالی شاپر پھینکنا معیوب نہیں سمجھتے۔
انھی دنوں میں بلیو ایریا کے ایک چوک پر دوسری ٹریفک کے ساتھ رکا ہوا تھا کہ ساتھ والی گاڑی کا شیشہ کھلا اورایک صاحب نے اپنے رومال کو جھاڑ کر صاف کیا اور مونگ پھلی کے چھلکوں کا ایک بڑا ساحصہ عین سڑک کے بیچ بلکہ چوراہے کے بیچ پھینکا۔میں نے ہارن بجا کر ان صاحب کو متوجہ کیا اور اشارے سے پوچھا ''یہ تو نے کیا کیاہے؟'' تو وہ صاحب غصے سے لال ہوگئے اور اشاروں کے ساتھ زبان سے بھی پوچھنے لگے جو سنائی تو نہیں دیا مگر مجھے اندازہ ہے کہ کہہ رہے ہوں گے '' توں ماما لگدا ایں۔''
میں نے آفس واپس آکر اپنے مرحوم دوست اور بیچ میٹ جاوید سرفرازملک سے ذکر کیا تو اس نے کہا،'' رائے،تم اپنی جاپان اور سری لنکا کی ٹریننگ اپنے پاس رکھو یہاں کوئی پکڑ کر تمہیں مارے گا '' اس کے بعد میں نے سڑک پر کسی کو گند ڈالتے ہوئے نہیں ٹوکامگر اپنے ملازموں اور بچوں کو ہمیشہ تلقین کرتا رہاکہ سڑک پر کچھ نہ پھینکیں۔'' یہ ایک اعلیٰ سرکاری افسر کی فریاد ہے جو ملک میں قانون کی حکمرانی دیکھنا چاہتا ہے کیونکہ اس نے دوسرے ملکوں میں یہی کچھ دیکھا ہے۔ لیکن کیا کیا جائے پاکستان میں حکومت کی رٹ ہی ختم ہوچکی ہے۔
اب ذرا اپنے ملک کی صورت حال کا جائزہ لیجیے ہمارے یہاں ٹیکس جمع کرنے کے لیے ایک بھاری بھرکم ادارہ ایف بی آر موجود ہے لیکن تمام تر ٹیکس بجلی،ٹیلی فون اورگیس کے بلوں سے وصول کیے جاتے ہیں۔موبائل فون کے کارڈز سے ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں۔پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس کی شرح 30 فیصد سے زیادہ ہے۔سیلز ٹیکس بجلی کے، گیس کے اور ٹیلی فون بلوں اور پٹرولیم مصنوعات پر عوام سے وصول کیے جاتے ہیں،جب کہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جو شخص یاادارہ کماتا ہے وہی سیلز ٹیکس ادا کرے۔بلوں کے ذریعے ٹیکس جمع کرنا بھی یہ ثابت کرتا ہے حکومت کی رٹ یاقوت نافذہ ختم ہوچکی ہے۔
حکومت سندھ نے کراچی کے بجلی کے صارفین کے بلوں میں بلدیہ کراچی کے واجبات ڈال کر یہ ثابت کیا کہ اس کی قوت نافذہ ختم ہوچکی ہے وہ عوام سے پانی اور دیگر بلدیاتی کا بل وصول نہیں کرسکتی،اگرچہ عدالت نے اسے اس کام سے روک دیا ہے لیکن کراچی میں بلدیاتی خدمات تو معدوم ہی ہیں۔