مسائل کا پہلے ادراک پھر سیاست کریں
یہاں ایسے سیاست دان بھی ہیں جنھیں عوامی مسائل کا ادراک تو کیا یہ سیاست دان عوامی زبان تک بولنے سے قاصر ہوتے ہیں
بیان تو اس طرح کیا جاتا ہے کہ کرم چند موہن تمام تر اپنے تعلیمی مراحل طے کرنے کے بعد جنوبی افریقہ میں قیام پذیر ہوگئے تھے اور وکالت کے پیشے سے وابستہ ہوگئے تھے۔
ان کا شمار جنوبی افریقہ کے نامور ترین قانون دانوں میں ہوتا تھا ممکن تھا کہ کرم چند موہن تمام عمر جنوبی افریقہ میں گزار دیتے مگر معاملہ کچھ یوں ہوا کہ یہ صاحب ایک روز ٹرین میں اس بوگی میں جا بیٹھے جوکہ گوری چمڑی والوں کے لیے مخصوص تھی چنانچہ چند ساعتوں بعد دو گورے اس بوگی میں داخل ہوئے مگر یہ کیا گوروں کے لیے مخصوص بوگی میں یہ رنگ دار انڈین بیٹھا ہوا ہے، مگر یہ صاحب اپنا تعارف کراتے رہے کہ میں ایک نامور ایڈووکیٹ ہوں مگر تعصب پسند گوروں نے اپنی نسل پرستانہ ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کرم چند موہن کو ٹرین سے نیچے پھینک دیا۔
یہ صاحب سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص ہوں اور ان گورے لوگوں نے میرے ساتھ یہ بدترین سلوک کیا ہے، میرے حقیقی وطن ہندوستان پر تو گوروں نے 163 سال سے اپنے سامراجی پنجے گاڑ رکھے ہیں وہاں گورے کتنے مظالم ڈھاتے ہوں گے۔ چنانچہ یہی وہ وقت تھا جب کرم چند موہن نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ہندوستان جائیں گے اور اپنے ملک کی آزادی کی جدوجہد میں شریک ہو کر اپنے ملک کو سامراج سے نجات دلائیں گے۔
1920 میں یہ صاحب ہندوستان واپس آئے مگر عملی سیاسی جدوجہد سے قبل انھوں نے ضروری سمجھا کہ لوگوں کے مسائل کا ادراک کرنا ضروری ہے چنانچہ یہ صاحب اپنے ہاتھ میں ایک لاٹھی تھامے ایک دھوتی زیب تن کیے پورے ہندوستان کے دورے پر نکل پڑے، مگر اب یہ فقط کرم چند موہن نہیں رہے تھے بلکہ اب یہ صاحب گاندھی جی کے نام سے نامور ہو چکے تھے۔
چنانچہ گاندھی جی نے پورے ہندوستان کے دورے کیے اور جہاں جہاں ممکن تھا وہ گئے وہ جہاں بھی جاتے عام لوگوں میں گھل مل جاتے، لوگوں سے ان کے مسائل پر باتیں کرتے اور ان لوگوں کو برٹش سرکار سے آزادی کی جدوجہد میں شریک ہونے کی تلقین کرتے۔ جب وہ عام لوگوں کے طرز زندگی سے پوری آگہی حاصل کرچکے تو تب انھوں نے عملی سیاست میں حصہ لیا اور آل انڈیا کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کرکے ہندوستان کی آزادی تک جدوجہد کی اور ہندوستان کی آزادی کے رہنماؤں میں نمایاں ترین مقام حاصل کیا۔
ہمیں گاندھی جی کے طرز سیاست سے اختلاف ہو سکتا ہے اور یہ اختلاف ہے بھی مگر یہ صداقت ہمیں تسلیم کرنا ہوگی کہ گاندھی جی ہندوستان کے لوگوں کے مسائل کا پورا پورا ادراک رکھتے تھے اگر انھیں ہندوستانیوں کے مسائل کا ادراک نہ ہوتا تو یہ ممکن ہی نہ تھا کہ وہ آزادی کے لیے اتنی بڑی جدوجہد کرپاتے اور ہندوستان کو آزادی دلانے میں کامیاب ہو جاتے گوکہ ہندوستان کی آزادی میں دیگر عوامل کا بھی دخل تھا مگر عصر حاضر کا المیہ یہ ہے کہ ماسوائے چند ممالک یا چند سیاستدانوں کے دنیا بھر میں ایسے لوگ سیاست میں داخل ہو چکے ہیں جنھیں عوامی مسائل کا سرے سے ادراک نہیں ہے۔
