اسٹریٹ کرائم کا عفریتذمے دارکون
ہمیں پولیس کو ملنے والے فنڈز کا درست اورجائز استعمال کرنا ہوگا
کراچی شہر میں اسٹریٹ کرائم کا عفریت کئی معصوم جانیں ہڑ پ کر چکا ہے اور اس کا مکمل خاتمہ اب محض ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔
ہر نئے آنے والے دن شہر کے کسی نہ کسی حصے میں ڈکیتی اور راہزنی کے دوران معصوم شہریوں کی ہلاکت ایک معمول بنتی جا رہی ہے ، جس کی ذمے داری اعلیٰ افسران آخر میں علاقہ ایس ایچ او پر ڈال کر، اسے معطل کر کے معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میں اپنے تجربے کی بنیاد پر کچھ گذارشات کرنا چاہتاہوں جو یقینا اعلیٰ افسران کو پسند نہیں آئیں گی کیونکہ ان کے خیال میں ان کے علاوہ دیگر لوگ اور جونیئر پولیس افسران یا تو کم عقل ہیں یا پھر نا اہل۔ ویسے بھی پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ایک نان گزیٹیڈ افسر کی نہ کبھی سنی گئی ہے اور نہ ہی کبھی ان کی رائے کو کوئی اہمیت دی گئی ہے۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ فیلڈمیں کام کرنے والے یہی نان گزیٹیڈ افسران زمینی حقائق زیادہ بہتر جانتے ہیں اور یہی افسران جرائم کی روک تھام کرتے ہوئے اپنی جان کی قربانی بھی دے چکے ہیں۔
اگر ہم جرائم کی روک تھام اور بیخ کنی کے لیے حقیقت میں سنجیدہ ہیں تو سب سے پہلے ہمیں تھانوں کو مضبوط کرنا ہو گا، جس کے لیے نہ صر ف پولیس کے اعلیٰ حکام بلکہ صوبائی حکومت کو بھی سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے ا ور یہ مضبوطی ان تھانوںمیں تب نظر آئے گی جب کہ ان تھانوں میں نئی نہ ہو لیکن اچھی کنڈیشن کی موبائلز فراہم کرنا ہوں گی ،اگر اس کی آبادی کے تناسب سے نہ سہی لیکن اتنی نفری ضرور فراہم کی جائے کہ علاقے میں پولیس کی موجودگی کا احساس ہو۔ تھانوں کے کمیونی کیشن سسٹم کو جدید دور کے تقاضوںکے مطابق بنانا ہوگا۔
میں جب بوسنیا اینڈ ہرزیگووینا میں اقوام متحدہ کے امن مشن میںتعینات تھا، وہاں گو کہ وہ پہاڑی علاقہ تھا لیکن جو واکی ٹاکی سیٹ ہمیں دیے گئے تھے ان کی رینج دس کلومیٹر تک کے علاقے تک تھی۔وائرلیس تقریبا ہر تھانے میں موجود ہیں لیکن ایک تو ان کی رینج بہت ہی کم ہے دوسرا وائرلیس آپریٹرز کی کمی کی وجہ سے اکثر و بیشتر وائرلیس سیٹ پر کوئی موجود نہیں ہوتا اور یہ بات میں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔نفری کی کمی کی وجہ سے تھانے کی نفری سے کسی اہلکار کو وائرلیس سیٹ پر ڈیوٹی دینے پر پابند کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔
یہاں حال یہ ہے کہ تھانے پر بیشک وائرلیس آپریٹر موجود نہ ہو لیکن اعلیٰ حکام کے گھروں پر لگائے گئے وائرلیس سیٹس ضرور ہوتا ہے۔ ہر ترقی یافتہ ملک میں وائرلیس کا بہتر اور فوری استعمال جرائم کی روک تھام میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔اور اب ہمارے ہاں لینڈ لائن ٹیلیفون کا تو اب تھانوںمیں تصور ہی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ہر تھانے میں لینڈ لائن نمبر کی سہولت موجود ہو اور یہ نمبر علاقے میں واضح مقامات پرچسپاں کر دیا جائے تو کسی بھی واردات یا کسی مشکوک شخص کی علاقے میں موجودگی کی اطلاع عوام فوری طور پر براہ راست تھانو ں پر دے سکتی ہے۔
اگر ہر تھانے کی نفری کا جائزہ لیں تو موجودہ حالات یہ ہیں کہ دن میں تو پھر بھی کچھ نہ کچھ کر کے ایک دو موبائلز اور کچھ موٹر سائیکل گشت علاقے میں نکال دیے جاتے ہیں لیکن رات میں بمشکل صرف ایک یا دو موبائل گشت ہی نکال پاتے ہیں اس پر بھی اکثر و بیشتر کوئی افسر نہیں ہوتا اور صرف ہیڈ کانسٹیبل اور کانسٹیبلز کے ذریعے سے موبائل کی نفری پوری کی جاتی ہے۔ اور یہ پولیس موبائل اس حال میں ہوتی ہے کہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں 70 موٹر سائیکل کا پیچھا بھی نہ کر سکے۔
ہمیں پولیس کو ملنے والے فنڈز کا درست اورجائز استعمال کرنا ہوگا۔اگر پولیس کی ساری توجہ منشیات اور گٹکا ماوا کی فروخت ، کیفے اور ریسٹورنٹ میں شیشہ بار چلوانے، زمینوں پر قبضے اور دیگر مال بنانے والے معاملات میں لگی رہے گی تو پھر عوام کل بھی اللہ کے بھروسے پر چل رہے تھے اور آیندہ بھی چلتے رہیں گے۔
ایک بات آج تک سمجھ نہیں آئی کہ پولیس کے مختلف یونٹس مثلا آرآر ایف، ایس ایس یو، ایس آرپی اور پانچوں اضلاع کے ہیڈ کوارٹرز میں اتنی بڑی تعداد میں نفری کو اسٹینڈ بائی رکھنے کا مقصد کیا ہے؟ وی آئی پیز ، وزراء اور مشیران اور سینئر پولیس افسران کے ساتھ تو ان کی مرضی کے مطابق بے حساب گارڈز فراہم کیے جاتے ہیںجس کی بہت سوں کو ضرورت تک نہیں ہے نہ وہ ایسی پولیس گارڈز رکھنے کے مجاز ہیں لیکن یہاں وزراء اور افسران کے دوست احباب کو بھی ان کی خواہش کے مطابق پولیس گارڈز فراہم کی جاتی ہیں۔
ایک سینئر پویس افسر کے بھتیجے کو جو سب انسپکٹر بھرتی ہوا، اس کو ایک پولیس کانسٹیبل دیا گیا تھا جو اس کے گارڈز یا ڈرائیور کی حیثیت سے ڈیوٹی کرتا تھا اب اگر یہ اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں ہے تو پھر اسے کیا کہیں گے؟ ماتحت عملے کو سینئر افسران کس طرح ، رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر متعلقہ افراد کے ساتھ نتھی کر دیتے ہیں ۔اس کی ایک مثال پیش کر رہا ہوں۔ میں ضلع ایسٹ کے تھانے شاہراہ فیصل میں انوسٹی گیشن انچارج متعین تھاجہاں میرے پاس اسی تھانے کے ایک مقدمے کے ملزم جو کہ ایک پرائیویٹ شخص تھا ضمانت قبل از وقت گرفتاری کروا کر انوسٹی گیشن جوائن کرنے آیا تو دو باوردی پولیس کانسٹیبل بھی اس کے ساتھ تھے۔
اس شخص کے خلاف ایک سے زیادہ دھوکا دہی کے مقدمات درج تھے۔پولیس کانسٹیبلز کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے مجھ سے بھی اور میرے اسٹاف سے بھی بدتمیزی کی اور جب ہم نے اسے روکنا چاہا تو وہ مغلظات بکتا ہوا تھانے سے بھاگ گیا ۔ جب کہ ان دو کانسٹیبلز کو ہم نے تھانے پر روک لیا۔
اختیارات کا ناجائز استعمال اور زیادتی کی انتہا ہے کہ جب ان پولیس کانسٹیبلز سے پوچھا گیاکہ وہ کس کے حکم سے اس پرائیویٹ شخص کے ساتھ ڈیوٹی کر رہے ہیں تو معلوم ہوا کہ ان کی تعیناتی جیکب آباد ہیڈ کوارٹرز میں ہے اورجس سینئر پولیس افسر نے انھیں اس شخص کے ساتھ ڈیوٹی دینے کا حکم دیا ہے وہ جیکب آباد سے ٹرانسفر بھی ہو چکا ہے، جب کہ یہ دونوں کانسٹیبلز اب تک اس پرائیویٹ شخص کے ساتھ غیر قانونی ڈیوٹی کر رہے تھے۔ و ہ دونوں خود بھی پریشان تھے کہ ہمیں جیکب آباد سے کراچی بھیج دیا گیا لیکن ان کی اتنی اوقات نہیں تھی کہ انکار کر سکتے۔
جب کبھی کسی میٹنگ میں ایس ایچ او یا انوسٹی گیشن انچارج نفری کی کمی کی شکایت کرتا ہے تو اسے یہی جواب ملتا ہے '' تم سے پہلے والا افسر بھی اسی نفری کے ساتھ کام کر رہا تھا، نہیں کر سکتے تو پھر چارج چھوڑ دو۔'' جب تک آپ تھانوں کو مناسب نفری، گاڑیاں اور بہتر کمیونی کیشن کے آلات فراہم نہیں کریں گے تو پھر اس تھانے کی کارکردگی پر سوال اٹھانا اور اس کی آڑ میں ماتحت افسرا ن و ملازمان کو سزائیں دینا بھی کسی طرح جائز نہیں ہے اور ایسا کرنے کے لیے ''فنڈز'' کا جائز اور شفاف استعمال کیا جانا ضروری ہے۔