ہمارے اپنے ملک میں کیفیت یہ ہے کہ یہاں ایسے سیاست دان بھی ہیں جنھیں عوامی مسائل کا ادراک تو کیا یہ سیاست دان عوامی زبان تک بولنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ پنجاب میں بھی بعض بڑے سیاستدان ہیں جو حکومتوں میں بھی شریک رہے ہیں مگر وہ پنجابی زبان میں بات کرنے سے قاصر ہیں بلکہ انھوں نے آج تک پنجابی زبان میں ایک بھی تقریر نہیں کی۔
ایک اور صاحب ہیں ان کا تعلق دوسرے بڑے صوبے سندھ سے ہے۔ یہ صاحب مستقبل میں وزارت عظمیٰ کے بھی امیدوار ہیں مگر یہ صاحب سندھی زبان بولنے و سمجھنے سے قاصر ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ عام لوگوں سے ان کا واسطہ کم کم ہی پڑتا ہے۔ اب اس دوری کے باعث ان صاحب کو عوامی مسائل کا کیا ادراک ہوگا؟
ایک اور صاحب ہیں یہ صاحب وزارت عظمیٰ سے محرومی کے بعد کوئی 52 عام جلسے کرچکے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان صاحب کے پاس عوامی مسائل کا کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں ہے یہ صاحب یہ ادراک کرلیں کہ معاشیات و مذہب دو الگ الگ چیزیں ہیں، البتہ اگر ریاست مدینہ کا دعویٰ ہے تو آجائیں عوام میں اپنا محل نما گھر چھوڑ کر اپنائیں عوامی طرز زندگی، خود کو اور اپنے رفقا کو تیار کریں کہ ایک روز قبل کی تیار کردہ باسی روٹی کھانے کے لیے اگر وہ روٹی سخت ہو تو خلفائے راشدین کی طرح پانی میں بھگو کر کھالیں ایسا کرنے میں اگر کامیاب ہو گئے تو ممکن ہے آپ ریاست مدینہ کے لیے بھی کوئی پیش رفت کرسکیں۔
البتہ سیاست میں ایک رجحان اور بھی ہے وہ ہے نئے نئے نعرے ایجاد کرنے کا، چنانچہ گوجرانوالہ میں ایک صاحب کونسلر کی سیٹ پر امیدوار تھے جب کہ ان کے بینر پر عجیب و غریب نعرے درج تھے کہ ملک میں اسلامی نظام لازمی نافذ کرنے کے لیے کوشاں۔ ان کی دو خوبیوں سے ہم بھی واقف تھے۔ مذہب سے اس قدر محبت رکھتے تھے کہ شاید کبھی جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں تشریف لے جاتے ہوں گے۔ ان صاحب کا یہ دعویٰ کہ نظریہ پاکستان کا زبردست حامی تو ان صاحب کی تعلیمی قابلیت کا یہ عالم تھا کہ صاحب ہم نے تو انھیں اسکول جاتے ہوئے یا اسکول میں داخل ہوتے ہوئے بھی نہ دیکھا تھا نامعلوم یہ صاحب پورے ملک میں اسلامی نظام قائم کرنے و نظریہ پاکستان کے حامی کیسے ہوگئے؟
لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ ایسے لوگ ہماری ملکی سیاست پر برادری ازم کے تحت یا اپنی دولت کا استعمال کرکے میڈیا کے ذریعے قابض ہیں۔ البتہ اگر ایسے لوگ سیاست میں اپنا کردار ادا کریں جوکہ ملک و عوام سے مخلص ہوں ان کے پاس عوامی بہبود کا کوئی ٹھوس پروگرام بھی ہو، ان لوگوں کی سیاسی تربیت بھی ہو اور یہ عوامی لوگ ہوں۔ ان کا جینا مرنا پاکستان سے وابستہ ہو، اگر ایسے لوگ آگے آئیں تو ضرور ملک ترقی کرے گا اور عوام بھی خوش حال ہوں گے۔